لیاقت باغ
لیاقت علی خاں چار سال تک وزیراعظم رہ کر 16 اکتوبر 1951ء کے دن راولپنڈی گراؤنڈ میں شہید ہو گئے۔
پھر راولپنڈی شہر کے مرکز میں واقع گراؤنڈ کا نام لیاقت باغ رکھ دیا گیا۔ قیام پاکستان کے صرف چار سال بعد ایک جنونی نے ملک کے اس وزیراعظم کو گولی مار کر شہید کر دیا جو محمد علی جناح کا ساتھی اور معتمد خاص تھا۔ جناح صاحب کو ہم قائداعظم اور لیاقت علی خاں کو قائد ملت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ دونوں یکے بعد دیگرے ملک عدم کو سدھارے تو ایک طویل عرصہ تک ان کا ایک ساتھی فارن منسٹر ظفر اللہ خاں حکومت میں شامل رہا پھر وہ بھی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں شامل ہو کر ملک چھوڑ گیا۔ ان کے بعد نظر دوڑائیں تو ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کون ہے جو عالمی سطح پر جانا اور مانا جاتا ہے۔
لیاقت علی خاں ایک نوابزادہ علی گڑھ اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور بیرسٹر تھے۔ اوالذکر تینوں شخصیات بیرسٹر اور پیشے کے لحاظ سے وکیل تھیں۔ تینوں آل انڈیا مسلم لیگی تھیں اور ایک جیسی سوچ کی حامل تھیں۔ لیاقت علی خاں یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال میں پیدا ہوئے اور چار سال تک وزیراعظم رہ کر 16 اکتوبر 1951ء کے دن راولپنڈی گراؤنڈ میں جلسہ عام میں تقریر کرنے کے دوران شہید ہو گئے۔ وہ 1923ء میں عملی سیاست میں آ کر جناح صاحب کی تحریک سے منسلک ہوئے اور ملک کے پہلے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔
مجھے لیاقت باغ راولپنڈی ایک سے زیادہ وجوہات کی بناء پر یاد آیا۔ اس گراؤنڈ میں، میں نے دو بار بحیثیت مجسٹریٹ انتظامی ڈیوٹی دی ہے۔ پہلی بار جنرل یحییٰ خاں کا فنکشن تھا تو میں تھک کر ایک صوفے پر جا بیٹھا کیونکہ تقریب میں ابھی کچھ دیر تھی۔ میرا ایک افسر تیزی سے چلتا ہوا میری طرف آیا اور کہا ''یہ صوفہ خالی کر دو کہیں اور جا بیٹھو'' میں نے پوچھا ''کیوں'' تو انھوں نے کہا ''یہ صوفہ جنرل رانی کے لیے مخصوص ہے''۔ مجھے اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ جنرل رانی کون ہے۔ میری بطور سٹی مجسٹریٹ 1980ء میں گجرات پوسٹنگ ہوئی تو ڈنر کی دعوت پر معلوم ہوا کہ موصوفہ کون ہیں۔
لیاقت باغ میں بھٹو کے عوامی جلسے اور خطاب کے دوران ڈیوٹی دی تو بھٹو صاحب کو پہلی بار دیکھا۔ اسی جلسہ میں بھٹو صاحب نے سامعین سے حیات محمد خاں شیرپاؤ اور خورشید حسن سے میرا تعارف کرایا جب کہ نیلام گھر والے ٹی وی پروگرام کے میزبان طارق عزیز نے مجمع کو گرمانے کے لیے ''بھٹو دے نعرے وجن گے'' جیسے اور بہت سی معروف شخصیات کے ساتھ ''ٹھاہ'' لگا کر نعرے لگوائے جن کا یہاں تحریر کیا جانا مناسب نہیں۔
اور یہی وہ لیاقت باغ راولپنڈی کی گراؤنڈ تھی جس میں طویل جلاوطنی کے بعد بھٹو کی دوبار ملک کی وزیراعظم منتخب ہونے والی بیٹی بے نظیر بھٹو نے 27 دسمبر 2007ء کو عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کیا اور مسکراتے ہوئے بوقت روانگی کار میں سے سر نکال کر لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں کہ گھات لگائے ہوئے قاتل نے پروگرام اور پلان کے تحت انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے سید اکبر کو تو اسی جگہ فوراً ہی مار ڈالا گیا تھا تاکہ شہید ملت کے قتل کی پلاننگ کرنے والے کا سراغ نہ مل سکے۔
