پرانے 100 ڈالر نوٹ کی کم ریٹ پر تبدیلی کا مسئلہ پھر پیدا ہو گیا
پوری دنیا میں قابل قبول، پاکستان میں نئے پرانے کا مسئلہ کیوں، کراچی چیمبر کو تشویش
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر شمیم احمد فرپو نے ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے 100ڈالر کے پرانے ڈیزائن کے نوٹ مارکیٹ ریٹ کے مطابق قبول کرنے سے گریز پرتشویش کااظہارکیا ہے۔
شمیم فرپو نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ ایکس چینج کمپنیاں 100ڈالر کے پرانے ڈیزائن کے نوٹ تبدیل کرنے سے گریز کررہی ہیں اور وہ ایسے نوٹ مارکیٹ ریٹ کے مقابلے میں3 سے 4فیصد کم شرح پر پاکستانی روپے یا پھر کسی اور کرنسی سے تبدیل کر رہی ہیں۔
کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ کے سی سی آئی کے ممبران کی جانب سے ان دنوں کئی شکایات موصول ہورہی ہیں جن میں ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے مارکیٹ کے مقابلے میں 100ڈالر کے پرانے نوٹ 3سے4فیصد کم شرح پر تبدیل کرنے کی شکایت کی گئی ہے جو سراسر غیر قانونی، غیر منصفانہ عمل ہے، ایکس چینج کمپنیاں عوام سے لوٹ مارمیں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایکس چینج کمپنیاں عوام کویہ مشورہ بھی دیتی ہیں کہ اگر وہ 3سے 4 فیصد شرح کے مطابق فیس ادا نہیں کرنا چاہتے تو وہ یہ ڈالر دبئی یا کسی اور ملک جاکر تبدیل کرالیں جہاں یہ کرنسی مارکیٹ ویلیو پر قبول کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں انہیں یہ اضافی فیس ادا کرنا ہی ہوگی جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
شمیم فرپونے استفسار کیاکہ جب پوری دنیا میں پرانے ڈایزائن کے نوٹ قابل قبول ہیں تو یہی نوٹ پاکستان میں ایکس چینج کمپنیاں قبول کرنے سے کیوں گریز کر رہی ہیں، مرکزی بینک کو ایسی ایکس چینج کمپنیوں کے کارٹل کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے عجیب سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور عوام تشویش کا شکار ہیں، یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ منی چینجرز پرانے ڈیزائن کے نوٹ کم قیمت پر لے کردبئی میں اسے تبدیل کراتے ہیں جس پر ان کی کوئی لاگت نہیں آتی اور نتیجے میں ان کو بھاری منافع ہوتا ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ دونوں نئے اور پرانے ڈیزائن کے نوٹ قانونی حیثیت رکھتے ہیں جو دنیا بھر میں قابل قبول ہیں جبکہ نئے ڈیزائن کے نوٹ کوئی نئی چیز نہیں جنہیں تقریباً 5سال قبل متعارف کرایا گیا تھا، اس کے باوجود نئے اور پرانے نوٹ کا مسئلہ وقتاً فوقتاً سامنے آجاتا ہے،ایسا ہی واقعہ اسی سال جنوری میں بھی پیش آیا تھا اور اب اگست میں یہ مسئلہ دوبارہ درپیش ہے۔ انہوں نے کہاکہ منی چینجرز 3سے4فیصد فی 100 ڈالر پر فیس کے لیے بینکوں کو ذمے دار ٹہراتے ہیں جبکہ بینک عموماً اس سے انکار کرتے ہیںجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کچھ مشکوک سرگرمیاں یقینا چل رہی ہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک منظم اور مانیٹرنگ کا مستند ادارہ ہوتے ہوئے اس پوری صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے اورعوام کو نقصان پہنچانے کے ذمے داروں کے خلاف اسی لحاظ سے کارروائی کرنی چاہیے۔
شیم احمد فرپو نے گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ پر زور دیا کہ ایکس چینج کمپنیوں کیخلاف فوری طور پربھرپور کارروائی کرتے ہوئے جرمانے عائد کیے جائیں، اس مسئلے میں گورنر کی مداخلت سے یقینی طور پر عوام کو ریلیف حاصل ہو گا جنہیں اس بات کا ڈر ہے کہ ان کی بڑی محنت سے کمائی گئی بچت خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ کئی پاکستانی اپنی بچت کو ڈالر کی شکل میں بینک لاکرز میں محفوظ رکھتے ہیں۔
