کیرو کی پامسٹری اور ہم
جب آپ کیرو اور اس کی پامسٹری کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں تو اسے فضول کیسے قرار دے سکتے ہیں۔
بھائی جان مرحوم، اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، جب نور محمد ہائی اسکول حیدرآباد میں پڑھتے تھے تو چھٹیوں میں گھر لوٹتے وقت ایک دو نئی کتابیں ضرور ساتھ لاتے۔ تاریخ اور شخصیات ان کے پسندیدہ موضوعات تھے، کبھی کبھی ان کے بیگ سے ناول بھی برآمد ہوتے۔ ان کی لائی ہوئی سب کتابیں زیادہ تر انگریزی میں ہوتی تھیں جو واپس جاتے وقت وہیں چھوڑ جاتے اور یوں مجھے ان کا مطالعہ کرنے کا موقعہ مل جاتا۔ یہ 60ء کے عشرے کی بات ہے، ٹالسٹائی کی تصنیف ''وار اینڈ پیس'' اور پامسٹری کے بادشاہ کاؤنٹ کیروکی شخصیت اور فن پر مبنی کتاب بھی میں نے پہلی بار اسی زمانے میں پڑھی تھی۔
ٹنڈو غلام علی تب ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا جس کی آبادی کل 3 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، یہ انتظامی لحاظ سے حیدرآباد ضلع کا حصہ تھا جب کہ ماتلی اور ٹنڈو محمد خان بالترتیب اس کے تحصیل اور سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھے۔ اس کا موجودہ ضلع بدین، بہت بعد میں بھٹو دور میں بنا تھا۔ بدین، حیدرآباد ٹرین سروس فعال تھی اور اس لائن پر چلنے والی پیسنجر ٹرین لنڈوکہلاتی تھی جس میں سفرکرنے کے لیے ہمیں ماتلی تک لاری میں آنا پڑتا تھا۔
سیاسی پارٹیوں کا پورے علاقے میں کوئی وجود نہ تھا، بڑے جاگیردار اور وڈیرے البتہ اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کے لیے شغل کے طور پر جو سیاست کرتے تھے وہ بھی الیکشن لڑنے کی حد تک ہوتی، ان لوگوں کی ایک طرح کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی اور الیکشن جیت کر وہ گویا یہ ثابت کرتے تھے کہ وہی یہاں کے سب سے زیادہ با اثر لوگ ہیں اور ان کے مقابلے کا کوئی نہیں۔ اس کھیل میں ہمارے ہاں سے میر بندہ علی خان تالپور، نواحی قصبے گلاب لغاری سے حاجی نجم الدین سریوال، ٹنڈو محمد خان سے میرغلام علی تالپور وغیرہ حصہ لیا کرتے۔ وہاں پارٹی سطح پر سیاست کرنے کی داغ بیل اسی زمانے میں جماعت اسلامی نے ڈالی۔
یہ کوشش اگرچہ کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس نے کھڑے پانی میں ارتعاش ضرور پیدا کیا، اس کی تیار کی ہوئی زمین میں فصل بونے کی ابتدا پیپلز پارٹی نے تقریباً دو عشروں کے طویل وقفے کے بعد کی جب فضا میں ہر طرف بھٹو کے نعروں کی گونج سنائی دیتی تھی، پھر جو بھی اس سیلابی ریلے کے راستے میں آیا خس وخاشاک کی طرح بہہ گیا، اجارہ داریاں قائم کرنے اور اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کے شوقین وڈیروں اور جاگیرداروں کو یا تو سیاست ہی سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی یا انھوں نے پی پی پی میں شامل ہوکر اپنی سیٹیں بچائیں۔
