آمروں کے پیدا کردہ مسائل پہلا حصہ
پرویز مشرف نے کارگل مہم شروع کی، جس نے ہمیں بھارت کے ساتھ جنگ کے قریب پہنچا دیا اور بالآخر ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا۔
پاکستان کی 70 سالہ مختصر تاریخ میں آمروں نے 33 سال تک ملک پر براہ راست حکمرانی کی۔ جب غیر سویلین قوت اقتدار میں نہیں تھی تب بھی اس کے طویل سائے سویلین حکومتوں کا تعاقب کرتے رہے، جو ان پر تمام سیاسی طور طریقوں کو کمزور رکھنے اور ملک کے جمہوری ارتقا میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔
جنرل ایوب خان نے 1956 کے آئین کو منسوخ کیا اور پہلی مارشل لا حکومت قائم کی جو دس سال تک برقرار رہی، انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں ایک خفیہ فوجی آپریشن شروع کیا جس کا نتیجہ بھارت کے ساتھ مکمل پیمانے پر جنگ کے اشتعال کی صورت میں نکلا اور مشرقی پاکستان کے استحصال کو نظر انداز کردیا۔
دوسری طرف یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے خلاف آپریشن شروع کیا، جس پر مغربی پاکستان کی اشرافیہ کی طرف سے 24 سال تک حکومت کی جاتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔
پرویز مشرف نے کارگل مہم شروع کی، جس نے ہمیں بھارت کے ساتھ جنگ کے قریب پہنچا دیا اور بالآخر ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ انھوں نے افغان طالبان اور ان جہادی گروپوں کی مسلسل حمایت کرکے امریکا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، جنھوں نے نہ صرف بھارت کو نشانہ بنایا بلکہ بالآخر پاکستان میں بھی زبردست تباہی مچائی۔
مگر جنرل ضیا الحق کی حکمرانی نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ضیا نے 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو معزول کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ انھوں نے سیاسی اسلام کو عسکری اسلام میں تبدیل کیا اور اس طرح دہشت گردی اور فرقہ واریت کی قوتوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔ یہ 1979 میں افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کو ختم کرنے کے لیے امریکی حکومت کے ایما پر ضیا حکومت کا شروع کیا ہوا جہاد تھا جس کی وجہ سے پچھلے 40 سال سے ملک لہولہان ہورہا ہے۔ افغانستان کے نام نہاد اسلامی جہادیوں کو 10 سال تک امریکا کی طرف سے دیے جانے والے ہتھیار مفت فراہم کیے جاتے رہے۔
80 کی دہائی میں افغان شورش کی خبریں دینے والے صحافیوں کا اس بات پر عمومی اتفاق رائے تھا کہ ان مجاہدین کو دیا جانے والا 70 فیصد اسلحہ، پاکستان میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کو مبالغہ آمیز بھی سمجھا جائے تو 50 فیصد اسلحہ اور گولہ بارود ضرور ایسا تھا جو پاکستانیوں کو فروخت کیا گیا۔ اس سے معاشرے میں ہتھیاروں کا پھیلاؤ ہوا اور اسے بے رحم بنادیا۔ عسکریت پسند لیڈروں کو پیسہ دینے کے لیے ہیروئن کی اسمگلنگ کا طریقہ استعمال کیا گیا، جس سے منشیات کا استعمال ملک کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن گیا۔
1979 میں ایرانی انقلاب سے سعودی عرب کی حکومت کو جھٹکا لگا۔ پاکستان میں فرقہ پرست عسکری تنظیموں کو بیرون ملک سے پیسہ دینا شروع کردیا گیا اور اس طرح پاکستان میں فرقہ وارانہ پراکسی جنگ شروع ہوگئی۔
ضیاء نے اپنے محسن، اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کردیا۔ انھوں نے اسی بھٹو کو پھانسی دلانے کے لیے بڑی چالاکی سے اعلیٰ ترین سطح پر عدلیہ میں جوڑ توڑ کی، جس نے سات جرنیلوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انھیں آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
