جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
زینب بیٹا! کیا ہوا، آج کچھ پریشان سی لگ رہی ہو؟
ماما! آج ہماری اردو کی مس کہہ رہی تھیںکہ اس دفعہ چودہ اگست پر جو بچے تقریر یا مِلّی نغموں میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ اپنا نام لکھوا دیں۔ تو میں نے بھی اپنا نام تقریر میں لکھوادیا۔
تو اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟
ماما! میری سمجھ میں یہ نہیں آرہاکہ میں اپنی تقریر کا آغاز کیسے کروں؟
دیکھو زینب بیٹا! ماما نے کہنا شروع کیا، آج ہم جس آزاد وطن میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں یہ ہمارے بزرگوں کی جانی ومالی قربانیوں، صبر، اور آزمایشوں کے بعد ملا۔ اس وطن کی مضبوط اور مستحکم بنیادوں میں ہمارے اسلاف کا پاکیزہ خون شامل ہے۔ تم کشمیریوں کو دیکھو، فلسطینیوں کو دیکھو جو ظلم کی چکی میں پِستے چلے آرہے ہیں۔ یہ تو اﷲ کا بہت بڑا کرم ہے جس نے ہمیں آزادی دی اور ایٹمی ملک بنایا۔ تم انہی باتوں کو لے کر اپنی تقریر کا آغاز کرو۔ مجھے امید ہے کہ تم اچھی تقریر لکھ لوگی۔
پھر جب زینب نے تقریر لکھنی شروع کی تو اس کا قلم کاغذ پر اس طرح چلنے لگا جیسے اسے پہلے ہی وہ سب باتیں یاد تھیں۔ جب اس نے تقریر مکمل کرکے ماما کودکھائی تو وہ بہت خوش ہوئیں اور اسے شاباش بھی دی۔ اب تو زینب ہر وقت اپنی تقریر کی تیاری کرتی رہتی۔
آخرکار وہ دن بھی آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ اسکول میں جب تمام ٹیچرز، پرنسپل اور مہمان خصوصی تشریف لے آئے تو تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے مِلّی نغمے پڑھے گئے۔ کچھ بچوں نے ٹیبلو بھی پیش کیے۔ آخر میں تقریری مقابلہ شروع ہوا۔ ایک کے بعد ایک لڑکی اپنی دھواںدھار تقریر سے سامنے بیٹھی ہوئی ٹیچرز اور مُنصَفِین کے دل جیت لینا چاہتی تھی۔ زینب کا نام پکارا گیا تو وہ اسٹیج پر آئی اور اﷲ کا نام لے کر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
محترمہ پرنسپل صاحبہ، معززاساتذہ کرام اور پیاری ساتھیو!
السّلام علیکم!
میں اپنی تقریر کا آغاز ایک شعر سے کرنا چاہتی ہوں۔
غلامی میں کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
چودہ اگست وہ تاریخی دن ہے جس کی اہمیت سے ہر پاکستانی خوب واقف ہے۔ جس آزاد فضا میں ہم آج سانس لے رہے ہیں یہ لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیاگیا۔ آج کا دن لاکھوں شہیدوں کے خون کی سرخی لیے اور ہمارے لیے اجالا بکھیرتے ہوئے طلوع ہوا ہے۔ اسی عظیم دن ہم اپنے عظیم رہنما قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
چودہ اگست 1947 کو ہماری مقدس سرزمین کی آزاد فضائوں میں سبز ہلالی پرچم لہرایا تھا۔
محترمہ پرنسپل صاحبہ:
کیا ہم بھول گئے اُن اذیت ناک لمحوں کو، اُن خوف وہراس کے سایوں کو، جو عورتوں اور بلکتے ہوئے بچوں کے چہروں پر بسیرا کیے ہوئے تھے؟ آزادی کی قدر تو اس پرندے سے پوچھیے جسے پنجرے میں قید کردیا ہو۔ آزادی کی قدر غلاموں سے پوچھیے، آزادی کی قدر کشمیریوں سے پوچھیے، فلسطینیوں سے پوچھیے جنہیں آج تک آزادی نصیب نہیں ہوئی۔
اُس دن کی سچی داستانیں ہمیں خون کے آنسو رُلاتی ہیں۔ اُن اذیتوں کے باوجود اُن کے ہونٹوں پر مرتے وقت بھی ایک ہی نعرہ تھا؛ ''بٹ کے رہے گا ہندوستان! بن کے رہے گا پاکستان!، پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااﷲ۔''
آخر میں مَیں صرف یہی کہنا چاہوںگی کہ ان شہیدوں کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے ہمیں اپنے پیارے پاکستان کی ترقی کے لیے بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں۔ گو ابھی تک وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے جن کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن ہمیں اس پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ پاکستان! زندہ باد۔
جیسے ہی زینب نے اپنی تقریر ختم کی پورا ہال پُرجوش تالیوں سے گونج اٹھا۔ اور اس وقت زینب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا جب اسے پہلا انعام لینے کے لیے اسٹیج پر بلایاگیا۔
