مفاہمت کے پانچ برس
کچھ بھی ہو این آر او کی اسپرٹ پر اس پارٹی نے ضرور عمل کیا جس کی لیڈر شہادت کے مرتبے پر سرفراز ہوئی۔
ISLAMABAD:
وفاقی حکومت نے کہنے کو تو پانچ سال مکمل کر لیے ہیں مگر اس کے چار سالہ دور حکومت پر محیط کتاب مجھ کو تاخیر سے ملی ہے، ویسے اس کتاب کی گیٹ اپ دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی تیاری اور طباعت پرجس قدر محنت کی گئی ہے، اس کے پیش نظر لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچنے میں کوئی ایسی تاخیر بھی نہیں ہوئی۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔کتاب اس قدر دیدہ زیب ہے کہ اس کی اشاعت میں تاخیر سمجھ سے بالا نہیں۔
میں گیٹ اپ پر زور دیے جا رہا ہوں ، حالانکہ صوری خوبیوں کے ساتھ یہ کتاب معنوی خوبیوں سے بھی پوری طرح آراستہ ہے، اس کتاب کی محض ورق گردانی کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک میں صرف میٹرو بس کا منصوبہ ہی مکمل ہوا ہے،اس کتاب کے چار سو صفحات کی ایک ایک سطر وفاقی حکومت کے ان گنت کارناموں سے مزین ہے۔
جادو وہ ہے جو سر چڑھ کے بولتا ہے، ڈھول بجانے سے جادو کی تاثیر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، بس وفاقی حکومت نے ڈھول نہیں بجائے، خلق خدا کا ایک ہجوم اکٹھا کر کے نہیں کہا کہ اس نے کیا کیا کارنامہ دکھا دیا۔کتاب کا نام بھی بلا کا ہے:Reconciliation,Reforms and Revival۔ اس نام میں بھی شاعری کی گئی ہے۔جب کائرہ صاحب وزیر ہوں اور چوہدری رشید احمد سیکریٹری اطلاعات( اب وہ تبدیل ہو چکے)تو ایسی ہی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ کتاب سامنے آنا چاہیے تھی، میں اس کے کریڈیٹ میں کتاب کے دونوں ایڈیٹروں کو بھی شامل کرتا ہوں ۔ امجد بھٹی اور ظہور احمد نے بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ کتاب لائیبریریوںا ور ڈارننگ روموں کی زینت تو بنے گی ہی لیکن آنے والے برسوں میں یہ ایک ریفرنس بک کے طور پر بھی کام آئے گی، مستقبل کا مورخ اس کی بنیاد پر ہی تاریخ کا دھارا متعین کرے گا۔
کتاب کی پہلی تھیم ہے مفاہمت۔میں سر دست اسی موضوع کو چھیڑتا ہوں۔ مفاہمت کا درس ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی کوٹھڑی میں اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ کہہ کر دیا کہ بہترین انتقام جمہوریت میں مضمر ہے۔ محترمہ نے اپنے مخالفین سے کوئی انتقام لیا تو ہمیشہ الیکشن جیت کر اور حکومت بنا کر۔انھوں نے مقدمے نہیں بنائے، احتساب سیل قائم نہیں کیے،کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔یہ سبق ان کے مخالفین کو بھی یاد آگیا اور اس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے گئے جس میں طے ہوا کہ آیندہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم سے احتراز کریں گی،ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گی، ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لیے ایجنسیوں کا سہارا نہیں لیں گی، ایک دوسرے کے خلاف انتقامی مقدمے بازی نہیں کریں گی۔
اسی پس منظر میں محترمہ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ملک کے آمر پرویز مشرف سے بھی این آر او کیا ۔یہ این آرا او صرف محترمہ کی واپسی کی بنیاد نہیںبنا بلکہ اس این آرا و نے شریف برادران پر جلا وطنی کے خاتمے کے دروازے بھی کھولے ورنہ دونوں بھائی باربار واپسی کی کوشش کر چکے تھے اور ہر بار انھیں دوسرے جہاز میں بٹھا کر واپس بھجوا دیا جاتا تھا۔ اس این آر او کو سپریم کورٹ نے وائڈ اب ٹشو قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
