استعماریت اور پاکستان چوتھا حصہ
ایساصدیوں پر مشتمل استحکام اقوام عالم کے کسی انسانی گروہ سے متعلق تہذیب یا ان کے تمدنی نظام کو حاصل نہیں ہوسکا۔
PESHAWAR:
فرعونیت کا وحشیانہ ناچ: عالم انسانیت کے موجودہ مشترکہ ارتقائی مرحلے پر استعماریت کی دلدادہ جدید مغربی تہذیب اپنی محبوبیت کی انتہاؤں کو چھونے لگی ہے۔ جس کا دورانیہ تو لگ بھگ ساڑھے تین صدیاں بنتا ہے، لیکن اگر یورپ سے نکال کر امریکی سانچے میں ڈھالا جائے اس کا دورانیہ شاید 70 سال کے لگ بھگ ہے۔
اس یورپی و امریکی تہذیب نے اتنے مختصر عرصے میں کرہ ارض کے ہر ایک جاندار کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا۔ جس سے اس سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی تہذیب کی برکات کو سمجھا جانا بہت عام فہم بن جاتا ہے، لیکن اگر تاریخ کا طالب علم اقوام عالم کی تاریخ اور تہاذیب عالم کی صف میں قدیم تہذیب فراعین مصر کو سرفہرست رکھے تو شاید وہ کچھ غلط بھی نہ ہوگا، چونکہ اس تہذیب کی داغ بیل قبل از تاریخ میں ڈالی گئی تھی اور لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال تک یہ تہذیب چاروں عالم اپنا دبدبہ قائم کیے رہی۔
ایساصدیوں پر مشتمل استحکام اقوام عالم کے کسی انسانی گروہ سے متعلق تہذیب یا ان کے تمدنی نظام کو حاصل نہیں ہوسکا۔ موجودہ جدید عالمی چلن ہی کی طرح اس تمدنی نظام میں بھی اپنے معاشی فوائد کی خاطر ہر ایک کو کچل کر گزرنے کا چلن تھا۔ یہ تہذیب صدیوں تک تذلیل انسانیت کا سب سے بڑا عملی مظاہرہ بنی رہی اور ''بازار مصر'' کسی جنس کی طرح انسانوں کی خرید و فروخت کا مرکز بنا رہا تھا۔ اسی لیے انسانوں کے حالیہ مشترکہ ارتقائی مرحلے پر ''فرعونیت''کو ظلم و جبر اور انسانیت سوز اعمال کی سب سے خوبصورت اصطلاح کے طور پر قبول کیا جاچکا ہے۔
قابل غور پہلو یہ کہ موجودہ جدید تہذیب کی خالق استعماری قوم کو اسی تہذیب کے معلوم عرصے میں اپنے قومی تشکیل کے ابتدائی مراحل کے دوران اپنے اسلاف کی عظمتوں کے اظہار کے لیے عالم انسانیت کی مشترکہ ویکساں فطرت و جبلت کے عملی مظاہروں کو تاریخ میں رقم کرتے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس کی روشنی میں موجودہ جدید تہذیب اور اقوام عالم پر لاگو بھیانک معروضی حالات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔کتنی حیرت انگیز مماثلت ہے کہ جس طرح مادی نظریات پر مشتمل موجودہ مغربی تہذیب اپنے شباب پر ہے تو موسمیاتی تبدیلیوں نے اس تہذیب اور اس سے متعلق مادی نظریات کی حقیقت کھولنے کا بہت سارا سامان کیا ہوا ہے۔
بالکل اسی طرح تہذیب فراعین بھی اپنی تمام تر فضیلتوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلوں کے سامنے جب سرنگوں ہونے لگی تھی تو تاریخ کے اس مقام پر قدیم ارض کنعان سے ہجرت کرنے والا ایک خاندان بنی اسرائیل کے تشخص سے مصر میں وارد ہوا تھا۔اس خاندان کی جانب سے کی جانے والی اس ہجرت کے بنیادی وجوہات و اسباب کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم تہذیبوں و قوموں کی ابتداء، تہذیبوں کے اجزائے ترکیبی، انسان کے فطری،جبلی و سفلی جذبات اور ان کے زیر سایہ ان کی ترجیحات و ترغیبات کے لازمی و حتمی نتائج کو اپنی وسیع النظری وترقی پسندی کے ساتھ بہت سی آسانی سے ملاحظہ کرسکتا ہے کہ جس رہبر ورہنماء نے پر امن طریقے سے مصر میں ساڑھے تین ہزار سال سے جاری توانا فرعونیت اور اس کی غلاموں پر مبنی تہذیب کا خاتمہ کردیا تھا۔