ماما! آج ہماری اردو کی مس کہہ رہی تھیںکہ اس دفعہ چودہ اگست پر جو بچے تقریر یا مِلّی نغموں میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ اپنا نام لکھوا دیں۔ تو میں نے بھی اپنا نام تقریر میں لکھوادیا۔
تو اس میں پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟
ماما! میری سمجھ میں یہ نہیں آرہاکہ میں اپنی تقریر کا آغاز کیسے کروں؟
دیکھو زینب بیٹا! ماما نے کہنا شروع کیا، آج ہم جس آزاد وطن میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں یہ ہمارے بزرگوں کی جانی ومالی قربانیوں، صبر، اور آزمایشوں کے بعد ملا۔ اس وطن کی مضبوط اور مستحکم بنیادوں میں ہمارے اسلاف کا پاکیزہ خون شامل ہے۔ تم کشمیریوں کو دیکھو، فلسطینیوں کو دیکھو جو ظلم کی چکی میں پِستے چلے آرہے ہیں۔ یہ تو اﷲ کا بہت بڑا کرم ہے جس نے ہمیں آزادی دی اور ایٹمی ملک بنایا۔ تم انہی باتوں کو لے کر اپنی تقریر کا آغاز کرو۔ مجھے امید ہے کہ تم اچھی تقریر لکھ لوگی۔
پھر جب زینب نے تقریر لکھنی شروع کی تو اس کا قلم کاغذ پر اس طرح چلنے لگا جیسے اسے پہلے ہی وہ سب باتیں یاد تھیں۔ جب اس نے تقریر مکمل کرکے ماما کودکھائی تو وہ بہت خوش ہوئیں اور اسے شاباش بھی دی۔ اب تو زینب ہر وقت اپنی تقریر کی تیاری کرتی رہتی۔
آخرکار وہ دن بھی آگیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ اسکول میں جب تمام ٹیچرز، پرنسپل اور مہمان خصوصی تشریف لے آئے تو تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے مِلّی نغمے پڑھے گئے۔ کچھ بچوں نے ٹیبلو بھی پیش کیے۔ آخر میں تقریری مقابلہ شروع ہوا۔ ایک کے بعد ایک لڑکی اپنی دھواںدھار تقریر سے سامنے بیٹھی ہوئی ٹیچرز اور مُنصَفِین کے دل جیت لینا چاہتی تھی۔ زینب کا نام پکارا گیا تو وہ اسٹیج پر آئی اور اﷲ کا نام لے کر اپنی تقریر کا آغاز کیا۔
محترمہ پرنسپل صاحبہ، معززاساتذہ کرام اور پیاری ساتھیو!
السّلام علیکم!
میں اپنی تقریر کا آغاز ایک شعر سے کرنا چاہتی ہوں۔
غلامی میں کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
چودہ اگست وہ تاریخی دن ہے جس کی اہمیت سے ہر پاکستانی خوب واقف ہے۔ جس آزاد فضا میں ہم آج سانس لے رہے ہیں یہ لاکھوں قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیاگیا۔ آج کا دن لاکھوں شہیدوں کے خون کی سرخی لیے اور ہمارے لیے اجالا بکھیرتے ہوئے طلوع ہوا ہے۔ اسی عظیم دن ہم اپنے عظیم رہنما قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
چودہ اگست 1947 کو ہماری مقدس سرزمین کی آزاد فضائوں میں سبز ہلالی پرچم لہرایا تھا۔
محترمہ پرنسپل صاحبہ:
کیا ہم بھول گئے اُن اذیت ناک لمحوں کو، اُن خوف وہراس کے سایوں کو، جو عورتوں اور بلکتے ہوئے بچوں کے چہروں پر بسیرا کیے ہوئے تھے؟ آزادی کی قدر تو اس پرندے سے پوچھیے جسے پنجرے میں قید کردیا ہو۔ آزادی کی قدر غلاموں سے پوچھیے، آزادی کی قدر کشمیریوں سے پوچھیے، فلسطینیوں سے پوچھیے جنہیں آج تک آزادی نصیب نہیں ہوئی۔
اُس دن کی سچی داستانیں ہمیں خون کے آنسو رُلاتی ہیں۔ اُن اذیتوں کے باوجود اُن کے ہونٹوں پر مرتے وقت بھی ایک ہی نعرہ تھا؛ ''بٹ کے رہے گا ہندوستان! بن کے رہے گا پاکستان!، پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااﷲ۔''
آخر میں مَیں صرف یہی کہنا چاہوںگی کہ ان شہیدوں کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے ہمیں اپنے پیارے پاکستان کی ترقی کے لیے بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں۔ گو ابھی تک وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے جن کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن ہمیں اس پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ پاکستان! زندہ باد۔
جیسے ہی زینب نے اپنی تقریر ختم کی پورا ہال پُرجوش تالیوں سے گونج اٹھا۔ اور اس وقت زینب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا جب اسے پہلا انعام لینے کے لیے اسٹیج پر بلایاگیا۔