مسئلہ کشمیر پر اچکزئی اور مینگل کے تازہ خیالات 

سب کو معلوم ہے کہ وہ ایسی غیر حقیقی بات کہہ کر کسے خوش کرنا اور کسے چڑانا چاہتے ہیں؟

tanveer.qaisar@express.com.pk

سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعدپاکستان کے سیاسی حالات میں ایک نئی ہلچل پیدا ہُوئی ہے۔ یقینی طور پرنواز شریف صاحب اپنے خلاف عدالتی فیصلہ آنے سے مجروح ہیں۔ یہ غیر فطری بھی نہیں ہے ۔میاں صاحب اور سینیٹر پرویز رشید نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو جو تازہ ترین انٹرویوز دیے ہیں، ان میں اشاروں کنایوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ناراضی کا آہنگ محسوس کیا جارہا ہے۔

اِس ضمن میں جب اُن سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نام لے کر اپنی ناراضی اور غصے کا اظہار کیوں نہیں کرتے تو وہ کہتے ہیں: ابھی وقت نہیں آیا ہے۔یہ مناظر کشیدہ حالات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔یوں سماج میں انتشار، ابہام اور کنفیوژن کا پھیلنا فطری ہے۔ سوسائٹی ، جو پہلے ہی شومئی قسمت سے منقسم ہے، کی مزید تقسیم کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔اسے پاکستان کی یکجہتی اور اکائی کے لیے نیک شگون نہیں کہا جا سکتا۔ ایل او سی کے پار اپنی بقا، آزادی اور قومی حرمت کے تحفظ کی مسلسل جنگ کرنے والے ہمارے کشمیری بھائی ، بہنیں اور بچے بھی پاکستانی سیاستدانوں کے ان اقدامات کو دیکھ رہے ہیں۔

یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیاستکاروں کے یہ خیالات کشمیریوں کی جدوجہد کو منفی طور پر متاثر کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ کسی بھی پہلو میں پاکستان کی کمزوری کشمیریوں کی جدوجہد کو کمزور کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔اور کشمیریوں کی پاکستان سے کمٹمنٹ اور محبت کا یہ عالم ہے کہ بھارتی ظالم فوجوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیریوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے یومِ آزادی کو اپنا یومِ آزادی مان کر ،بھارتی فوجیوں کی اُٹھی بندوقوں کے سایوں میں ، پاکستان کے پرچم لہراتے اور مسرت سے دیوانہ وار رقص کرتے ہیں۔ وہ قابض اور غاصب بھارت سے اظہارِ نفرت کرتے ہُوئے بھارتی یومِ آزادی کو بطورِ یومِ سیاہ مناتے ہیں اور قطعی نہیں گھبراتے۔ اِس بار 15اگست کو بھی کشمیریوں نے ایسا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ ایسے میں جب پاکستان سے بعض ایسی آوازیں اُٹھتی ہیں جو کشمیریوں کے اجتماعی موقف اور جدوجہد سے متصادم ہیں تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہلِ کشمیر کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی!!

مسئلہ کشمیر ، کشمیریوں کی جدوجہد اور کشمیر کے لیے پاکستان کی ہر ممکنہ اخلاقی و سفارتی امداد کے پس منظر میں جناب محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل صاحب نے اپنے اپنے تازہ ترین انٹرویوز میں جو بیانات دیے ہیں، یقینی طور پر یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے یہ ممتاز سیاستدان ہمارے لیے محترم اور مکرم ہیں۔اچکزئی صاحب ایک سیاسی جماعت(پختونخواہ ملّی عوامی پارٹی) کے سربراہ بھی ہیں اور معزز رکن قومی اسمبلی بھی۔ وہ نواز شریف کے اتحادی اور اُن کے خاندان کے کئی افراد رواں لمحوں میں بلوچستان کی صوبائی حکومت میں شامل ہیں۔

جناب اختر مینگل اگرچہ اس وقت اسمبلی کے رکن تو نہیں ہیں لیکن وہ ایک سیاسی جماعت ( بی این پی) کے سربراہ بھی ہیں اور بلوچستان ایسے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اُن کے والدِ محترم، جناب عطاء اللہ مینگل، بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان رہ چکے ہیں۔ کشمیر اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں اُن کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

جناب محمود اچکزئی نے 18اگست2017ء کو ایک غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہُوئے یوں کہا ہے:'' کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہُوئے (آزاد) کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے۔ کشمیر کو آزاد کرنے کی بات سے پاکستان دنیا کو بتا سکے گا کہ وہ مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔ کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے۔ ہم کشمیر کے معاملے میں ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے؟اِسے حل کرنے کے لیے اختراع ہم کیوں نہیں کرتے؟''


