بڑھتی ہوئی سیاسی پستی

سیاسی رہنما باہمی سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے پر رکیک حملے نہیں کرتے تھے

سابق سیاسی ادوار جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دو دو حکومتیں شامل رہی ہیں۔ دونوں جماعتوں میں سیاسی کشیدگی تو ہوتی تھی اور دونوں نے اپنی حکومتوں میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے مگر دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پستی کا اس طرح مظاہرہ نہیں کیا تھا جس طرح سیاسی پستی تحریک انصاف نے پھیلانی شروع کی اور پی ٹی آئی کی قیادت نے اس کی ابتدا کی تھی جس سے سیاست میں ایک دوسرے پر غیر اخلاقی الزام تراشی شروع ہوئی تھی جو اب اس مقام پر آگئی ہے کہ سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف تقریر کرتے ہوئے انتہائی قابل اعتراضات جملے استعمال کرلیے جاتے ہیں اور وہاں انھیں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا بلکہ لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔

اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ ٹی وی چینلز پر سیاسی ٹاک شوز کے درمیان سیاسی رہنما ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے ہیں یا کسی کی غیر موجودگی میں قابل اعتراض الفاظ ادا کیے جاتے ہیں تو میزبان اینکر اپنے سیاسی مہمانوں کو ٹوکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور انھیں غیر اخلاقی الفاظ استعمال کرنے سے روکتے ہیں۔ عمران خان سے قبل سیاست میں اخلاق اور رواداری کو مقدم رکھا جاتا تھا۔

سیاسی رہنما باہمی سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے پر رکیک حملے نہیں کرتے تھے ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دوسرے سے محبت اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے اور ایک دوسرے کی ذات پر حملوں کا تصور نہیں تھا اور بداخلاقی سے سختی سے گریزکرتے تھے۔

حال ہی میں قوم نے ٹی وی چینلز پر بداخلاقی بھی دیکھی کہ نو منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی تو تعلیم یافتہ ملتانی پیر نے جو دوسروں کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں وزیر اعظم سے ہاتھ نہیں ملایا اور پیچھے سے قمیص پکڑنے کے باوجود ہاتھ ہلاکر چل دیے جو اخلاقی طور پر درست نہیں، یہی شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی سے قبل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بھی رہ چکے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے 13 اگست کو عوامی مسلم لیگ کے جلسے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جس طرح مخاطب کیا وہ بھی قابل اعتراض تھا۔ میاں نواز شریف ماضی میں ان کے قائد بھی رہ چکے ہیں۔

عمران خان نے 2013 سے قبل او نواز شریف! کے غیر اخلاقی الفاظ سے ابتدا کی تھی جس پر کڑی تنقید ہوئی تو انھوں نے یہ الفاظ ترک کیے مگر اسلام آباد میں یوم تشکر کے جلسے میں عمران خان نے ایک بار پھر وزیر اعظم آزاد کشمیر کے لیے انتہائی غیر اخلاقی الفاظ ادا کیے جن پر ان کی مذمت بھی ہوئی۔ اعلیٰ سرکاری افسران کے خلاف بھی عمران خان انتہائی تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ مخالفین کے لیے شرم کرو حیا کرو اور ڈوب مرو کے الفاظ ان کے منہ سے نکلنا عام ہوچکا ہے۔ قومی اسمبلی میں استعفے مسترد ہونے کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی ارکان کو خواجہ آصف کے یہ الفاظ بھی سننے پڑے تھے کہ شرم و حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔


راقم نے 1977 میں وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو کے منہ سے قومی اتحاد کے رہنماؤں کے خلاف گالی سنی تھی جب کہ سابق وزیر اعظم بھی اپنے مخالفوں کو کبھی کبھی دلچسپ نام دے دیا کرتے تھے مگر قابل اعتراض الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ فوجی صدر جنرل ضیا الحق کا اخلاق بے حد مشہور تھا وہ اپنے مہمانوں کی گاڑیوں کے دروازے بھی خود کھولتے تھے اور وہ جی ایم سید کی عیادت کو بھی گئے تھے جب کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے اس بلند اخلاق کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انھوں نے اسلام آباد میں مخالفین کو مکا لہرا کر دکھایا تھا اور اپنے سیاسی مخالفین نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی جو قومی رہنما مگر جنرل پرویز مشرف کے مخالف تھے کے انتقال پر تعزیت کے لیے جانا ضروری نہیں سمجھا تھا اور ولی خان کی تعزیت پر چارسدہ چلے گئے تھے۔

