ہمارا بم مذاق نہیں
امریکا کے صدر نے نہ صرف پاکستان کو دھمکایا ہے بلکہ اس نے ہندوستان کو تھپکی بھی دی ہے
ہر ملک کی ہمسائیگی کا دعویدار امریکا ہمارا ہمسایہ تو ہماری مملکت کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی بن گیا تھا کہ ہم نے اُس وقت کی اپنی ہمسایہ سپر پاورسوویت یونین کے مقابلے میں امریکی بلاک کا ساتھ دینے کو ترجیح دی تھی اس کو دیکھتے ہوئے قدرتی طور پر ہمارا دشمن ہندوستان سوویت یونین کی سر پرستی میں چلا گیا۔
امریکا کے ساتھ اپنے طویل تعلقات کو ہم تو کسی نہ کسی طرح نبھاتے آرہے ہیں لیکن جب سے ہم نے امریکی حمایت سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرا اور اس کے نتیجہ میں امریکا دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آیا تو ایک امریکی عہدیدار نے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ امریکا چونکہ روئے زمین کی سب سے بڑی طاقت بن گیا ہے اس لیے اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ دنیا کو کس طرح چلانا چاہتا ہے کیونکہ پوری دنیا کی ذمے داری اب امریکا کی ذمے داری بن چکی ہے۔
اُس وقت امریکی دانشوروں کی یہ رائے بھی سامنے آئی تھی کہ چونکہ امریکا دو سمندروں کے درمیان واقع ہے اس لیے اس کو اپنے حال میں ہی مست رہنا چاہیے اور اس سے زیادہ کسی سرگرمی کی ضرورت نہیں لیکن ایک قانون قدرت کا بھی ہے کہ جب طاقت آتی ہے تو اسے استعمال کرنے کا بھی سوچا جاتا ہے اور یہ طاقت ہمیشہ اپنے سے چھوٹے پر ہی استعمال کی جاتی ہے کہ اس سے نقصان کا اندیشہ کم ہی ہوتا ہے اور جیت کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ اکلوتی سپر پاور کے طاقت کے نشے میں امریکا نے دنیا کے کئی ملکوں اور خاص طور پر مسلمان ملکوں میں مہم جوئی کی اور ان مسلمان ملکوں کے اندر موجود غداروں کی وجہ سے وہ کامیاب بھی رہا۔
امریکا اپنی خارجہ پالیسی میں جن ملکوں میں دلچسپی رکھتا ہے میرے خیال میں ان میں سر فہرست پاکستان ہے جس کا محل ِ وقوع اس کو ممتاز بناتا ہے اور یہی محل وقوع ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی بنا ہوا ہے اس کی کئی وجوہات بھی ہیں جس کی وجہ سے امریکا کی دلچسپی مسلسل پاکستان کے لیے برقرار بلکہ بے قرار ہے کہ اس خطے میں پاکستان کے تعاون کے بغیر وہ کوئی بھی مہم جوئی نہیں کر سکتا اس لیے وہ مسلسل اپنی نام نہاد دوستی کادعویٰ بھی کرتا ہے اور ہمیں پہلے تو در پردہ دھمکیاں دیتا تھا لیکن اب جب سے امریکا کی قیادت میں تبدیلی آئی ہے تو اس نے ان دھمکیوں کا اعلان بھی کرنا شروع کر دیا ہے اور تازہ ترین دھمکی اس کی پاکستان میں مداخلت کی ہے جو اس کے صدر کی جانب سے دی گئی جس کا واضح جواب پاکستان کی سرحدوں کے محافظ کی جانب سے فوری سامنے آیا جس میں ہمارے آرمی چیف نے کہا ہے کہ ہمیں امریکی امداد بالکل بھی نہیں چاہیے ہم نے آج تک امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے جو قربانیاں دی ہیں۔
ان کا اعتراف امریکا کی جانب سے ضرور چاہتے ہیں اور امریکا کو ہمیں اعتماد دینا چاہیے کہ ہم نے پچھلی کئی دہائیوں سے اس کی اس خطے میں ہر طرح سے مدد کی ہے اور اس کی جنگ لڑی ہے جس میں ہم نے اپنے ملک کا سراسر نقصان ہی کیا ہے۔ افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے ہماری کوششیں اس بات کا اعلان ہیں کہ ہم اس خطے میں امن کے داعی ہیں اورافغانستان کے استحکام کے لیے ہم مستقبل میں بھی کام کرتے رہیں گے کہ اس میں ہمارا قومی مفاد وابستہ ہے۔