سکھر کے نوجوان عالمِ دین مولانا سلیمان طاہر نے، جنھیں ٹنڈو غلام علی اور گرد و نواح کے لوگوں کو جماعت کے پرچم تلے جمع کرنے کا مشن سونپا گیا تھا، اپنا کام مظفر شاہ کی مسجد میں جمعے کا خطبہ دینے سے شروع کیا، جو پہلے صرف میروں کی بنوائی ہوئی بڑی جامع مسجد میں دیا جاتا تھا۔ شہر کے دوسرے بڑے ٹرانسپورٹر حاجی کریم بخش، جن کی لاریاں ڈگری اور ماتلی کے روٹس پر چلا کرتی تھیں، کے بڑے بیٹے سیٹھ حبیب، بی ڈی ممبر حاجی غلام حسین میمن، غلام محمد قمبرانی اور دیگر کچھ لوگ مولانا کے ساتھی اور ہمنوا تھے۔ سیٹھ حبیب نے تو انھیں شہر کے مغربی سرے پر واقع اپنی مارکیٹ کے اوپر رہائش بھی مہیا کر رکھی تھی، پھر اسی مارکیٹ میں عشاء کی نماز کے بعد مولانا طاہر کے درس کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس طرح در اصل شہر میں جماعت کی شاخ قائم کرنے کے لیے میدان ہموارکیا جارہا ہے۔ یہ لوگ کھل کر اس وقت سامنے آئے جب بی ڈی الیکشن ہونے والے تھے جس کے لیے انھوں نے ہر وارڈ سے امیدوار کھڑے کیے، ورنہ پہلے ایسے موقعوں پر میر صاحب سے رہنمائی لی جاتی تھی اور ان کے نامزد کردہ یا حمایت یافتہ امیدوار زیادہ تر بلا مقابلہ کامیاب ہوتے تھے۔ یہی وہ موقعہ تھا جو مولانا سلیمان طاہر کے مشن کے حوالے سے ''مشن امپوسیبل'' ثابت ہوا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں سے ایسے غائب ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دکھے۔
مجھ سے اگرچہ دو چار سال بڑے تھے، لیکن ہمارے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ میں چونکہ بطور نامہ نگار اخبارات کو خبریں بھی بھجوایا کرتا تھا، اس لیے بھی ممکن ہے وہ مجھے کام کا آدمی سمجھتے ہوں۔ مسجد آتے جاتے میری دکان کے سامنے سے گزرتے تو ہاتھ ہلا کر علیک سلیک ضرورکرتے،کبھی موڈ میں ہوتے توکچھ دیر بیٹھ کرگپ شپ کرتے اور چائے بھی پیتے۔ایک دن یونہی جب وہ دکان پر تشریف لائے تو میں بھائی جان کی لائی ہوئی وہ کتاب پڑھ رہا تھا جو کاؤنٹ کیرو کی شخصیت اور فن کے بارے میں تھی۔
مولانا نے بیٹھتے ہی پوچھا کیا پڑھا جا رہا ہے اور میرے سامنے پڑی ہوئی کتاب اٹھا کر دیکھنے لگے۔ فرمایا اس قسم کی چیزیں پڑھنا محض وقت کا زیاں ہے۔ میں نے عرض کیا جب آپ کیرو اور اس کی پامسٹری کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں تو اسے فضول کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ ہم کافی دیر اس موضوع پر دوستانہ اور نہایت خوشگوار ماحول میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں نے انھیں کیرو کے فن سے متعلق ایک قصہ سنایا جوکتاب میں بھی درج تھا۔ وہ قصہ کچھ یوں تھا کہ برطانیہ کا ایک بادشاہ بڑا وہمی اور خبطی واقع ہوا تھا، اس نے سوچا اگر کسی طرح اسے یہ پتہ چل جائے کہ وہ کب مرے گا تو کچھ ضروری کام نمٹا لے۔
اس نے اپنے ایک رازدار نائٹ دوست سے بات کی تو اس نے کیرو کو ہاتھ دکھانے کا مشورہ دیا۔ طے پایا کہ نائٹ کیرو کو یہ بتا کے اپنے فارم ہاؤس پر بلائے گا کہ اس کا ایک دوست اسے ہاتھ دکھا کر اپنی موت کے بارے میں جاننا چاہتا ہے جس کے لیے اسے منہ مانگی فیس تو ادا کی جائے گی مگر وہ اس کے سامنے نہیں آئے گا۔ ایسا ہی ہوا، بادشاہ پردے کی دوسری جانب بیٹھا تھا، کیرو نے اس کا ہاتھ دیکھتے ہی کہا یہ کسی بادشاہ کا ہاتھ ہے۔ پھر اس نے بادشاہ کو اس کے مرنے کا دن اور وقت بتایا جو سؤ فیصد درست ثابت ہوا، اور وہ کیرو کے بتائے ہوئے دن اور وقت پر ہی طبعی موت مرا۔
