ایک لافانی ستارہ… ڈاکٹر روتھ فاؤ
کسی نے اسے ’’ماندگی کا وقفہ‘‘ کہا اور کسی نے ’’کشاد در دل‘‘، کسی نے جانتے بوجھتے ہوئے زہر کا پیالہ پی کر اسے شکست دی
لاہور:
موت اس کائنات اور ہماری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سہی لیکن اہل نظر لوگوں نے کبھی اسے زندگی کے اختتام کا ہم معنی نہیں سمجھا۔ کسی نے اسے ''ماندگی کا وقفہ'' کہا اور کسی نے ''کشاد در دل''، کسی نے جانتے بوجھتے ہوئے زہر کا پیالہ پی کر اسے شکست دی اور کسی نے نواسۂ رسول حسین ابن علیؓ کی طرح اسے یوں بڑھ کر گلے لگایا کہ رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کرگئے اور ان کے ساتھ ساتھ تاریخ کے ہر دور میں اور ہر قوم میں ایسے روشن نام بھی زندہ جاوید ہوگئے جنھوں نے اپنی زندگیاں خدمت انسانی کے عظیم جذبے کی نذر کردیں اور انسانوں کی محبت نے ان کی فانی زندگیوں کو اس طرح سے غیر فانی بنا دیا کہ بقول شاعر
''ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق''
دور حاضر میں ڈاکٹر روتھ فاؤ بھی مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی کی طرح ایک ایسی ہی لافانی انسان تھیں کہ جن کے جسم تو قانون قدرت کے تحت رزق خاک ہوجاتے ہیں مگر جو لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ اور موجود رہتے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ نے جب بھری جوانی میں اپنے وطن جرمنی کو چھوڑا تو شاید خود ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اب ان کی باقی کی ساری زندگی ایک نو آزاد پسماندہ اور مسائل سے بھرے ایسے ملک میں گزرے گی جس کی زبان، کلچر، تہذیب اور ماحول ان کے لیے اجنبی ہوں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کے شب و روز ایسے لوگوں کے درمیان کٹیں گے جن کے اپنے بھی ان سے منہ موڑ چکے ہوں گے اور جن کو چھونا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مصداق ہوگا۔
انھوں نے اپنی ساری زندگی کوڑھ اور جذام کے ان مریضوں کے علاج اور خدمت میں گزار دی جن کے ساتھ رہنا تو کجا کوئی ان کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کس اصول کے تحت پیدا ہوتے اور کسی بھی طرح کی نمائش اور تحسین سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگیاں رنگ، نسل، مذہب اور زبان کی تفریق سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف اللہ کے بندوں کی خدمت میں صرف کردیتے ہیں۔ یہ راز بلیک ہول کی نوعیت اور آغاز سے بھی زیادہ پراسرار ہے۔ وہ کیسا جذبہ اور کیسی تڑپ ہے جو ان کو ہر مصلحت اور خوف سے بے نیاز کردیتی ہے۔ نہ انھیں ستائش کی تمنا ہوتی ہے اور نہ صلے کی پروا۔
خواجہ میر درد نے بالکل صحیح کہا تھا کہ ''ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں''
مگر امر واقعہ یہی ہے کہ بہت کم لوگ ''درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو'' کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور ان میں سے بہت کم، بہت ہی کم ایسے ہیں جنھیں ڈاکٹر روتھ فاؤ کی صف میں کھڑا کیا جاسکے۔ سیاسی ہل چل اور شور شرابے کے اس ہنگامہ میں اس عظیم انسانی اور قومی نقصان کو جو ڈاکٹر روتھ فاؤ کی رحلت کی شکل میں سامنے آیا ہے وہ توجہ نہیں دی جاسکی جس کی یہ ''خبر'' مستحق تھی، لیکن چلیے قدرے دیر سے ہی سہی ہمارے میڈیا، اہل سیاست دانشوروں اور عامۃ الناس میں اس کی اہمیت کا احساس کچھ کچھ جاگ تو گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بادشاہوں، فاتحین اور حاکمان وقت کے بجائے ڈاکٹر روتھ، مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی جیسے لوگوں کی زندگیوں اور کارناموں کو نصابی کتابوں کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہمارے بچے ان کی معرفت ان انسانی اقدار سے متعارف اور متاثر ہوسکیں جو آدمی کو انسان اور انسان کو اس منصب پر فائز کرتی ہیں جو رب کریم کے بہت خاص بندوں کو حاصل ہوتا ہے اور جن کی تقلید سے زندگی اپنے اصل مقصد سے آشنا اور ہمکنار ہوتی ہے۔
