مردم شماری کے ابتدائی نتائج
مردم شماری 2017ء کے ابتدائی نتائج کے مطابق مرد10 کروڑ 64 لاکھ 50 ہزار، خواتین 10 کروڑ 13 لاکھ 15 ہزار ہے
پاکستان میں چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتائج جاری کر دیے گئے، ملکی آبادی 1998ء سے 2017ء کے دوران 2.4 فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار520 افراد پر مشتمل ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کے ادارہ شماریات نے جمعہ کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیش کیے ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس گزشتہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہوا۔ مشترکہ مفادات کونسل نے چھٹی مردم شماری کے ابتدائی و عبوری نتائج کی توثیق کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وزارت شماریات حتمی نتائج کی تیاری کے لیے کام تیز کرے۔
ملک گیر مردم شماری کے پیش کردہ اعداد و شمار ممکن ہے بعض ماہرین، سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کے لیے باعث حیرت ہوں کیونکہ میڈیا نے مردم شماری میں اتنے بڑے تعطل کے دوران ملکی شہری و دیہی آبادی میں غیر معمولی اضافے کے جو محتاط اندازے اور تخمینے پیش کیے تھے وہ اس کے برعکس نکلے، جب کہ پسماندگی، بیروزگاری، سیلاب اور زرعی معیشت سے نکل کر محنت مزدوری کے لیے دیہات اور قبائلی و غیر ترقی یافتہ علاقوں سے شہروں کی طرف مسلسل نقل مکانی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور اسی نکتہ پر ماہرین ابتدائی و عبوری اعداد وشمار کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ 19 برسوں میں ملکی آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے اس کا ملکی اقتصادیات، صحت وتعلیم ، روزگار، رہائشی سہولتوں، کچی آبادیوں کے بے ہنگم قیام اور جرائم و حادثات سے شہری و دیہی آبادی پر پڑنے والے اثرات، غیر معمولی فرق اور حقائق کی سائنسی تحقیق شفافیت کا تقاضہ کرتی ہے، اس طویل خلا اور وقفہ کو پر کرنے کی کون سی تدابیر محکمہ شماریات کے ماہرین کے پیش نظر رہیں۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آخری مردم شماری اور حالیہ دونوں کی تکمیل ن لیگ دور حکومت میں ہوئی، تاہم اگر سپریم کورٹ کے احکامات اور اس کا تجسس قائم نہ رہتا تو مردم شماری کرانا آسان نہ ہوتا، اس لیے ماہرین، سماجی دانشوروں اور سماجی مسائل سے منسلک سول سوسائٹی کے تھنک ٹینکس کے نزدیک ڈیموگرافک ڈیٹا کی روشنی میں اب ملک کے انتظامی تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔
کراچی کو کھنڈر بننے سے روکنے کی ضرورت ہے اسی طرح لاہور سمیت دیگر تمام بڑے شہروں کو مثالی ترقی کا نمونہ بننا چاہیے، ہر شہری کو رہائشی سہولت حاصل ہو، اسے روزگار ملے، مردم شماری ایک آئینی ضرورت ہے جس سے ملکی اقتصادی و سماجی ترقی، شہریوں کو رہائش اور روزگار کی سہولتوں کی فراہمی، تعلیم و صحت، کے بہتر معیار اور نئی نسل کے مستقبل کی شاندار اور قابل تقلید پیشرفت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 19 سال کے دوران ملک کی آبادی میں7, 54, 22, 241 افراد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 57 فیصد اضافے کے برابر ہے۔
کل آبادی میں مقامی آبادی کے ساتھ رہنے والے افغان مہاجرین سمیت ملک میں رہنے والے غیرملکی بھی شامل ہیں جب کہ اس میں مہاجرکیمپوں میں رہنے والے افغان مہاجرین اور سفارتکاروں کو شامل نہیںکیا گیا ہے۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے نتائج کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی میں مرد اور خواتین کا تناسب تقریباً برابر ہے اور مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں صرف 51 لاکھ زیادہ ہے۔
