پاکستان ہاکی بھی انٹرنیشنل اسٹارز کی منتظر
ورلڈ کپ مقابلوں میں گرین شرٹس کی دوبارہ آمد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گی، سیکرٹری پی ایچ ایف شہباز احمد سینئر
KARACHI:
پاکستان میں کرکٹ اور ہاکی کے حوالے سے رواں ماہ اس حوالے سے یاد گار رہے گا کہ ستمبر کو نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف لاہور میں 3 میچوں کی سیریز کھیلے گی بلکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد ہاکی کی عالمی رونقیں بھی دوبارہ بحال ہوں گی۔
زندہ دلوں کے شہر لاہور کو ہاکی ورلڈ کپ 1990ء کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو2-1 سے زیر کرنے میں کامیاب رہا، 23فروری کو نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں شیڈول فائنل مقابلے میں گرین شرٹس کا ٹاکرا ہالینڈ سے تھا، عالمی کپ کے ٹائٹل مقابلے کو دیکھنے کے لئے عوام میں اس قدر جوش وخروش تھا کہ شائقین کا ٹھاٹھے مارتا سمندر سٹیڈیم کی طرف امڈ آیا، 70 ہزار سے بھی زائد گنجائش کے سٹیڈیم میں شائقین کی آمد کا یہ عالم تھا کہ جتنے تماشائی سٹیڈیم کے اندر تھے، اس سے کہیں زیادہ سٹیڈیم کے باہر موجود تھے، جو تماشائی ہاکی سٹیڈیم کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، ان کی خوشی قابل دید تھی، میچ کے دوران تماشائیوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، پورے مقابلے کے دوران فضا پاکستان زندہ باد، پاکستان ہاکی ٹیم پائندہ باد کے فلک بوس نعروں سے گونجتی رہی، گو پاکستان یہ فائنل مقابلہ ایک کے مقابلے میں 3گول سے ہار گیا لیکن لاہور میں ورلڈ کپ کے فائنل کا کامیاب انعقاد ہر حوالے سے یادگار رہا، سابق اولمپئنز اور شائقین نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں شیڈول اس فائنل مقابلے کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ اگر قارئین میں سے کسی کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ہیڈ کوارٹر نیشنل ہاکی سٹیڈیم جانے کا اتفاق ہو تو انہیں فائنل مقابلے کی یادگار اور تاریخی تصاویر آویزاں دکھائی دیں گی۔
ورلڈ کپ کے بعد بھی انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا، پاکستان کو آخری انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی کا موقع دسمبر 2004ء کی ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران حاصل ہوا، اس ایونٹ میں بھی شائقین کا جذبہ قابل دید تھا، منی ورلڈ کپ کے حوالے سے پہچانے جانے والے اس ایونٹ میں گرین شرٹس اپنی سرزمین پر تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
بعد ازاں حکومت اور کھیلوں کے ارباب اختیار کی نالاکیوں اور من مانیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل ایونٹس پاکستان سے روٹھتے ہی چلے گئے، 3مارچ 2009ء وہ منحوس دن تھا جب لبرٹی کے مقام پر بعض شدت پسندوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا، اس سانحہ نے پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی پر کاری ضرب لگائی، کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست منفی اثر ہاکی اور دوسری کھیلوں پر بھی پڑا اور عالمی ٹیموں نے پاکستان آنے سے صاف انکار کر دیا، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کسی بھی فیڈریشن عہدیدار نے ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کے لئے سنجیدہ بنیادوں پر کوشش ہی نہ کی بلکہ وہ عالمی ٹیموں کو پاکستان میں لانے سے بچنے کے لئے طرح طرح کے قصے کہانیاں گھڑتے رہے، پی ایچ ایف کے ایک سیکرٹری سے جب بھی بات کی جاتی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ہماری مساجد میں نمازی تک تو بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے محفوظ نہیں ہیں، میں انٹرنیشنل ٹیموں کو پاکستان میں بلا کر اپنے لئے نئی مصیبت کیوں کھڑی کروں؟