شمیم فرپو نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ ایکس چینج کمپنیاں 100ڈالر کے پرانے ڈیزائن کے نوٹ تبدیل کرنے سے گریز کررہی ہیں اور وہ ایسے نوٹ مارکیٹ ریٹ کے مقابلے میں3 سے 4فیصد کم شرح پر پاکستانی روپے یا پھر کسی اور کرنسی سے تبدیل کر رہی ہیں۔
کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ کے سی سی آئی کے ممبران کی جانب سے ان دنوں کئی شکایات موصول ہورہی ہیں جن میں ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے مارکیٹ کے مقابلے میں 100ڈالر کے پرانے نوٹ 3سے4فیصد کم شرح پر تبدیل کرنے کی شکایت کی گئی ہے جو سراسر غیر قانونی، غیر منصفانہ عمل ہے، ایکس چینج کمپنیاں عوام سے لوٹ مارمیں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایکس چینج کمپنیاں عوام کویہ مشورہ بھی دیتی ہیں کہ اگر وہ 3سے 4 فیصد شرح کے مطابق فیس ادا نہیں کرنا چاہتے تو وہ یہ ڈالر دبئی یا کسی اور ملک جاکر تبدیل کرالیں جہاں یہ کرنسی مارکیٹ ویلیو پر قبول کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں انہیں یہ اضافی فیس ادا کرنا ہی ہوگی جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
شمیم فرپونے استفسار کیاکہ جب پوری دنیا میں پرانے ڈایزائن کے نوٹ قابل قبول ہیں تو یہی نوٹ پاکستان میں ایکس چینج کمپنیاں قبول کرنے سے کیوں گریز کر رہی ہیں، مرکزی بینک کو ایسی ایکس چینج کمپنیوں کے کارٹل کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے عجیب سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور عوام تشویش کا شکار ہیں، یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ منی چینجرز پرانے ڈیزائن کے نوٹ کم قیمت پر لے کردبئی میں اسے تبدیل کراتے ہیں جس پر ان کی کوئی لاگت نہیں آتی اور نتیجے میں ان کو بھاری منافع ہوتا ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ دونوں نئے اور پرانے ڈیزائن کے نوٹ قانونی حیثیت رکھتے ہیں جو دنیا بھر میں قابل قبول ہیں جبکہ نئے ڈیزائن کے نوٹ کوئی نئی چیز نہیں جنہیں تقریباً 5سال قبل متعارف کرایا گیا تھا، اس کے باوجود نئے اور پرانے نوٹ کا مسئلہ وقتاً فوقتاً سامنے آجاتا ہے،ایسا ہی واقعہ اسی سال جنوری میں بھی پیش آیا تھا اور اب اگست میں یہ مسئلہ دوبارہ درپیش ہے۔ انہوں نے کہاکہ منی چینجرز 3سے4فیصد فی 100 ڈالر پر فیس کے لیے بینکوں کو ذمے دار ٹہراتے ہیں جبکہ بینک عموماً اس سے انکار کرتے ہیںجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کچھ مشکوک سرگرمیاں یقینا چل رہی ہیں لہٰذا اسٹیٹ بینک منظم اور مانیٹرنگ کا مستند ادارہ ہوتے ہوئے اس پوری صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے اورعوام کو نقصان پہنچانے کے ذمے داروں کے خلاف اسی لحاظ سے کارروائی کرنی چاہیے۔
شیم احمد فرپو نے گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ پر زور دیا کہ ایکس چینج کمپنیوں کیخلاف فوری طور پربھرپور کارروائی کرتے ہوئے جرمانے عائد کیے جائیں، اس مسئلے میں گورنر کی مداخلت سے یقینی طور پر عوام کو ریلیف حاصل ہو گا جنہیں اس بات کا ڈر ہے کہ ان کی بڑی محنت سے کمائی گئی بچت خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ کئی پاکستانی اپنی بچت کو ڈالر کی شکل میں بینک لاکرز میں محفوظ رکھتے ہیں۔