ویرانی سی ویرانی ہے۔۔۔
ہڑتالوں، احتجاجی سرگرمیوں اور عدم تحفظ کے احساس نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔
یہ ساحلی شہر، جس کی رگوں میں کبھی زندگی دوڑا کرتی تھی، روشنیاں جس کی شناخت تھیں، آج تاریکی کے پھندے میں ہے۔ مایوسی نے اِسے گھیر رکھا ہے، اور یہ گھیرا ہر گزرے دن کے ساتھ تنگ ہوتا جارہا ہے۔
وہ زمانے لد گئے، جب شہر قائد کی راتیں پُررونق ہوا کرتی تھیں، جب یہ بے فکری سے سانس لیتا تھا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ شام ڈھلتے ہی سڑکوں پر اضطراب دوڑنے لگتا ہے، یاسیت چھا جاتی ہے، خوف پنپنے لگتا ہے۔ ہر شہری جلد از جلد گھر پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ یہ خدشہ دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں کوئی حادثہ رونما نہ ہوجائے۔ کہیں کوئی سانحہ قدم نہ روک لے۔ کہیں موت کا آسیب اُس پر حملہ نہ کردے۔
سچ تو یہ ہے کہ کراچی کی روشنیاں اب قصۂ پارینہ بن گئی ہیں۔ اب تو یہاں اندیشوں کی تاریکی ہے۔ آئے روز ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاجی سرگرمیوں نے زندگی کے رنگ چوس لیے ہیں۔ ہر سو ایک ہی رنگ ہے، خوف کا رنگ، جس نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ سڑکوں پر سفر کرنے والا اِس خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ کہیں راستے میں کوئی احتجاجی جلوس رکاوٹ نہ بن جائے۔ کہیں وہ مشتعل مظاہرین کے نرغے میں نہ آجائے۔ گھر سے باہر نکلنے والا اِس خوف میں الجھا ہوتا ہے کہ کہیں ''دو گروہوں میں ہونے والا تصادم'' منزل کی راہ میں دیوار نہ بن جائے۔ کہیں راستے طویل نہ ہوجائیں۔
ہڑتالیں آج معمول بن چکی ہیں، جنھوں نے زندگی کی ترتیب کو توڑ ڈالا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد اِس بے ترتیبی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔ ہر ہڑتال کروڑوں روپے کا نقصان ساتھ لاتی ہے۔ ہڑتال نہ ہو، تو دہشت گردی کے واقعات شہریوںکو خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔
ٹارگیٹ کلنگ کے نہ رکنے والے ہیبت ناک واقعات، فائرنگ کی وحشت ناک گونج، کشیدگی، احتجاجی سرگرمیاں، وحشتوں کی ایک طویل داستان ہے یہ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی ہلاکتوں کے بعد شہر کے کئی گوشے خوف کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، وہاں کی فضائوں میں کشیدگی تیرنے لگتی ہے۔ اور وہاں بسنے والے اندیشوں میں گھر جاتے ہیں۔ جس علاقے میں حالات کشیدہ ہوں، وہاں کاروبار زندگی معطل ہوجاتا ہے، سڑکیں خاموش ہوجاتی ہیں، مکین گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں۔ زندگی سے کٹ جاتے ہیں۔
آج یہ صورت حال ہے کہ گھروں کی جانب پیش قدمی کرنے والوں کے دلوں میں یہ خوف گردش کر رہا ہوتا ہے کہ راہوں میں بچھے کانٹے کہیں اُن کے پیر زخمی نہ کردیں۔ اور جو گھروں میں بیٹھے ہوتے ہیں، اپنے پیاروں کے منتظر، اُن کے لبوں پر دعائیں ہوتی ہیں۔
خوش قسمتی سے اگرکوئی دن ہڑتالوں اور احتجاجی سرگرمیوں سے محفوظ رہے، تو سی این جی کی بندش زندگی پر شب خون مارنے کو تیار ہوتی ہے۔ شہری ٹرانسپورٹ کے انتظار میں گھنٹوں سڑکوں پر کھڑے رہتے ہیں۔ بھری ہوئی بسوں میں سفر کرنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ پھر لمبے روٹس کی بسیں عموماً بند رہتی ہیں۔ کئی بسیں بدل کر ملازمت پیشہ افراد دفاتر پہنچنے ہیں۔ واپسی کا عمل بھی اذیت ناک ثابت ہوتا ہے۔
یومیہ بنیادوں پر مزدوری کرنے والے محنت کش شہر کے بگڑتے حالات کا اصل شکار ہیں۔ جس روز سڑکوں پر زندگی معطل ہوتی ہے، اُن کی جیب خالی رہتی ہے، رات اُنھیں بھوکا سونا پڑتا ہے۔ یہ اذیت ناک صورت حال ہے، جس کے سدباب کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
فضائوں میں تیرتی غیریقینی ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ وہ مجبوری کی حالت میں گھر سے باہر نکلتی ہیں، جہاں کشیدگی اور اندیشے اُن کے منتظر ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ غائب ہوتی ہے۔ بگاڑ کے دنوں میں وہ سہمی ہوئی سڑکوں پر کھڑی رہتی ہیں، اِس فکر میں غلطاں کہ گھر کیسے پہنچیں گی۔
ٹارگیٹ کلنگ کے پے درپے واقعات اور آئے روز ہونے والے احتجاج نے شہریوںکو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ کوئی دم میں زندگی سے اُن کا ناتا کٹ جائے گا۔ اور وہ غلط نہیں سوچتے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خوشیوں کے لطیف احساس سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ کرب اور خوف ایک مستقل جذبے کی صورت اُن پر سوار رہتا ہے۔ مسرت کیا ہے؟ امید کیسے کہتے ہیں؟ وہ یہ سب بھول چکے ہیں۔ اس احساس سے عدم برداشت کا مسئلہ بھی جنم لیتا ہے۔ انسان کے رویے میں تشدد جھلکنے لگتا ہے۔ وہ جذباتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے، جو جلد آسیب کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور آج ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے اِس شہر پر اِسی آسیب کا سایہ ہے۔
کیا ان مسائل کا کوئی حل ہے؟
اس سوال کا جواب اثبات میں ہونا چاہیے، مگر حالات اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں، مایوسی اتنی گہری ہے کہ حالات میں فوری بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اِس ناامیدی کا ایک سبب حکم رانوں کی غفلت بھی ہے، جنھیں اِس شہر کی کوئی پروا نہیں۔ مفادات کی اِس دوڑ شاید شہر قائد کو بھلا دیا گیا ہے۔ شاید احتجاجی سرگرمیوں کو، ہڑتالوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کو اِس کا جُزو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ حکومت کو اب اِس کی کوئی فکر نہیں۔ اِس بات سے غرض نہیں کہ اِسے سانس لینے کے لیے آکسیجن میسر ہے یا نہیں۔
اپنی زبوں حالی پر نوحہ کناں اس شہر کا یہ نقش حکم رانوں سے فریاد کرتا ہے کہ اِس کی جانب فوری توجہ دی جائے۔ زندگی رواں دواں رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، تاکہ خوف سے نکل کر وہ دوبار جینا شروع کریں۔
وہ زمانے لد گئے، جب شہر قائد کی راتیں پُررونق ہوا کرتی تھیں، جب یہ بے فکری سے سانس لیتا تھا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ شام ڈھلتے ہی سڑکوں پر اضطراب دوڑنے لگتا ہے، یاسیت چھا جاتی ہے، خوف پنپنے لگتا ہے۔ ہر شہری جلد از جلد گھر پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ یہ خدشہ دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں کوئی حادثہ رونما نہ ہوجائے۔ کہیں کوئی سانحہ قدم نہ روک لے۔ کہیں موت کا آسیب اُس پر حملہ نہ کردے۔
سچ تو یہ ہے کہ کراچی کی روشنیاں اب قصۂ پارینہ بن گئی ہیں۔ اب تو یہاں اندیشوں کی تاریکی ہے۔ آئے روز ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاجی سرگرمیوں نے زندگی کے رنگ چوس لیے ہیں۔ ہر سو ایک ہی رنگ ہے، خوف کا رنگ، جس نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ سڑکوں پر سفر کرنے والا اِس خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ کہیں راستے میں کوئی احتجاجی جلوس رکاوٹ نہ بن جائے۔ کہیں وہ مشتعل مظاہرین کے نرغے میں نہ آجائے۔ گھر سے باہر نکلنے والا اِس خوف میں الجھا ہوتا ہے کہ کہیں ''دو گروہوں میں ہونے والا تصادم'' منزل کی راہ میں دیوار نہ بن جائے۔ کہیں راستے طویل نہ ہوجائیں۔
ہڑتالیں آج معمول بن چکی ہیں، جنھوں نے زندگی کی ترتیب کو توڑ ڈالا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد اِس بے ترتیبی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔ ہر ہڑتال کروڑوں روپے کا نقصان ساتھ لاتی ہے۔ ہڑتال نہ ہو، تو دہشت گردی کے واقعات شہریوںکو خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔
ٹارگیٹ کلنگ کے نہ رکنے والے ہیبت ناک واقعات، فائرنگ کی وحشت ناک گونج، کشیدگی، احتجاجی سرگرمیاں، وحشتوں کی ایک طویل داستان ہے یہ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی ہلاکتوں کے بعد شہر کے کئی گوشے خوف کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، وہاں کی فضائوں میں کشیدگی تیرنے لگتی ہے۔ اور وہاں بسنے والے اندیشوں میں گھر جاتے ہیں۔ جس علاقے میں حالات کشیدہ ہوں، وہاں کاروبار زندگی معطل ہوجاتا ہے، سڑکیں خاموش ہوجاتی ہیں، مکین گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں۔ زندگی سے کٹ جاتے ہیں۔
آج یہ صورت حال ہے کہ گھروں کی جانب پیش قدمی کرنے والوں کے دلوں میں یہ خوف گردش کر رہا ہوتا ہے کہ راہوں میں بچھے کانٹے کہیں اُن کے پیر زخمی نہ کردیں۔ اور جو گھروں میں بیٹھے ہوتے ہیں، اپنے پیاروں کے منتظر، اُن کے لبوں پر دعائیں ہوتی ہیں۔
خوش قسمتی سے اگرکوئی دن ہڑتالوں اور احتجاجی سرگرمیوں سے محفوظ رہے، تو سی این جی کی بندش زندگی پر شب خون مارنے کو تیار ہوتی ہے۔ شہری ٹرانسپورٹ کے انتظار میں گھنٹوں سڑکوں پر کھڑے رہتے ہیں۔ بھری ہوئی بسوں میں سفر کرنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ پھر لمبے روٹس کی بسیں عموماً بند رہتی ہیں۔ کئی بسیں بدل کر ملازمت پیشہ افراد دفاتر پہنچنے ہیں۔ واپسی کا عمل بھی اذیت ناک ثابت ہوتا ہے۔
یومیہ بنیادوں پر مزدوری کرنے والے محنت کش شہر کے بگڑتے حالات کا اصل شکار ہیں۔ جس روز سڑکوں پر زندگی معطل ہوتی ہے، اُن کی جیب خالی رہتی ہے، رات اُنھیں بھوکا سونا پڑتا ہے۔ یہ اذیت ناک صورت حال ہے، جس کے سدباب کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
فضائوں میں تیرتی غیریقینی ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ وہ مجبوری کی حالت میں گھر سے باہر نکلتی ہیں، جہاں کشیدگی اور اندیشے اُن کے منتظر ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ غائب ہوتی ہے۔ بگاڑ کے دنوں میں وہ سہمی ہوئی سڑکوں پر کھڑی رہتی ہیں، اِس فکر میں غلطاں کہ گھر کیسے پہنچیں گی۔
ٹارگیٹ کلنگ کے پے درپے واقعات اور آئے روز ہونے والے احتجاج نے شہریوںکو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ کوئی دم میں زندگی سے اُن کا ناتا کٹ جائے گا۔ اور وہ غلط نہیں سوچتے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خوشیوں کے لطیف احساس سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ کرب اور خوف ایک مستقل جذبے کی صورت اُن پر سوار رہتا ہے۔ مسرت کیا ہے؟ امید کیسے کہتے ہیں؟ وہ یہ سب بھول چکے ہیں۔ اس احساس سے عدم برداشت کا مسئلہ بھی جنم لیتا ہے۔ انسان کے رویے میں تشدد جھلکنے لگتا ہے۔ وہ جذباتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے، جو جلد آسیب کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور آج ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے اِس شہر پر اِسی آسیب کا سایہ ہے۔
کیا ان مسائل کا کوئی حل ہے؟
اس سوال کا جواب اثبات میں ہونا چاہیے، مگر حالات اتنے گمبھیر ہوچکے ہیں، مایوسی اتنی گہری ہے کہ حالات میں فوری بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اِس ناامیدی کا ایک سبب حکم رانوں کی غفلت بھی ہے، جنھیں اِس شہر کی کوئی پروا نہیں۔ مفادات کی اِس دوڑ شاید شہر قائد کو بھلا دیا گیا ہے۔ شاید احتجاجی سرگرمیوں کو، ہڑتالوں اور قتل و غارت گری کے واقعات کو اِس کا جُزو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ حکومت کو اب اِس کی کوئی فکر نہیں۔ اِس بات سے غرض نہیں کہ اِسے سانس لینے کے لیے آکسیجن میسر ہے یا نہیں۔
اپنی زبوں حالی پر نوحہ کناں اس شہر کا یہ نقش حکم رانوں سے فریاد کرتا ہے کہ اِس کی جانب فوری توجہ دی جائے۔ زندگی رواں دواں رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، تاکہ خوف سے نکل کر وہ دوبار جینا شروع کریں۔