شہر تجاوزات کے نرغے میں۔۔۔
انتظامیہ بدعنوان، شہر ی پریشان، مسائل کے حل کا نہیں کوئی امکان!
تجاوزات کا خاتمہ محکمۂ بلدیات کی بنیادی ذمے داری ہے، مگر بدقسمتی سے اِس جانب کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔
کاروباری اور رہایشی علاقوں میں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ گھروں کی تعمیر کے دوران گیلری کے لیے چھوڑی جانے والی تین سے چار فٹ کی زمین پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ کاروباری مراکز کی تعمیر کے دوران بھی یہی روش اپنائی جاتی ہے۔ اِسی وجہ سے گذشتہ دس برس کے دوران شہر کی سڑکیں اور گلیاں تنگ ہوگئی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ بازاروں میں پیدل چلنا دشوار ہوگیا ہے۔ اس غیر قانونی اقدام کا سبب محکمۂ بلدیات کے غیر ذمے دار اور بدعنوان افسران ہیں، جنھوں نے اِس جانب کبھی توجہ نہیں دی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی شہری پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں مقرر ہونے والے ایڈمنسٹریٹر، ایڈووکیٹ احمد نواز پیچوہو کو یاد کرتے ہیں، جنھوں نے اِس نوع کے قبضوں کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کیا تھا۔ شہر میں بڑی گاڑیوں کی غیرقانونی آمدورفت پر پابندی لگاتے ہوئے ٹریفک نظام بہتر بنانے کے لیے داخلی راستوں پر گیٹ تعمیر کروائے تھے، لیکن اُن کی رخصتی کے بعد حالات بدلنے لگے۔ رہی سہی کسر بدعنوانی نے پوری کردی۔
گذشتہ دنوں جیکب آباد میں تعینات ہونے والے تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریٹر (ٹی ایم او)، سردار عبدالغفار خان تھیم میں بھی، شروع شروع میں سابق ایڈمنسٹریٹر، ایڈووکیٹ احمد نواز پیچوہو جیسا جذبہ نظر آیا تھا۔ تعینات ہوتے ہی سردار عبدالغفار خان تھیم نے شہر کی مصروف سڑکوں ٹاور روڈ، شاہی بازار، بانو بازار، صرافہ بازار اور طارق روڈ سے تجاوزات ہٹانے کا سلسلہ شروع کیا تھا، لیکن، موصولہ اطلاعات کے مطابق، یہ آپریشن با اثر افراد کی مداخلت کے بعد بند کر دیا گیا۔ تجاوزات قرار دے کر ہٹائے جانے والے پتھارے اور دیگر سامان ٹی ایم او آفس میں رکھا گیا تھا، جس کے عملے نے مبینہ طور پر رشوت کے عوض وہ سامان مالکان کو لوٹا دیا، جنھوں نے اُن پتھاروں کو اُسی جگہ رکھ کر دوبارہ کام شروع کردیا، اور اِس پورے معاملے میں انتظامیہ مکمل طور پر خاموش رہی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ محکمۂ بلدیات کی اس کارروائی کا قبضہ مافیا پر اثر ہی نہیں ہوا۔
تجاوزات قائم کرنے والے اب دلیر ہوگئے ہیں۔ انھوں نے جن مقامات پر عارضی تجاوزات قائم کی تھیں، اب اُنھیں پختہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اِس ضمن میں ٹاور روڈ پر واقع ایک ہوٹل کی مثال دی جاسکتی ہے، جس کے مالک نے ہوٹل کے باہر کی زمین پر قبضہ کرکے تنور بنا رکھا تھا۔ ٹی ایم او نے اپنی موجودگی میں اُسے گروا کر اراضی خالی کروائی تھی، لیکن چند ہی روز بعد اُس حصے پر پھر تنور قائم ہوگیا۔ اور اب مذکورہ شخص کی جانب سے 600 فٹ کی زمین پر قبضہ کرکے ایک دکان کی تعمیر شروع کردی گئی ہے۔ اِس غیرقانونی اقدام سے متاثر ہونے والے دکان داروں نے ٹی ایم او آفس کو مطلع بھی کیا، مگر اِس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کسی اعلیٰ افسر کو بھاری رشوت دی گئی ہے۔
