پلٹنا
چپ چاپ، پورے بھروسے سے اِس راستے پر چلتے رہیں، واپس نہ پلٹیں۔
ارے بھائی، کہاں رہے؟ اتنے دنوں سے نظر نہیں آئے؟ عبداللہ نے اپنے دوست سے پوچھا۔
کچھ نہیں یار، چلّے پر گئے تھے اللہ کی راہ میں، ابھی واپس آئے ہیں۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ کیا ہی بُری واپسی ہے۔ محبت میں بھی کوئی واپس ہوا ہے کیا؟ ہم نے جب سے دین اور دنیا کو الگ الگ کیا ہے یہ روانگی و واپسی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہے اور اِس کی وجہ سے کسی فیلڈ میں بھی کوئی نمایاں کام نہیں ہو رہا۔ پتہ نہیں لوگ اللہ کی راہ میں جا کر واپس کیسے پلٹتے ہیں؟ نوکری کرنا، کاروبار کرنا، بیوی بچوں، ماں اور باپ کا خیال رکھنا، لوگوں کی مدد کرنا، لوگوں کی نوکری لگوانا، برے وقت میں دوستوں کے کام آنا، قدرتی آفات میں کمزوروں کی مدد کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، کون سا دنیا کا کام ہے جہاں دین نے رہنمائی نہ کی ہو؟ بلکہ مزید کرنے پر نہ اُکسایا ہو۔
پہلے گاؤں کے لوگ سادے ہوتے تھے زندگی بھر دنیا کے نام پر دین کماتے رہتے تھے۔ اب ہم چالاک ہو گئے ہیں تو زندگی بھر دین کے نام پر دنیا کماتے رہتے ہیں۔ اگر کسی بادشاہ یا وزیرِاعظم سے ملنا ہو تو راستہ کٹھن ہوتا ہے۔ جتنا بڑا بادشاہ اتنی کٹھن شاہراہ۔ سیکیورٹی کلیرنس، موبائل نہ لے جانے کی شرط، محل یا رہائش کے قریب پہنچ کر گاڑیوں کا پروٹوکول وغیرہ ۔ تو کس نے کہہ دیا کہ اللہ سائیں جو چھوٹے بڑے سارے بادشاہوں سے بڑا ہے اور اتنا بڑا کہ کوئی نسبت ہی نہیں۔ اِس کا راستہ آسان ہوگا؟
آپ چلنا شروع کریں لگ پتہ جائے گا۔ کیا خُدا کو معلوم نہیں تھا کہ فیس بک نے ایجاد ہو جانا ہے اور واٹس ایپ اور آئی فون نے آنا ہے۔ آپ کو اِس راستے میں ساری دوستیاں، ساری محبتیں، کام، الجھنیں، طعنے، دشمنیاں، ظلم، جھوٹ، ذلت سب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی کبھی قدرت کسی شخص کو ذلت کا غلاف پہنا دیتی ہے کہ لوگ اُس سے دور ہو جائیں اور وہ بھی سب سے فارغ ہو جائے تاکہ پھر آرام سے اِس راستے پر چل سکے۔
کسی بھی شخص سے بدگمانی سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئیے کہ اُس کا اللہ سے کیا معاملہ ہے؟ اللہ قدردان ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے اور کسی کی محنت کبھی ضائع نہیں کرتے۔ چپ چاپ، پورے بھروسے سے اِس راستے پر چلتے رہیں۔ واپس نہ پلٹیں۔
عبداللہ یہ شعر گنگناتا ہوا اپنے دوست کے پاس سے چلا آتا۔
''تجھے معلوم راہیں، ملن کی اور جدائی کی
مجھے اس کی طرف جا کر پلٹنا ہی نہیں آیا''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
کچھ نہیں یار، چلّے پر گئے تھے اللہ کی راہ میں، ابھی واپس آئے ہیں۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ کیا ہی بُری واپسی ہے۔ محبت میں بھی کوئی واپس ہوا ہے کیا؟ ہم نے جب سے دین اور دنیا کو الگ الگ کیا ہے یہ روانگی و واپسی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہے اور اِس کی وجہ سے کسی فیلڈ میں بھی کوئی نمایاں کام نہیں ہو رہا۔ پتہ نہیں لوگ اللہ کی راہ میں جا کر واپس کیسے پلٹتے ہیں؟ نوکری کرنا، کاروبار کرنا، بیوی بچوں، ماں اور باپ کا خیال رکھنا، لوگوں کی مدد کرنا، لوگوں کی نوکری لگوانا، برے وقت میں دوستوں کے کام آنا، قدرتی آفات میں کمزوروں کی مدد کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، کون سا دنیا کا کام ہے جہاں دین نے رہنمائی نہ کی ہو؟ بلکہ مزید کرنے پر نہ اُکسایا ہو۔
پہلے گاؤں کے لوگ سادے ہوتے تھے زندگی بھر دنیا کے نام پر دین کماتے رہتے تھے۔ اب ہم چالاک ہو گئے ہیں تو زندگی بھر دین کے نام پر دنیا کماتے رہتے ہیں۔ اگر کسی بادشاہ یا وزیرِاعظم سے ملنا ہو تو راستہ کٹھن ہوتا ہے۔ جتنا بڑا بادشاہ اتنی کٹھن شاہراہ۔ سیکیورٹی کلیرنس، موبائل نہ لے جانے کی شرط، محل یا رہائش کے قریب پہنچ کر گاڑیوں کا پروٹوکول وغیرہ ۔ تو کس نے کہہ دیا کہ اللہ سائیں جو چھوٹے بڑے سارے بادشاہوں سے بڑا ہے اور اتنا بڑا کہ کوئی نسبت ہی نہیں۔ اِس کا راستہ آسان ہوگا؟
آپ چلنا شروع کریں لگ پتہ جائے گا۔ کیا خُدا کو معلوم نہیں تھا کہ فیس بک نے ایجاد ہو جانا ہے اور واٹس ایپ اور آئی فون نے آنا ہے۔ آپ کو اِس راستے میں ساری دوستیاں، ساری محبتیں، کام، الجھنیں، طعنے، دشمنیاں، ظلم، جھوٹ، ذلت سب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی کبھی قدرت کسی شخص کو ذلت کا غلاف پہنا دیتی ہے کہ لوگ اُس سے دور ہو جائیں اور وہ بھی سب سے فارغ ہو جائے تاکہ پھر آرام سے اِس راستے پر چل سکے۔
کسی بھی شخص سے بدگمانی سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئیے کہ اُس کا اللہ سے کیا معاملہ ہے؟ اللہ قدردان ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے اور کسی کی محنت کبھی ضائع نہیں کرتے۔ چپ چاپ، پورے بھروسے سے اِس راستے پر چلتے رہیں۔ واپس نہ پلٹیں۔
عبداللہ یہ شعر گنگناتا ہوا اپنے دوست کے پاس سے چلا آتا۔
''تجھے معلوم راہیں، ملن کی اور جدائی کی
مجھے اس کی طرف جا کر پلٹنا ہی نہیں آیا''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی