ایک پرچی کے عوض

اس شاہ خرچی پر امریکا میں اخبارات اور امدادی اداروں میں خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا

anisbaqar@hotmail.com

پاکستان کے 65 برسوں پر محیط تاریخ عوام کو یہ بتا رہی ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہوا اور مزید ہورہا ہے اور ہونے والا ہے وہ پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف ہی ہوگا،ماضی کے سیاست دان ہوں جو ملک پر براجمان رہے جن کے تاریخی چرچوں کا شور برپا رہتا ہے یا حال کے حکمران جو عنان حکومت لیے ہوئے ہیں انھوں نے عوام کے مفاد میں قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی عوامی مفادات کا خیال رکھا،دستور میں ترامیم کا سلسلہ جاری رہا اور متفقہ طور پر حزب اختلاف اور حزب موافق ترامیم پر پرعزم رہے کیونکہ ان 18 ویں اور 19 ویں ترامیم میں حاکموں کی فلاح وبہبود شامل ہے، ان کے لاکھوں روپے ماہانہ کے وظائف کروڑوں روپے ماہانہ کے اسمبلی کے ترقیاتی فنڈ ان کی دسترس میں ہیں یہ آپس میں الجھتے ہیں تو محض اپنے اقتدار کی خاطر نہ کہ عوام کی بہتری کے لیے حالانکہ ان حضرات کے تعیش کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ حضرات 3 اور 4 گھنٹے کی تاخیر سے اسمبلیوں کے اجلاس میں داخل ہوتے ہیں اور بیشتر اجلاس اسمبلی اتنی ہی تاخیر سے شروع ہوتے ہیں کہ عوامی معاملات پر غور نہیں ہوپاتا اور اس پر تماشہ یہ کہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہوتی ہے، بس اتنی کہ کھینچ تان کے کورم پورا ہوجائے اور اجلاس کے قانونی تقاضے پورے ہوجائیں گویا نہ کوئی بازپرس ہے، وقت کی پابندی کی اور نہ غیر حاضری کی، کیونکہ وہ عوام کے پیسوں سے اور ان کی محنت کی کمائی کو اپنے اوپر خرچ کررہے ہیں اور عوام کی خدمت کا نعرہ لگارہے ہیں، الفاظ کے گورکھ دھندوں میں بیک وقت حاکم بھی اور خادم بھی گویا اسمبلی تک پہنچنے کے بعد وہ دہری صلاحیت کے مالک ہو جاتے ہیں حاکم اعلیٰ سے لے کر عام ممبر بھی، حالانکہ جس آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اس کی خلاف ورزی پر ہر وقت مامور رہتے ہیں اس میں صد فیصد ممبران کو تو نہیں کہا جاسکتا بعض خود ذاتی طور پر فرض شناس ہوسکتے ہیں، مگر مجموعی طور پر یہی صورت حال ہے۔

پاکستان کے آئین کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستانی عوام کو آئین ان کے جان و مال، عزت و آبرو، تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کی ضمانت دیتا ہے، مگر ایک فیصد تعلیم پر خرچ اور صحت کو مخصوص بجٹ نہ ہونے کے باوجود وہ بھی بمشکل نصف فیصد ، اب اس ایک فیصد میں آخر کیا ہوسکتا ہے؟

ہمارے حکمران اپنے محلات میں بیٹھ کر سیاست کرتے ہیں، اب لاہور میں 2 محلات ہوگئے، نئے محل کی اکثر چیزیں فرانس سے امپورٹ کی گئی ہیں، اس شاہ خرچی پر امریکا میں اخبارات اور امدادی اداروں میں خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا کہ وہ ملک جس کے زرمبادلہ کے ذخائر زمین کو چھو رہے ہیں ان کے حکمرانوں کے احوال یہ ہیں، انڈسٹری کے بجائے محلات کی تعمیر، انڈسٹری روزگار دیتی ہے مگر انرجی لیتی ہے، یہاں انرجی کہاں؟ اور اگر انرجی آ بھی جائے تو انڈسٹری لگانے والا غیرمحفوظ ہے، ہائے افسوس! انڈسٹری لگانے والے روزگار مہیا کرنے والے حضرات تو اغوا برائے تاوان والوں کا پسندیدہ شکار ہیں، پاکستان سے دولخت ہونے والا ملک بنگلہ دیش پاکستان کے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پسندیدہ ملک ہے، کیونکہ وہاں کے حکمرانوں نے ملک کو انڈسٹری کے لیے عافیت گاہ بنادیا ہے۔

