مٹی کا کاسہ

اصول کی بات ہے کہ دینے والا کبھی نہیں تھکتا، لینے والا تھک جاتا ہے۔

جب رات کو اللہ کے حضور بیٹھیں تو مجسم کاسہ بن جائیں۔ باہر سے بھی خالی اور اندر سے بھی خالی۔ فوٹو:فائل

لاہور:
کاسہ عموماََ مٹی سے بنا ہوا وہ پیالہ ہوتا ہے جسے اٹھا کر مانگا جاتا ہے۔ اسے کشکول بھی کہتے ہیں۔ آپ نے عموماََ فقیروں کو کاسہ اٹھائے شہر کے چوراہوں پر مانگتے دیکھا ہوگا۔ کچھ فقیر جھولی پھیلا کے مانگتے ہیں، کچھ ہاتھ پھیلا کر، مگر جو بات کاسہ بڑھا کر مانگنے میں ہے وہ کسی اور طریقے میں نہیں ہے۔ مثلاََ اگر آپ جھولی بڑھا دیں تو کوئی بھی شخص آپ کو فقیر کے طور پر نہ جان سکے گا۔ اگر آپ بڑھے ہوئے ہاتھ گِرا دیں تو آپ بھی ایک عام آدمی بن گئے کوئی مانگنے والا نہیں۔

اگر آپ کے ہاتھ میں کاسہ یا کشکول ہے، بھلے آپ نے اسے آگے نہیں پھیلایا ہوا، خواہ وہ آپ کے ساتھ میں پڑا ہے یا آپ کی گردن میں جھول رہا ہے۔ یہ نشانی ہے کہ آپ سِکّہ بند فقیر ہیں۔ آپ اپنا کاسہ کسی اور کے ہاتھ میں پکڑا دیں وہ شخص پلک جھپکنے میں فقیر ہوگیا۔

اِس کاسہ پر غور کرنا چاہئیے۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ مٹی سے بنا ہے۔ جو چیز بھی مٹی سے بنی ہو اسے غرور نہیں کرنا چاہیئے۔ کاسہ بھی دیکھنے میں مٹی اور حقیر ہی لگتا ہے۔ دوسری بات اِس کا منہ ہمیشہ کُھلا ہوتا ہے۔ کوئی ڈھکن نہیں ہوتا کہ حسبِ ضرورت کھول لیا اور بند کردیا۔ پھر یہ ہمیشہ خالی ہوتا ہے۔ اِس کے منہ کا رخ آسمان کی جانب ہوتا ہے۔ اِس میں صرف ایک سوراخ یا خلاء ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی نیچے سے یا سائیڈ سے کچھ ڈال دے۔ اِس میں کوئی گندگی نہیں ہوتی۔ کہ کوئی آٹا ڈالے تو کیچڑ میں مل جائے اور کسی کام کا نہ رہے۔ اِس کے پیندے میں کوئی سوراخ نہیں ہوتا کہ ملنے والی نعمتیں چھن چھن کر گرنے لگیں۔ جہاں سے پیسہ آتا ہے وہیں سے ہاتھ ڈال کر نکالا جاتا ہے۔ کہیں اور سے نہیں۔

اِس کے علاوہ جو کاسہ بنا رہا ہوتا ہے اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کاسہ بنا رہا ہے کسی کے ماتھے کا جھومر نہیں۔ کاسے کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بن رہا ہے اور کس کام آئے گا۔ اب اگر وہ بڑی بڑی ہانکنے لگے کہ میں بڑا ہو کر لوگوں کو کھلاؤں گا، دیگ بنوں گا وغیرہ وغیرہ تو کوئی اچھی بات نہیں ہوگی۔ اور کاسہ کوئی حادثاتی طور پر بھی نہیں بنتا کہ مٹکا تھا، ٹوٹا اور کاسہ بن گیا۔ ایک دفعہ کاسہ بن جائے بس پھر وہ خالی نہیں رہ پاتا۔ خودبخود مال و اشیاءِ ضرورت اُس میں کھینچتا رہتا ہے۔ اصول کی بات ہے کہ دینے والا کبھی نہیں تھکتا، لینے والا تھک جاتا ہے۔

ہمیں بھی سوچنا چاہئیے کہ انسان بھی مٹی سے بنا ہے۔ اسے غرور زیب نہیں دیتا۔ کاسے کی طرح اسے بھی ایک طرف منہ کر کے مانگنا چاہئیے، جگہ جگہ سوراخ نہیں ہونے چاہئیں۔ اِسے بھی اپنے اندر سے خالی ہونا پڑے گا تمام روحانی بیماریوں سے بغض، ظلم، کینہ، جھوٹ، حسد، لالچ، بےایمانی اور بےحیائی سے۔ خالی نہیں ہوگا تو کچھ آئے گا ہی نہیں اور اگر آ بھی گیا تو آٹا کیچڑ میں مل جائے گا اور اُس نعمت کی برکت و استعمال جاتا رہے گا۔ انسان کے دل میں بھی شرک کا سوراخ نہیں ہونا چاہئیے ورنہ توحید کا نور چھن چھن کر گر جاتا ہے۔ اِسے بھی نکالتے ہوئے سوچنا ہی چاہئیے کہ دئیے ہوئے میں سے دے رہا ہے اپنا کچھ نہیں۔ اُس کے منہ پر بھی کوئی ڈھکن نہیں ہونا چاہئیے کہ مصیبت میں اللہ یاد آئے اور خوشی میں ڈھکن لگ جائے۔ اسے بھی ہر وقت ہر لمحہ مانگتے رہنا چاہئیے۔


انسان کو یاد رہنا چاہئیے کہ وہ کاسہ ہے کسی کے ماتھے کا جھومر نہیں۔ اِس کا تو ڈیزائن ہی کاسے والا ہے، مانگے بغیر چارہ کوئی نہیں۔ اپنے مالک سے نہیں مانگے گا تو کس سے مانگے گا؟ اور انسان کو بھی اپنے اساتذہ و مشائخ کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے جنہوں نے گِھس گِھس کر زندگی بھر کا میل نکال دیا اور کاسے کی شکل واپس لے آئے۔

کاسے کی طرح آپ بھی نشانی بن جائیں کہ جو دیکھے وہ کہہ دے مانگنے والا جارہا ہے۔ جب نماز پڑھیں، جب ہاتھ اُٹھائیں، جب اللہ اور اُس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا ذکر کریں، جب کسی محفل میں جائیں، جب خاندان میں بات کریں، جب رات کو اللہ کے حضور بیٹھیں تو مجسم کاسہ بن جائیں۔ باہر سے بھی خالی اور اندر سے بھی خالی۔ آئیے عہد کریں کہ اگلے 20 برس صرف اپنے کاسے کو خالی کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ یہ خالی ہوگیا تو سمجھیں بڑا کام ہوا۔ جب آپ کاسہ بن جائیں گے تو دینے والا نہیں تھکتا۔

آپ کو ایک بات بتاؤں؟ کاسہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story