جناح صاحب کو بھی ایمبولینس کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے کراچی میں اسپتال تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے آخری سانسیں سڑک پر آئیں۔ قائداعظم اور شہید ملت کے ساتھ ہمارا یہ سلوک دانستہ تھا یا اتفاقیہ، یہ آج تک سوالیہ نشان ہے اور ہمارا ایک وزیراعظم تیسری بار نکالے جانے پر بھرائی ہوئی آواز میں لوگوں سے بار بار پوچھ رہا ہے کہ ''مجھے کیوں نکالا'' لیکن وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی مخاطب ہے کہ
''چنا ہوں میں آہن کا مت بھول جاؤ
جو ہمت ہے تم میں چبا کر دکھاؤ
سمجھنا نہ ہرگز مجھے تر نوالہ
مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا''
میاں نواز شریف تواتر سے عدالت پر تنقید کر رہے ہیں کہ ان کا دامن ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور انھیں تیسری بار حکومت سے کسی نادیدہ طاقت کے اشارے پر نکالا اور تاحیات نااہل کیا گیا ہے لیکن وہ مسلسل یہ بیان بھی دے رہے ہیں کہ وہ سینے میں دبے رازوں پر سے پردہ اٹھا دیں تو بھونچال آ جائے۔ میاں صاحب دو بار وزیراعلیٰ، تین بار وزیراعظم رہے جب کہ شہباز شریف کا پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تیسرا اور اگر وائیں صاحب کے عہد میں ان کی پس پردہ حکومت شامل کر لیں تو چوتھا دور ہے یعنی ہر دو برادران کا آٹھواں یا نواں دور حکمرانی ہے۔
پاکستان تو کیا اس صدی کا ایک طویل ترین عہد حکمرانی ہے۔ دونوں برادران نے بیورو کریسی کو ''بُورا کریسی'' میں تبدیل کر چھوڑا ہے۔ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا کہ سترہ سال قبل میں نے برادرخورد کا ایک منافع رساں کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومتی پالیسی دکھانے کے لیے گزٹ نوٹیفکیشن ان کے سامنے کیا تو انھوں نے اسے زور دار تھپڑ رسید کر کے چھ فٹ دور گرا دیا تھا اور دلچسپ بات کہ کروڑوں کا وہ منافع بخش کام آج تک نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکے گا۔
بات چلی تھی ملک کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں کی راولپنڈی شہر کی مرکزی گراؤنڈ میں تقریر کے دوران شہادت سے، جس کے ملزم کو کیس ٹھپ کرنے کے لیے اسی وقت وہیں پر گولی مار دی گئی تھی جب کہ سابق وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ اور ان پر چلنے والے مقدمات کی بنیاد بننے والا ریکارڈ عدالتوں میں پیش ہو گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم اور چند روز قبل عدالتی حکم پر نااہل کیے گئے وزیراعظم کے انجام کا موازنہ کریں تو ہمیں آج تک معلوم نہیں کہ ہمارا پہلا وزیراعظم کیوں مارا گیا جب کہ آخری منتخب وزیراعظم ہم سے پوچھتا ہے کہ ''مجھے کیوں نکالا۔''
