بوڑھوں کو جوان بنانے والی سائنس

ان طریق ہائے علاج کا حیرت انگیز بیان جن کے ذریعے جدید طب انسان کو بڑھاپے سے چھٹکارا دلا کر موت سے دور لے جانا چاہتی ہے

انسان کے جسم میں خلیوں کی دو سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ فوٹو : فائل

پچھلے سال 29 نومبر کو اٹلی کی ایما مورانو نے اپنی ایک سو سترہ ویں سالگرہ منائی۔ تب اسے دنیا کی معمر ترین خاتون ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ واحد زندہ عورت تھی جو انیسویں صدی میں پیدا ہوئی۔

ایما کا دعویٰ تھا کہ اس کی طویل زندگی کا راز یہ ہے کہ وہ روزانہ تین انڈے کھاتی، گراپا (Grappa) برانڈی پیتی اور خود کو ہمیشہ مثبت رکھتی ہے۔ ایما آخر 15 اپریل 2017ء کو دنیا سے رخصت ہوگئی۔ آج کل ویسٹ انڈیز کی خاتون، وائلٹ براؤن کو کرہ ارض پر معمر ترین انسان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی عمر 117 برس 156 دن ہے۔

قنوطی اور مایوس انسانوں کو چھوڑ کر دنیا کا ہر انسان یہی تمنا کرتا ہے کہ وہ طویل عمر پائے۔ یہی وجہ ہے، ہمارے بزرگ بچوں کو دعائیں دیتے ہوئے اکثر کہتے ہیں کہ لمبی عمر پاؤ اور پوتوں سے کھیلو۔ سوال یہ ہے کہ آخر انسان طویل عرصہ کیونکر زندہ رہ سکتا ہے؟ دنیائے مغرب میں سیکڑوں سائنس داں اور ڈاکٹر اس سوال کا جواب پانے کی خاطر تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں۔ وہ ''سائنسی آب حیات'' کی کھوج میں ہیں جو انسان کو عمر خضر عطا کردے۔

جدید طبی تحقیق بہرحال یہ انکشاف ضرورکر چکی کہ ایک انسان اپنے موجود جنیاتی نظام میں زیادہ سے زیادہ ''115 برس'' تک زندہ رہ سکتاہے۔ لیکن یہ کوئی معین اصول نہیں... فرانس کی جین کلنمیٹ 122 برس 164 دن تک زندگی کے مزے لوٹتی رہی۔ وہ فروری 1875ء میں پیدا ہوئی تھی اور اگست 1997ء میں چل بسی۔ گویا بعض حالات میں انسان ایک سو پندرہ برس سے زیادہ بھی زندہ رہ سکتا ہے۔

پچھلے ایک سو برس میں طبی سائنس نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ فطری ماحول میں زندگی گزارنے والا انسان ''مرض'' کے باعث موت کے منہ میں پہنچتا ہے۔ اس تعریف کی رو سے بڑھاپا بھی مرض قرار دیا جاچکا۔ یہ بات بہت سے پڑھے لکھے پاکستانی بھی نہیں جانتے۔ اسی لیے مغربی سائنس داں اب ایسے طریق ہائے علاج کی تلاش میں ہیں جن کے ذریعے بڑھاپے کو روکا یا ختم کیا جاسکے۔

ایک صدی قبل ڈاکٹر سمجھتے تھے کہ جب انسان کو بڑھاپا چمٹے، تو وہ گنٹھیا، وجع المفاصل، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ جیسی خرابیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ لیکن اب متذکرہ بالا خرابیاں بھی مرض قرار پاچکیں۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ جب ہمارے جسمانی اعضا مسلسل کام کرنے کی وجہ سے ناکارہ ہونے لگیں، تو ہمیں بڑھاپا آدبوچتا ہے۔ لیکن یہ عمل مخصوص وجوہ کی بنا پر بھی جنم لیتا ہے۔ یہ وجوہ انسان کے خلیوں اور سالمات (molecules) سے تعلق رکھتی ہیں۔