انتظامیہ کی خاموشی کے بعد اِس دکان کی تعمیر سے متاثر ہونے والے دکان دار نیاز احمد بروہی، غلام سرور، عزیز اور دیگر پریس کلب پہنچ گئے، جہاں اُنھوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دوسرے دن جب اِس تعلق سے خبریں شایع ہوئیں، تو ڈپٹی کمشنر نے اپنے نمایندے اسسٹنٹ تحصیل دار کو روانہ کرتے ہوئے تعمیراتی کام بند کروا دیا، مگر مکمل ہونے والا ڈھانچا گرایا نہیں گیا، جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ تعمیراتی کام پھر شروع ہوجائے گا۔ ذرایع کے مطابق ہوٹل مالک، جو خود بھی بہت بااثر ہے، اب اِس دکان کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے سیاسی شخصیات سے رابطے کر رہا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ محکمۂ بلدیات کے رشوت خور افسران کی وجہ سے قبضہ مافیا نے پورے شہر کو یرغمال بنا لیا ہے، جس کے باعث عوام عذاب میں مبتلا ہیں۔ قبضہ کرنے والے بھی عام شہری ہی ہیں، اگر ہمارے افسران غیر ذمے داری کا ثبوت نہ دیں، تو ایسی صورت حال کبھی پیدا ہی نہ ہو۔
تجاوزات کے ساتھ ساتھ غیر قانونی رکشوں نے بھی شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں شہر کی سڑکوں پر گدھا گاڑی اور رکشوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات بڑھ گئے ہیں۔ عام طور سے اِن رکشوں کے ڈرائیور انتہائی کم عمر ہوتے ہیں، جن کے ڈرائیونگ لائسنس تو کیا، شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہوتے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ جہاں دن کے اوقات میں شہر میں بڑی گاڑیوں کی آمد ورفت پر پابندی کا اطلاق کیا جائے، وہیں اِن کم عمر ڈرائیوروں کو بھی کسی ضابطے کا پابند کیا جائے۔ رکشا چلانے کے باقاعدہ پرمٹ جاری کیے جائیں، اور اُن کی پارکنگ کے غیرقانونی اڈے ختم کیے جائیں۔
کاروباری اور رہایشی علاقوں میں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ گھروں کی تعمیر کے دوران گیلری کے لیے چھوڑی جانے والی تین سے چار فٹ کی زمین پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ کاروباری مراکز کی تعمیر کے دوران بھی یہی روش اپنائی جاتی ہے۔ اِسی وجہ سے گذشتہ دس برس کے دوران شہر کی سڑکیں اور گلیاں تنگ ہوگئی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ بازاروں میں پیدل چلنا دشوار ہوگیا ہے۔ اس غیر قانونی اقدام کا سبب محکمۂ بلدیات کے غیر ذمے دار اور بدعنوان افسران ہیں، جنھوں نے اِس جانب کبھی توجہ نہیں دی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی شہری پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت میں مقرر ہونے والے ایڈمنسٹریٹر، ایڈووکیٹ احمد نواز پیچوہو کو یاد کرتے ہیں، جنھوں نے اِس نوع کے قبضوں کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کیا تھا۔ شہر میں بڑی گاڑیوں کی غیرقانونی آمدورفت پر پابندی لگاتے ہوئے ٹریفک نظام بہتر بنانے کے لیے داخلی راستوں پر گیٹ تعمیر کروائے تھے، لیکن اُن کی رخصتی کے بعد حالات بدلنے لگے۔ رہی سہی کسر بدعنوانی نے پوری کردی۔