امریکا کے صدر نے نہ صرف پاکستان کو دھمکایا ہے بلکہ اس نے ہندوستان کو تھپکی بھی دی ہے حالانکہ ہندوستان کا دہشتگردی کے خلاف برپا جنگ میں کوئی کردار بھی نہیں ہے لیکن بات وہیںپہ آکر اٹکتی ہے کہ امریکا پاکستان کو ہندوستان کے زیرِ دست رکھنے کی اپنی پرانی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کو علاقے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے کیونکہ ایٹمی پاکستان اس کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں اور وہ ہمیشہ سے یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کو ختم کر دیا جائے تا کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پر اپنی بالا دستی قائم رکھی جا سکے۔
اس تازہ دھمکی سے پہلے بھی امریکا پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں پر ڈرون طیاروں کے ذریعے حملے کرتا رہا ہے جس کی اجازت اس کو اس وقت کی حکومت نے مبینہ طور پر دے رکھی تھی لیکن اب تو اس نے پاکستان کے اندر گھس کر دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی بات کی ہے جو کہ پاکستانی عوام اور فوج کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کہ ہماری فوج خود ہی کامیابی سے ان دہشتگرودوں اور ان کی پناہ گاہوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔
امریکا نے دنیا میں اب تک جتنی بھی مہم جوئیاں کی ہیں اس میں اس کو زبردست مزاحمت کا سامنا رہا ہے اور بعد میں اس نے کئی ایک ملکوں میں اپنی جارحیت کو غلط بھی تسلیم کیا ہے۔ ہمارے ہمسائے افغانستان میں پہلے تو اس نے ہماری حمایت کے ساتھ سوویت یونین کے ساتھ جنگ لڑی جس میں اس کو کامیابی صرف اور صرف ہماری حمایت کی وجہ سے ہی ہوئی لیکن جب دوبارہ اس نے زبردستی ہماری حمایت حاصل کر کے افغانستان میں جارحیت کی تو اس کو افغان جنگجوؤں کی جانب سے بھر پور جواب ملا جو کہ اب تک جاری ہے اور اپنی اس ناکامی کو چھپا نے کے لیے امریکا اب الزام تراشیوں پر اتر آیا ہے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس نے نئی چال چلنے کی کوشش کی ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے تا کہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کا جو منصوبہ زیرِ تکمیل ہے اس میں رخنہ ڈالا جا سکے کیونکہ یہ منصوبہ امریکا سمیت اس کے اتحادیوں کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں اوراس منصوبے کوصرف اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے جب کہ پاکستان کے اندرونی حالات کو انتشار کا شکار کر دیا جائے اور ملک میں امن و امان کو بگاڑ دیا جائے۔
اس اہم ترین معاملے پر ہمارے سیاستدانوں کو روایتی سیاست کے بجائے سنجیدگی سے متحد ہو کر حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی اور سیاسی بیان بازی سے گریز کرنا ہو گا کہ اس سے ملک کی فضاؤں پر خطرات کے منڈلاتے کالے بادل نہیں چھٹیں گے اصل میں اب ضرورت اس بات کی محسوس کی جارہی ہے کہ ملک کی سلامتی اور مستقبل کے خدوخال کی وضاحت کے لیے ملک کی سلامتی کے محافظ اداروں اورسیاسی قیادت کو متحد ہو کر اس نئی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے تفصیلی تبادلہ خیال کرنا ہوگا ۔
جس کی پیشکش چیئر مین سینیٹ رضا ربانی کر چکے ہیں اور ہماری فوج بھی اس میں شمولیت پر اپنی آمادگی ظاہر کر چکی ہے لیکن یہ بحث و مباحثہ فوری طور پر شروع کر دینا ہی عقلمندی ہو گی اور اس میں ہمارے حکومت کو پہل کرنا ہو گی کیونکہ منتخب حکومت ہی اس سلسلے میں موثر کردار ادا کر سکتی ہے اور ہمیں امریکا کی اس دھمکی کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور امریکا کو ہماری جانب سے واضح اور متفقہ جواب جانا چاہیے کہ اگر اس نے ایٹمی پاکستان میں کوئی مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو اس کو اس کے خطرناک بلکہ بھیانک نتائج کے لیے تیار رہنا ہو گاکہ بقول چوہدری شجاعت ہم نے ایٹم بم شبِ برات پر پھوڑنے کے لیے نہیں بنایا۔
