30 برس کی جدوجہد کا جشن
کوئی واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آگے چل کر اس کے کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا۔ ہر طرف لُو کے تھپیڑے چلتے تھے۔ بھٹو کو پھانسی ہوچکی تھی اور لاہور میں ٹکٹکیاںگڑی ہوئی تھیں۔ جلاد ٹکٹکی پر بندھے ہوئے نوجوانوں کی طرف دوڑتے ہوئے آتے اور ان کا لہراتا ہوا کوڑا ان کی پیٹھ کی کھال ادھیڑ دیتا۔
ظلم کا یہی موسم تھا جب 30 برس پہلے لاہور کی کچھ باشعور عورتوں نے یہ طے کیا کہ جس طرح لوگوں کے اور مذہب کے نام پر عورتوں کے سیاسی اورجمہوری حقوق چھینے جارہے ہیں، اس کے خلاف انھیں آواز اٹھانی چاہیے۔ 12فروری 1983ء کا دن تھا۔ جب لگ بھگ چالیس پچاس عورتیں اور لڑکیاں اپنا حق مانگتی ہوئی مال روڈ پر نکلیں، ان میں عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، خاور ممتاز، لالہ رخ، فریدہ شہید، بشریٰ اعتزاز احسن، طاہرہ مظہر علی خان اور نگہت سعیدخان کے علاوہ بھی دوسری بہت سی Activist خواتین تھیں۔
لاہور کی مال روڈ پر وہ مشکل سے پچاس ساٹھ گز آگے گئی ہوں گی کہ پولیس کا ایک جتھا ان پر ٹوٹ پڑا، سروں پر لاٹھیاں پڑیں اور خون کی دھاریں پھوٹ بہیں۔ وہ جب زمین پر گر گئیں تو انھیں بے دردی سے مارا گیا۔ یہ خبر لاہور ہائی کورٹ میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے مشہور باغی اور انقلابی شاعر حبیب جالب اور وکیلوں تک پہنچی تو وہ ان عورتوں کا ساتھ دینے کے لیے دوڑ پڑے۔ جالب صاحب نے اپنی درد بھری آواز میں اپنے شعر پڑھنے شروع کردئیے... ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا کہنا...ان اشعار کو سن کر عورتیں جوش سے بھر گئیں اور انھوں نے پٹتے ہوئے بھی نعرے لگانے شروع کردیے۔
پولیس والوں کو غصہ آگیا کہ یہ کون شخص ہے جو ان عورتوں کی ہمت بڑھا رہا ہے۔ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ایک لاٹھی گھما کر جالب صاحب کے سرپر جمادی، ان کا سر کھل گیا اور چہرہ خون سے بھرگیا۔ وہ جن عورتوں کو بچانے گئے تھے، اب وہی ان کو پولیس کی لاٹھیوں سے بچانے لگیں۔ عورتیں حوالات گئیں، جالب صاحب اسپتال گئے۔ دوسرے دن چند انگریزی اخباروں میں لہولہان عورتوں اور شاعر انقلاب جالب کی تصویریں چھپیں۔ کہنے کو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن یہ واقعہ ایک بڑی جہدوجہد کا آغاز بن گیا۔ یہ عورتوں کی وہ تحریک تھی جس نے WAF (خواتین محاذ عمل) اور ASR جیسی کئی تنظیموں کو جنم دیا اور اب ہرسال 12 فروری ، پاکستانی خواتین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
کوئی واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آگے چل کر اس کے کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ لاہور کے وہ پولیس والے جنھوں نے 12 فروری 1983ء کو مارشل لا کے خلاف اور جمہوری حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی مٹھی بھر عورتوں کے جلوس کا راستہ روکا تھا۔ ان پر لاٹھیاں برسائی تھیں، تشدد کیا تھا۔اسے ایک عام سا واقعہ سمجھا گیا۔ اتنا معمولی کہ یہ واقعہ بیشتر اردو اخباروں میں ''خبر'' کے طور پر بھی شایع نہیں ہوا۔ انگریزی اخباروں کو دعا دیجیے جنھوں نے اس بارے میں لکھا تو سہی۔ لیکن جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا سب ہی سہمے ہوئے تھے۔ جنرل موصوف اپنے خیال میں پاکستانی سماج کی گندگیاں صاف کرنے کے لیے خدا کی طرف سے مامور کیے گئے تھے۔ چنانچہ ہر ظلم روا تھا اور ان کا دیا ہوا ہر حکم اس لیے تھا کہ اس پر من و عن عمل کیا جائے۔
وہ اور ان کا ساتھ دینے والوں کے تصور میں نہیں تھا کہ وہ دین کی من پسند تشریح و تعبیر سے ایک وسیع المشرب سماج کو کیسا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ افغانستان میں 'جہاد' کے نام پر امریکی مفادات کو کس طرح فروغ دے رہے ہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں وہ بارود بچھ رہی ہے جو ہمارے سماج کو پارہ پارہ کردے گی۔ اس واقعے کو 30 برس گزر چکے ہیں لیکن روزانہ ہمارے شہروں اور قریوں میں بے گناہ بچے، عورتیں اور نوجوان لقمۂ اجل ہورہے ہیں۔ اپنے پیروں سے چل کر کسی نئی امید کی تلاش میں نکلنے والے لوتھڑوں کی گٹھریاں بن جاتے ہیں۔ ایسی گٹھریاں جن میں سے ان کی مائیں بھی انھیں ڈھونڈ نہیں پاتیں اور عمر اس موہوم امید میں گزار دیتی ہیں کہ شاید ان کے بیٹے دھماکے سے دور کسی جگہ ہوں، شاید ان کی یادداشت چلی گئی ہو اور کسی دن وہ لوٹ کر گھر آجائیں۔ لیکن باردو کے پروں پر سفر کرنے والے بھلا کب واپس آتے ہیں۔