ضیاء کی قیادت میں، جنھیں ایک بار اردن میں بریگیڈیئر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا، تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے خلاف آپریشنز کیے۔ پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین (پی ایف پی ایل) کے ایک ترجمان کے مطابق 25,000 فلسطینی قتل ہوئے جو شاہ حسین کی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ فلسطینیوں نے اس شورش اور قتل عام کو ''بلیک ستمبر'' کا نام دیا۔
میں نے ایک افسر سے پوچھا کہ ضیاء کس مزاج کے انسان ہیں۔ اس کا جواب تھا ''چالاک، جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا''۔
میں نے 1977 کی آمریت آنے کے بعد ایک موقع پر جنرل ٹکا خان سے، جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے، پوچھا کہ بھٹو نے آرمی چیف کی حیثیت سے ضیاء کو کیوں چنا تھا، ٹکا خان نے بتایا کہ انھوں نے بھٹو کے خلاف ایک سازش میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں اہم کردار ادا کیا تھا، اسی بات نے بھٹو کو قائل کیا کہ ضیاء ان کے وفادار رہیں گے۔
یہ بات کہ ضیاء ایک موقع پرست انسان تھے، ایک سینئر صحافی ایس ایم عذیر کی طرف سے بیان کردہ واقعہ سے ثابت ہوتی ہے کہ ضیا ہر صورت بھٹو کو خوش کرنا چاہتے تھے۔آرمی چیف کی حیثیت سے ضیاء کا تقرر ہی بھٹو کی واحد غلطی نہیں تھی۔
بھٹو نے ایٹم بم بنانے کا پراجیکٹ شروع کرکے امریکی انتظامیہ کو ناراض کیا۔ جب دسمبر 1976 میں امریکی دباؤ بڑھا تو انھوں نے ایک طویل آرٹیکل لکھا جو پاکستان اور امریکا میں شایع ہوا، جس میں انھوں نے وضاحت کی کہ ان کی خارجہ پالیسیوں کی بنیاد دو طرفہ تعلقات پر ہے۔ اس آرٹیکل میں، جس میں دفتر خارجہ کی دستاویزات بھی شامل تھیں، بھٹو نے بتایا کہ وہ سوویت یونین اور چین کے ساتھ تعلقات کے معمار ہیں۔ اگرچہ یہ درست پالیسی تھی مگر ایسے اسباب کی بنا پر جو عیاں تھے، امریکی حکومت نے اسے پسند نہیں کیا۔ میں نے اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد اپنے ایک سینئر ساتھی سے کہا کہ بھٹو جس بات کو سمجھ نہیں سکے وہ یہ ہے کہ نہ تو پاکستان، بھارت ہے اور نہ وہ نہرو ہیں۔
(جاری ہے)
جنرل ایوب خان نے 1956 کے آئین کو منسوخ کیا اور پہلی مارشل لا حکومت قائم کی جو دس سال تک برقرار رہی، انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں ایک خفیہ فوجی آپریشن شروع کیا جس کا نتیجہ بھارت کے ساتھ مکمل پیمانے پر جنگ کے اشتعال کی صورت میں نکلا اور مشرقی پاکستان کے استحصال کو نظر انداز کردیا۔
دوسری طرف یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے خلاف آپریشن شروع کیا، جس پر مغربی پاکستان کی اشرافیہ کی طرف سے 24 سال تک حکومت کی جاتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔
پرویز مشرف نے کارگل مہم شروع کی، جس نے ہمیں بھارت کے ساتھ جنگ کے قریب پہنچا دیا اور بالآخر ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ انھوں نے افغان طالبان اور ان جہادی گروپوں کی مسلسل حمایت کرکے امریکا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی، جنھوں نے نہ صرف بھارت کو نشانہ بنایا بلکہ بالآخر پاکستان میں بھی زبردست تباہی مچائی۔
مگر جنرل ضیا الحق کی حکمرانی نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ضیا نے 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو معزول کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ انھوں نے سیاسی اسلام کو عسکری اسلام میں تبدیل کیا اور اس طرح دہشت گردی اور فرقہ واریت کی قوتوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔ یہ 1979 میں افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کو ختم کرنے کے لیے امریکی حکومت کے ایما پر ضیا حکومت کا شروع کیا ہوا جہاد تھا جس کی وجہ سے پچھلے 40 سال سے ملک لہولہان ہورہا ہے۔ افغانستان کے نام نہاد اسلامی جہادیوں کو 10 سال تک امریکا کی طرف سے دیے جانے والے ہتھیار مفت فراہم کیے جاتے رہے۔