میاں نواز شریف اپنے سیاسی مخالف عمران خان کے خلاف ان کی طرح کبھی غیر اخلاقی الفاظ استعمال نہیں کرتے مگر ان کے سیاسی مخالف عمران خان، پرویز الٰہی، شیخ رشید اور مولانا طاہر القادری نواز شریف کی مخالفت میں اکثر اخلاقی حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ مولانا طاہر القادری جو کبھی شریف فیملی کے پیش امام تھے اور شریفوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے نے حال ہی میں نواز شریف کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ ایک عالم دین کے منہ سے یہ الفاظ کسی طور مناسب نہیں تھے کیونکہ یہاں تو سیاست ہی جھوٹ اور بے شرمی کا نام ہے اور اب کچھ سالوں سے سیاست گالی بنادی گئی ہے۔

آصف علی زرداری اپنی تقاریر میں ذومعنی الفاظ ضرور استعمال کرتے ہیں مگر غیر اخلاقی الفاظ سے گریز کرتے ہیں مگر جب انھوں نے کہا کہ عمران خان پٹھان نہیں نیازی ہے تو لوگوں کو حیرت ہوئی کہ اپنے بچوں کی ذات میں بھٹو کا نام شامل کرانے والے آصف زرداری کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ سندھ میں پٹھانوں سے تعلق نہ رکھنے والے بڑے لوگ اپنے ناموں کے ساتھ خان لگاتے ہیں جب کہ بلوچ کبھی خان کا لاحقہ استعمال نہیں کرتے۔

شہباز شریف بھی عمران خان کو نیازی صاحب کہتے ہیں اور عائشہ گلالئی بھی کہتی ہیں کہ وہ عمران خان نہیں عمران نیازی ہیں جب کہ نیازی ایک باعزت ذات اور قبیلہ ہے جس کی تضحیک کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ ایک نیازی جنرل کے ہتھیار ڈالنے کا فعل مجبوری تھا، قبیلہ ذمے دار نہیں تھا۔

آج کل کی سیاست میں جو گند سوشل میڈیا نے پھیلایا ہے وہ تشویشناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ مخالفین کے قابل اعتراض کارٹون اور تصاویر انتہائی شرمناک الفاظ اور القاب اب رکنے میں نہیں آرہے کیونکہ سوشل میڈیا پر ایسا کرنے والوں کی کوئی پکڑ نہیں ہے اور انھیں ایسا کرنے کی مادر پدر آزادی ملی ہوئی ہے اور بعض سیاستدانوں کی طرح سوشل میڈیا پر اپنی بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور انھیں اپنے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا بہترین موقع سوشل میڈیا پر میسر ہے جب کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسا تصور بھی نہیں ہے۔

سیاست میں سیاسی تنقید سیاسی لوگوں کا حق ہے مگر اب سیاسی لوگوں کی ذاتی زندگی بھی منظر عام پر لائی جارہی ہے۔ عائشہ گلالئی نے اپنے قائد پر الزامات لگائے ہیں ۔ عمران خان اور عائشہ کا معاملہ کیا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر عائشہ نے اپنی زندگی خطرے میں ضرور ڈال لی ہے ۔

سیاسی زندگی میں عمران خان پر ہی نہیں نواز شریف، شیخ رشید اور دیگر پر بھی ذاتی الزامات ہیں جو مخالفین کے منہ پر بھی آجاتے ہیں۔ سیاست میں فرشتہ تو کوئی نہیں البتہ بعض سیاست میں آکر فرشتہ بننے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ عمران خان اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ فرشتہ نہیں ہیں۔ بڑھتی ہوئی سیاسی پستی کے خاتمے پر سیاسی لوگوں نے فوری توجہ نہ دی تو یہ سیاسی پستی ایسے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرے گی۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ سیاست کو اخلاق کے دائرے سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔
Load Next Story