قصہ سن کر مولانا سلیمان نے مزاحاً اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا اچھا تو پھرکیرو صاحب کچھ ہمیں بھی بتایے کہ ہمارے ہاتھ کی لکیریں کیا کہتی ہیں۔ میں نے بھی از راہِ مذاق ان کا ہاتھ اس طرح دیکھنا شروع کیا جیسے کوئی پیشہ ور پامسٹ دیکھتا ہے اور بلا سوچے سمجھے کہا مولانا آپ کے ہاتھ کی لکیریں کہتی ہیں کہ کل کا دن آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہوگا۔ ہم دونوں خوب ہنسے، پھر مولانا نے اجازت چاہی اور اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
اگلے روز حیدرآباد کے رانی باغ میں مولانا مودودی کا جلسہ تھا، مولانا سلیمان طاہرکو پہلے سے پتہ ہوگا جبھی تو وہ اس میں شرکت کے لیے گئے تھے، ایوبی آمریت کا دور تھا اور جماعت اسلامی کا تعلق حزبِ اختلاف سے تھا۔ جلسے پر ٹھیک اس وقت جب مولانا مودودی خطاب فرما رہے تھے، پولیس نے اچانک ہلہ بول دیا، وحشیانہ لاٹھی چارج کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں اور اسیروں کو تھانوں میں لاک اپ کرنے کے بجائے سیدھا جیل پہنچایا گیا جہاں سے کوئی ہفتہ بھر بعد ان لوگوں کی رہائی عمل میں آئی۔
مولانا گھر پہنچے تو میں بھی ان سے ملنے گیا، ایک مرحلے پر جب ہم دونوں کے سوا وہاں اور کوئی نہ تھا میں نے ان سے پوچھا اب کاؤنٹ کیرو اور اس کے فن کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے، تو انھوں نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے۔ اس کا موقعہ تو خیر کبھی نہ آیا البتہ بہت دنوں بعد ان کے ایک قریبی دوست نے مجھ سے رازدارانہ انداز میں پوچھا تھا کہ کیا واقعی میں نے مولانا کی گرفتاری کی پیشگوئی کی تھی؟ میں نے کہا ہاں کی تھی، آپ نے بھی کچھ پوچھنا ہے؟ مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چلے گئے۔
ٹنڈو غلام علی تب ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا جس کی آبادی کل 3 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، یہ انتظامی لحاظ سے حیدرآباد ضلع کا حصہ تھا جب کہ ماتلی اور ٹنڈو محمد خان بالترتیب اس کے تحصیل اور سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹر تھے۔ اس کا موجودہ ضلع بدین، بہت بعد میں بھٹو دور میں بنا تھا۔ بدین، حیدرآباد ٹرین سروس فعال تھی اور اس لائن پر چلنے والی پیسنجر ٹرین لنڈوکہلاتی تھی جس میں سفرکرنے کے لیے ہمیں ماتلی تک لاری میں آنا پڑتا تھا۔
سیاسی پارٹیوں کا پورے علاقے میں کوئی وجود نہ تھا، بڑے جاگیردار اور وڈیرے البتہ اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کے لیے شغل کے طور پر جو سیاست کرتے تھے وہ بھی الیکشن لڑنے کی حد تک ہوتی، ان لوگوں کی ایک طرح کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی اور الیکشن جیت کر وہ گویا یہ ثابت کرتے تھے کہ وہی یہاں کے سب سے زیادہ با اثر لوگ ہیں اور ان کے مقابلے کا کوئی نہیں۔ اس کھیل میں ہمارے ہاں سے میر بندہ علی خان تالپور، نواحی قصبے گلاب لغاری سے حاجی نجم الدین سریوال، ٹنڈو محمد خان سے میرغلام علی تالپور وغیرہ حصہ لیا کرتے۔ وہاں پارٹی سطح پر سیاست کرنے کی داغ بیل اسی زمانے میں جماعت اسلامی نے ڈالی۔