جس کے بعد این ا ٓر او کا یہی مقصد سامنے آیا کہ بس اس کا جھانسہ دے کر محترمہ کو واپس بلایا گیا اور شہید کر دیا گیا۔یہ این آراو صرف محترمہ اور مشرف کے مابین نہیں تھا بلکہ اس کے لیے ملک کے دیگر آئینی اداروں نے مذاکرات کیے تھے، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے ممالک نے اس کی ضمانت فراہم کی تھی لیکن میڈیا میں این آر اور کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا ہوا تو کوئی ضامن اس کے دفاع کے لیے سامنے نہیں آیا ، ان کی خاموشی اس امر پر دلالت کرتی تھی کہ یہ این آر او محض محترمہ کو مقتل میں بلانے کی ایک سازش تھی ۔
کچھ بھی ہو این آر او کی اسپرٹ پر اس پارٹی نے ضرور عمل کیا جس کی لیڈر شہادت کے مرتبے پر سرفراز ہوئی۔ پارٹی نے ثابت کیا کہ محترمہ کی پالیسی ان کے ساتھ قبر میں دفن نہیں ہو گئی بلکہ محترمہ کے سیاسی وارث کے طور پر جناب آصف علی زرداری نے اس کو حرف بحرف آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔انھوں نے سب سے پہلے بلوچستان کے دکھی عوام کی دل جوئی کرتے ہوئے ان سے ماضی کی حکومتوں کی زیادتیوں پر معافی مانگی۔انھوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ کسی پارٹی کو واضح منڈیٹ نہیں ملا، اس لیے انھوں نے صحیح معنوں میں ایک قومی حکومت کی تشکیل کی طرف پیش رفت کی۔
وفاق میں انھوں نے ن لیگ کو اپنی حکومت میں شامل کیا اور پنجاب میں ن لیگ کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا اور اپنے ارکان کو ٹریژری بنچوں پر بٹھایا۔ صدر مملکت اگر چاہتے تو وہ پنجاب میں پی پی پی کی حکومت بنا سکتے تھے لیکن انھوں نے ن لیگ کے لارجر گروپ کے منڈیٹ کا احترام کیا۔صوبہ خیبر پختون خوا میں انھوں نے اے این پی کو حکومت بنانے میں تعاون کیا، سندھ میں ایم کیو ایم کو ساتھ بٹھایا اور بلوچستان میں آل پارٹیز حکومت بننے میں معاونت کی۔وفاق میںجب جمہوریت کے استحکام کو چیلنج درپیش ہوا تو انھوں نے ق لیگ کی طرف دست تعاون دراز کیا حالانکہ محترمہ کی شہادت کے فوری بعد وہ اسے قاتل لیگ کہہ چکے تھے مگر جمہوری تقاضوں کی تکمیل میں انھوں نے اپنی سابقہ رائے سے رجوع کیا اور چوہدری برادران کو حکومت میں ہر سطح پر عزت کا مقام دیا، چوہدری پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم کا منصب عطا کیااور چوہدری شجاعت حسین کے مشوروں پر باقاعدگی سے عمل کیا۔وفاق کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے انھوں نے صوبہ سرحد کا نام بدل کر اس کی شناخت بحال کی اور صوبے کے عوام کی امنگوں کی تکمیل میں کسی پس و پیش سے کام نہ لیا۔ اسی طرح گلگت اور بلتستان کی کوئی پہچان نہ تھی، اس کے عوام کو جمہوری حقوق حاصل نہیں تھے، وفاقی حکومت نے اس علاقے کو صوبے کا درجہ دیا اور اس کی الگ اسمبلی کے چنائو کا راستہ ہموار کیا۔
یہاں منتخب حکومت قائم ہوئی۔پاکستان میں ایک عرصے سے مالیاتی ایوارڈ پر پھڈا چل رہا تھا اور وفاق کی اکائیاں اس تعطل سے بری طرح متاثر ہو رہی تھیں۔حکومت نے کئی سال بعد پورے قومی اتفاق رائے سے مالیاتی ایوارڈ کو منظورکرایا، صوبوں کے وسائل میں اضافہ ہوا اور عوام کے مسائل کو حل کرنے میں اب کسی کے پاس مالی کمی کا جواز باقی نہ رہا۔
آئین کو آمروں کی ڈالی غلاظت سے پاک کرنے کے لیے بھی حکومت نے کئی ایک اقدامات کیے، اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں کامل اتفاق رائے سے آئینی ترامیم کی گئیں۔جن سے انیس سو تہتر کے آئین کی روح بحال ہو گئی، ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی صدر نے اپنے اختیارات برضا و رغبت پارلیمنٹ کو واپس کیے ہوں۔اب ایوان صدر میں بیٹھا ہواشخص گھنٹہ گھر نہیں رہا۔ وہ محض ریاست کا عملی سربراہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کا شریک سربراہ بھی ہے ، اس لحاظ سے اس کی سیاسی اہمیت موجود ہے۔حکومت نے پچھلے پونے پانچ برس میں قدم قدم پر مفاہمت کی پالیسی کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری منتخب حکومت کی آئینی ٹرم مکمل کی ہے، یہ ایک کارنامہ ہی اس کو تاریخ میں زندہ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے مگر شاہنامے کے اوراق بھرے ہوئے ہیں، ایک ایک کر کے پلٹتے جائیں گے۔