اور جب اچکزئی صاحب سے غیر ملکی نشریاتی ادارے کے رپورٹر نے یہ پوچھا کہ آیا بھارت اپنے کنٹرول والا کشمیر چھوڑ دے گا؟ تو اچکزئی نے کہا:'' نہ چھوڑے لیکن ہم تو بچ جائیں گے۔''لیجئے ، مسئلہ کشمیر کا آسان حل سامنے آگیا ہے۔ جناب محمود خان اچکزئی، جو اِس سے قبل بھی کئی بار بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے حوالے سے کئی متنازع بیانات داغ چکے ہیں، کے اس تازہ ارشاد سے پاکستانی عوام سناٹے میں آگئے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ موصوف کشمیریوں کی جدوجہد سے آگاہ نہیں ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اس سے بھی بے خبر ہوں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیاکیا اور کیسے کیسے مظالم ڈھا رہا ہے لیکن اس کے باوصف انھوں نے ایک چونکا دینے والی بات کہہ ڈالی ہے۔

سب کو معلوم ہے کہ وہ ایسی غیر حقیقی بات کہہ کر کسے خوش کرنا اور کسے چڑانا چاہتے ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ جناب اچکزئی کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب اُن کے ارشاد سے صرف تین دن پہلے بھارتی وزیر اعظم مودی نے دہلی کے لال قلعہ میں کھڑے ہو کر اپنے قومی خطاب میں یہ الفاظ کہے تھے:''کشمیر کا مسئلہ گالی اور گولی سے نہیں، کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل ہوگا۔کشمیر کی جنت کو ہم دوبارہ محسوس کرنا چاہتے ہیں۔''

جناب نریندر مودی حسبِ معمول بنیئے کی منافقت سے کام لے رہے ہیں۔ بخوبی جانتے ہیں کہ کشمیر اُن کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ہمارا اور کشمیریوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ''کشمیرکمیٹی'' کے چیئرمین کو ملکی سیاست سے زیادہ جب کہ امورِ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کے لیے جو تجویز جناب محمود خان اچکزئی نے دی ہے، کشمیر کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات سردار اختر مینگل صاحب کے ہیںلیکن اندازِ دِگر میں۔ اُن کی گفتگو میں بھی، بین السطور، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غصہ چھلکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

انھوں نے دس اگست 2017ء کو ایک مغربی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہُوئے یوں فرمایا ہے:''مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انڈیا(بلوچستان میں) ملوث نہیں ہوگا۔ وہ ہوگا۔ اُسے مگر یہ موقع بھی ہم نے دیا ہے۔اگر ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کریں گے تو وہ بھی کریں گے۔'' جب سے اختر مینگل صاحب انتخابات میں بار بار ہارتے آ رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اُن کا طیش دیدنی ہے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں ''کسی'' کا جو لفظ استعمال کیا ہے ، اس کا مطلب بھارت ہے۔

جناب مینگل سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے عین مطابق اگر پاکستان کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی محاذ پر کوئی اعانت کرتا ہے تو کیا اِسے بھارت میں مداخلت قرار دیا جا سکتا ہے؟کیا بھارت کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ سیکڑوں کلومیٹر سے اُٹھ کر افغانستان آئے اور وہاں بیٹھ کر پاکستان میں مداخلتیں کرے تاکہ پاکستان کو کشمیریوں کی اعانت کی سزا دی جا سکے ؟اور پاکستان خاموشی کے ساتھ اُس کی مفسدانہ کارستانیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتا رہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کے خلاف بھارتی شرارتوں اور شیطانیوں کو ہر سطح پر اور ہر طریقے سے روکنا ہوگا کہ کشمیریوں کے لیے پاکستان کی امداد اور اعانت اصولی ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ محمود اچکزئی صاحب اور جناب اختر مینگل نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں عین اُس وقت نامناسب بیانات دیے ہیں جب چند روز قبل ہی امریکا نے انتہائی ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر کی سب بڑی حریت پسند تحریک (حزب المجاہدین) کو ''دہشتگرد '' جماعت قرار دیا ہے۔

کیا اِسے محض اتفاق کہا جائے کہ یہ دونوں ''ارشادات''اُن لمحات میں منصہ شہود پر آئے ہیں جب لندن میں اینٹی پاکستان و اینٹی کشمیر (اور معروف بھارت نواز) امریکی کانگریس مَین ( ڈانا روہر باچر) الطاف حسین سے ملاقات کررہا تھا؟ تصویر میں اُن کے ساتھ برطانیہ میں مقیم خود ساختہ جلاوطن بلوچ سردار میر سلیمان داؤد بھی نظر آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مملکتِ خداداد پاکستان کو عالمی سازشوں اور بدخواہوں سے محفوظ رکھے(آمین)۔
Load Next Story