جسمانی اعضاء کی خرابی بڑھاپا ہی نہیں موت لانے کا بھی بہت بڑا سبب ہے۔ مثلاً جان لیوا کینسر اس وقت ہم پر حملہ آور ہوتا ہے جب ہمارے خلیے کسی وجہ سے خراب ہوکر سرطانی رسولی بنانا شروع کردیں۔ اسی طرح جب شریانوں میں چربی پھنس جائے، تو ہارٹ اٹیک ہمیں دوسرے جہان پہنچا دیتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان کے بہت سے جسمانی اعضا ناکارہ ہوجائیں، تو وہ گل سڑ کر زہریلا مادہ خارج کرنے لگتے ہیں۔ یہ مادے پھر ہمارے تندرست خلیوں پر دھاوا بول کے انہیں بھی بیمار کر ڈالتے ہیں۔ جسمانی اعضا کی شکست وریخت کے باعث انسان بوڑھا ہوتے ہوتے آخر قبر کے اندر پہنچ جاتا ہے۔

انسان جب نوجوان ہو، تو اس کے سبھی جسمانی اعضا نئے نویلے اور خوب صحت مند ہوتے ہیں۔ تب انسان مٹی بھی کھالے، تو اس میں پوشیدہ جراثیم عموماً اسے بیمار نہیں کرپاتے۔ مگر جوں جوں جسمانی اعضا پر مسلسل کام کرتے رہنے کی وجہ سے تھکن طاری ہو، تو ان پر ضعف آنے لگتا ہے۔

ماضی میں انسان کو خالص غذائیں میّسر تھیں۔ ان میں موجود وٹامن، معدنیات اور دیگر غذائیات ہمارے جسمانی اعضاء کو تندرست رکھتی اور کارکردگی بڑھاتی تھی۔ آج کل خصوصاً پاکستان میں ناقص غذا کا دور دورہ ہے جو بہت کم غذائیت رکھتی ہے۔ اس باعث پاکستانی مرد و زن پر جلد بڑھاپا آنے لگا ہے۔

ظاہر ہے، جب ہر پاکستانی ٹیکوں کی مدد سے نکلا ہوا دودھ نوش کرے گا۔ کیمیائی مادوں کے ذریعے راتوں رات پلنے بڑھنے والی مرغیوں یا مویشیوں کا گوشت کھائے گا، تو اس نے مختلف امراض میں مبتلا ہونا ہی ہے۔ ناقص غذا کے باعث ہی خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں نہ صرف مروجہ امراض پھیل گئے بلکہ نت نئی بیماریاں بھی سامنے آگئیں۔

خلیے کا بجلی گھر
خوش خبری یہ ہے کہ جدید طبی سائنس تحقیق و تجربات کی مدد سے وہ وجوہ رفتہ رفتہ سامنے لارہی ہے جن سے انسان بڑھاپے کا شکار ہوتا ہے۔ یہ وجوہ دیکھتے ہوئے ماہرین طب کی سعی ہے کہ ایسے علاج ایجاد کرلیے جائیں جو بڑھاپا روک نہ سکیں تو کم از کم اسے سست رفتار عمل ضرور بنادیں۔ اس سلسلے میں بہت سے سائنس دانوں نے مائٹو کوونڈ ریا (Mitochondria) پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔

مائٹو کوونڈ ریا ایک عضیہ (organelle) ہے یعنی خلیے کا ایسا حصّہ جو مخصوص کام انجام دیتا ہے۔ یہ دراصل خلیے کا بجلی گھر ہے۔ ہم جو بھی شے تناول کریں،مائٹو کوونڈریا غذا کو اچھی طرح پیس کر اس سے توانائی بناتا اور پھر خلیے کو فراہم کرتا ہے۔ گویا اسی بجلی گھر کی بدولت ایک خلیہ اپنا کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

آپ کو علم ہوگا کہ ہر جاندار کم یا زیادہ خلیوں کا مجموعہ ہے۔ مثلاً ایک ننھا کیڑا چند ہزار خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جبکہ ایک انسان دس ٹریلین تک خلیے رکھتا ہے۔ خلیے کی بھی سیکڑوں اقسام ہیں۔ مثلاً دل کے خلیے، دماغی خلیے، جلد کے خلیے وغیرہ۔ ہر خلیہ اپنے مخصوص کام کے باعث سو سے لے کر ہزار تک مائٹو کوونڈ ریا رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر دماغی خلیوں (نیورونز) کا کام بڑا پیچیدہ ہے۔ لہٰذا انہیں زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک دماغی خلیے میں کئی ہزار مائٹو کوونڈ ریا ہوتے ہیں۔ ویسے قدرت نے ہر خلیے کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ توانائی کی ضرورت بڑھنے پر ازخود مائٹو کوونڈ ریا پیدا کرسکتا ہے۔ ہے نہ یہ قدرت کی زبردست کاریگری!