تو بلآخر وہ کیا اسباب ہوئے کہ آنے والی پانچ صدیوں کے بعد ختم شدہ فراعین کا پھر سے نہ صرف وجود عمل میں لایا جانا ممکن ہوا بلکہ اب کی بار اس تہذیب کا تمام تر بوجھ ان ہی کے اسی خاندان سے متعلق افراد کو غلام بنانے پر منحصر دکھائی دیا جانے لگا؟ جو ان پانچ صدیوں کے عرصے میں خاندان سے ایک قوم کی شکل میں تبدیل ہو چکا تھا۔
ان تفصیلات کی روشنی میں ہم برملہ طور کہہ سکتے ہیں کہ اس قوم نے اپنے اسلاف کی تعلیمات اور نظریات سے روگردانی کرکے اس وقت کی جدید فرعونی تہذیب کے تمام مادی نظریات خود پر لاگو کیے ہوئے تھے۔ یعنی وہ بھی بالکل اسی طرح فرعونی تہذیب کے اعمال و افکار سے خود کو ترقی یافتہ اور مہذب ثابت کرنے پر تل گئے تھے۔ جس طرح معروضی حالات میں اقوام عالم استعماریت کے متعارف کردہ مادی نظریات و افکار کو اپنانے میں پر جوش دکھائی دی جانے لگی ہیں۔
شاید استعماری قوم کا تہذیب فراعین سے یہ اسی لگاؤ کا ہی تسلسل ہے کہ جس کے عملی اظہار میں ان کے مفکرین نے اقوام عالم کی محبوب ترین مادی ضرورت یعنی ''امریکی ڈالر''پر مدفعین فراعین یعنی Pyramid کو کندہ کیا ہوا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ موجودہ دنیا میں برابری و انصاف کی سب سے بڑی داعی ریاست و قومیت نے تاریخ انسانی میں ظلم و جبر کی سب سے بڑی علامت کو اپنی معاشی استحکام کی علامت کے طور اقوام عالم میں فخریہ طور متعارف کرایا ہوا ہے؟ جس کے عملی اثرات میں ہم کرہ ارض کے کونے کونے میں تہذیب و شائستگی کے دعویداروں کی پھیلائی گئی فرعونیت کا جاری ننگا ناچ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
یورپی نشاط ثانیہ کے دوران اقوام عالم کی تاریخ کو جس انداز میں ترتیب دیا جا چکا ہے اس کی روشنی میں ہم اقوام عالم کی انفرادی زندگی کے نفیس و باریک گوشوں کو تو ملاحظہ کرسکتے ہیں، لیکن عالم انسانیت کے مشترکہ مسائل کا کوئی قابل عمل اورمثبت نتائج پر مشتمل حل دریافت کرنا لگ بھگ ناممکنات میں ہے۔کیونکہ اگر ان مادی نظریات میں اس قسم کی ہلکی سی بھی تاثیر ہوتی تو گزشتہ پانچ صدیوں سے جاری ان کوششوں کے عملی مظاہر میں اقوام عالم جبلی و سفلی جذبات سے مغلوب ہوکر باہم دست و گریباں ہو کر انتشار و تقسیم میں شدت اختیار کرتی دکھائی نہ دیتیں۔
تاریخ کے طالب علم کے لیے بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ انسان میں جبلی وسفلی جذبات کی بنیادوں پر مبنی تہذیب فراعین کی مکمل تباہی کے بعد بابل کی بخت نصری تہذیب کی قدیم ارض کنعان (فلسطین ) پرجارحانہ وسعت اور قتل وغارت گری، تہذیب فارس کی استبدادیت کا بابل، یونان ایتھنز اور اسپارٹا تک بربریت پر مشتمل پھیلاؤ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح کرہ ارض پر قدیم بابل سے ارض کنعان تک اور قدیم فارس سے قدیم بابل اور قدیم تہذیب روم تک انسانی وجود سے حرکت کرتی ایک لکیر کو بنتے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ گریٹ الیگزینڈر (سکندر اعظم) کی فتوحات کی صورت اس لکیر کا قدیم یونان سے نکل کر ایک طرف تہذیب فراعین مصر و فلسطین دوسری طرف تہذیب فارس تک پھیلاو ٔکو دیکھا جا سکتا ہے۔
