اپوزیشن نے انتخابی اصلاحات کا مسودہ مسترد کر دیا
بل میں کمزوریاں دور کی جائیں، شیریں مزاری
قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات بل 2017 کے مسودے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متفقہ بل لانے کا مطالبہ کردیا۔
گزشتہ روز ایوان کی معمول کی کارروائی روک پر انتخابات بل پر بحث کرائی گئی۔ سید نوید قمر نے کہاکہ 2013 کے انتخابات کے بعد کسی نے اسے دھاندلی کا الیکشن کہا، کسی نے آر او کا الیکشن کہا جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ پارلیمان انتخابات کے لیے اصلاحات کرے گی تاہم اگر اصلاحات کے بعد بھی انتخابی نتائج کے حوالے سے سوال اٹھا تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہوگی، الیکشن میں وفاقی وصوبائی حکومتوں پر کم سے کم اور الیکشن کمیشن پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا جانا چاہیے، ابھی اور بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بل میں جہاں کمزوریاں ہیں انھیں دور کیا جانا چاہیے ورنہ یہ ہمارے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں، ہم ایک ایک ووٹ کیلئے دھکے کھاتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر یہاں آتے ہیں۔
ادھر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ہمارے 4 مطالبات منظور نہ ہوئے تو بل کا کوئی فائدہ نہیں اور ایسے میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا، آئینی ترامیم اور بل ساتھ پیش ہونا چاہیے، انتخابی اصلاحات کمیٹی میں الیکشن کمیشن اور نادرا سے ہمیں جو مطلوبہ تعاون ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا، بیوروکریٹ مائنڈ سیٹ تبدیلی نہیں چاہتا، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے، آئندہ انتخابات کیلئے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے، نگران حکومت 50 فیصد اپوزیشن اور پچاس فیصد حکومت کی تجاویز سے تشکیل ہونی چاہیے۔ پولنگ کے دن ووٹر کی بائیومیٹرک تصدیق کا نظام ہو نا چاہیے۔ ہماری چار تجاویز منظور ہونے تک بل کا کوئی فائدہ نہیں۔
ایم کیوایم پاکستان کے ایس اے اقبال قادری نے کہا انتخابی اخراجات کی حد نہ بڑھائی جائے اور اسے اتنا ہی رکھا جائے جتنا عام آدمی برداشت کر سکتا ہے۔ جے یو آئی (ف) کی نعیمہ کشور نے کہا ہم ملک میں متناسب نمائندگی چاہتے ہیں جس میں امیدواروں کے بجائے سیاسی جماعتوں کو ووٹ ملیں، پارٹی فنڈنگ پر قدغن ہونی چاہیے، حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی، صادق اور امین کی آئین میں تشریح کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا آئین کی دفعہ 62، 63کو نہ چھیڑا جائے، جو اسے چھیڑے گا وہ آئین اور ملک کے اسلامی تشخص سے غداری کریگا، خواتین مرضی سے ووٹ نہ ڈالیں تو انتخابات کو کالعدم نہ کیا جائے، ریٹرننگ افسر کی سطح پر اگر دھاندلی ہو تو اس کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری 94 ہزار 890 روپے کامقروض ہے، آئندہ 7سالمیں 4 ہزار 491 ارب ملکی و غیرملکی قرضے واپس کیے جائیں گے۔ ان قرضوں پر سودکی ادائیگی کے اعداد و شمار تیار کرلیے۔
وزارت خزانہ نے تحریری جواب میں بتایا 31 دسمبر تک پاکستان کا اندرونی سرکاری قرضہ 12 ارب 31 کروڑ روپے جبکہ بیرونی قرضہ 58 ارب ڈالر تھا، 2017 میں 7ہزار 396 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر ایک ہزار102 ارب روپے سود ادا کیا جائیگا، اس عرصے کے دوران 5 ہزار 837 ملین امریکی ڈالرکے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 595 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2018 کے دوران ایک ہزار 772 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 562 ارب روپے سود اداکیا جائیگا جبکہ 2 ہزار 806 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 457 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2019 