لیکن ہر زندہ شے کی طرح مائٹو کوونڈ ریا بھی رفتہ رفتہ ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ جب یہ خراب ہونے لگیں تو ایک زہریلا کیمیائی مادہ خارج کرتے ہیں۔ یہ مادہ ہمارے دل کو نقصان پہنچاتا اور اعصاب پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یادداشت بھی کم کر دیتا ہے۔ گویا بوڑھے ہوتے مائٹو کوونڈ ریا اپنے مالک، انسان کے جسمانی اعضا میں خرابیاں پیدا کرکے اسے بھی بوڑھا کرنے لگتے ہیں۔ زہریلا کیمیائی مادہ بنانے والے مائٹو کوونڈ ریا سائنسی اصطلاح میں ''منقلب'' (mutated) کہلاتے ہیں۔ یہ اب اپنا کام فطری طریقے سے نہیں کرپاتے۔

حال ہی میں امریکی سائنسی ادارے، کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے پھل مکھی (فروٹ فلائی) کے جسم میں دو ایسے جین دریافت کیے ہیں جو منقلب مائٹو کوونڈ ریا ڈھونڈ کر انہیں ہلاک کرڈالتے ہیں۔ اس کے بعد ماہرین نے ایک بوڑھی پھل مکھی کے جسم میں یہ دونوں جین مصنوعی طریقے سے متحرک کردیئے۔ دونوں نے پھل مکھی کے تمام منقلب مائٹو کوونڈ ریا مار ڈالے۔ ماہرین پھر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پھل مکھی کے جو جسمانی اعضا خراب ہورہے تھے، وہ تندرست مائٹو کوونڈ ریا کی تعداد بڑھنے سے ٹھیک ہوگئے۔ یوں پھل مکھی دوبارہ جوان ہوگئی۔

اس زبردست تجربے سے دو انقلابی سچ سامنے آئے۔ اول یہ کہ انسان سمیت تمام جانداروں میں جب خلیوں کے بجلی گھر خراب ہوجائیں، تو وہ زہریلا مادہ خارج کرتے ہیں۔ یہ مادہ پھرجسمانی اعضا کو خراب کرنے لگتا ہے۔ چناں چہ جان دار بڑھاپے کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دوم یہ کہ جاندار میں اگر تندرست مائٹو کوونڈ ریا کی تعداد پھر بڑھ جائے، تو جسمانی اعضا صحت مند ہونے کے باعث عمل بڑھاپا بھی ختم ہونے لگتا ہے۔

درج بالا امریکی سائنسی ادارے کے ماہرین اب انسانی جسم میں ایسے جین تلاش کر رہے ہیں جو منقلب مائٹو کوونڈ ریا کا کھوج لگا کر انہیں ختم کرسکیں۔ جب بھی یہ جین دریافت ہوئے ایسا طریق علاج ایجاد کرنے میں دیر نہیں لگے گی جو انسان میں بڑھاپے کا عمل کم از کم سست کرسکے۔ یوں انسان کی طبعی عمر میں کئی برس کا اضافہ ہوجائے گا۔ یہی نہیں، جسمانی اعضا تندرست ہونے کے باعث بڑھاپا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوگا جتنا اب انسانوں کو تنگ کرتا ہے۔

نئی ادویہ کی کھوج میں
امریکا میں ڈاکٹر ایسی ادویہ بھی ایجاد کرنے کی کوششیں کررہے ہیں جو انسانی جسم میں منقلب مائٹو کوونڈ ریا کا خاتمہ کرسکیں۔ اس ضمن میں امریکی ماہرین حیاتیات کو کسی حد تک کامیابی بھی مل چکی۔ انہوں نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ منقلب مائٹو کوونڈ ریا کی پیدائش میں ایک سالمے یا مالیکیول ''نکوٹاینامائڈ ایڈنین ڈاینوسلیوٹائڈ''(Nicotinamide adenine dinucleotide) کا اہم کردار ہے جو مختصراً نیڈ (NAD)کہلاتا ہے۔