انسانوں کی اس قسم کی جارحانہ کارروائیوں کے نتیجے میں کرہ اض پر ایک طرف یونان سے فارس دوسری طرف تہذیب فراعین مصر تک، جب کہ قدیم فارس سے قدیم تہذیب فراعین تک براستہ تہذیب بابل انسانی جارحانہ کارروائیوں کے نتیجے میں بلاشبہ تاریخ کے وسیع ترین کینوس پر ایک ایسا تکون بنتا دکھائی دیتا ہے جو انسان کے جبلی و سفلی جذبات کا مرہون منت رہاہے۔ ورطہ حیرت میں ڈالنے کی بات کہ معروضی حالات کے پیش نظر اس تکون کی لکیروں میں آج بھی وہ دیوتائی جارحانہ بربریت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ نماء ہے۔
تاریخ کے طالب علم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہے کہ انسان کے انفرادی استحکام وبرتری کے بے لگام جبلی و سفلی جذبات نے تاریخ کی ان 25 صدیوں کو خون و آگ میں نہلا نے کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر ایک تکون لکیر کھینچنے کے سوا کچھ بھی نہیں دیا جا سکا۔کیونکہ اس قسم کی سوچ اور طرز حیات اپنانے سے رشتوں کا تقدس سب سے پہلے پامال ہوتا ہے۔ جس کی سب سے خوبصورت مثال کے طور جناب اسرائیل (یعقوب نبی ؑ) کے ان دس بیٹوں کی جانب سے اپنے ہی بھائی سے روا رکھے جانے والے برتاؤ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ جن دس بیٹوں کی اولاد یں آج استعماری قوم کی شکل اختیار کر چکی ہیں توکیا استعماریت کی متعارف کردہ جدید مغربی تہذیب میں رشتوں کو تقدس حاصل ہے یا مادی مفادات اور ذاتی برتری حاصل کرنے کی خواہش ان سے زیادہ متبرک سمجھے جاتے ہیں؟
(جاری ہے)
فرعونیت کا وحشیانہ ناچ: عالم انسانیت کے موجودہ مشترکہ ارتقائی مرحلے پر استعماریت کی دلدادہ جدید مغربی تہذیب اپنی محبوبیت کی انتہاؤں کو چھونے لگی ہے۔ جس کا دورانیہ تو لگ بھگ ساڑھے تین صدیاں بنتا ہے، لیکن اگر یورپ سے نکال کر امریکی سانچے میں ڈھالا جائے اس کا دورانیہ شاید 70 سال کے لگ بھگ ہے۔
اس یورپی و امریکی تہذیب نے اتنے مختصر عرصے میں کرہ ارض کے ہر ایک جاندار کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا۔ جس سے اس سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی تہذیب کی برکات کو سمجھا جانا بہت عام فہم بن جاتا ہے، لیکن اگر تاریخ کا طالب علم اقوام عالم کی تاریخ اور تہاذیب عالم کی صف میں قدیم تہذیب فراعین مصر کو سرفہرست رکھے تو شاید وہ کچھ غلط بھی نہ ہوگا، چونکہ اس تہذیب کی داغ بیل قبل از تاریخ میں ڈالی گئی تھی اور لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال تک یہ تہذیب چاروں عالم اپنا دبدبہ قائم کیے رہی۔
ایساصدیوں پر مشتمل استحکام اقوام عالم کے کسی انسانی گروہ سے متعلق تہذیب یا ان کے تمدنی نظام کو حاصل نہیں ہوسکا۔ موجودہ جدید عالمی چلن ہی کی طرح اس تمدنی نظام میں بھی اپنے معاشی فوائد کی خاطر ہر ایک کو کچل کر گزرنے کا چلن تھا۔ یہ تہذیب صدیوں تک تذلیل انسانیت کا سب سے بڑا عملی مظاہرہ بنی رہی اور ''بازار مصر'' کسی جنس کی طرح انسانوں کی خرید و فروخت کا مرکز بنا رہا تھا۔ اسی لیے انسانوں کے حالیہ مشترکہ ارتقائی مرحلے پر ''فرعونیت''کو ظلم و جبر اور انسانیت سوز اعمال کی سب سے خوبصورت اصطلاح کے طور پر قبول کیا جاچکا ہے۔
