افغان طالبان قیادت کوئٹہ اور پشاور میں موجود ہےامریکا کا پاکستان پرایک اورالزام
داعش خراسان بنیادی طور پر پاکستانیوں پر مشتمل ہے، افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن
ISLAMABAD:
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے پاکستان پر ایک اور الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ افغان طالبان قیادت کوئٹہ اور پشاور میں موجود ہے۔
افغان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل جان نکلسن نے کہا کہ افغان طالبان قیادت کوئٹہ اور پشاور میں موجود ہے، افغانستان سے باہر طالبان کی پناہ گاہوں کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور امریکا اور پاکستان کی حکومتیں اس مسئلے پر دو طرفہ مذاکرات کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئٹہ شوریٰ اور پشاور شوریٰ کا پتہ چل چکا ہے، افغان طالبان کی قیادت پاکستانی شہروں میں موجود ہے، دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی حمایت کو روکنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان افراتفری پھیلانے والے افراد کو پناہ دیتا ہے، امریکی صدر کا الزام
ایک سوال کے جواب میں جنرل جان نکلسن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا سفارتی حل ممکن ہے تاہم فوجی کوششیں بھی جاری رہیں گی اور امریکا افغانستان کی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔ جنرل نکلسن کا کہنا تھا کہ 'میری توجہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر مرکوز ہے تاہم دیگر امریکی حکام پاکستان میں جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کے مسئلے کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان امن عمل میں شامل ہوجائیں، امریکی کمانڈر جنرل نکلسن
دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھایا ہے، ان کی سیکیورٹی افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت بہادری اور حوصلے سے لڑی، اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں، تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاک امریکا تعلقات کی موجودہ صورت حال بیان کی ہے، درحقیقت پاکستان امریکا تعلقات تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچ چکے ہیں، جنہیں واشنگٹن سے لے کر اسلام آباد تک سنبھالنے کی کوشش ہورہی ہیں۔
جنرل نکلسن نے کہا کہ ہم امریکا پر حملہ روکنے کے لیے افغانستان میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا پر کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا، طالبان کی حکومت کو اس لیے ختم کیا گیا کہ انہوں نے القاعدہ کو پناہ دی، القاعدہ اور طالبان ہنوز میدان جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، افغانستان میں طالبان کی واپسی کا مطلب القاعدہ کی واپسی ہے، اور القاعدہ کی واپسی کا مطلب امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک امریکا تعلقات پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، امریکی کمانڈر
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی موجودگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے 16 سال میں مزید دہشتگرد گروپس بن گئے ہیں جس کی مثال داعش ہے، داعش خراسان بنیادی طور پر پاکستانیوں پر مشتمل ہے، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے پشتونوں اور اسلامک موومنٹ ازبکستان کے جنگجوؤں نے داعش خراسان بنائی جو اب افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے، تاہم امریکی و افغان اسپیشل فورسز نے مشترکہ آپریشن میں داعش کے سرفہرست تین رہنماؤں سمیت نصف سے زیادہ افرادی قوت کو ختم کردیا ہے۔ طالبان کی وجہ سے داعش وجود میں آئی، اگر طالبان واپس آگئے تو داعش اور القاعدہ دونوں زور پکڑ لیں گی۔
افغانستان کے مسئلے کے حل میں ایران اور روس سمیت دیگر پڑوسی ممالک کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں جنرل نکلسن نے کہا کہ تمام پڑوسی ممالک کا مشترکہ مسئلہ دہشت گردی سے نمٹنا خصوصا داعش کا خاتمہ ہے، لہذا مجھے امید ہے کہ پڑوسی ممالک یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ طالبان نہیں بلکہ امریکی اور افغان فورسز ہی داعش کو شکست دے سکتی ہیں، امریکی و افغان افواج جو جنگ لڑ رہی ہیں اس سے پڑوسی ممالک کو ہی فائدہ پہنچے گا، لہذا انہیں ہماری حمایت کرنی چاہیے اور طالبان کی مدد کرکے ہماری کوششوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
امریکی کمانڈر نے ایران پر افغان طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد ایرانی سفیروں کو قتل کردیا تھا، لہذا یہ بات حیران کن ہے کہ اب ایران طالبان کی مدد کررہا ہے جو کہ ایک غیرفطری اتحاد ہے۔ جنرل جان نکلسن نے کہا کہ اگر طالبان تشدد ترک کردیں تو انہیں افغان حکومت میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے، کیونکہ زیادہ تر جنگوں کے اختتام پر متحارب فریق ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر حکومت سازی کرتے ہیں۔
افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے پاکستان پر ایک اور الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ افغان طالبان قیادت کوئٹہ اور پشاور میں موجود ہے۔
افغان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل جان نکلسن نے کہا کہ افغان طالبان قیادت کوئٹہ اور پشاور میں موجود ہے، افغانستان سے باہر طالبان کی پناہ گاہوں کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور امریکا اور پاکستان کی حکومتیں اس مسئلے پر دو طرفہ مذاکرات کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئٹہ شوریٰ اور پشاور شوریٰ کا پتہ چل چکا ہے، افغان طالبان کی قیادت پاکستانی شہروں میں موجود ہے، دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کی حمایت کو روکنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان افراتفری پھیلانے والے افراد کو پناہ دیتا ہے، امریکی صدر کا الزام
ایک سوال کے جواب میں جنرل جان نکلسن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا سفارتی حل ممکن ہے تاہم فوجی کوششیں بھی جاری رہیں گی اور امریکا افغانستان کی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔ جنرل نکلسن کا کہنا تھا کہ 'میری توجہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر مرکوز ہے تاہم دیگر امریکی حکام پاکستان میں جنگجوؤں کی پناہ گاہوں کے مسئلے کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان امن عمل میں شامل ہوجائیں، امریکی کمانڈر جنرل نکلسن
دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھایا ہے، ان کی سیکیورٹی افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت بہادری اور حوصلے سے لڑی، اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں، تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں پاک امریکا تعلقات کی موجودہ صورت حال بیان کی ہے، درحقیقت پاکستان امریکا تعلقات تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچ چکے ہیں، جنہیں واشنگٹن سے لے کر اسلام آباد تک سنبھالنے کی کوشش ہورہی ہیں۔
جنرل نکلسن نے کہا کہ ہم امریکا پر حملہ روکنے کے لیے افغانستان میں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا پر کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا، طالبان کی حکومت کو اس لیے ختم کیا گیا کہ انہوں نے القاعدہ کو پناہ دی، القاعدہ اور طالبان ہنوز میدان جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، افغانستان میں طالبان کی واپسی کا مطلب القاعدہ کی واپسی ہے، اور القاعدہ کی واپسی کا مطلب امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک امریکا تعلقات پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، امریکی کمانڈر
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی موجودگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے 16 سال میں مزید دہشتگرد گروپس بن گئے ہیں جس کی مثال داعش ہے، داعش خراسان بنیادی طور پر پاکستانیوں پر مشتمل ہے، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے پشتونوں اور اسلامک موومنٹ ازبکستان کے جنگجوؤں نے داعش خراسان بنائی جو اب افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے، تاہم امریکی و افغان اسپیشل فورسز نے مشترکہ آپریشن میں داعش کے سرفہرست تین رہنماؤں سمیت نصف سے زیادہ افرادی قوت کو ختم کردیا ہے۔ طالبان کی وجہ سے داعش وجود میں آئی، اگر طالبان واپس آگئے تو داعش اور القاعدہ دونوں زور پکڑ لیں گی۔
افغانستان کے مسئلے کے حل میں ایران اور روس سمیت دیگر پڑوسی ممالک کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں جنرل نکلسن نے کہا کہ تمام پڑوسی ممالک کا مشترکہ مسئلہ دہشت گردی سے نمٹنا خصوصا داعش کا خاتمہ ہے، لہذا مجھے امید ہے کہ پڑوسی ممالک یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ طالبان نہیں بلکہ امریکی اور افغان فورسز ہی داعش کو شکست دے سکتی ہیں، امریکی و افغان افواج جو جنگ لڑ رہی ہیں اس سے پڑوسی ممالک کو ہی فائدہ پہنچے گا، لہذا انہیں ہماری حمایت کرنی چاہیے اور طالبان کی مدد کرکے ہماری کوششوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
امریکی کمانڈر نے ایران پر افغان طالبان کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد ایرانی سفیروں کو قتل کردیا تھا، لہذا یہ بات حیران کن ہے کہ اب ایران طالبان کی مدد کررہا ہے جو کہ ایک غیرفطری اتحاد ہے۔ جنرل جان نکلسن نے کہا کہ اگر طالبان تشدد ترک کردیں تو انہیں افغان حکومت میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے، کیونکہ زیادہ تر جنگوں کے اختتام پر متحارب فریق ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر حکومت سازی کرتے ہیں۔