وفاقی حکومت نے کہنے کو تو پانچ سال مکمل کر لیے ہیں مگر اس کے چار سالہ دور حکومت پر محیط کتاب مجھ کو تاخیر سے ملی ہے، ویسے اس کتاب کی گیٹ اپ دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی تیاری اور طباعت پرجس قدر محنت کی گئی ہے، اس کے پیش نظر لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچنے میں کوئی ایسی تاخیر بھی نہیں ہوئی۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔کتاب اس قدر دیدہ زیب ہے کہ اس کی اشاعت میں تاخیر سمجھ سے بالا نہیں۔
میں گیٹ اپ پر زور دیے جا رہا ہوں ، حالانکہ صوری خوبیوں کے ساتھ یہ کتاب معنوی خوبیوں سے بھی پوری طرح آراستہ ہے، اس کتاب کی محض ورق گردانی کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس ملک میں صرف میٹرو بس کا منصوبہ ہی مکمل ہوا ہے،اس کتاب کے چار سو صفحات کی ایک ایک سطر وفاقی حکومت کے ان گنت کارناموں سے مزین ہے۔
جادو وہ ہے جو سر چڑھ کے بولتا ہے، ڈھول بجانے سے جادو کی تاثیر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، بس وفاقی حکومت نے ڈھول نہیں بجائے، خلق خدا کا ایک ہجوم اکٹھا کر کے نہیں کہا کہ اس نے کیا کیا کارنامہ دکھا دیا۔کتاب کا نام بھی بلا کا ہے:Reconciliation,Reforms and Revival۔ اس نام میں بھی شاعری کی گئی ہے۔جب کائرہ صاحب وزیر ہوں اور چوہدری رشید احمد سیکریٹری اطلاعات( اب وہ تبدیل ہو چکے)تو ایسی ہی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ کتاب سامنے آنا چاہیے تھی، میں اس کے کریڈیٹ میں کتاب کے دونوں ایڈیٹروں کو بھی شامل کرتا ہوں ۔ امجد بھٹی اور ظہور احمد نے بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ کتاب لائیبریریوںا ور ڈارننگ روموں کی زینت تو بنے گی ہی لیکن آنے والے برسوں میں یہ ایک ریفرنس بک کے طور پر بھی کام آئے گی، مستقبل کا مورخ اس کی بنیاد پر ہی تاریخ کا دھارا متعین کرے گا۔
کتاب کی پہلی تھیم ہے مفاہمت۔میں سر دست اسی موضوع کو چھیڑتا ہوں۔ مفاہمت کا درس ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی کوٹھڑی میں اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ کہہ کر دیا کہ بہترین انتقام جمہوریت میں مضمر ہے۔ محترمہ نے اپنے مخالفین سے کوئی انتقام لیا تو ہمیشہ الیکشن جیت کر اور حکومت بنا کر۔انھوں نے مقدمے نہیں بنائے، احتساب سیل قائم نہیں کیے،کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔یہ سبق ان کے مخالفین کو بھی یاد آگیا اور اس کے نتیجے میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے گئے جس میں طے ہوا کہ آیندہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم سے احتراز کریں گی،ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گی، ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لیے ایجنسیوں کا سہارا نہیں لیں گی، ایک دوسرے کے خلاف انتقامی مقدمے بازی نہیں کریں گی۔
اسی پس منظر میں محترمہ نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ملک کے آمر پرویز مشرف سے بھی این آر او کیا ۔یہ این آرا او صرف محترمہ کی واپسی کی بنیاد نہیںبنا بلکہ اس این آرا و نے شریف برادران پر جلا وطنی کے خاتمے کے دروازے بھی کھولے ورنہ دونوں بھائی باربار واپسی کی کوشش کر چکے تھے اور ہر بار انھیں دوسرے جہاز میں بٹھا کر واپس بھجوا دیا جاتا تھا۔ اس این آر او کو سپریم کورٹ نے وائڈ اب ٹشو قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
جس کے بعد این ا ٓر او کا یہی مقصد سامنے آیا کہ بس اس کا جھانسہ دے کر محترمہ کو واپس بلایا گیا اور شہید کر دیا گیا۔یہ این آراو صرف محترمہ اور مشرف کے مابین نہیں تھا بلکہ اس کے لیے ملک کے دیگر آئینی اداروں نے مذاکرات کیے تھے، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے ممالک نے اس کی ضمانت فراہم کی تھی لیکن میڈیا میں این آر اور کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا ہوا تو کوئی ضامن اس کے دفاع کے لیے سامنے نہیں آیا ، ان کی خاموشی اس امر پر دلالت کرتی تھی کہ یہ این آر او محض محترمہ کو مقتل میں بلانے کی ایک سازش تھی ۔
