ہندوستانی عدلیہ کا تاریخ ساز فیصلہ پہلا حصہ
یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر دنیا کے کئی اسلامی ملکوں میں یہ بہت پہلے ہوگیا تو ہندوستان میں اتنا وقت کیوں لگا؟
یہ 22 اگست کی دوپہر تھی جب دلی سے ہندی کے معروف ادیب وبھوتی نرائن رائے کا فون آیا۔ وہ اپنے ناولٹ ''شہر میں کرفیو'' کی وجہ سے صرف ہندوستان میں ہی نہیں پاکستان میں بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ مسرت سے مجھے بتا ر ہے تھے کہ ہندوستانی سپریم کورٹ نے تین طلاق کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جو مسلمان عورتوں کے حق میں آیا ہے۔
خوشی کے ساتھ ہی میرے دل پر گھونسہ لگا اور نگاہوں میں اس کمزور بوڑھی عورت کی تصویرگھوم گئی جس نے اپنے اور دوسری مسلمان عورتوں کے حق کے لیے ہندوستانی عدالتوں میں جم کر لڑائی لڑی، جس کے وکیل دانیال لطیفی نے اس مقدمے کے حوالے سے بہت شہرت حاصل کی۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایسی طلاق شدہ مسلمان عورت کو جو خود کما کر اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ نہ پورا کر سکتی ہو، اسے تا عمر نان نفقہ بہم پہنچانے کی ذمے داری اس کے سابق شوہر پر عائد کی تھی۔
شاہ بانو کے مقدمے نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مٹھی بھر مسلمان عورتیں اور مرد ایک طرف تھے جب کہ مسلم اکثریت اسے اپنے دین پر حملہ کہہ رہی تھی۔ کیسے کیسے بڑے اور پُرشور جلوس شاہ بانو کی مخالفت میں نکلے۔ آخرکار 75 برس کی شاہ بانو پر مسلمانوں کا دباؤ اتنا بڑھا کہ اس مفلس اور بے بس عورت نے اپنے حق سے دستبرداری اختیار کی۔
میں نے ان ہی دنوں شاہ بانو کیس پر ایک افسانہ ''زمیں آگ کی، آسماں آگ کا'' لکھا، جس کا انگریزی، ہندی، سندھی اور نیپالی میں ترجمہ ہوا۔ اس میں شہنشاہ بانو جو دراصل شاہ بانو ہے، پر دباؤ ڈالا جانے لگا، وہ اپنے حق سے دستبر دار ہو جائیں۔ عدالت کو اپنا فیصلہ واپس لینے کی درخواست دیں۔ جیتی ہوئی جنگ ہار جائیں۔ وہ ڈٹی رہیں۔ نہ اپنے لیے اور نہ ان چند روپوں کے لیے جو عدالت عظمیٰ نے انھیں دلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ لڑ رہی تھیں تمام مسلمان عورتوں اور مسلمان لڑکیوں کے لیے۔ ہندوستان کے نادار مسلمان گھرانے عربوں کی حرم سرا بن گئے تھے۔
سال کے سال وہ گاڑیاں بدلتے اور بیویاں بھی... اپنی اندھی دھندی آنکھوں سے انھوں نے کتنی ہی خبریں ان مظلوم لڑکیوں کی پڑھی تھیں جو حیدرآباد، پونا، بمبئی اور دلی میں چند ہزار کے مہر کے عوض چند دنوں یا ہفتوں کے لیے باہر سے آنے والے مالدار لوگوں کی دلہن بنتیں اور پھر ہاتھ میں طلاق نامہ اور گود میں نو زائیدہ بچے اٹھائے بازاروں میں بیٹھتیں۔ مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی۔ پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی... یہ نظم انھوں نے ریڈیو سے سنی تھی۔ ان خبروں کو پڑھ کر انھیں یہ نظم یاد آتی۔ وہ اپنی بیٹھی ہوئی آواز میں اسے گنگناتیں اور زار زار روتیں۔
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی... مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی... چند ہزار روپوں کے مہرکے عوض نت نئی لڑکیوں کو تصرف میں لانے والے، ایسی کوئی نظیر کیسے گوارا کرتے۔ کل کلاں ان کی طلاق یافتہ بیویوں نے ان سے نان نفقے کا مطالبہ شروع کردیا تب؟ نکاح کرنا اور طلاق دینا ان کا حق تھا اور اس حق میں کسی قسم کی دراندازی سے دین پر آنچ آتی تھی۔ سو دین کی حفاظت کے لیے فتویٰ بازیاں، دشنام طرازیاں شروع ہوئیں۔ اسلام خطرے میں ہے برادران اسلام... اسلام خطرے میں ہے۔''