امریکا کے ساتھ اپنے طویل تعلقات کو ہم تو کسی نہ کسی طرح نبھاتے آرہے ہیں لیکن جب سے ہم نے امریکی حمایت سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرا اور اس کے نتیجہ میں امریکا دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آیا تو ایک امریکی عہدیدار نے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ امریکا چونکہ روئے زمین کی سب سے بڑی طاقت بن گیا ہے اس لیے اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ دنیا کو کس طرح چلانا چاہتا ہے کیونکہ پوری دنیا کی ذمے داری اب امریکا کی ذمے داری بن چکی ہے۔
اُس وقت امریکی دانشوروں کی یہ رائے بھی سامنے آئی تھی کہ چونکہ امریکا دو سمندروں کے درمیان واقع ہے اس لیے اس کو اپنے حال میں ہی مست رہنا چاہیے اور اس سے زیادہ کسی سرگرمی کی ضرورت نہیں لیکن ایک قانون قدرت کا بھی ہے کہ جب طاقت آتی ہے تو اسے استعمال کرنے کا بھی سوچا جاتا ہے اور یہ طاقت ہمیشہ اپنے سے چھوٹے پر ہی استعمال کی جاتی ہے کہ اس سے نقصان کا اندیشہ کم ہی ہوتا ہے اور جیت کی امید زیادہ ہوتی ہے۔ اکلوتی سپر پاور کے طاقت کے نشے میں امریکا نے دنیا کے کئی ملکوں اور خاص طور پر مسلمان ملکوں میں مہم جوئی کی اور ان مسلمان ملکوں کے اندر موجود غداروں کی وجہ سے وہ کامیاب بھی رہا۔
امریکا اپنی خارجہ پالیسی میں جن ملکوں میں دلچسپی رکھتا ہے میرے خیال میں ان میں سر فہرست پاکستان ہے جس کا محل ِ وقوع اس کو ممتاز بناتا ہے اور یہی محل وقوع ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی بنا ہوا ہے اس کی کئی وجوہات بھی ہیں جس کی وجہ سے امریکا کی دلچسپی مسلسل پاکستان کے لیے برقرار بلکہ بے قرار ہے کہ اس خطے میں پاکستان کے تعاون کے بغیر وہ کوئی بھی مہم جوئی نہیں کر سکتا اس لیے وہ مسلسل اپنی نام نہاد دوستی کادعویٰ بھی کرتا ہے اور ہمیں پہلے تو در پردہ دھمکیاں دیتا تھا لیکن اب جب سے امریکا کی قیادت میں تبدیلی آئی ہے تو اس نے ان دھمکیوں کا اعلان بھی کرنا شروع کر دیا ہے اور تازہ ترین دھمکی اس کی پاکستان میں مداخلت کی ہے جو اس کے صدر کی جانب سے دی گئی جس کا واضح جواب پاکستان کی سرحدوں کے محافظ کی جانب سے فوری سامنے آیا جس میں ہمارے آرمی چیف نے کہا ہے کہ ہمیں امریکی امداد بالکل بھی نہیں چاہیے ہم نے آج تک امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے جو قربانیاں دی ہیں۔
ان کا اعتراف امریکا کی جانب سے ضرور چاہتے ہیں اور امریکا کو ہمیں اعتماد دینا چاہیے کہ ہم نے پچھلی کئی دہائیوں سے اس کی اس خطے میں ہر طرح سے مدد کی ہے اور اس کی جنگ لڑی ہے جس میں ہم نے اپنے ملک کا سراسر نقصان ہی کیا ہے۔ افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیے ہماری کوششیں اس بات کا اعلان ہیں کہ ہم اس خطے میں امن کے داعی ہیں اورافغانستان کے استحکام کے لیے ہم مستقبل میں بھی کام کرتے رہیں گے کہ اس میں ہمارا قومی مفاد وابستہ ہے۔
امریکا کے صدر نے نہ صرف پاکستان کو دھمکایا ہے بلکہ اس نے ہندوستان کو تھپکی بھی دی ہے حالانکہ ہندوستان کا دہشتگردی کے خلاف برپا جنگ میں کوئی کردار بھی نہیں ہے لیکن بات وہیںپہ آکر اٹکتی ہے کہ امریکا پاکستان کو ہندوستان کے زیرِ دست رکھنے کی اپنی پرانی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کو علاقے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے کیونکہ ایٹمی پاکستان اس کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں اور وہ ہمیشہ سے یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کو ختم کر دیا جائے تا کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پر اپنی بالا دستی قائم رکھی جا سکے۔