ایک اور عہدیدار پی ایچ ایف کے خزانے میں فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بنا کر خود کو اس ذمہ داری سے بچاتے رہا، نااہل لوگوں کے پی ایچ ایف کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انٹرنیشنل ٹیموں نے پاکستان آنا تو درکنار اپنے ملکوں میں بھی گرین شرٹس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا، لیکن کہتے ہیں کہ جذبے سچے ہوں تو منزل مل ہی جایا کرتی ہے،پی ایچ ایف کی موجودہ انتظامیہ آغاز سے ہی ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کیلئے سنجیدہ رہی ہے، 1994 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر دنیائے ہاکی کی وہ شخصیت ہیں جن کے نام کا ڈنکا آج بھی پوری دنیا میں بجتا ہے، عالمی سطح پر بھی ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں، دنیا بھر کے عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی دوستیاں آج بھی ہمالیہ سے بلند اور سمندر کی گہرائیوں سے زیادہ گہری ہیں، شہباز سینئر کی دعوت پر نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کے دورے پر آ رہی ہے بلکہ کھیلوں کے اس عالمی میلہ کے موقع پر آسٹریلوی سابق کپتان چارلس ورتھ اور بھارتی دھن راج پلے سمیت دنیا کے ممتاز پلیئرز بھی موجود ہوں گے۔
پاکستان میں کرکٹ اور ہاکی کے حوالے سے رواں ماہ اس حوالے سے یاد گار رہے گا کہ ستمبر کو نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف لاہور میں 3 میچوں کی سیریز کھیلے گی بلکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد ہاکی کی عالمی رونقیں بھی دوبارہ بحال ہوں گی۔ پی ایچ ایف حکام کے مطابق نومبر میں ہاکی کی ورلڈ الیون پاکستان کا دورہ کرے گی جس میں اولمپکس اورورلڈ چیمپئن ٹیموں کے کھلاڑی بھی شامل ہوں گے، ان ممالک میں آسٹریلیا، جرمنی، انگلینڈ، بیلجیم، آئرلینڈ، سپین اور نیوزی لینڈ کے پلیئرز قابل ذکر ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر پی ایچ ایف بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر نے کچھ دن قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ون ٹو ون ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے آرمی چیف کو ورلڈالیون کے دورۂ پاکستان کے حوالے سے بریفنگ دی تھی، ذرائع کے مطابق میٹنگ کے دوران آرمی چیف نے صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ورلڈ الیون کے دورۂ پاکستان کے دوران مکمل طور پر سکیورٹی کی یقین دہانی کروائی تھی۔
آئندہ ماہ اسلام آباد میں شیڈول پی ایچ ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں بھی ورلڈ الیون کی پاکستان میں آمد کا معاملہ زیر بٖحث آیا تھا، ارکان اس بات پر متفق تھے کہ انٹرنیشنل ٹیموں کے اعتماد میں بحالی کیلئے ورلڈالیون کا پاکستان کا دورہ ضروری ہے۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ ورلڈ الیون ہاکی ٹیم 21 نومبر کی رات کراچی پہنچے گی اور شہر قائد میں ایک میچ کھیلنے کے بعد زندہ دلوں کے شہر لاہور پہنچے گی اور پاکستان کے 6 روزہ قیام کے بعد روانہ ہوگی۔
فیڈریشن ذرائع کے مطابق ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کے موقع پر بین الاقوامی شہرت کے حامل 5 غیر ملکی پلیئرز کو بھی مہمان بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان پلیئرز کا تعلق ہالینڈ، بھارت، آسٹریلیا، جرمنی سے ہے، کھلاڑیوں میں بوویلنڈر، بلوشر، دھن راج پلے، پال لیجٹن اور چارلس ورتھ شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی آمد کے موقع پر پاکستان کے بھی5کھلاڑیوں کو ہال آف فیم میں شامل کیا جائے گا، ان پلیئرز میں خواجہ ذکاء الدین، شہباز سینئر، رشید جونیئر، منظور جونیئر، منظور الحسن، حسن سردار، اصلاح الدین صدیقی،شہناز شیخ کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی ہاکی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں نہ صرف بھر پور خراج تحسین پیش کیا جائے گا بلکہ انہیں گولڈ میڈلز اور کیش پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔
سیکریٹری پی ایچ ایف شہباز سینئر کا کہنا ہے کہ رواں سال نومبر کے تیسرے ہفتے میں ورلڈالیون کراچی آئے گی جو شہر قائد اور لاہور میں ایک ایک میچ کھیلے گی۔ان کے مطابق ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کیلئے حکومت سمیت تمام متعلقہ حکام کو اعتماد لیا ہے اور حکومت نے مکمل سکیورٹی کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہاکی صرف 11 کھیلتے ہیں لیکن کروڑوں دل گرین شرٹس کے ساتھ دھڑکتے ہیں، جب عالمی کپ آجائے تو قومی کھیل کے ساتھ پاکستانی قوم کی جذباتی وابستگی میں غیرمعمولی اضافہ ہو جاتا ہے، یہ وقت ایک بار پھر ورلڈ کپ کا ہے۔ شائقین ہاکی کے لئے ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ چار سال کے عرصہ کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم ایک بار پھر آئندہ برس بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، پاکستان کو اب تک ورلڈ کپ میں 4گولڈاور 2 چاندی کے تمغے جیتنے کا اعزاز ہے، پاکستان نے 1971، 1978، 1982 اور1994 میں گولڈ جبکہ 1975 اور 1990 میں سلور میڈلز اپنے نام کئے تھے لیکن افسوس کی بات ہے یہ کہ گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار 2014کے عالمی کپ میں شرکت سے محروم رہے تھے۔
سیکرٹری پی ایچ ایف شہباز احمد سینئر کے مطابق ورلڈ کپ مقابلوں میں گرین شرٹس کی دوبارہ آمد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گی، میگا ایونٹ میں ہم عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھر پور تیاریوں کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہاکی کے اس عالمی میلہ میں قومی ٹیم کیسی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے، اس کا شائقین کو انتظار رہے گا،میگاایونٹ کے لیے ابھی سے ٹھوس پلاننگ اور ہنگامی بنیادوں پر تیاری شروع کرنا ہوگی۔
پاکستان میں کرکٹ اور ہاکی کے حوالے سے رواں ماہ اس حوالے سے یاد گار رہے گا کہ ستمبر کو نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف لاہور میں 3 میچوں کی سیریز کھیلے گی بلکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد ہاکی کی عالمی رونقیں بھی دوبارہ بحال ہوں گی۔
زندہ دلوں کے شہر لاہور کو ہاکی ورلڈ کپ 1990ء کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو2-1 سے زیر کرنے میں کامیاب رہا، 23فروری کو نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں شیڈول فائنل مقابلے میں گرین شرٹس کا ٹاکرا ہالینڈ سے تھا، عالمی کپ کے ٹائٹل مقابلے کو دیکھنے کے لئے عوام میں اس قدر جوش وخروش تھا کہ شائقین کا ٹھاٹھے مارتا سمندر سٹیڈیم کی طرف امڈ آیا، 70 ہزار سے بھی زائد گنجائش کے سٹیڈیم میں شائقین کی آمد کا یہ عالم تھا کہ جتنے تماشائی سٹیڈیم کے اندر تھے، اس سے کہیں زیادہ سٹیڈیم کے باہر موجود تھے، جو تماشائی ہاکی سٹیڈیم کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، ان کی خوشی قابل دید تھی، میچ کے دوران تماشائیوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، پورے مقابلے کے دوران فضا پاکستان زندہ باد، پاکستان ہاکی ٹیم پائندہ باد کے فلک بوس نعروں سے گونجتی رہی، گو پاکستان یہ فائنل مقابلہ ایک کے مقابلے میں 3گول سے ہار گیا لیکن لاہور میں ورلڈ کپ کے فائنل کا کامیاب انعقاد ہر حوالے سے یادگار رہا، سابق اولمپئنز اور شائقین نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں شیڈول اس فائنل مقابلے کو آج بھی یاد کرتے ہیں۔ اگر قارئین میں سے کسی کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ہیڈ کوارٹر نیشنل ہاکی سٹیڈیم جانے کا اتفاق ہو تو انہیں فائنل مقابلے کی یادگار اور تاریخی تصاویر آویزاں دکھائی دیں گی۔