برادرم اکرم ملک کا عمومی تعارف تو ایک سینئر سابق بیورو کریٹ کا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ بیک وقت اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شاعری بھی کررہے ہیں۔ ان سے تقریباً چار دہائیاں پہلے بھائی طارق محمود کی معرفت تعارف ہوا تھا جو اب باہمی محبت کے ایک چھتنار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ انھوں نے انگریزی میں ڈاکٹر روتھ پر ایک نظم لکھی ہے جس کا میں نے قدرے آزاد ترجمہ کیا ہے اور یوں اس ادائے فرض میں کسی حد تک شامل ہوگیا ہوں جو اصل میں پوری پاکستانی قوم اور بالخصوص اہل قلم پر قرض ہے کہ کسی محسن اور اس کے احسان کو یاد رکھنا بھی فرض عبادت کی طرح ہوتا ہے جسے اپنے وقت پر ہی ادا کیا جائے تو زیادہ اچھا لگتا ہے۔ آئیے اکرم ملک کی آواز میں آواز ملا کر ڈاکٹر روتھ کو یہ نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہماری اپنی روتھ کی یاد میں
مت جاؤ فرشتے، مت جاؤ
دیکھو پورا ملک چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے
کہ تم نے اپنی زندگی کا بہترین اور بہت بڑا حصہ
ہم پر نچھاور کردیا ہے
اپنی جنم دھرتی اور اپنی جڑوں کو چھوڑ کر
اپنی جوانی اور اپنے خوابوں سے منہ موڑ کر
تم نے عمر بھر کا ایک رشتہ جوڑا
میرے وطن کے ان کوڑھ زدہ لوگوں سے
جنھیں کوئی بھی چھونے کو تیار نہیں تھا
(ان کے اپنے خونی رشتے بھی نہیں)
تم نے اُن سے محبت کی، اُن کی خدمت کی
اور عمر بھر ان کی مسیحائی کرتے رہے
تمہاری ہڈیاں جواب دے گئیں مگر حوصلہ ہمیشہ سلامت رہا
تم اس پاک وطن میں بھی پاک ترین تھے
ایک آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والی روشنی
اور خوشبو بکھیرتی شمع کی طرح
ایک رنگ رنگ کے پھولوں سے بھرے گلدستے کی طرح
تم زندہ ہو اور زندہ رہوگے
ٹوٹنے اور گرنے کے خوف سے آزاد
اس آسمان پر جگمگاتے لاکھوں ستاروں کے انبوہ میں
سب سے الگ اور منفرد
سورج، چاند اور قوس قزح کے رنگوں میں
شبنم کے قطروں اور بارش کی رم جھم میں
تم زندہ رہو گے
ہمارے آنسوؤں اور ہماری امیدوں میں
ہمارے زخموں کی ٹیسوں اور دلوں کی دھڑکنوں میں
وقت کی گرفت سے باہر
ہمیشہ... ہمیشہ کے لیے
موت اس کائنات اور ہماری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سہی لیکن اہل نظر لوگوں نے کبھی اسے زندگی کے اختتام کا ہم معنی نہیں سمجھا۔ کسی نے اسے ''ماندگی کا وقفہ'' کہا اور کسی نے ''کشاد در دل''، کسی نے جانتے بوجھتے ہوئے زہر کا پیالہ پی کر اسے شکست دی اور کسی نے نواسۂ رسول حسین ابن علیؓ کی طرح اسے یوں بڑھ کر گلے لگایا کہ رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کرگئے اور ان کے ساتھ ساتھ تاریخ کے ہر دور میں اور ہر قوم میں ایسے روشن نام بھی زندہ جاوید ہوگئے جنھوں نے اپنی زندگیاں خدمت انسانی کے عظیم جذبے کی نذر کردیں اور انسانوں کی محبت نے ان کی فانی زندگیوں کو اس طرح سے غیر فانی بنا دیا کہ بقول شاعر
''ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بہ عشق''
دور حاضر میں ڈاکٹر روتھ فاؤ بھی مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی کی طرح ایک ایسی ہی لافانی انسان تھیں کہ جن کے جسم تو قانون قدرت کے تحت رزق خاک ہوجاتے ہیں مگر جو لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ اور موجود رہتے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ نے جب بھری جوانی میں اپنے وطن جرمنی کو چھوڑا تو شاید خود ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اب ان کی باقی کی ساری زندگی ایک نو آزاد پسماندہ اور مسائل سے بھرے ایسے ملک میں گزرے گی جس کی زبان، کلچر، تہذیب اور ماحول ان کے لیے اجنبی ہوں گے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کے شب و روز ایسے لوگوں کے درمیان کٹیں گے جن کے اپنے بھی ان سے منہ موڑ چکے ہوں گے اور جن کو چھونا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مصداق ہوگا۔