80 کی دہائی میں افغان شورش کی خبریں دینے والے صحافیوں کا اس بات پر عمومی اتفاق رائے تھا کہ ان مجاہدین کو دیا جانے والا 70 فیصد اسلحہ، پاکستان میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کو مبالغہ آمیز بھی سمجھا جائے تو 50 فیصد اسلحہ اور گولہ بارود ضرور ایسا تھا جو پاکستانیوں کو فروخت کیا گیا۔ اس سے معاشرے میں ہتھیاروں کا پھیلاؤ ہوا اور اسے بے رحم بنادیا۔ عسکریت پسند لیڈروں کو پیسہ دینے کے لیے ہیروئن کی اسمگلنگ کا طریقہ استعمال کیا گیا، جس سے منشیات کا استعمال ملک کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن گیا۔
1979 میں ایرانی انقلاب سے سعودی عرب کی حکومت کو جھٹکا لگا۔ پاکستان میں فرقہ پرست عسکری تنظیموں کو بیرون ملک سے پیسہ دینا شروع کردیا گیا اور اس طرح پاکستان میں فرقہ وارانہ پراکسی جنگ شروع ہوگئی۔
ضیاء نے اپنے محسن، اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کردیا۔ انھوں نے اسی بھٹو کو پھانسی دلانے کے لیے بڑی چالاکی سے اعلیٰ ترین سطح پر عدلیہ میں جوڑ توڑ کی، جس نے سات جرنیلوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انھیں آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
ضیاء کی قیادت میں، جنھیں ایک بار اردن میں بریگیڈیئر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا، تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے خلاف آپریشنز کیے۔ پاپولر فرنٹ برائے آزادی فلسطین (پی ایف پی ایل) کے ایک ترجمان کے مطابق 25,000 فلسطینی قتل ہوئے جو شاہ حسین کی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ فلسطینیوں نے اس شورش اور قتل عام کو ''بلیک ستمبر'' کا نام دیا۔
میں نے ایک افسر سے پوچھا کہ ضیاء کس مزاج کے انسان ہیں۔ اس کا جواب تھا ''چالاک، جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا''۔
میں نے 1977 کی آمریت آنے کے بعد ایک موقع پر جنرل ٹکا خان سے، جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے، پوچھا کہ بھٹو نے آرمی چیف کی حیثیت سے ضیاء کو کیوں چنا تھا، ٹکا خان نے بتایا کہ انھوں نے بھٹو کے خلاف ایک سازش میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں اہم کردار ادا کیا تھا، اسی بات نے بھٹو کو قائل کیا کہ ضیاء ان کے وفادار رہیں گے۔
یہ بات کہ ضیاء ایک موقع پرست انسان تھے، ایک سینئر صحافی ایس ایم عذیر کی طرف سے بیان کردہ واقعہ سے ثابت ہوتی ہے کہ ضیا ہر صورت بھٹو کو خوش کرنا چاہتے تھے۔آرمی چیف کی حیثیت سے ضیاء کا تقرر ہی بھٹو کی واحد غلطی نہیں تھی۔
بھٹو نے ایٹم بم بنانے کا پراجیکٹ شروع کرکے امریکی انتظامیہ کو ناراض کیا۔ جب دسمبر 1976 میں امریکی دباؤ بڑھا تو انھوں نے ایک طویل آرٹیکل لکھا جو پاکستان اور امریکا میں شایع ہوا، جس میں انھوں نے وضاحت کی کہ ان کی خارجہ پالیسیوں کی بنیاد دو طرفہ تعلقات پر ہے۔ اس آرٹیکل میں، جس میں دفتر خارجہ کی دستاویزات بھی شامل تھیں، بھٹو نے بتایا کہ وہ سوویت یونین اور چین کے ساتھ تعلقات کے معمار ہیں۔ اگرچہ یہ درست پالیسی تھی مگر ایسے اسباب کی بنا پر جو عیاں تھے، امریکی حکومت نے اسے پسند نہیں کیا۔ میں نے اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد اپنے ایک سینئر ساتھی سے کہا کہ بھٹو جس بات کو سمجھ نہیں سکے وہ یہ ہے کہ نہ تو پاکستان، بھارت ہے اور نہ وہ نہرو ہیں۔
(جاری ہے)