یہ کوشش اگرچہ کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس نے کھڑے پانی میں ارتعاش ضرور پیدا کیا، اس کی تیار کی ہوئی زمین میں فصل بونے کی ابتدا پیپلز پارٹی نے تقریباً دو عشروں کے طویل وقفے کے بعد کی جب فضا میں ہر طرف بھٹو کے نعروں کی گونج سنائی دیتی تھی، پھر جو بھی اس سیلابی ریلے کے راستے میں آیا خس وخاشاک کی طرح بہہ گیا، اجارہ داریاں قائم کرنے اور اپنی انفرادیت برقرار رکھنے کے شوقین وڈیروں اور جاگیرداروں کو یا تو سیاست ہی سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی یا انھوں نے پی پی پی میں شامل ہوکر اپنی سیٹیں بچائیں۔
سکھر کے نوجوان عالمِ دین مولانا سلیمان طاہر نے، جنھیں ٹنڈو غلام علی اور گرد و نواح کے لوگوں کو جماعت کے پرچم تلے جمع کرنے کا مشن سونپا گیا تھا، اپنا کام مظفر شاہ کی مسجد میں جمعے کا خطبہ دینے سے شروع کیا، جو پہلے صرف میروں کی بنوائی ہوئی بڑی جامع مسجد میں دیا جاتا تھا۔ شہر کے دوسرے بڑے ٹرانسپورٹر حاجی کریم بخش، جن کی لاریاں ڈگری اور ماتلی کے روٹس پر چلا کرتی تھیں، کے بڑے بیٹے سیٹھ حبیب، بی ڈی ممبر حاجی غلام حسین میمن، غلام محمد قمبرانی اور دیگر کچھ لوگ مولانا کے ساتھی اور ہمنوا تھے۔ سیٹھ حبیب نے تو انھیں شہر کے مغربی سرے پر واقع اپنی مارکیٹ کے اوپر رہائش بھی مہیا کر رکھی تھی، پھر اسی مارکیٹ میں عشاء کی نماز کے بعد مولانا طاہر کے درس کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس طرح در اصل شہر میں جماعت کی شاخ قائم کرنے کے لیے میدان ہموارکیا جارہا ہے۔ یہ لوگ کھل کر اس وقت سامنے آئے جب بی ڈی الیکشن ہونے والے تھے جس کے لیے انھوں نے ہر وارڈ سے امیدوار کھڑے کیے، ورنہ پہلے ایسے موقعوں پر میر صاحب سے رہنمائی لی جاتی تھی اور ان کے نامزد کردہ یا حمایت یافتہ امیدوار زیادہ تر بلا مقابلہ کامیاب ہوتے تھے۔ یہی وہ موقعہ تھا جو مولانا سلیمان طاہر کے مشن کے حوالے سے ''مشن امپوسیبل'' ثابت ہوا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں سے ایسے غائب ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دکھے۔
مجھ سے اگرچہ دو چار سال بڑے تھے، لیکن ہمارے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ میں چونکہ بطور نامہ نگار اخبارات کو خبریں بھی بھجوایا کرتا تھا، اس لیے بھی ممکن ہے وہ مجھے کام کا آدمی سمجھتے ہوں۔ مسجد آتے جاتے میری دکان کے سامنے سے گزرتے تو ہاتھ ہلا کر علیک سلیک ضرورکرتے،کبھی موڈ میں ہوتے توکچھ دیر بیٹھ کرگپ شپ کرتے اور چائے بھی پیتے۔ایک دن یونہی جب وہ دکان پر تشریف لائے تو میں بھائی جان کی لائی ہوئی وہ کتاب پڑھ رہا تھا جو کاؤنٹ کیرو کی شخصیت اور فن کے بارے میں تھی۔