ورلڈ کپ کے بعد بھی انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان میں آمد کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا، پاکستان کو آخری انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی کا موقع دسمبر 2004ء کی ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران حاصل ہوا، اس ایونٹ میں بھی شائقین کا جذبہ قابل دید تھا، منی ورلڈ کپ کے حوالے سے پہچانے جانے والے اس ایونٹ میں گرین شرٹس اپنی سرزمین پر تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
بعد ازاں حکومت اور کھیلوں کے ارباب اختیار کی نالاکیوں اور من مانیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل ایونٹس پاکستان سے روٹھتے ہی چلے گئے، 3مارچ 2009ء وہ منحوس دن تھا جب لبرٹی کے مقام پر بعض شدت پسندوں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا، اس سانحہ نے پاکستان میں انٹرنیشنل ایونٹس کی میزبانی پر کاری ضرب لگائی، کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست منفی اثر ہاکی اور دوسری کھیلوں پر بھی پڑا اور عالمی ٹیموں نے پاکستان آنے سے صاف انکار کر دیا، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کسی بھی فیڈریشن عہدیدار نے ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کے لئے سنجیدہ بنیادوں پر کوشش ہی نہ کی بلکہ وہ عالمی ٹیموں کو پاکستان میں لانے سے بچنے کے لئے طرح طرح کے قصے کہانیاں گھڑتے رہے، پی ایچ ایف کے ایک سیکرٹری سے جب بھی بات کی جاتی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ہماری مساجد میں نمازی تک تو بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے محفوظ نہیں ہیں، میں انٹرنیشنل ٹیموں کو پاکستان میں بلا کر اپنے لئے نئی مصیبت کیوں کھڑی کروں؟
ایک اور عہدیدار پی ایچ ایف کے خزانے میں فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بنا کر خود کو اس ذمہ داری سے بچاتے رہا، نااہل لوگوں کے پی ایچ ایف کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انٹرنیشنل ٹیموں نے پاکستان آنا تو درکنار اپنے ملکوں میں بھی گرین شرٹس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا، لیکن کہتے ہیں کہ جذبے سچے ہوں تو منزل مل ہی جایا کرتی ہے،پی ایچ ایف کی موجودہ انتظامیہ آغاز سے ہی ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کیلئے سنجیدہ رہی ہے، 1994 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد سینئر دنیائے ہاکی کی وہ شخصیت ہیں جن کے نام کا ڈنکا آج بھی پوری دنیا میں بجتا ہے، عالمی سطح پر بھی ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں، دنیا بھر کے عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ ان کی دوستیاں آج بھی ہمالیہ سے بلند اور سمندر کی گہرائیوں سے زیادہ گہری ہیں، شہباز سینئر کی دعوت پر نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کے دورے پر آ رہی ہے بلکہ کھیلوں کے اس عالمی میلہ کے موقع پر آسٹریلوی سابق کپتان چارلس ورتھ اور بھارتی دھن راج پلے سمیت دنیا کے ممتاز پلیئرز بھی موجود ہوں گے۔
پاکستان میں کرکٹ اور ہاکی کے حوالے سے رواں ماہ اس حوالے سے یاد گار رہے گا کہ ستمبر کو نہ صرف ورلڈ الیون پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف لاہور میں 3 میچوں کی سیریز کھیلے گی بلکہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد ہاکی کی عالمی رونقیں بھی دوبارہ بحال ہوں گی۔ پی ایچ ایف حکام کے مطابق نومبر میں ہاکی کی ورلڈ الیون پاکستان کا دورہ کرے گی جس میں اولمپکس اورورلڈ چیمپئن ٹیموں کے کھلاڑی بھی شامل ہوں گے، ان ممالک میں آسٹریلیا، جرمنی، انگلینڈ، بیلجیم، آئرلینڈ، سپین اور نیوزی لینڈ کے پلیئرز قابل ذکر ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر پی ایچ ایف بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر نے کچھ دن قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ون ٹو ون ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے آرمی چیف کو ورلڈالیون کے دورۂ پاکستان کے حوالے سے بریفنگ دی تھی، ذرائع کے مطابق میٹنگ کے دوران آرمی چیف نے صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن کو ورلڈ الیون کے دورۂ پاکستان کے دوران مکمل طور پر سکیورٹی کی یقین دہانی کروائی تھی۔
آئندہ ماہ اسلام آباد میں شیڈول پی ایچ ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں بھی ورلڈ الیون کی پاکستان میں آمد کا معاملہ زیر بٖحث آیا تھا، ارکان اس بات پر متفق تھے کہ انٹرنیشنل ٹیموں کے اعتماد میں بحالی کیلئے ورلڈالیون کا پاکستان کا دورہ ضروری ہے۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ ورلڈ الیون ہاکی ٹیم 21 نومبر کی رات کراچی پہنچے گی اور شہر قائد میں ایک میچ کھیلنے کے بعد زندہ دلوں کے شہر لاہور پہنچے گی اور پاکستان کے 6 روزہ قیام کے بعد روانہ ہوگی۔
فیڈریشن ذرائع کے مطابق ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کے موقع پر بین الاقوامی شہرت کے حامل 5 غیر ملکی پلیئرز کو بھی مہمان بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، ان پلیئرز کا تعلق ہالینڈ، بھارت، آسٹریلیا، جرمنی سے ہے، کھلاڑیوں میں بوویلنڈر، بلوشر، دھن راج پلے، پال لیجٹن اور چارلس ورتھ شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی آمد کے موقع پر پاکستان کے بھی5کھلاڑیوں کو ہال آف فیم میں شامل کیا جائے گا، ان پلیئرز میں خواجہ ذکاء الدین، شہباز سینئر، رشید جونیئر، منظور جونیئر، منظور الحسن، حسن سردار، اصلاح الدین صدیقی،شہناز شیخ کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی ہاکی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں نہ صرف بھر پور خراج تحسین پیش کیا جائے گا بلکہ انہیں گولڈ میڈلز اور کیش پرائز سے بھی نوازا جائے گا۔
سیکریٹری پی ایچ ایف شہباز سینئر کا کہنا ہے کہ رواں سال نومبر کے تیسرے ہفتے میں ورلڈالیون کراچی آئے گی جو شہر قائد اور لاہور میں ایک ایک میچ کھیلے گی۔ان کے مطابق ملک میں انٹرنیشنل ہاکی کی بحالی کیلئے حکومت سمیت تمام متعلقہ حکام کو اعتماد لیا ہے اور حکومت نے مکمل سکیورٹی کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہاکی صرف 11 کھیلتے ہیں لیکن کروڑوں دل گرین شرٹس کے ساتھ دھڑکتے ہیں، جب عالمی کپ آجائے تو قومی کھیل کے ساتھ پاکستانی قوم کی جذباتی وابستگی میں غیرمعمولی اضافہ ہو جاتا ہے، یہ وقت ایک بار پھر ورلڈ کپ کا ہے۔ شائقین ہاکی کے لئے ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ چار سال کے عرصہ کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم ایک بار پھر آئندہ برس بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے، پاکستان کو اب تک ورلڈ کپ میں 4گولڈاور 2 چاندی کے تمغے جیتنے کا اعزاز ہے، پاکستان نے 1971، 1978، 1982 اور1994 میں گولڈ جبکہ 1975 اور 1990 میں سلور میڈلز اپنے نام کئے تھے لیکن افسوس کی بات ہے یہ کہ گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار 2014کے عالمی کپ میں شرکت سے محروم رہے تھے۔
سیکرٹری پی ایچ ایف شہباز احمد سینئر کے مطابق ورلڈ کپ مقابلوں میں گرین شرٹس کی دوبارہ آمد تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گی، میگا ایونٹ میں ہم عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھر پور تیاریوں کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہاکی کے اس عالمی میلہ میں قومی ٹیم کیسی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے، اس کا شائقین کو انتظار رہے گا،میگاایونٹ کے لیے ابھی سے ٹھوس پلاننگ اور ہنگامی بنیادوں پر تیاری شروع کرنا ہوگی۔