دراصل مائٹو کوونڈ ریا اسی نیڈ سالمے کی مدد ہی سے غذا کو پیستا اور توانائی بناتا ہے۔ اگر انسان یا حیوان کے جسم میں نیڈ سالمے کی تعداد گھٹ جائے، تو مائٹو کوونڈ ریا خراب ہوکر منقلب بننے لگتا ہے۔ امریکی ماہرین طب نے یہ بھی دریافت کیا کہ وٹامن بی تھری کی ایک قسم ''نکوٹاینامائڈ رائبوسائڈ'' (Nicotinamide riboside) انسانی جسم میں پہنچ کر نیڈ سالمے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز دریافت ہے کیونکہ امریکا میں بعض ادویہ ساز ادارے وٹامن بی تھری کی درج بالا قسم پر مشتمل دوا تیار کرنے لگے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دوا کھانے سے انسانی بدن میں نیڈ سالمات کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یوں انسانی جلد بوڑھا نہیں ہوپاتا۔

نیڈ سالمے کو 2013ء میں مشہور امریکی یونیورسٹی، ہاورڈ سے وابستہ جینیات داں، ڈیوڈ سنکلیر نے دریافت کیا تھا۔ یہ ڈیوڈ ہی ہے جس نے اکیسویں صدی کے اوائل میں تجربوں سے جانا کہ ''ریسورٹرول'' (Resveratrol) نامی غذائی مادہ بھی انسانی جسم میں بڑھاپے کے اثرات زائل کرتا ہے۔ یہ مادہ انگور، بلیوبیری اور رس بھری میں پایا جاتا ہے۔



حال ہی میں ڈیوڈ سنکلز نے بوڑھے چوہوں پر تحقیق کرتے ہوئے ایک نیا سالمہ ''نکوٹاینامائڈ مونو نیوکلیوٹائیڈ'' (Nicotinamide mononucleotide) دریافت کیا ہے۔ انہوں نے جانا کہ یہ سالم نیڈ سالمے کو صحت مند رکھتا ہے۔ لہٰذا مائٹو کوونڈ ریا کو تندرست رکھنے میں اس سالمے کا بھی بڑا کردار ہے۔ یہ دیکھیے قدرت نے زندگی کا ایسا پیچیدہ نظام تخلیق کیا ہے کہ اگر ایک معمولی پرزے کو بھی نقصان پہنچے، تو سارا سسٹم خراب ہونے لگتا ہے۔ ماہرین طب نے درج بالا نو دریافت سالمے کو مختصراً ''این ایم این'' (NMN) کا نام دیا ہے۔

امریکا اور یورپ میں بڑے ادویہ ساز اداروں کے ماہرین نیڈ اور این ایم این سالموں پر تحقیق و تجربے کررہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ایسی ادویہ ایجاد کی جاسکیں جو انسانی جسم میں ان دونوں سالمات کی افزائش کر سکیں اور یوں انسان کو بڑھاپے سے بچالیں۔

فی الحال ایک امریکی دوا ساز کمپنی، کرومیڈیکس (Chromadex) نے ''نیاجن'' (Niagen) نامی دوا ایجاد کرلی ہے۔ اس دوا میں یسو رٹرول شامل ہے۔ کمپنی کے ماہرین طب کا دعویٰ ہے کہ نیا جین کھانے سے انسانی جسم میں نیڈ سالمات کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہ دوا امریکا و یورپ میں دستیاب ہے۔ کرومیڈیکس عام کمپنی نہیں، اس کے بورڈ میں 2006ء کا کیمیا میں نوبل انعام جیتنے والا ڈاکٹر راجر کورن برگ بھی شامل ہے۔


دنیا بھر میں ڈاکٹر ڈیوڈ سنکلیز عمل بڑھاپا کے خلاف سب سے متحرک سائنس داں ہیں۔ آج کل وہ خیمر میں پائے جانے والے پروٹین ''سیرٹوین'' (Sirtuin) پر تحقیق کررہے ہیں۔ اس پروٹینی مادے کی آٹھ اقسام ہیں۔ ڈاکٹر ڈیوڈ اور ان کے ہم خیال ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سیرٹوین کی ایک قسم جاندار میں نئے مائٹو کونڈریا پیدا ہونے کے عمل میں اہم حصہ لیتی ہے جبکہ ایک اور قسم اسے تندرست میں مدد دیتی ہے۔

