Crown Shyness پیڑوں کی ’شرماہٹ‘ سائنسدانوں کے لیے ہنوز ایک معمّا
یہ ایک ایسا قدرتی مظہر ہے جس میں گھنے جنگل میں بعض اقسام کے درختوں کی چھتریاں ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتیں
Crown Shyness یا درختوں کا شرمیلا پن ایک ایسا قدرتی مظہر ہے برسوں کی تحقیق کے بعد بھی سائنس داں جس کی کوئی توجیہہ تلاش نہیں کرسکے۔
یہ ایک ایسا قدرتی مظہر ہے جس میں گھنے جنگل میں بعض اقسام کے درختوں کی چھتریاں ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتیں۔ جنگل میں ایک دوسرے کے بہت قریب ایستادہ ہونے کے باوجود ان کی شاخیں اور پتے ایک دوسرے سے الجھنا تو دور کی بات ٹکراتے تک نہیں ہیں۔ اس گریزکو درختوں کے نیچے کھڑے ہوکر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ نیچے کھڑے ہوکر نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی جائے تو درختوں کی چھتریوں کے درمیان ان کی حدود کے ساتھ ساتھ باریک سی لکیر نظر آتی ہے۔ دن کے اوقات میں اس لکیر سے دھوپ جنگل کو چیرتی ہوئی نیچے پہنچتی ہے۔ عام طور پر یہ مظہر ایک ہی قسم کے درختوں کے مابین مشاہدہ کیا جاتا ہے مگر مختلف اقسام کے درختوں کے درمیان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ پہلی بار اس کا تذکرہ 1920ء کے عشرے کے سائنسی ادب میں کیا گیا۔ اس پر تحقیق کا سلسلہ بھی اسی زمانے میں شروع ہوگیا تھا مگر ان گنت تحقیق کے باوجود سائنس داں اس کی وجوہات پر متفق نہیں ہوسکے۔
Crown Shyness کے اسباب کے طور پر کئی نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر معقول اور قابل قبول ہیں لیکن ان میں شک کی گنجائش ضرور موجود ہے۔ اسی لیے یہ مظہر سائنس داں برادری کے لیے ہنوز ایک معما بنا ہوا ہے اور اس پر تحقیق کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آسٹریلین ماہر نباتات ایم آر جیکسن نے 1955 میں Growth Habits of Eucalypts کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی تھی۔ اس میں جیکسن نے لکھا تھا کہ بڑھتے ہوئے درختوں کا اوپری حصہ یعنی چھتری رگڑ یا ٹکراؤ کے لیے حساس ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے مختلف چھتریوں کے درمیان یہ خلا بنتا ہے جسے Crown Shyness کہتے ہیں۔ 1986ء میں ڈاکٹر میگوئل فرانکو نے بھی اس نظریے کو درست قرار دیا تھا۔ انھوں نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ دو اقسام کے پیڑوں کی شاخیں آپس میں رگڑ کی وجہ سے ٹوٹ گئیں یا انھیں نقصان پہنچا۔ دوران تجربات یہ دیکھا گیا کہ اگر ''شرمیلے'' درختوں کو ہوا میں جھومنے اور ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے سے بچایا جائے تو وہ بتدریج یہ دوری یعنی چھتریوں کا درمیانی خلا مٹا دیتے ہیں۔ Crown Shyness کے حوالے سے یہ نظریہ سب سے زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر دوسرے نظریات بھی موجود ہیں۔
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ مظہر دراصل پتوں کو کیڑوں کی خوراک بننے سے بچانے کے لیے ایک قدرتی میکنزم ہے۔ یہ برگ خور کیڑے درخت کی شاخوں پر ایسی ساختیں بناتے ہیں جن کی لمبائی 10 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ ان ساختوں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ ایک سے دوسرے درخت کی شاخوں پر منتقل ہوجاتے ہیں۔
درمیانی خلا کیڑوں کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ملائیشیا کے ایک سائنس داں نے ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے کہا کہ پیڑوں کی چھتری روشنی کے لیے حساسیت رکھتی ہے۔ اسی لیے جب یہ دوسرے پیڑ کی چھتری کے قریب پہنچتی ہے تو اس کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ سائنس اس نظریے کو بھی سہارا دیتی ہے کیوںکہ پودے روشنی ہی کی مدد سے دوسرے پودوں سے فاصلے کا اندازہ کرلیتے ہیں۔ بہرصورت Crown Shyness کی حتمی وجہ یا وجوہ پر سائنس داں متفق نہیں ہوسکے اور ہنوز یہ قدرتی مظہر ایک سربستہ راز ہے۔