قابل غور پہلو یہ کہ موجودہ جدید تہذیب کی خالق استعماری قوم کو اسی تہذیب کے معلوم عرصے میں اپنے قومی تشکیل کے ابتدائی مراحل کے دوران اپنے اسلاف کی عظمتوں کے اظہار کے لیے عالم انسانیت کی مشترکہ ویکساں فطرت و جبلت کے عملی مظاہروں کو تاریخ میں رقم کرتے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس کی روشنی میں موجودہ جدید تہذیب اور اقوام عالم پر لاگو بھیانک معروضی حالات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔کتنی حیرت انگیز مماثلت ہے کہ جس طرح مادی نظریات پر مشتمل موجودہ مغربی تہذیب اپنے شباب پر ہے تو موسمیاتی تبدیلیوں نے اس تہذیب اور اس سے متعلق مادی نظریات کی حقیقت کھولنے کا بہت سارا سامان کیا ہوا ہے۔
بالکل اسی طرح تہذیب فراعین بھی اپنی تمام تر فضیلتوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلوں کے سامنے جب سرنگوں ہونے لگی تھی تو تاریخ کے اس مقام پر قدیم ارض کنعان سے ہجرت کرنے والا ایک خاندان بنی اسرائیل کے تشخص سے مصر میں وارد ہوا تھا۔اس خاندان کی جانب سے کی جانے والی اس ہجرت کے بنیادی وجوہات و اسباب کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم تہذیبوں و قوموں کی ابتداء، تہذیبوں کے اجزائے ترکیبی، انسان کے فطری،جبلی و سفلی جذبات اور ان کے زیر سایہ ان کی ترجیحات و ترغیبات کے لازمی و حتمی نتائج کو اپنی وسیع النظری وترقی پسندی کے ساتھ بہت سی آسانی سے ملاحظہ کرسکتا ہے کہ جس رہبر ورہنماء نے پر امن طریقے سے مصر میں ساڑھے تین ہزار سال سے جاری توانا فرعونیت اور اس کی غلاموں پر مبنی تہذیب کا خاتمہ کردیا تھا۔
تو بلآخر وہ کیا اسباب ہوئے کہ آنے والی پانچ صدیوں کے بعد ختم شدہ فراعین کا پھر سے نہ صرف وجود عمل میں لایا جانا ممکن ہوا بلکہ اب کی بار اس تہذیب کا تمام تر بوجھ ان ہی کے اسی خاندان سے متعلق افراد کو غلام بنانے پر منحصر دکھائی دیا جانے لگا؟ جو ان پانچ صدیوں کے عرصے میں خاندان سے ایک قوم کی شکل میں تبدیل ہو چکا تھا۔
ان تفصیلات کی روشنی میں ہم برملہ طور کہہ سکتے ہیں کہ اس قوم نے اپنے اسلاف کی تعلیمات اور نظریات سے روگردانی کرکے اس وقت کی جدید فرعونی تہذیب کے تمام مادی نظریات خود پر لاگو کیے ہوئے تھے۔ یعنی وہ بھی بالکل اسی طرح فرعونی تہذیب کے اعمال و افکار سے خود کو ترقی یافتہ اور مہذب ثابت کرنے پر تل گئے تھے۔ جس طرح معروضی حالات میں اقوام عالم استعماریت کے متعارف کردہ مادی نظریات و افکار کو اپنانے میں پر جوش دکھائی دی جانے لگی ہیں۔
شاید استعماری قوم کا تہذیب فراعین سے یہ اسی لگاؤ کا ہی تسلسل ہے کہ جس کے عملی اظہار میں ان کے مفکرین نے اقوام عالم کی محبوب ترین مادی ضرورت یعنی ''امریکی ڈالر''پر مدفعین فراعین یعنی Pyramid کو کندہ کیا ہوا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ موجودہ دنیا میں برابری و انصاف کی سب سے بڑی داعی ریاست و قومیت نے تاریخ انسانی میں ظلم و جبر کی سب سے بڑی علامت کو اپنی معاشی استحکام کی علامت کے طور اقوام عالم میں فخریہ طور متعارف کرایا ہوا ہے؟ جس کے عملی اثرات میں ہم کرہ ارض کے کونے کونے میں تہذیب و شائستگی کے دعویداروں کی پھیلائی گئی فرعونیت کا جاری ننگا ناچ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