سیرٹوین پروٹین کی پہلی قسم اصطلاح میں ''سرٹ1'' کہلاتی ہے۔ تحقیق سے اسی کے متعلق بڑا دلچسپ انکشاف ہوا۔ وہ کہ جب خلیے کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس کے مرکزے (نیوکلس) سے ایک پیغام بجلی گھر (مائٹو کونڈریا) تک جاتا ہے۔ یہ پیغام لے جانے کی ذمے داری ''سرٹ1'' ہی کے سپرد ہے۔ یہ پیغام ملتے ہی بجلی گھر میں توانائی بننے لگتی ہے۔ اور اسے پا کر خلیہ اپنا کام بخیرو خوبی انجام دیڈالتا ہے۔

لیکن جب انسانی جسم میں نیڈ سالمات کی تعداد گھٹ جائے، جیسا کہ بڑھاپے میں ہوتا ہے، تو سرٹ 1 بھی پہلے کی طرح متحرک نہیں رہتا۔اس باعث خلیے کے نیوکلس اور مائٹو کونڈریا کے مابین پیغام رسائی ختم ہوجاتی ہے۔ چناں چہ خلیے کا بجلی گھر مالک سے رابطہ نہ ہونے پر اپنا کام درست طریقے سے نہیں کرپاتا اور جاندار کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچانے لگتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ ایک امریکی ادویہ ساز کمپنی، ایلسم ہیلتھ (Elysium Health) کے ماہرین ریسورٹرول اور سیرٹوین پروٹینی مادوں کے درمیان موجود تعلق بھی دریافت کرچکے۔ انہیں تحقیق سے معلوم ہوا کہ ریسورٹرول ان پروٹینی مادوں کو نہ صرف متحرک بلکہ تندرست بھی رکھتا ہے۔ اسی تحقیق کی بنیاد پر درج بالا کمپنی کے ماہرین ''پٹیروسٹلبین'' ( pterostilbene) نامی غذائی مادہ ایجاد کرچکے ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ ریسورٹرول جیسا کام کرتا اور اس سے زیادہ طاقتور مادہ ہے۔



ایلسم ہیلتھ سے بھی پانچ نوبل انعام یافتہ سائنس دان منسلک ہیں۔ اس کامالک، لینی گارنٹی ہارورڈ یونیورسٹی میں استاد رہ چکا ہے۔ لہٰذا یہ بھی کوئی عام کمپنی نہیں۔ اس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹیروسٹلبین ریسورٹرول سے چار گنا زیادہ طاقتور ہے۔ یہ انسان کی یادداشت میں اضافہ کرتا اور اسے کینسر و امراض قلب سے محفوظ رکھتا ہے۔ کمپنی کے ماہرین اب اس مادے کی بنیاد پر ''بیسس''(Basis)نامی دوا تیار کر چکے ہیں۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ امریکا میں مائٹو کونڈریا کو تندرست کرنے اور رکھنے کی ادویہ تیار ہورہی ہیں۔ انسانی جسم میں یہ عضیہ اس لیے بھی اہم ہے کہ مائٹو کونڈریا کے اندر کچھ جنیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ کوڈ جاندار میں توانائی اور پروٹین بنانے کے فعل درست رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، خلیوں کے بجلی گھر ناکارہ ہوں، تو انسان سمیت ہر زندہ اعضا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بوڑھا ہونے لگتا ہے۔

انسانی جسم کے ''بوڑھے'' خلیے
انسان کے جسم میں خلیوں کی دو سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ خلیے سبھی خلیوں کی ایک قسم ''بنیادی خلیے'' (Stem cells) سے جنم لیتی ہیں۔ تمام جانداروں کے جسم میں بعض اقسام کے خلیے بوڑھے ہوکر مرجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے پیدا ہوتے ہیں۔ بنیادی خلیے ہی نئے خلیوں کو جنم دیتے ہیں۔ اس کام میں بنیادی خلیوں کا ایک حصہ، ٹیلومیئر(Telomere) اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے متعلق آپ آگے تفصیل سے پڑھیں گے۔

قائل ذکر بات یہ کہ جب بھی نیا خلیہ پیدا ہو، تو بنیادی خلیے کے ٹیلومیئر کا کچھ حصہ اس سے جڑ جاتا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ نئے خلیوں کی مسلسل پیدائش کے باعث بنیادی خلیے کا ٹیلومیئر اتنا چھوٹا ہوجاتا ہے کہ وہ مزید تقسیم کے قابل نہیں رہتا۔ اس حالت پر پہنچ کر بنیادی خلیہ ''بوڑھا خلیہ'' (Senescent Cell) کہلانے لگتا ہے۔