میں ایک ہزار 907 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 423 ارب روپے اور 5 ہزار 756 ملین ڈالرکے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 314 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2020 میں 640 ارب روپے کے اندورنی قرضوں پر295 ارب روپے جبکہ 3 ہزار 482 ملین ڈالرکے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 89 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2021 میں 580 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 238 ارب روپے اور 4 ہزار 806 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر 987 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2022 میں 564 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 167 ارب روپے جبکہ 3 ہزار 773 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر830 ملین ڈالر سود ادا کی جائیگا۔ 2023 میں 130 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 105 ارب روپے اور 3 ہزار 762 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر 729 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔2016-17 کے دوران درآمدات کنندگان کو 6 ہزار 331 کیسز میں 23 ہزار 625 ملین روپے سیلز ٹیکس ریفنڈ کے طور پر ادا کئے گئے۔
وزارت داخلہ نے بتایاگزشتہ 3 سال میں 3 لاکھ 62 ہزار 520 قومی شناختی کارڈز بلاک کئے گئے، پچھلے 5سالمیں 298 بھارتی شہریوں کو پاکستانی شہریت دی گئی،پاک ایران سرحد پر گیٹ تعمیر کر دیاگیااور گیٹ کے دونوں اطراف 126 کلومیٹر لمبی تار لگائی گئی، 2600 کلومیٹر مغربی سرحد مکمل بند کرنے کی کوئی تجویز نہیں۔
ایوان کویہ بھی بتایا گیا اسلام آباد میں گزشتہ 5 سال میں زیر زمین پانی کی سطح 30 فٹ تک نیچے چلی گئی۔ ایوان نے بارسلونا واقعے میں ہلاک ہونیوالوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ بعدازاں پی ٹی آئی کے رکن حامد الحق کی نشاندہی پر کورم ٹوٹنے پر اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
گزشتہ روز ایوان کی معمول کی کارروائی روک پر انتخابات بل پر بحث کرائی گئی۔ سید نوید قمر نے کہاکہ 2013 کے انتخابات کے بعد کسی نے اسے دھاندلی کا الیکشن کہا، کسی نے آر او کا الیکشن کہا جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ پارلیمان انتخابات کے لیے اصلاحات کرے گی تاہم اگر اصلاحات کے بعد بھی انتخابی نتائج کے حوالے سے سوال اٹھا تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہوگی، الیکشن میں وفاقی وصوبائی حکومتوں پر کم سے کم اور الیکشن کمیشن پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا جانا چاہیے، ابھی اور بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بل میں جہاں کمزوریاں ہیں انھیں دور کیا جانا چاہیے ورنہ یہ ہمارے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں، ہم ایک ایک ووٹ کیلئے دھکے کھاتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر یہاں آتے ہیں۔
ادھر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ہمارے 4 مطالبات منظور نہ ہوئے تو بل کا کوئی فائدہ نہیں اور ایسے میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا، آئینی ترامیم اور بل ساتھ پیش ہونا چاہیے، انتخابی اصلاحات کمیٹی میں الیکشن کمیشن اور نادرا سے ہمیں جو مطلوبہ تعاون ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا، بیوروکریٹ مائنڈ سیٹ تبدیلی نہیں چاہتا، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے، آئندہ انتخابات کیلئے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے، نگران حکومت 50 فیصد اپوزیشن اور پچاس فیصد حکومت کی تجاویز سے تشکیل ہونی چاہیے۔ پولنگ کے دن ووٹر کی بائیومیٹرک تصدیق کا نظام ہو نا چاہیے۔ ہماری چار تجاویز منظور ہونے تک بل کا کوئی فائدہ نہیں۔