شہنشاہ بانو زندگی کے آخری لمحوں میں کہتی ہیں... ''تم جیت گئے مصطفیٰ علی خان۔ تمہاری قوم نے میرے نام کو گالی بنا دیا۔ میرے وہ سجدے جو آنسوؤں سے تر تھے، میرے وہ روزے جو رمضان کے روزوں کے سوا تھے، میرے وہ نوافل جنھیں ادا کرتے ہوئے میرے گھٹنے اور ٹخنے سوج جاتے تھے، کسی نے انھیں نہ دیکھا اور میں دین کی دشمن قرار پائی۔ کافر کہی گئی۔ مجھے سنگسار کرنے کے مطالبے کیے گئے اور تم جو بالا خانوں پر جاتے رہے، اپنی راتیں آباد کرتے رہے، تم دودھ سے دھلے ہوئے مانے گئے، لیڈر بنے، دین کے حامی و ناصر کہلائے، خادم قرار پائے، میں آک کی بڑھیا سمجھتی تھی کہ جب غیروں نے میرے ساتھ عدل کیا ہے تو بھلا اپنے کیوں نا انصافی کریں گے، لیکن جیتنا تو تم ہی کو تھا۔ تمہارے لوگ جو اپنی مٹتی ہوئی زبان کے لیے کبھی پانچ سو لوگ اکٹھا نہ کر پائے، انھوں نے مجھ بے بس و بے کس عورت کو کس کس طرح غارت غول نہیں کیا۔ ہائے مجھ ایک پردہ دار بڑھیا کے لیے لاکھوں دینداروں کی فوج، کھلا اب کہ کوئی ہمارا نہیں... ہمارا نہیں۔''
اس وقت بھی جب مجھے اپنی ہی لکھی ہوئی یہ سطریں یاد آئیں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وبھوتی نرائن کے فون کو ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ ہندی اخبار ''ہندوستان'' کے این سی آر ہندی ای پیپر کے ایڈیٹر نگندر پرتاپ کا فون آگیا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔
پاکستان میں بیٹھ کر اس کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا کہ میں ہندوستانی سپریم کورٹ کو سلام کرتی ہوں جس نے تین طلاق کے خلاف ہندوستانی مسلمان عورت کے حق میں اتنا بڑا فیصلہ سنایا۔ اس عدالت نے ایک فیصلہ تین دہائی پہلے بھی دیا تھا۔ وہ بھی ایک مسلمان عورت کے حق میں تھا، تمام عورتوں کے حق کے لیے۔ لیکن بدقسمتی کہ اتنا اہم فیصلہ لاگو نہیں ہو سکا۔ مذہبی رہنما نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان عورت مضبوط بنے، سو انھوں نے حکومت کو اتنا مجبور کیا کہ حکومت نے پسپائی اختیار کی۔ آج ایک اور بڑا فیصلہ آیا ہے۔ یہ فیصلہ مسلمان عورت کو ہمت اور طاقت دینے والا ہے۔ اب معاملہ سرکار کے پاس ہے کہ وہ اس مسئلے پر قانون بنائے اور مسلم عورت کو اس کے ایک بڑے حق سے نوازے۔
دراصل یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ آخر مسلم عورت کے ساتھ مذہب کے نام پر ناانصافی کب تک ہوگی؟ وہ جب بھی اپنے مسائل کے بارے میں اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، دین کی بات سامنے کردی جاتی ہے۔ دین کے نام پر لڑائی لڑی جانے لگتی ہے۔ نام نہاد علماء ٹھیکیداری کرنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہو؟ یہ حق انھیں کس نے دیا؟ دراصل وقت آگیا ہے جب مسلم عورتیں اپنے حق کے لیے کھل کر سامنے آئیں۔ اس کی شروعات ہوچکی ہے۔ یہ لڑائی عورت کے اپنے حق کی لڑائی ہے اور اسی کو لڑنی پڑے گی۔ علماء مذہب کو اپنے حق میں اپنی مرضی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ عورت اس ظلم کا شکار ہوتی رہی ہے۔
''ہندوستان'' اخبار کے نگندر پرتاپ سے باتیں کرتے ہوئے میرا کہنا تھا کہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی عورت کے حق یا وہاں کے فیصلے پر میں پاکستانی ہوکر کیوں بول رہی ہوں، لیکن عورت صرف عورت ہوتی ہے۔ ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی یا کسی دوسرے ملک کی۔ جب تین طلاق کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو وہ صرف ایک بے بس عورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ اس لیے عورت کے حق کے لیے بلند آواز اٹھنی چاہیے۔ یہ آواز عورت اٹھا رہی ہے، وہ اٹھائے گی بھی۔ لیکن اس کے ساتھ پورے سماج کی آواز ہونی چاہیے۔
یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر دنیا کے کئی اسلامی ملکوں میں یہ بہت پہلے ہوگیا تو ہندوستان میں اتنا وقت کیوں لگا؟ میرا کہنا تھا کہ یہاں پاکستان میں بیٹھ کر ہم ہندوستان کی مسلم عورت کے بارے میں زیادہ تو نہیں کہہ سکتے، لیکن اتنا تو طے ہے کہ یہ پہلے بھی ہوسکتا تھا۔ یہ کہنے میں گریز کیوں ہو کہ بھارتی حکمران اپنے ووٹ کی خاطر سخت قدم اٹھانے سے ڈرتے رہے۔ سیاست اور اقتدار کی ضرورتیں ہمیشہ اپنے نظریے سے چیزوں کو دیکھتی ہیں۔
ہندوستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اس وقت ہندوستان کا سوشل میڈیا اخبارات اور ٹیلی وژن چینل بھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی اس بارے میں آواز اٹھ رہی ہے۔ دو دن پہلے ہندوستان کے نامی گرامی صحافی اور سماجی رہنما کلدیپ نیئر نے ہمارے اخبار ''ایکسپریس'' میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی نے مسلمان بیوہ خواتین کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت بابری مسجد کے انہدام کا قضیہ اٹھ کھڑا ہوا۔
واضح رہے پی وی نرسہما راؤکی حکومت میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح تین طلاقوں کا مسئلہ بھی حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ یہ مسئلہ اتنے طویل عرصے سے لٹکا ہوا ہے حالانکہ ریاستی رہنما اصولوں میں سول کوڈ مشترکہ ہے لیکن آزادی کے بعد سے آنے والی یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس سوال کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ مودی کی حکومت بھی ایسا ہی کرے گی لیکن یہ اس مسئلے کا حل نہیں۔ تین طلاقوں کا معاملہ جلد یا بدیر حل کیا جانا چاہیے، سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ اس ضمن میں آئین کی تشریح کس طرح کی جانی چاہیے۔'' (جاری ہے)
خوشی کے ساتھ ہی میرے دل پر گھونسہ لگا اور نگاہوں میں اس کمزور بوڑھی عورت کی تصویرگھوم گئی جس نے اپنے اور دوسری مسلمان عورتوں کے حق کے لیے ہندوستانی عدالتوں میں جم کر لڑائی لڑی، جس کے وکیل دانیال لطیفی نے اس مقدمے کے حوالے سے بہت شہرت حاصل کی۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایسی طلاق شدہ مسلمان عورت کو جو خود کما کر اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ نہ پورا کر سکتی ہو، اسے تا عمر نان نفقہ بہم پہنچانے کی ذمے داری اس کے سابق شوہر پر عائد کی تھی۔
شاہ بانو کے مقدمے نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مٹھی بھر مسلمان عورتیں اور مرد ایک طرف تھے جب کہ مسلم اکثریت اسے اپنے دین پر حملہ کہہ رہی تھی۔ کیسے کیسے بڑے اور پُرشور جلوس شاہ بانو کی مخالفت میں نکلے۔ آخرکار 75 برس کی شاہ بانو پر مسلمانوں کا دباؤ اتنا بڑھا کہ اس مفلس اور بے بس عورت نے اپنے حق سے دستبرداری اختیار کی۔
میں نے ان ہی دنوں شاہ بانو کیس پر ایک افسانہ ''زمیں آگ کی، آسماں آگ کا'' لکھا، جس کا انگریزی، ہندی، سندھی اور نیپالی میں ترجمہ ہوا۔ اس میں شہنشاہ بانو جو دراصل شاہ بانو ہے، پر دباؤ ڈالا جانے لگا، وہ اپنے حق سے دستبر دار ہو جائیں۔ عدالت کو اپنا فیصلہ واپس لینے کی درخواست دیں۔ جیتی ہوئی جنگ ہار جائیں۔ وہ ڈٹی رہیں۔ نہ اپنے لیے اور نہ ان چند روپوں کے لیے جو عدالت عظمیٰ نے انھیں دلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ لڑ رہی تھیں تمام مسلمان عورتوں اور مسلمان لڑکیوں کے لیے۔ ہندوستان کے نادار مسلمان گھرانے عربوں کی حرم سرا بن گئے تھے۔