اس تازہ دھمکی سے پہلے بھی امریکا پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں پر ڈرون طیاروں کے ذریعے حملے کرتا رہا ہے جس کی اجازت اس کو اس وقت کی حکومت نے مبینہ طور پر دے رکھی تھی لیکن اب تو اس نے پاکستان کے اندر گھس کر دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی بات کی ہے جو کہ پاکستانی عوام اور فوج کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کہ ہماری فوج خود ہی کامیابی سے ان دہشتگرودوں اور ان کی پناہ گاہوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔
امریکا نے دنیا میں اب تک جتنی بھی مہم جوئیاں کی ہیں اس میں اس کو زبردست مزاحمت کا سامنا رہا ہے اور بعد میں اس نے کئی ایک ملکوں میں اپنی جارحیت کو غلط بھی تسلیم کیا ہے۔ ہمارے ہمسائے افغانستان میں پہلے تو اس نے ہماری حمایت کے ساتھ سوویت یونین کے ساتھ جنگ لڑی جس میں اس کو کامیابی صرف اور صرف ہماری حمایت کی وجہ سے ہی ہوئی لیکن جب دوبارہ اس نے زبردستی ہماری حمایت حاصل کر کے افغانستان میں جارحیت کی تو اس کو افغان جنگجوؤں کی جانب سے بھر پور جواب ملا جو کہ اب تک جاری ہے اور اپنی اس ناکامی کو چھپا نے کے لیے امریکا اب الزام تراشیوں پر اتر آیا ہے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اس نے نئی چال چلنے کی کوشش کی ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے تا کہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کا جو منصوبہ زیرِ تکمیل ہے اس میں رخنہ ڈالا جا سکے کیونکہ یہ منصوبہ امریکا سمیت اس کے اتحادیوں کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں اوراس منصوبے کوصرف اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے جب کہ پاکستان کے اندرونی حالات کو انتشار کا شکار کر دیا جائے اور ملک میں امن و امان کو بگاڑ دیا جائے۔
اس اہم ترین معاملے پر ہمارے سیاستدانوں کو روایتی سیاست کے بجائے سنجیدگی سے متحد ہو کر حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی اور سیاسی بیان بازی سے گریز کرنا ہو گا کہ اس سے ملک کی فضاؤں پر خطرات کے منڈلاتے کالے بادل نہیں چھٹیں گے اصل میں اب ضرورت اس بات کی محسوس کی جارہی ہے کہ ملک کی سلامتی اور مستقبل کے خدوخال کی وضاحت کے لیے ملک کی سلامتی کے محافظ اداروں اورسیاسی قیادت کو متحد ہو کر اس نئی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے تفصیلی تبادلہ خیال کرنا ہوگا ۔
جس کی پیشکش چیئر مین سینیٹ رضا ربانی کر چکے ہیں اور ہماری فوج بھی اس میں شمولیت پر اپنی آمادگی ظاہر کر چکی ہے لیکن یہ بحث و مباحثہ فوری طور پر شروع کر دینا ہی عقلمندی ہو گی اور اس میں ہمارے حکومت کو پہل کرنا ہو گی کیونکہ منتخب حکومت ہی اس سلسلے میں موثر کردار ادا کر سکتی ہے اور ہمیں امریکا کی اس دھمکی کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور امریکا کو ہماری جانب سے واضح اور متفقہ جواب جانا چاہیے کہ اگر اس نے ایٹمی پاکستان میں کوئی مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو اس کو اس کے خطرناک بلکہ بھیانک نتائج کے لیے تیار رہنا ہو گاکہ بقول چوہدری شجاعت ہم نے ایٹم بم شبِ برات پر پھوڑنے کے لیے نہیں بنایا۔