مولانا نے بیٹھتے ہی پوچھا کیا پڑھا جا رہا ہے اور میرے سامنے پڑی ہوئی کتاب اٹھا کر دیکھنے لگے۔ فرمایا اس قسم کی چیزیں پڑھنا محض وقت کا زیاں ہے۔ میں نے عرض کیا جب آپ کیرو اور اس کی پامسٹری کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں تو اسے فضول کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ ہم کافی دیر اس موضوع پر دوستانہ اور نہایت خوشگوار ماحول میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں نے انھیں کیرو کے فن سے متعلق ایک قصہ سنایا جوکتاب میں بھی درج تھا۔ وہ قصہ کچھ یوں تھا کہ برطانیہ کا ایک بادشاہ بڑا وہمی اور خبطی واقع ہوا تھا، اس نے سوچا اگر کسی طرح اسے یہ پتہ چل جائے کہ وہ کب مرے گا تو کچھ ضروری کام نمٹا لے۔
اس نے اپنے ایک رازدار نائٹ دوست سے بات کی تو اس نے کیرو کو ہاتھ دکھانے کا مشورہ دیا۔ طے پایا کہ نائٹ کیرو کو یہ بتا کے اپنے فارم ہاؤس پر بلائے گا کہ اس کا ایک دوست اسے ہاتھ دکھا کر اپنی موت کے بارے میں جاننا چاہتا ہے جس کے لیے اسے منہ مانگی فیس تو ادا کی جائے گی مگر وہ اس کے سامنے نہیں آئے گا۔ ایسا ہی ہوا، بادشاہ پردے کی دوسری جانب بیٹھا تھا، کیرو نے اس کا ہاتھ دیکھتے ہی کہا یہ کسی بادشاہ کا ہاتھ ہے۔ پھر اس نے بادشاہ کو اس کے مرنے کا دن اور وقت بتایا جو سؤ فیصد درست ثابت ہوا، اور وہ کیرو کے بتائے ہوئے دن اور وقت پر ہی طبعی موت مرا۔
قصہ سن کر مولانا سلیمان نے مزاحاً اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا اچھا تو پھرکیرو صاحب کچھ ہمیں بھی بتایے کہ ہمارے ہاتھ کی لکیریں کیا کہتی ہیں۔ میں نے بھی از راہِ مذاق ان کا ہاتھ اس طرح دیکھنا شروع کیا جیسے کوئی پیشہ ور پامسٹ دیکھتا ہے اور بلا سوچے سمجھے کہا مولانا آپ کے ہاتھ کی لکیریں کہتی ہیں کہ کل کا دن آپ کے لیے پریشانی کا باعث ہوگا۔ ہم دونوں خوب ہنسے، پھر مولانا نے اجازت چاہی اور اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
اگلے روز حیدرآباد کے رانی باغ میں مولانا مودودی کا جلسہ تھا، مولانا سلیمان طاہرکو پہلے سے پتہ ہوگا جبھی تو وہ اس میں شرکت کے لیے گئے تھے، ایوبی آمریت کا دور تھا اور جماعت اسلامی کا تعلق حزبِ اختلاف سے تھا۔ جلسے پر ٹھیک اس وقت جب مولانا مودودی خطاب فرما رہے تھے، پولیس نے اچانک ہلہ بول دیا، وحشیانہ لاٹھی چارج کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں اور اسیروں کو تھانوں میں لاک اپ کرنے کے بجائے سیدھا جیل پہنچایا گیا جہاں سے کوئی ہفتہ بھر بعد ان لوگوں کی رہائی عمل میں آئی۔
مولانا گھر پہنچے تو میں بھی ان سے ملنے گیا، ایک مرحلے پر جب ہم دونوں کے سوا وہاں اور کوئی نہ تھا میں نے ان سے پوچھا اب کاؤنٹ کیرو اور اس کے فن کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے، تو انھوں نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے۔ اس کا موقعہ تو خیر کبھی نہ آیا البتہ بہت دنوں بعد ان کے ایک قریبی دوست نے مجھ سے رازدارانہ انداز میں پوچھا تھا کہ کیا واقعی میں نے مولانا کی گرفتاری کی پیشگوئی کی تھی؟ میں نے کہا ہاں کی تھی، آپ نے بھی کچھ پوچھنا ہے؟ مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور چلے گئے۔