ایم کیوایم پاکستان کے ایس اے اقبال قادری نے کہا انتخابی اخراجات کی حد نہ بڑھائی جائے اور اسے اتنا ہی رکھا جائے جتنا عام آدمی برداشت کر سکتا ہے۔ جے یو آئی (ف) کی نعیمہ کشور نے کہا ہم ملک میں متناسب نمائندگی چاہتے ہیں جس میں امیدواروں کے بجائے سیاسی جماعتوں کو ووٹ ملیں، پارٹی فنڈنگ پر قدغن ہونی چاہیے، حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی، صادق اور امین کی آئین میں تشریح کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا آئین کی دفعہ 62، 63کو نہ چھیڑا جائے، جو اسے چھیڑے گا وہ آئین اور ملک کے اسلامی تشخص سے غداری کریگا، خواتین مرضی سے ووٹ نہ ڈالیں تو انتخابات کو کالعدم نہ کیا جائے، ریٹرننگ افسر کی سطح پر اگر دھاندلی ہو تو اس کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔
علاوہ ازیں قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری 94 ہزار 890 روپے کامقروض ہے، آئندہ 7سالمیں 4 ہزار 491 ارب ملکی و غیرملکی قرضے واپس کیے جائیں گے۔ ان قرضوں پر سودکی ادائیگی کے اعداد و شمار تیار کرلیے۔
وزارت خزانہ نے تحریری جواب میں بتایا 31 دسمبر تک پاکستان کا اندرونی سرکاری قرضہ 12 ارب 31 کروڑ روپے جبکہ بیرونی قرضہ 58 ارب ڈالر تھا، 2017 میں 7ہزار 396 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر ایک ہزار102 ارب روپے سود ادا کیا جائیگا، اس عرصے کے دوران 5 ہزار 837 ملین امریکی ڈالرکے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 595 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2018 کے دوران ایک ہزار 772 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 562 ارب روپے سود اداکیا جائیگا جبکہ 2 ہزار 806 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 457 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2019 میں ایک ہزار 907 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 423 ارب روپے اور 5 ہزار 756 ملین ڈالرکے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 314 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2020 میں 640 ارب روپے کے اندورنی قرضوں پر295 ارب روپے جبکہ 3 ہزار 482 ملین ڈالرکے بیرونی قرضوں پر ایک ہزار 89 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2021 میں 580 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 238 ارب روپے اور 4 ہزار 806 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر 987 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔ 2022 میں 564 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 167 ارب روپے جبکہ 3 ہزار 773 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر830 ملین ڈالر سود ادا کی جائیگا۔ 2023 میں 130 ارب روپے کے اندرونی قرضوں پر 105 ارب روپے اور 3 ہزار 762 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوں پر 729 ملین ڈالر سود ادا کیا جائیگا۔2016-17 کے دوران درآمدات کنندگان کو 6 ہزار 331 کیسز میں 23 ہزار 625 ملین روپے سیلز ٹیکس ریفنڈ کے طور پر ادا کئے گئے۔
وزارت داخلہ نے بتایاگزشتہ 3 سال میں 3 لاکھ 62 ہزار 520 قومی شناختی کارڈز بلاک کئے گئے، پچھلے 5سالمیں 298 بھارتی شہریوں کو پاکستانی شہریت دی گئی،پاک ایران سرحد پر گیٹ تعمیر کر دیاگیااور گیٹ کے دونوں اطراف 126 کلومیٹر لمبی تار لگائی گئی، 2600 کلومیٹر مغربی سرحد مکمل بند کرنے کی کوئی تجویز نہیں۔
ایوان کویہ بھی بتایا گیا اسلام آباد میں گزشتہ 5 سال میں زیر زمین پانی کی سطح 30 فٹ تک نیچے چلی گئی۔ ایوان نے بارسلونا واقعے میں ہلاک ہونیوالوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ بعدازاں پی ٹی آئی کے رکن حامد الحق کی نشاندہی پر کورم ٹوٹنے پر اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