یورپی نشاط ثانیہ کے دوران اقوام عالم کی تاریخ کو جس انداز میں ترتیب دیا جا چکا ہے اس کی روشنی میں ہم اقوام عالم کی انفرادی زندگی کے نفیس و باریک گوشوں کو تو ملاحظہ کرسکتے ہیں، لیکن عالم انسانیت کے مشترکہ مسائل کا کوئی قابل عمل اورمثبت نتائج پر مشتمل حل دریافت کرنا لگ بھگ ناممکنات میں ہے۔کیونکہ اگر ان مادی نظریات میں اس قسم کی ہلکی سی بھی تاثیر ہوتی تو گزشتہ پانچ صدیوں سے جاری ان کوششوں کے عملی مظاہر میں اقوام عالم جبلی و سفلی جذبات سے مغلوب ہوکر باہم دست و گریباں ہو کر انتشار و تقسیم میں شدت اختیار کرتی دکھائی نہ دیتیں۔
تاریخ کے طالب علم کے لیے بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ انسان میں جبلی وسفلی جذبات کی بنیادوں پر مبنی تہذیب فراعین کی مکمل تباہی کے بعد بابل کی بخت نصری تہذیب کی قدیم ارض کنعان (فلسطین ) پرجارحانہ وسعت اور قتل وغارت گری، تہذیب فارس کی استبدادیت کا بابل، یونان ایتھنز اور اسپارٹا تک بربریت پر مشتمل پھیلاؤ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح کرہ ارض پر قدیم بابل سے ارض کنعان تک اور قدیم فارس سے قدیم بابل اور قدیم تہذیب روم تک انسانی وجود سے حرکت کرتی ایک لکیر کو بنتے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ گریٹ الیگزینڈر (سکندر اعظم) کی فتوحات کی صورت اس لکیر کا قدیم یونان سے نکل کر ایک طرف تہذیب فراعین مصر و فلسطین دوسری طرف تہذیب فارس تک پھیلاو ٔکو دیکھا جا سکتا ہے۔
انسانوں کی اس قسم کی جارحانہ کارروائیوں کے نتیجے میں کرہ اض پر ایک طرف یونان سے فارس دوسری طرف تہذیب فراعین مصر تک، جب کہ قدیم فارس سے قدیم تہذیب فراعین تک براستہ تہذیب بابل انسانی جارحانہ کارروائیوں کے نتیجے میں بلاشبہ تاریخ کے وسیع ترین کینوس پر ایک ایسا تکون بنتا دکھائی دیتا ہے جو انسان کے جبلی و سفلی جذبات کا مرہون منت رہاہے۔ ورطہ حیرت میں ڈالنے کی بات کہ معروضی حالات کے پیش نظر اس تکون کی لکیروں میں آج بھی وہ دیوتائی جارحانہ بربریت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ نماء ہے۔
تاریخ کے طالب علم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہے کہ انسان کے انفرادی استحکام وبرتری کے بے لگام جبلی و سفلی جذبات نے تاریخ کی ان 25 صدیوں کو خون و آگ میں نہلا نے کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر ایک تکون لکیر کھینچنے کے سوا کچھ بھی نہیں دیا جا سکا۔کیونکہ اس قسم کی سوچ اور طرز حیات اپنانے سے رشتوں کا تقدس سب سے پہلے پامال ہوتا ہے۔ جس کی سب سے خوبصورت مثال کے طور جناب اسرائیل (یعقوب نبی ؑ) کے ان دس بیٹوں کی جانب سے اپنے ہی بھائی سے روا رکھے جانے والے برتاؤ کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ جن دس بیٹوں کی اولاد یں آج استعماری قوم کی شکل اختیار کر چکی ہیں توکیا استعماریت کی متعارف کردہ جدید مغربی تہذیب میں رشتوں کو تقدس حاصل ہے یا مادی مفادات اور ذاتی برتری حاصل کرنے کی خواہش ان سے زیادہ متبرک سمجھے جاتے ہیں؟
(جاری ہے)