یہ قدرت کی عجب نیرنگی ہے کہ بنیادی خلیے انسان کو زندہ اور توانا رکھتے ہیں۔ مگر جب وہ بوڑھے خلیوں میں بدل جائیں، تو اسے نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔ دراصل انسانی جسم میں کسی جگہ کچھ بوڑھے خلیے جمع ہوجائیں، تو وہ نزدیک ترین بافت (Tissue) کے صحت مند خلیوں کو بھی زہریلا بنا دیتے ہیں۔ تندرست خلیوں کی عدم موجودگی سے بافت گلنے سڑنے لگتی ہے اور یہ عمل بڑھاپا پیدا کردیتا ہے۔ گویا بوڑھے خلیے بھی جانداروں میں بڑھاپا لانے کا سبب ہیں۔

کچھ عرصہ قبل امریکا کے مشہور طبی تحقیقی ادارے، میوکلینک سے وابستہ جینیات داں، جان وان ڈروسن کو خیال آیا کہ اگر کسی جان دار کے جسم سے تمام بوڑھے خلیے نکال دیئے جائیں، تو کیا صورت حال جنم لے گی؟ یہ دیکھنے کے لیے اس نے ایک تجربہ کیا۔ بیس عمر رسیدہ چوہے لیے، دس کو فطری حالت میں رکھا، دس چوہوں کے بدن سے بذریعہ آپریشن تمام بوڑھے خلیے نکال دیئے۔



جان وان یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جن عمر رسیدہ چوہوں سے بوڑھے خلیے نکالے گئے، وہ صرف دو ہفتوں بعد ہی جوان ہونے لگے۔ ان کی صحت بہتر ہوگئی۔ بدن پر نئے بال نکل آئے، وہ زیادہ تیز دوڑنے لگے اور دیگر جسمانی اعضا کی کارکردگی بھی بہتر ہوگئی۔ گویا بوڑھے خلیوں کے خاتمے سے عمر رسیدہ چوہوں میں بڑھاپے کے اثرات جاتے رہے اور وہ دوبارہ جوان ہونے لگے۔

اس حیرت انگیز تجربے نے تمام ماہرین کو ششدر کردیا۔ اب وہ ایسی دو ایجاد کرنے میں مصروف تحقیق ہیں جو انسانی جسم میں پائے جانے والے تمام بوڑھے خلیے ختم کرسکے۔ سائنس داں اسی دوا میں یہ خصوصیت بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ انسانی بدن میں بنیادی خلیے بھی متحرک کرسکے۔ مقصد یہ ہے کہ بنیادی خلیے گلی سڑی بافتوں کو تندرست بنانے لگیں تاکہ انسان بڑھاپے سے نجات پاکر پھر جوان ہوجائے ۔مگر ایک تیر سے دو شکار کرنے والی ایسی دوا کا بنانا نہایت کٹھن مرحلہ ہے۔ فی الوقت ماہرین بوڑھے مرد یا عورت کے جسم میں بوڑھے خلیوں کا خاتمہ کرنے والی دوا ایجاد کرلیں، تو یہی حیران کن کارنامہ ہوگا۔

یاد رہے، مغربی ماہرین بنیادی خلیوں کی مدد سے ایک نیا طریق علاج بھی وضع کررہے ہیں۔ یہ ''بنیادی خلیہ علاج'' (Stem-cell therapy) کہلاتا ہے۔ اس علاج کے ذریعے ماہرین چاہتے ہیں کہ کسی انسان کے گردے، پھیپھڑے، جگر یا دل ناکارہ ہوجائے، تو لیبارٹری میں بنیادی خلیوں کی مدد سے انہیں ''اگا'' لیا جائے۔ یہ طریق علاج ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ انسانی جسم کے بعض اہم اعضاء نقصان پہنچنے پر اپنی مرمت کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مثلاً جگر کا کچھ حصہ کٹ جائے، تو وہ رفتہ رفتہ اگ آتا ہے۔ اسی طرح انسانی جلد بھی اپنی مرمت کرلیتی ہے۔ تاہم بیشتر انسانی اعضاء ایک بار خراب ہونے کے بعد پھر درست نہیں ہوسکتے۔