امریکا کے تقریباً تمام بڑے چین اسٹورز میں بنگلہ دیش کے کپڑے کی مصنوعات عام ہیں، کپاس پاکستان کی چاندی کا ریشہ، مگر روزگار دوسرے ممالک کی قسمت اور بے روزگاری ہمارا مقدر بن گیا ہے، اگر یہاں کوئی کام رہ گیا ہے تو وہ لینڈ مافیا جس پر زور شور سے کام جاری ہے، پس پردہ حکمرانوں کی علمداری ہے اور عام غریب آدمی مکان کی سہولت سے کوسوں دور ہے جو ہمارے ملک کے حکمرانوں کی ذمے داری ہے، مگر عوام بیلٹ باکس کی ایک پرچی ڈال کر 5 برس تک اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں، جمہوریت کے ان 5 برسوں میں آخر حکمرانوں نے کیا کام انجام دیا، محض الیکٹرانک میڈیا پر آکر اپنی مدح سرائی کرانا ان کا پیشہ بن گیا ہے اور ایک اور مراعات یافتہ طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو مختلف سیاسی گروہوں کی سرپرستی کے عوض مختلف ایجنسیوں کے فرائض کی تکمیل میں مصروف ہے جس کی وجہ سے عوام میں مزید مایوسی پھیل رہی ہے، یہ مایوس لوگ جو باضمیر ہیں اپنے ہی ضمیر کی قید بھگت رہے ہیں جو مایوسی کی پوری طور پر گرفت میں آچکے ہیں وہ خودکشی کرنے میں مصروف ہیں۔ بدکاری، جسم فروشی ہماری جمہوری حکومت کا تحفہ ہیں اور جو لوگ کچھ جرأت رکھتے ہیں ان کو شرپسند عناصر اپنی صفوں میں شامل کرلیتے ہیں، عوام دوست قانون سازی سے جمہوری حکومت کوسوں دور ہے اور نادان جمہوریت، جمہوریت کے نعرے لگا رہے ہیں۔


اب تک جمہوری حکومت بدامنی پر قابو پانا تو دور کی بات ہے بدامنی کو بڑھاوا دے رہی ہے اور اوپر سے ہر روز تازہ بیانات کہ ''جمہوریت کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں'' عوام کو نہ جمہوریت نے کچھ دیااور نہ آمریت نے، دونوں نے نعرے لگائے اور نعروں کی بنیاد پر لوٹا گیا اور یہ عمل مزید جاری ہے، اگر صورت حال یوں ہی رہی تو خطرہ اس بات کا پیدا ہوتا جارہا ہے کہ عوام کہیں یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوجائیں کہ آخر اس ملک نے ہمیں کیا دیا؟ ہم سے بیلٹ پیپر ڈبوں میں ڈلواکر حکومت کرتے ہیں اور ہماری تکالیف کو سوچنا تو دور کی بات وہ ان کے پروگرام کا حصہ بھی نہیں ہے اس لیے حکمران عوام سے کوئی حتمی وعدہ تو دور کی بات وہ کسی قسم کی سنجیدہ گفتگو بھی نہیں کرنا چاہتے، نئے صوبوں کا شوشہ ان حکمرانوں نے چھوڑا تاکہ کچھ عوام میں اس کا رد عمل سامنے آئے اور پھر ردعمل کے اظہار کی قوت کے بعد فیصلہ کریں گے، مگر ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ ایسے ردعمل ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، کیونکہ صوبائی خودمختاری کا اظہار کرنے والوں کی رائے کو یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے،کیونکہ یہ بات تاریخی اور تجزیاتی طور پر ، ہمیشہ درست نہیں ہوتی کہ مقبولیت ہی کسی چیز کی حقیقت کا پتہ دیتی ہے، یہ تاریخی عمل ہے جس کی اصلیت کا اندازہ کافی عرصے میں سامنے آتا ہے، حکمرانوں کو شاید اپنی ہوشیاری پر ناز ہے کہ وہ مقبول ہیں اور پھر عوام کے ہاتھ میں ایک پرچی دے کر پانچ سال کا عہد نامہ حکمرانی لے لیں گے مگر اب عوام شعور پکڑتے جارہے ہیں، انگریزی کی ایک مثال اس موقع پر یاد دلاتا چلوں۔

What is popular is not always right and what is right is not always popular

یہ ضروری نہیں کہ جو چیز مقبول ہو وہ ہمیشہ درست ہو اور یہ کہ ہر درست چیز ہمیشہ مقبول ہو۔

لہٰذا کمزور اور نئی سیاسی پارٹیاں کسی بھی وقت مقبول ہوسکتی ہیں، بشرطیکہ ان کا پیغام درست ہو اور درست وقت پر عوام کو دیا جائے۔اس عوام کو جن پر دہشت گردی، بیروزگاری، بے بسی اور غربت و مہنگائی کا عذاب مسلط ہے اور جو ٹارگٹ کلنگ میں روز مارے جارہے ہیں۔جو حکمراں عوام کو زندگی کے تحفظ کی ضمانت نہ سکے ان سے وفا کی کیا امید ۔۔۔وہ نہیں جانتے وفا کیا ہے!
Load Next Story