سال کے سال وہ گاڑیاں بدلتے اور بیویاں بھی... اپنی اندھی دھندی آنکھوں سے انھوں نے کتنی ہی خبریں ان مظلوم لڑکیوں کی پڑھی تھیں جو حیدرآباد، پونا، بمبئی اور دلی میں چند ہزار کے مہر کے عوض چند دنوں یا ہفتوں کے لیے باہر سے آنے والے مالدار لوگوں کی دلہن بنتیں اور پھر ہاتھ میں طلاق نامہ اور گود میں نو زائیدہ بچے اٹھائے بازاروں میں بیٹھتیں۔ مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی۔ پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی... یہ نظم انھوں نے ریڈیو سے سنی تھی۔ ان خبروں کو پڑھ کر انھیں یہ نظم یاد آتی۔ وہ اپنی بیٹھی ہوئی آواز میں اسے گنگناتیں اور زار زار روتیں۔
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی... مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی... چند ہزار روپوں کے مہرکے عوض نت نئی لڑکیوں کو تصرف میں لانے والے، ایسی کوئی نظیر کیسے گوارا کرتے۔ کل کلاں ان کی طلاق یافتہ بیویوں نے ان سے نان نفقے کا مطالبہ شروع کردیا تب؟ نکاح کرنا اور طلاق دینا ان کا حق تھا اور اس حق میں کسی قسم کی دراندازی سے دین پر آنچ آتی تھی۔ سو دین کی حفاظت کے لیے فتویٰ بازیاں، دشنام طرازیاں شروع ہوئیں۔ اسلام خطرے میں ہے برادران اسلام... اسلام خطرے میں ہے۔''
شہنشاہ بانو زندگی کے آخری لمحوں میں کہتی ہیں... ''تم جیت گئے مصطفیٰ علی خان۔ تمہاری قوم نے میرے نام کو گالی بنا دیا۔ میرے وہ سجدے جو آنسوؤں سے تر تھے، میرے وہ روزے جو رمضان کے روزوں کے سوا تھے، میرے وہ نوافل جنھیں ادا کرتے ہوئے میرے گھٹنے اور ٹخنے سوج جاتے تھے، کسی نے انھیں نہ دیکھا اور میں دین کی دشمن قرار پائی۔ کافر کہی گئی۔ مجھے سنگسار کرنے کے مطالبے کیے گئے اور تم جو بالا خانوں پر جاتے رہے، اپنی راتیں آباد کرتے رہے، تم دودھ سے دھلے ہوئے مانے گئے، لیڈر بنے، دین کے حامی و ناصر کہلائے، خادم قرار پائے، میں آک کی بڑھیا سمجھتی تھی کہ جب غیروں نے میرے ساتھ عدل کیا ہے تو بھلا اپنے کیوں نا انصافی کریں گے، لیکن جیتنا تو تم ہی کو تھا۔ تمہارے لوگ جو اپنی مٹتی ہوئی زبان کے لیے کبھی پانچ سو لوگ اکٹھا نہ کر پائے، انھوں نے مجھ بے بس و بے کس عورت کو کس کس طرح غارت غول نہیں کیا۔ ہائے مجھ ایک پردہ دار بڑھیا کے لیے لاکھوں دینداروں کی فوج، کھلا اب کہ کوئی ہمارا نہیں... ہمارا نہیں۔''
اس وقت بھی جب مجھے اپنی ہی لکھی ہوئی یہ سطریں یاد آئیں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وبھوتی نرائن کے فون کو ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے کہ ہندی اخبار ''ہندوستان'' کے این سی آر ہندی ای پیپر کے ایڈیٹر نگندر پرتاپ کا فون آگیا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔
پاکستان میں بیٹھ کر اس کے سوا کیا کہا جا سکتا تھا کہ میں ہندوستانی سپریم کورٹ کو سلام کرتی ہوں جس نے تین طلاق کے خلاف ہندوستانی مسلمان عورت کے حق میں اتنا بڑا فیصلہ سنایا۔ اس عدالت نے ایک فیصلہ تین دہائی پہلے بھی دیا تھا۔ وہ بھی ایک مسلمان عورت کے حق میں تھا، تمام عورتوں کے حق کے لیے۔ لیکن بدقسمتی کہ اتنا اہم فیصلہ لاگو نہیں ہو سکا۔ مذہبی رہنما نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان عورت مضبوط بنے، سو انھوں نے حکومت کو اتنا مجبور کیا کہ حکومت نے پسپائی اختیار کی۔ آج ایک اور بڑا فیصلہ آیا ہے۔ یہ فیصلہ مسلمان عورت کو ہمت اور طاقت دینے والا ہے۔ اب معاملہ سرکار کے پاس ہے کہ وہ اس مسئلے پر قانون بنائے اور مسلم عورت کو اس کے ایک بڑے حق سے نوازے۔