جاپانی سائنس داں کی دریافت
2006ء میں ایک جاپانی سائنس داں، شنیا یاماناکا نے انسانی جسم میں چار نئے جین دریافت کیے۔ ان جین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی جسم کے کسی بھی خلیے کو بنیادی خلیے میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک حیرت انگیز دریافت تھی۔ کیونکہ جس بوڑھے انسان کے بعض تندرست جسمانی خلیے بنیادی خلیے بن کر دل، دماغ، جگر، گردوں غرض ہر عضوِ جسم کی مرمت کرنے لگیں، تو وہ بڑھاپے سے نجات پاکر جوان ہونے لگے گا۔ اس طرح وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے زندگی کی جانب واپس لوٹ آئے گا۔

انسان کے بدن میں درج بالا چار جین قدرتی طور پر صرف نوجوانی تک متحرک رہتے ہیں۔ جب جسمانی اعضا خراب ہونے لگیں تو چاروں جین اپنا کام کرکے گہری نیند میں ہوتے ہیں۔ جاپانی یاماناکا نے کمال یہ کیا کہ انہیں نیند سے جگانے کا طریق کار ڈھونڈ نکالا۔ اسی لیے شروع میں یاماناکا اور دیگر ماہرین یہ سوچ کر خوشی سے اچھلنے لگے کہ بڑھاپا ختم کرنے والا جادوئی طریقہ دریافت ہوگیا ۔

مگر رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ دراصل لیبارٹری میں جب چوہے اور دیگر جانداروں کے اجسام میں متذکرہ بالا چار جین متحرک ہوئے تو وہ بوڑھے اور جوان خلیوں کی تمیز کیے بغیر خلیوں کو بنیادی خلیے میں تبدیل کرنے لگے۔ جب نوجوان خلیے بنیادی خلیوںمیں ڈھلے، تو وہ بے قابو ہوگئے۔ یعنی کئی چوہوں میں غیر معمولی تبدیلیوں نے جنم لیا۔ کسی کی دوسری ناک تو دوسرے کا پانچواں بازو نکل آیا۔ بعض میں خلیوں نے اتنی تیزی سے نشوونما پائی کہ وہ کینسر میں ڈھل گئے۔

اب پچھلے کئی برس سے امریکا اور برطانیہ میں ماہرین ایسا طریقہ دریافت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ متحرک جین جاندار کے صرف بوڑھے خلیوں کو بنیادی خلیوں میں تبدیل کریں۔ جب بھی انہیں کامیابی ملی، انسان کو بڑھاپے سے نجات دلانے والا نیا طریق علاج دریافت ہوجائے گا۔

ٹیلومیٹر کا اعجوبہ
قبل ازیں بتایا گیا کہ ہر انسان کھربوں خلیوں کا مجموعہ ہے۔ ہر خلیہ دھاگے کی شکل والے خصوصی سالمے ''لونیے'' (chromosome) رکھتا ہے۔ ان لونیوں کے اندر ''ڈی این اے'' موجود ہوتا ہے جو ہزارہا جین اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہی جین ہر انسان میں کئی جسمانی خصوصیات مثلاً جلد، بال اور آنکھ کے رنگ، ناک کی جسامت وغیرہ کا تعین کرتے ہیں۔قدرت الٰہی نے ہر لونیے کے دونوں کنارے ڈھکن لگا کر بند کررکھے ہیں تاکہ ڈی این اے محفوظ رہے۔ یہ ڈھکن اصطلاح میں ''ٹیلومیئر'' کہلاتے ہیں۔ ٹیلومیئر کی موجودگی میں ڈی این اے لونیوں سے نکل کر منتشر نہیں ہوپاتا۔

انسان سمیت ہر جاندار میںبعض جسمانی اعضا کے خلیے مسلسل مرتے رہتے ہیں۔ انسان میں جلد، خون اور عضلات ایسے ہی اعضا ہیں۔ ان اعضا کے خلیے مرنے یا بوڑھے خلیوں میں تبدیل ہونے سے پہلے اپنی ایک نقل یعنی نیا خلیہ بنا لیتے ہیں۔ یوں جاندار کے جسمانی اعضا بدستور اپنا کام انجام دیتے رہتے ہیں۔جب ایک خلیہ اپنی نقل تیار کرے، تو اس کا سارا ڈی این اے نئے خلیے میں منتقل ہوجاتا ہے ۔مگر یہ عمل ایک وجہ سے ممتاز ہے... وہ یہ کہ نئے خلیے کا ٹیلومیئر اپنے بنانے والے سے کچھ چھوٹا ہوتا ہے۔