مردم شماری 2017ء کے ابتدائی نتائج کے مطابق مرد10 کروڑ 64 لاکھ 50 ہزار، خواتین 10 کروڑ 13 لاکھ 15 ہزار ہے۔ 1998ء سے 2017ء تک آبادی میں اضافے کی اوسط سالانہ شرح (گروتھ ریٹ) 2.4 فیصد رہی، پنجاب اور سندھ میں اس شرح میںکمی آئی ہے جب کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ابتدائی نتائج کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ، خیبرپختونخوا 3 کروڑ 5 لاکھ، بلوچستان 1 کروڑ 23 لاکھ جب کہ سندھ کی 4 کروڑ 78 لاکھ آبادی ہے، فاٹا50 لاکھ اور وفاقی دارالحکومت کی آبادی 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے،آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے نتائج سمری میںشامل نہیں۔ مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤںکوبھی گنتی میںشامل کیا گیا تھا جن کی تعداد 10418 بتائی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میںبتایا گیا کہ مردم شماری کے عبوری نتائج کا صوبے الگ سے جائزہ لیں گے۔
ان ابتدائی اعداد و شمار سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملکی ترقی و استحکام کے لیے ایک قابل اعتبار روڈ میپ کی تیاری میں مدد مل سکے گی، خانہ بدوشوں کو بھی حکومت مردم شماری کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دے، فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کی دستیابی کے بعد ان علاقوں کے سماجی و معاشی ترجیحات پر بھی بھرپور توجہ دی جائے۔
زیر نظر اعداد و شمار ان سماجی ماہرین کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں جن میں مردوں کی تعداد خواتین سے تجاوز کر گئی ہے اور شہروں کی آبادی میں غیر متوقع اضافہ یا کمی دیکھنے میں آئی ہے، ادھر سی پیک کے آئندہ آبادیاتی اثرات بھی بلوچستان اور دیگر صوبوں میں نمایاں ہونگے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت شہری و دیہی توازن کو اپنے انتظامی اہداف کے حوالہ سے سر فہرست رکھے تاکہ ملکی ترقی کا مربوط سائنسی رفتار کے ساتھ تسلسل برقرار رکھنا میکنزم کا حصہ بن جائے، اب جب کہ مردم شماری ڈیٹا کی ابتدائی رپورت سامنے آئی ہے لازم ہے کہ چاروں صوبوں میں اقتصادی ترقی کے معاشی ثمرات عوام کی دہلیز تک پہنچیں۔ واضح رہے ملک کرپشن کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اسے دوسری جنگ غربت کے خلاف لڑنی چاہیے۔
ملک گیر مردم شماری کے پیش کردہ اعداد و شمار ممکن ہے بعض ماہرین، سیاسی جماعتوں اور تجزیہ کاروں کے لیے باعث حیرت ہوں کیونکہ میڈیا نے مردم شماری میں اتنے بڑے تعطل کے دوران ملکی شہری و دیہی آبادی میں غیر معمولی اضافے کے جو محتاط اندازے اور تخمینے پیش کیے تھے وہ اس کے برعکس نکلے، جب کہ پسماندگی، بیروزگاری، سیلاب اور زرعی معیشت سے نکل کر محنت مزدوری کے لیے دیہات اور قبائلی و غیر ترقی یافتہ علاقوں سے شہروں کی طرف مسلسل نقل مکانی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور اسی نکتہ پر ماہرین ابتدائی و عبوری اعداد وشمار کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ 19 برسوں میں ملکی آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے اس کا ملکی اقتصادیات، صحت وتعلیم ، روزگار، رہائشی سہولتوں، کچی آبادیوں کے بے ہنگم قیام اور جرائم و حادثات سے شہری و دیہی آبادی پر پڑنے والے اثرات، غیر معمولی فرق اور حقائق کی سائنسی تحقیق شفافیت کا تقاضہ کرتی ہے، اس طویل خلا اور وقفہ کو پر کرنے کی کون سی تدابیر محکمہ شماریات کے ماہرین کے پیش نظر رہیں۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آخری مردم شماری اور حالیہ دونوں کی تکمیل ن لیگ دور حکومت میں ہوئی، تاہم اگر سپریم کورٹ کے احکامات اور اس کا تجسس قائم نہ رہتا تو مردم شماری کرانا آسان نہ ہوتا، اس لیے ماہرین، سماجی دانشوروں اور سماجی مسائل سے منسلک سول سوسائٹی کے تھنک ٹینکس کے نزدیک ڈیموگرافک ڈیٹا کی روشنی میں اب ملک کے انتظامی تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔
کراچی کو کھنڈر بننے سے روکنے کی ضرورت ہے اسی طرح لاہور سمیت دیگر تمام بڑے شہروں کو مثالی ترقی کا نمونہ بننا چاہیے، ہر شہری کو رہائشی سہولت حاصل ہو، اسے روزگار ملے، مردم شماری ایک آئینی ضرورت ہے جس سے ملکی اقتصادی و سماجی ترقی، شہریوں کو رہائش اور روزگار کی سہولتوں کی فراہمی، تعلیم و صحت، کے بہتر معیار اور نئی نسل کے مستقبل کی شاندار اور قابل تقلید پیشرفت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 19 سال کے دوران ملک کی آبادی میں7, 54, 22, 241 افراد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 57 فیصد اضافے کے برابر ہے۔
کل آبادی میں مقامی آبادی کے ساتھ رہنے والے افغان مہاجرین سمیت ملک میں رہنے والے غیرملکی بھی شامل ہیں جب کہ اس میں مہاجرکیمپوں میں رہنے والے افغان مہاجرین اور سفارتکاروں کو شامل نہیںکیا گیا ہے۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے نتائج کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی میں مرد اور خواتین کا تناسب تقریباً برابر ہے اور مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں صرف 51 لاکھ زیادہ ہے۔
مردم شماری 2017ء کے ابتدائی نتائج کے مطابق مرد10 کروڑ 64 لاکھ 50 ہزار، خواتین 10 کروڑ 13 لاکھ 15 ہزار ہے۔ 1998ء سے 2017ء تک آبادی میں اضافے کی اوسط سالانہ شرح (گروتھ ریٹ) 2.4 فیصد رہی، پنجاب اور سندھ میں اس شرح میںکمی آئی ہے جب کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ابتدائی نتائج کے مطابق پنجاب کی آبادی 11 کروڑ، خیبرپختونخوا 3 کروڑ 5 لاکھ، بلوچستان 1 کروڑ 23 لاکھ جب کہ سندھ کی 4 کروڑ 78 لاکھ آبادی ہے، فاٹا50 لاکھ اور وفاقی دارالحکومت کی آبادی 20 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے،آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے نتائج سمری میںشامل نہیں۔ مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤںکوبھی گنتی میںشامل کیا گیا تھا جن کی تعداد 10418 بتائی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میںبتایا گیا کہ مردم شماری کے عبوری نتائج کا صوبے الگ سے جائزہ لیں گے۔
ان ابتدائی اعداد و شمار سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملکی ترقی و استحکام کے لیے ایک قابل اعتبار روڈ میپ کی تیاری میں مدد مل سکے گی، خانہ بدوشوں کو بھی حکومت مردم شماری کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دے، فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے اعداد و شمار کی دستیابی کے بعد ان علاقوں کے سماجی و معاشی ترجیحات پر بھی بھرپور توجہ دی جائے۔
زیر نظر اعداد و شمار ان سماجی ماہرین کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں جن میں مردوں کی تعداد خواتین سے تجاوز کر گئی ہے اور شہروں کی آبادی میں غیر متوقع اضافہ یا کمی دیکھنے میں آئی ہے، ادھر سی پیک کے آئندہ آبادیاتی اثرات بھی بلوچستان اور دیگر صوبوں میں نمایاں ہونگے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت شہری و دیہی توازن کو اپنے انتظامی اہداف کے حوالہ سے سر فہرست رکھے تاکہ ملکی ترقی کا مربوط سائنسی رفتار کے ساتھ تسلسل برقرار رکھنا میکنزم کا حصہ بن جائے، اب جب کہ مردم شماری ڈیٹا کی ابتدائی رپورت سامنے آئی ہے لازم ہے کہ چاروں صوبوں میں اقتصادی ترقی کے معاشی ثمرات عوام کی دہلیز تک پہنچیں۔ واضح رہے ملک کرپشن کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اسے دوسری جنگ غربت کے خلاف لڑنی چاہیے۔