انھوں نے اپنی ساری زندگی کوڑھ اور جذام کے ان مریضوں کے علاج اور خدمت میں گزار دی جن کے ساتھ رہنا تو کجا کوئی ان کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کس اصول کے تحت پیدا ہوتے اور کسی بھی طرح کی نمائش اور تحسین سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگیاں رنگ، نسل، مذہب اور زبان کی تفریق سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف اللہ کے بندوں کی خدمت میں صرف کردیتے ہیں۔ یہ راز بلیک ہول کی نوعیت اور آغاز سے بھی زیادہ پراسرار ہے۔ وہ کیسا جذبہ اور کیسی تڑپ ہے جو ان کو ہر مصلحت اور خوف سے بے نیاز کردیتی ہے۔ نہ انھیں ستائش کی تمنا ہوتی ہے اور نہ صلے کی پروا۔
خواجہ میر درد نے بالکل صحیح کہا تھا کہ ''ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں''
مگر امر واقعہ یہی ہے کہ بہت کم لوگ ''درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو'' کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور ان میں سے بہت کم، بہت ہی کم ایسے ہیں جنھیں ڈاکٹر روتھ فاؤ کی صف میں کھڑا کیا جاسکے۔ سیاسی ہل چل اور شور شرابے کے اس ہنگامہ میں اس عظیم انسانی اور قومی نقصان کو جو ڈاکٹر روتھ فاؤ کی رحلت کی شکل میں سامنے آیا ہے وہ توجہ نہیں دی جاسکی جس کی یہ ''خبر'' مستحق تھی، لیکن چلیے قدرے دیر سے ہی سہی ہمارے میڈیا، اہل سیاست دانشوروں اور عامۃ الناس میں اس کی اہمیت کا احساس کچھ کچھ جاگ تو گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بادشاہوں، فاتحین اور حاکمان وقت کے بجائے ڈاکٹر روتھ، مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی جیسے لوگوں کی زندگیوں اور کارناموں کو نصابی کتابوں کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہمارے بچے ان کی معرفت ان انسانی اقدار سے متعارف اور متاثر ہوسکیں جو آدمی کو انسان اور انسان کو اس منصب پر فائز کرتی ہیں جو رب کریم کے بہت خاص بندوں کو حاصل ہوتا ہے اور جن کی تقلید سے زندگی اپنے اصل مقصد سے آشنا اور ہمکنار ہوتی ہے۔
برادرم اکرم ملک کا عمومی تعارف تو ایک سینئر سابق بیورو کریٹ کا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ بیک وقت اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شاعری بھی کررہے ہیں۔ ان سے تقریباً چار دہائیاں پہلے بھائی طارق محمود کی معرفت تعارف ہوا تھا جو اب باہمی محبت کے ایک چھتنار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ انھوں نے انگریزی میں ڈاکٹر روتھ پر ایک نظم لکھی ہے جس کا میں نے قدرے آزاد ترجمہ کیا ہے اور یوں اس ادائے فرض میں کسی حد تک شامل ہوگیا ہوں جو اصل میں پوری پاکستانی قوم اور بالخصوص اہل قلم پر قرض ہے کہ کسی محسن اور اس کے احسان کو یاد رکھنا بھی فرض عبادت کی طرح ہوتا ہے جسے اپنے وقت پر ہی ادا کیا جائے تو زیادہ اچھا لگتا ہے۔ آئیے اکرم ملک کی آواز میں آواز ملا کر ڈاکٹر روتھ کو یہ نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہماری اپنی روتھ کی یاد میں
مت جاؤ فرشتے، مت جاؤ
دیکھو پورا ملک چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے
کہ تم نے اپنی زندگی کا بہترین اور بہت بڑا حصہ
ہم پر نچھاور کردیا ہے
اپنی جنم دھرتی اور اپنی جڑوں کو چھوڑ کر
اپنی جوانی اور اپنے خوابوں سے منہ موڑ کر
تم نے عمر بھر کا ایک رشتہ جوڑا
میرے وطن کے ان کوڑھ زدہ لوگوں سے
جنھیں کوئی بھی چھونے کو تیار نہیں تھا
(ان کے اپنے خونی رشتے بھی نہیں)
تم نے اُن سے محبت کی، اُن کی خدمت کی
اور عمر بھر ان کی مسیحائی کرتے رہے
تمہاری ہڈیاں جواب دے گئیں مگر حوصلہ ہمیشہ سلامت رہا
تم اس پاک وطن میں بھی پاک ترین تھے
ایک آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والی روشنی
اور خوشبو بکھیرتی شمع کی طرح
ایک رنگ رنگ کے پھولوں سے بھرے گلدستے کی طرح
تم زندہ ہو اور زندہ رہوگے
ٹوٹنے اور گرنے کے خوف سے آزاد
اس آسمان پر جگمگاتے لاکھوں ستاروں کے انبوہ میں
سب سے الگ اور منفرد
سورج، چاند اور قوس قزح کے رنگوں میں
شبنم کے قطروں اور بارش کی رم جھم میں
تم زندہ رہو گے
ہمارے آنسوؤں اور ہماری امیدوں میں
ہمارے زخموں کی ٹیسوں اور دلوں کی دھڑکنوں میں
وقت کی گرفت سے باہر
ہمیشہ... ہمیشہ کے لیے