کچھ بھی ہو این آر او کی اسپرٹ پر اس پارٹی نے ضرور عمل کیا جس کی لیڈر شہادت کے مرتبے پر سرفراز ہوئی۔ پارٹی نے ثابت کیا کہ محترمہ کی پالیسی ان کے ساتھ قبر میں دفن نہیں ہو گئی بلکہ محترمہ کے سیاسی وارث کے طور پر جناب آصف علی زرداری نے اس کو حرف بحرف آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔انھوں نے سب سے پہلے بلوچستان کے دکھی عوام کی دل جوئی کرتے ہوئے ان سے ماضی کی حکومتوں کی زیادتیوں پر معافی مانگی۔انھوں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ کسی پارٹی کو واضح منڈیٹ نہیں ملا، اس لیے انھوں نے صحیح معنوں میں ایک قومی حکومت کی تشکیل کی طرف پیش رفت کی۔
وفاق میں انھوں نے ن لیگ کو اپنی حکومت میں شامل کیا اور پنجاب میں ن لیگ کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا اور اپنے ارکان کو ٹریژری بنچوں پر بٹھایا۔ صدر مملکت اگر چاہتے تو وہ پنجاب میں پی پی پی کی حکومت بنا سکتے تھے لیکن انھوں نے ن لیگ کے لارجر گروپ کے منڈیٹ کا احترام کیا۔صوبہ خیبر پختون خوا میں انھوں نے اے این پی کو حکومت بنانے میں تعاون کیا، سندھ میں ایم کیو ایم کو ساتھ بٹھایا اور بلوچستان میں آل پارٹیز حکومت بننے میں معاونت کی۔وفاق میںجب جمہوریت کے استحکام کو چیلنج درپیش ہوا تو انھوں نے ق لیگ کی طرف دست تعاون دراز کیا حالانکہ محترمہ کی شہادت کے فوری بعد وہ اسے قاتل لیگ کہہ چکے تھے مگر جمہوری تقاضوں کی تکمیل میں انھوں نے اپنی سابقہ رائے سے رجوع کیا اور چوہدری برادران کو حکومت میں ہر سطح پر عزت کا مقام دیا، چوہدری پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم کا منصب عطا کیااور چوہدری شجاعت حسین کے مشوروں پر باقاعدگی سے عمل کیا۔وفاق کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے انھوں نے صوبہ سرحد کا نام بدل کر اس کی شناخت بحال کی اور صوبے کے عوام کی امنگوں کی تکمیل میں کسی پس و پیش سے کام نہ لیا۔ اسی طرح گلگت اور بلتستان کی کوئی پہچان نہ تھی، اس کے عوام کو جمہوری حقوق حاصل نہیں تھے، وفاقی حکومت نے اس علاقے کو صوبے کا درجہ دیا اور اس کی الگ اسمبلی کے چنائو کا راستہ ہموار کیا۔
یہاں منتخب حکومت قائم ہوئی۔پاکستان میں ایک عرصے سے مالیاتی ایوارڈ پر پھڈا چل رہا تھا اور وفاق کی اکائیاں اس تعطل سے بری طرح متاثر ہو رہی تھیں۔حکومت نے کئی سال بعد پورے قومی اتفاق رائے سے مالیاتی ایوارڈ کو منظورکرایا، صوبوں کے وسائل میں اضافہ ہوا اور عوام کے مسائل کو حل کرنے میں اب کسی کے پاس مالی کمی کا جواز باقی نہ رہا۔
آئین کو آمروں کی ڈالی غلاظت سے پاک کرنے کے لیے بھی حکومت نے کئی ایک اقدامات کیے، اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں کامل اتفاق رائے سے آئینی ترامیم کی گئیں۔جن سے انیس سو تہتر کے آئین کی روح بحال ہو گئی، ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی صدر نے اپنے اختیارات برضا و رغبت پارلیمنٹ کو واپس کیے ہوں۔اب ایوان صدر میں بیٹھا ہواشخص گھنٹہ گھر نہیں رہا۔ وہ محض ریاست کا عملی سربراہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کا شریک سربراہ بھی ہے ، اس لحاظ سے اس کی سیاسی اہمیت موجود ہے۔حکومت نے پچھلے پونے پانچ برس میں قدم قدم پر مفاہمت کی پالیسی کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری منتخب حکومت کی آئینی ٹرم مکمل کی ہے، یہ ایک کارنامہ ہی اس کو تاریخ میں زندہ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے مگر شاہنامے کے اوراق بھرے ہوئے ہیں، ایک ایک کر کے پلٹتے جائیں گے۔