یہ ایک ایسا قدرتی مظہر ہے جس میں گھنے جنگل میں بعض اقسام کے درختوں کی چھتریاں ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتیں۔ جنگل میں ایک دوسرے کے بہت قریب ایستادہ ہونے کے باوجود ان کی شاخیں اور پتے ایک دوسرے سے الجھنا تو دور کی بات ٹکراتے تک نہیں ہیں۔ اس گریزکو درختوں کے نیچے کھڑے ہوکر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ نیچے کھڑے ہوکر نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی جائے تو درختوں کی چھتریوں کے درمیان ان کی حدود کے ساتھ ساتھ باریک سی لکیر نظر آتی ہے۔ دن کے اوقات میں اس لکیر سے دھوپ جنگل کو چیرتی ہوئی نیچے پہنچتی ہے۔ عام طور پر یہ مظہر ایک ہی قسم کے درختوں کے مابین مشاہدہ کیا جاتا ہے مگر مختلف اقسام کے درختوں کے درمیان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ پہلی بار اس کا تذکرہ 1920ء کے عشرے کے سائنسی ادب میں کیا گیا۔ اس پر تحقیق کا سلسلہ بھی اسی زمانے میں شروع ہوگیا تھا مگر ان گنت تحقیق کے باوجود سائنس داں اس کی وجوہات پر متفق نہیں ہوسکے۔
Crown Shyness کے اسباب کے طور پر کئی نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر معقول اور قابل قبول ہیں لیکن ان میں شک کی گنجائش ضرور موجود ہے۔ اسی لیے یہ مظہر سائنس داں برادری کے لیے ہنوز ایک معما بنا ہوا ہے اور اس پر تحقیق کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آسٹریلین ماہر نباتات ایم آر جیکسن نے 1955 میں Growth Habits of Eucalypts کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی تھی۔ اس میں جیکسن نے لکھا تھا کہ بڑھتے ہوئے درختوں کا اوپری حصہ یعنی چھتری رگڑ یا ٹکراؤ کے لیے حساس ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے مختلف چھتریوں کے درمیان یہ خلا بنتا ہے جسے Crown Shyness کہتے ہیں۔ 1986ء میں ڈاکٹر میگوئل فرانکو نے بھی اس نظریے کو درست قرار دیا تھا۔ انھوں نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ دو اقسام کے پیڑوں کی شاخیں آپس میں رگڑ کی وجہ سے ٹوٹ گئیں یا انھیں نقصان پہنچا۔ دوران تجربات یہ دیکھا گیا کہ اگر ''شرمیلے'' درختوں کو ہوا میں جھومنے اور ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے سے بچایا جائے تو وہ بتدریج یہ دوری یعنی چھتریوں کا درمیانی خلا مٹا دیتے ہیں۔ Crown Shyness کے حوالے سے یہ نظریہ سب سے زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر دوسرے نظریات بھی موجود ہیں۔
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ مظہر دراصل پتوں کو کیڑوں کی خوراک بننے سے بچانے کے لیے ایک قدرتی میکنزم ہے۔ یہ برگ خور کیڑے درخت کی شاخوں پر ایسی ساختیں بناتے ہیں جن کی لمبائی 10 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ ان ساختوں کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہ ایک سے دوسرے درخت کی شاخوں پر منتقل ہوجاتے ہیں۔
درمیانی خلا کیڑوں کی منتقلی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ملائیشیا کے ایک سائنس داں نے ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے کہا کہ پیڑوں کی چھتری روشنی کے لیے حساسیت رکھتی ہے۔ اسی لیے جب یہ دوسرے پیڑ کی چھتری کے قریب پہنچتی ہے تو اس کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ سائنس اس نظریے کو بھی سہارا دیتی ہے کیوںکہ پودے روشنی ہی کی مدد سے دوسرے پودوں سے فاصلے کا اندازہ کرلیتے ہیں۔ بہرصورت Crown Shyness کی حتمی وجہ یا وجوہ پر سائنس داں متفق نہیں ہوسکے اور ہنوز یہ قدرتی مظہر ایک سربستہ راز ہے۔