گذشتہ دنوں جیکب آباد میں تعینات ہونے والے تعلقہ میونسپل ایڈمنسٹریٹر (ٹی ایم او)، سردار عبدالغفار خان تھیم میں بھی، شروع شروع میں سابق ایڈمنسٹریٹر، ایڈووکیٹ احمد نواز پیچوہو جیسا جذبہ نظر آیا تھا۔ تعینات ہوتے ہی سردار عبدالغفار خان تھیم نے شہر کی مصروف سڑکوں ٹاور روڈ، شاہی بازار، بانو بازار، صرافہ بازار اور طارق روڈ سے تجاوزات ہٹانے کا سلسلہ شروع کیا تھا، لیکن، موصولہ اطلاعات کے مطابق، یہ آپریشن با اثر افراد کی مداخلت کے بعد بند کر دیا گیا۔ تجاوزات قرار دے کر ہٹائے جانے والے پتھارے اور دیگر سامان ٹی ایم او آفس میں رکھا گیا تھا، جس کے عملے نے مبینہ طور پر رشوت کے عوض وہ سامان مالکان کو لوٹا دیا، جنھوں نے اُن پتھاروں کو اُسی جگہ رکھ کر دوبارہ کام شروع کردیا، اور اِس پورے معاملے میں انتظامیہ مکمل طور پر خاموش رہی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ محکمۂ بلدیات کی اس کارروائی کا قبضہ مافیا پر اثر ہی نہیں ہوا۔
تجاوزات قائم کرنے والے اب دلیر ہوگئے ہیں۔ انھوں نے جن مقامات پر عارضی تجاوزات قائم کی تھیں، اب اُنھیں پختہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اِس ضمن میں ٹاور روڈ پر واقع ایک ہوٹل کی مثال دی جاسکتی ہے، جس کے مالک نے ہوٹل کے باہر کی زمین پر قبضہ کرکے تنور بنا رکھا تھا۔ ٹی ایم او نے اپنی موجودگی میں اُسے گروا کر اراضی خالی کروائی تھی، لیکن چند ہی روز بعد اُس حصے پر پھر تنور قائم ہوگیا۔ اور اب مذکورہ شخص کی جانب سے 600 فٹ کی زمین پر قبضہ کرکے ایک دکان کی تعمیر شروع کردی گئی ہے۔ اِس غیرقانونی اقدام سے متاثر ہونے والے دکان داروں نے ٹی ایم او آفس کو مطلع بھی کیا، مگر اِس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کسی اعلیٰ افسر کو بھاری رشوت دی گئی ہے۔
انتظامیہ کی خاموشی کے بعد اِس دکان کی تعمیر سے متاثر ہونے والے دکان دار نیاز احمد بروہی، غلام سرور، عزیز اور دیگر پریس کلب پہنچ گئے، جہاں اُنھوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دوسرے دن جب اِس تعلق سے خبریں شایع ہوئیں، تو ڈپٹی کمشنر نے اپنے نمایندے اسسٹنٹ تحصیل دار کو روانہ کرتے ہوئے تعمیراتی کام بند کروا دیا، مگر مکمل ہونے والا ڈھانچا گرایا نہیں گیا، جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ تعمیراتی کام پھر شروع ہوجائے گا۔ ذرایع کے مطابق ہوٹل مالک، جو خود بھی بہت بااثر ہے، اب اِس دکان کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے سیاسی شخصیات سے رابطے کر رہا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ محکمۂ بلدیات کے رشوت خور افسران کی وجہ سے قبضہ مافیا نے پورے شہر کو یرغمال بنا لیا ہے، جس کے باعث عوام عذاب میں مبتلا ہیں۔ قبضہ کرنے والے بھی عام شہری ہی ہیں، اگر ہمارے افسران غیر ذمے داری کا ثبوت نہ دیں، تو ایسی صورت حال کبھی پیدا ہی نہ ہو۔
تجاوزات کے ساتھ ساتھ غیر قانونی رکشوں نے بھی شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں شہر کی سڑکوں پر گدھا گاڑی اور رکشوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات بڑھ گئے ہیں۔ عام طور سے اِن رکشوں کے ڈرائیور انتہائی کم عمر ہوتے ہیں، جن کے ڈرائیونگ لائسنس تو کیا، شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہوتے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ جہاں دن کے اوقات میں شہر میں بڑی گاڑیوں کی آمد ورفت پر پابندی کا اطلاق کیا جائے، وہیں اِن کم عمر ڈرائیوروں کو بھی کسی ضابطے کا پابند کیا جائے۔ رکشا چلانے کے باقاعدہ پرمٹ جاری کیے جائیں، اور اُن کی پارکنگ کے غیرقانونی اڈے ختم کیے جائیں۔