میں نے 13 اگست 2017ء کو لیاقت باغ راولپنڈی والا شیخ رشید ایم این اے کا PTI کے اشتراک سے ہونے والا جلسہ ٹی وی اسکرین پر دیکھا تو دو باتیں یاد آئیں۔ پہلی یہ کہ شیخ رشید اسٹوڈنٹ پولی ٹیکنیک کالج ایجی ٹیشن کرتے ہوئے 107/151 ضابطہ فوجداری کے تحت گرفتار ہوا تو ضمانت میں نے لی تھی۔ دوسری یہ کہ لیاقت علی خاں صاحب کے وارثان نے ان کی خون آلود شیروانی حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تو میں نے اسے نامنظور کیا تھا اور وزیراعظم کی خون آلود شیروانی محفوظ ہونے کے بعد اس وقت پولیس میوزیم میں موجود ہے۔
لیاقت علی خاں ایک نوابزادہ علی گڑھ اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور بیرسٹر تھے۔ اوالذکر تینوں شخصیات بیرسٹر اور پیشے کے لحاظ سے وکیل تھیں۔ تینوں آل انڈیا مسلم لیگی تھیں اور ایک جیسی سوچ کی حامل تھیں۔ لیاقت علی خاں یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال میں پیدا ہوئے اور چار سال تک وزیراعظم رہ کر 16 اکتوبر 1951ء کے دن راولپنڈی گراؤنڈ میں جلسہ عام میں تقریر کرنے کے دوران شہید ہو گئے۔ وہ 1923ء میں عملی سیاست میں آ کر جناح صاحب کی تحریک سے منسلک ہوئے اور ملک کے پہلے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔
مجھے لیاقت باغ راولپنڈی ایک سے زیادہ وجوہات کی بناء پر یاد آیا۔ اس گراؤنڈ میں، میں نے دو بار بحیثیت مجسٹریٹ انتظامی ڈیوٹی دی ہے۔ پہلی بار جنرل یحییٰ خاں کا فنکشن تھا تو میں تھک کر ایک صوفے پر جا بیٹھا کیونکہ تقریب میں ابھی کچھ دیر تھی۔ میرا ایک افسر تیزی سے چلتا ہوا میری طرف آیا اور کہا ''یہ صوفہ خالی کر دو کہیں اور جا بیٹھو'' میں نے پوچھا ''کیوں'' تو انھوں نے کہا ''یہ صوفہ جنرل رانی کے لیے مخصوص ہے''۔ مجھے اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ جنرل رانی کون ہے۔ میری بطور سٹی مجسٹریٹ 1980ء میں گجرات پوسٹنگ ہوئی تو ڈنر کی دعوت پر معلوم ہوا کہ موصوفہ کون ہیں۔
لیاقت باغ میں بھٹو کے عوامی جلسے اور خطاب کے دوران ڈیوٹی دی تو بھٹو صاحب کو پہلی بار دیکھا۔ اسی جلسہ میں بھٹو صاحب نے سامعین سے حیات محمد خاں شیرپاؤ اور خورشید حسن سے میرا تعارف کرایا جب کہ نیلام گھر والے ٹی وی پروگرام کے میزبان طارق عزیز نے مجمع کو گرمانے کے لیے ''بھٹو دے نعرے وجن گے'' جیسے اور بہت سی معروف شخصیات کے ساتھ ''ٹھاہ'' لگا کر نعرے لگوائے جن کا یہاں تحریر کیا جانا مناسب نہیں۔
اور یہی وہ لیاقت باغ راولپنڈی کی گراؤنڈ تھی جس میں طویل جلاوطنی کے بعد بھٹو کی دوبار ملک کی وزیراعظم منتخب ہونے والی بیٹی بے نظیر بھٹو نے 27 دسمبر 2007ء کو عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کیا اور مسکراتے ہوئے بوقت روانگی کار میں سے سر نکال کر لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں کہ گھات لگائے ہوئے قاتل نے پروگرام اور پلان کے تحت انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے سید اکبر کو تو اسی جگہ فوراً ہی مار ڈالا گیا تھا تاکہ شہید ملت کے قتل کی پلاننگ کرنے والے کا سراغ نہ مل سکے۔