ایک انسانی خلیہ اپنی 70 سے 80 نقول پیدا کرسکتا ہے۔ جب آخری نقل جنم لے، تو اس کا ٹیلومیئر تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزر کر اتنا چھوٹا ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ مزیدنیا خلیہ پیدا نہیں کرپاتا۔ یوں آخری خلیہ ''بوڑھے خلیے'' میں بدل جاتا یا پھر موت کو گلے لگا لیتا ہے۔

قبل ازیں بیان ہوچکا کہ انسانی جسم میں بوڑھے خلیوں کی کثرت ہوجائے، تو انسان بوڑھا ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے مغربی سائنس داں اب ایسا طریق علاج دریافت کرنے کی کوشش میں ہیں جو بوڑھے ہوتے خلیوں کے ٹیلومیئر کی لمبائی میں اضافہ کرسکے۔ ظاہر ہے، اگر خلیوں کا چھوٹا ہوتا ٹیلومیئر دوبارہ بڑھ جائے، تو وہ اپنی زیادہ نقول تیار کرسکیں گے۔ اس طرح بوڑھے ہوتے جسمانی اعضا نئے خلیے پاکر پھر جوان ہونے لگیں گے۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اگر انسان باقاعدگی سے ورزش کرے، پھل اور سبزیوں پر مشتمل غذا کھائے، چکنائی اور نشاستے (کاربوہائیڈریٹ) سے پرہیز کرے، ذہنی و جسمانی دباؤ سے دور رہے اور پوری نیند لے، تو اس کے خلیوں کے ٹیلومیئر کی لمبائی میں قدرتاً اضافہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا وہ غیر معیاری طرز زندگی اختیار کرنے والوں سے کم از کم دس سال زیادہ زندہ رہتا ہے۔

نئے خون سے علاج
ایمی ویگرز امریکی ہارورڈ یونیورسٹی میں تجدیدی حیاتیات (Regenerative Biology) کی پروفیسر ہے۔ اس نے 2013ء میں ایک انوکھا تجربہ کیا۔ پروفیسر ایمی نے لیبارٹری میں موجود نوجوان چوہوں سے خون لیا۔ بوڑھے چوہوں کے جسم سے خون نکالا اور نوجوانوں والا اس میں ڈال دیا۔بوڑھے چوہوں کو چار ہفتوں تک روزانہ نوجوان خون ملتا رہا۔ ایک ماہ بعد انکشاف ہوا کہ اس عمل سے بوڑھے چوہوں کی صحت بہتر ہوگئی اور بڑھاپے کے بہت سے اثرات جاتے رہے۔ گویا اس تجربے سے یہ بات افشا ہوئی کہ بوڑھے جانداروں کو اگر نوجوانوں کا خون مل جائے، تو وہ بڑھاپے کے اثرات سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا چوہوں کی طرح بوڑھے انسانوں پر بھی یہ تجربہ کامیاب ہوسکتا ہے؟ یہ جاننے کے لیے امریکی سائنس داں فی الحال تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں۔اس دوران 2016ء میں امریکی شہر، مونیٹری میں ایک ڈاکٹر، جیسی کرمزین (Jesse Karmazin) نے ایمبروزیا نامی ہسپتال کھول لیا۔ اس ہسپتال میں بوڑھے مردوزن کی رگوں میں نوجوانوں کا خون ڈالا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جیسی کا دعویٰ ہے کہ اس طریق علاج کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں۔ تاہم جوانی پانے کا یہ طریق عمل خاصا مہنگا ہے۔ ڈاکٹر جیسی ایک لیٹر خون کے عوض آٹھ ہزار ڈالر (تقریباً سوا آٹھ لاکھ روپے) وصول کرتا ہے۔ لہٰذا فی الوقت صرف بوڑھے امراہی نوجوان خون سے فوائد پاسکتے ہیں...اگر وہ ہیں تو! کئی ماہرین طب اس طریق عمل کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
Load Next Story