دراصل یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ آخر مسلم عورت کے ساتھ مذہب کے نام پر ناانصافی کب تک ہوگی؟ وہ جب بھی اپنے مسائل کے بارے میں اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، دین کی بات سامنے کردی جاتی ہے۔ دین کے نام پر لڑائی لڑی جانے لگتی ہے۔ نام نہاد علماء ٹھیکیداری کرنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہو؟ یہ حق انھیں کس نے دیا؟ دراصل وقت آگیا ہے جب مسلم عورتیں اپنے حق کے لیے کھل کر سامنے آئیں۔ اس کی شروعات ہوچکی ہے۔ یہ لڑائی عورت کے اپنے حق کی لڑائی ہے اور اسی کو لڑنی پڑے گی۔ علماء مذہب کو اپنے حق میں اپنی مرضی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ عورت اس ظلم کا شکار ہوتی رہی ہے۔
''ہندوستان'' اخبار کے نگندر پرتاپ سے باتیں کرتے ہوئے میرا کہنا تھا کہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی عورت کے حق یا وہاں کے فیصلے پر میں پاکستانی ہوکر کیوں بول رہی ہوں، لیکن عورت صرف عورت ہوتی ہے۔ ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی یا کسی دوسرے ملک کی۔ جب تین طلاق کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو وہ صرف ایک بے بس عورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ اس لیے عورت کے حق کے لیے بلند آواز اٹھنی چاہیے۔ یہ آواز عورت اٹھا رہی ہے، وہ اٹھائے گی بھی۔ لیکن اس کے ساتھ پورے سماج کی آواز ہونی چاہیے۔
یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر دنیا کے کئی اسلامی ملکوں میں یہ بہت پہلے ہوگیا تو ہندوستان میں اتنا وقت کیوں لگا؟ میرا کہنا تھا کہ یہاں پاکستان میں بیٹھ کر ہم ہندوستان کی مسلم عورت کے بارے میں زیادہ تو نہیں کہہ سکتے، لیکن اتنا تو طے ہے کہ یہ پہلے بھی ہوسکتا تھا۔ یہ کہنے میں گریز کیوں ہو کہ بھارتی حکمران اپنے ووٹ کی خاطر سخت قدم اٹھانے سے ڈرتے رہے۔ سیاست اور اقتدار کی ضرورتیں ہمیشہ اپنے نظریے سے چیزوں کو دیکھتی ہیں۔
ہندوستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اس وقت ہندوستان کا سوشل میڈیا اخبارات اور ٹیلی وژن چینل بھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی اس بارے میں آواز اٹھ رہی ہے۔ دو دن پہلے ہندوستان کے نامی گرامی صحافی اور سماجی رہنما کلدیپ نیئر نے ہمارے اخبار ''ایکسپریس'' میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی نے مسلمان بیوہ خواتین کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت بابری مسجد کے انہدام کا قضیہ اٹھ کھڑا ہوا۔
واضح رہے پی وی نرسہما راؤکی حکومت میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح تین طلاقوں کا مسئلہ بھی حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ یہ مسئلہ اتنے طویل عرصے سے لٹکا ہوا ہے حالانکہ ریاستی رہنما اصولوں میں سول کوڈ مشترکہ ہے لیکن آزادی کے بعد سے آنے والی یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس سوال کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ مودی کی حکومت بھی ایسا ہی کرے گی لیکن یہ اس مسئلے کا حل نہیں۔ تین طلاقوں کا معاملہ جلد یا بدیر حل کیا جانا چاہیے، سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے کہ اس ضمن میں آئین کی تشریح کس طرح کی جانی چاہیے۔'' (جاری ہے)