جناح صاحب کو بھی ایمبولینس کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے کراچی میں اسپتال تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے آخری سانسیں سڑک پر آئیں۔ قائداعظم اور شہید ملت کے ساتھ ہمارا یہ سلوک دانستہ تھا یا اتفاقیہ، یہ آج تک سوالیہ نشان ہے اور ہمارا ایک وزیراعظم تیسری بار نکالے جانے پر بھرائی ہوئی آواز میں لوگوں سے بار بار پوچھ رہا ہے کہ ''مجھے کیوں نکالا'' لیکن وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی مخاطب ہے کہ
''چنا ہوں میں آہن کا مت بھول جاؤ
جو ہمت ہے تم میں چبا کر دکھاؤ
سمجھنا نہ ہرگز مجھے تر نوالہ
مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا''
میاں نواز شریف تواتر سے عدالت پر تنقید کر رہے ہیں کہ ان کا دامن ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے اور انھیں تیسری بار حکومت سے کسی نادیدہ طاقت کے اشارے پر نکالا اور تاحیات نااہل کیا گیا ہے لیکن وہ مسلسل یہ بیان بھی دے رہے ہیں کہ وہ سینے میں دبے رازوں پر سے پردہ اٹھا دیں تو بھونچال آ جائے۔ میاں صاحب دو بار وزیراعلیٰ، تین بار وزیراعظم رہے جب کہ شہباز شریف کا پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تیسرا اور اگر وائیں صاحب کے عہد میں ان کی پس پردہ حکومت شامل کر لیں تو چوتھا دور ہے یعنی ہر دو برادران کا آٹھواں یا نواں دور حکمرانی ہے۔
پاکستان تو کیا اس صدی کا ایک طویل ترین عہد حکمرانی ہے۔ دونوں برادران نے بیورو کریسی کو ''بُورا کریسی'' میں تبدیل کر چھوڑا ہے۔ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا کہ سترہ سال قبل میں نے برادرخورد کا ایک منافع رساں کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومتی پالیسی دکھانے کے لیے گزٹ نوٹیفکیشن ان کے سامنے کیا تو انھوں نے اسے زور دار تھپڑ رسید کر کے چھ فٹ دور گرا دیا تھا اور دلچسپ بات کہ کروڑوں کا وہ منافع بخش کام آج تک نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکے گا۔
بات چلی تھی ملک کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں کی راولپنڈی شہر کی مرکزی گراؤنڈ میں تقریر کے دوران شہادت سے، جس کے ملزم کو کیس ٹھپ کرنے کے لیے اسی وقت وہیں پر گولی مار دی گئی تھی جب کہ سابق وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ اور ان پر چلنے والے مقدمات کی بنیاد بننے والا ریکارڈ عدالتوں میں پیش ہو گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم اور چند روز قبل عدالتی حکم پر نااہل کیے گئے وزیراعظم کے انجام کا موازنہ کریں تو ہمیں آج تک معلوم نہیں کہ ہمارا پہلا وزیراعظم کیوں مارا گیا جب کہ آخری منتخب وزیراعظم ہم سے پوچھتا ہے کہ ''مجھے کیوں نکالا۔''
میں نے 13 اگست 2017ء کو لیاقت باغ راولپنڈی والا شیخ رشید ایم این اے کا PTI کے اشتراک سے ہونے والا جلسہ ٹی وی اسکرین پر دیکھا تو دو باتیں یاد آئیں۔ پہلی یہ کہ شیخ رشید اسٹوڈنٹ پولی ٹیکنیک کالج ایجی ٹیشن کرتے ہوئے 107/151 ضابطہ فوجداری کے تحت گرفتار ہوا تو ضمانت میں نے لی تھی۔ دوسری یہ کہ لیاقت علی خاں صاحب کے وارثان نے ان کی خون آلود شیروانی حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تو میں نے اسے نامنظور کیا تھا اور وزیراعظم کی خون آلود شیروانی محفوظ ہونے کے بعد اس وقت پولیس میوزیم میں موجود ہے۔