یہ سطریں میں لاہور سے لکھ رہی ہوں۔ جہاں اس جدوجہد کا جشن منایا جارہا ہے جو کہنے کو عورتوں کی تھی لیکن سیاسی، جمہوری اور سماج کے مرکزی دھارے سے جڑی ہوئی تحریک تھی۔ اس نے خاموش بیٹھی اور سہمی ہوئی سیاسی جماعتوں کو بھی جھنجھوڑا۔ کراچی، لاہور اور سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں عورتوں کی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے بہت سی سرگرمیاں ہوئیں۔ یہ وہی دن تھے جب ایم آر ڈی کی تحریک نے زور پکڑا اور بہ طور خاص سندھ نے اس جمہوری جدوجہد کا حصہ بننے کی بھاری قیمت ادا کی۔ASR اردو میںجس کا مطلب 'اثر' اور 'ٹکراؤ' ہے، اسے دلی میں پیدا ہونے اور رام پور کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھنے والی نگہت سعید خان نے بنایا اور پھر اس میں انسٹیٹیوٹ آف ویمن اسٹڈیز لاہور اور انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
یہ فروری 2013ء ہے ۔ 12 فروری 1983ء سے پاکستانی عورتوں کی جو جمہوری اور سیاسی جدوجہد شروع ہوئی تھی، اس کو 30 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ یہ جدوجہد بہت لمبی اور کٹھن رہی ہے۔ ہمارے یہاں جس تیزی سے انتہا پسندی کو فروغ ملا ہے اور افغانستان میں امریکا کی جنگ نے پاکستانی سماج پر جتنے تباہ کن اثرات ڈالے ہیں اس سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ آج کے حالات میں عورتوں کی جدوجہد ضیاء الحق کے دور سے بھی زیادہ مشکل ہوگئی ہے۔
اس سے پہلے بھی 'اثر' کے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شریک ہوچکی ہوں لیکن اس مرتبہ ہونے والے سیمینار میں شرکت کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ ایک جدوجہد جس نے سیاسی طور پر پڑھی لکھی پاکستانی عورت کو سوچنے اور محروم و لاچار طبقے کے حقوق کی خاطرلڑنے کا عزم دیا، ان ہی کوششوں کانتیجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں جمہوری حکومت کو خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد اور کئی دوسرے معاملات کے بارے میں قانون سازی کرنی پڑی۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ جمہوری حکومتوں سے بھی مزدوروں، کسانوں، عورتوں اور دوسرے محروم طبقات کو اپنے حقوق آسانی سے نہیں مل جاتے۔ بہت سے پریشر گروپ اور تنظیمیں ہوتی ہیں جو عام لوگوں کے مسائل کی طرف حکومتوں کو توجہ دلاتی ہیں اور ان پر دباؤ بناتی ہیں۔ تب ہی قانون سازی کے مراحل مکمل ہوتے ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیمینار کے آغاز میں روبینہ سہگل، گلناز، انیس ہارون، امرسندھو، عرفانہ ملاح کے علاوہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی شہناز وزیر علی نے یہ کہا کہ عورتوں کی جدوجہد کو سیاسی جماعتوں سے جوڑنا چاہیے تب ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
تین روز کے اس سیمینار میں اس بات کا احاطہ کیا گیا کہ شاعری، افسانے، ناول، تراجم اور صحافت کے میدان میں خواتین نے کیا کچھ کیا۔ ان معاملات پر کشور ناہید، نیلم حسین، فاطمہ حسن، شین فرخ اور مجھ سمیت کئی خواتین نے اظہار خیال کیا۔ اسی طرح ایک سیشن میں دہشت گردی پر بہت تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ یہی دہشت گردی ہے جس نے ہمارے سماج کی بنت ادھیڑ دی ہے اور جس کی سب سے زیادہ مار پاکستانی عورت نے کھائی ہے۔اس موضوع پر ناہید عزیز، شیما کرمانی، مدیحہ گوہر اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی امر سندھو نے تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ امر کا کہنا تھا کہ سندھ کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی عورتوں میں ایک ایسی بے داری ہے جو بہت جلد سماج پر اپنے اثرات مرتب کرے گی۔ عطیہ داؤد، شبنم قادر، گل بدن اور دوسری بہت سی خواتین اپنے خیالات کے اظہار میں پُرجوش اور بے دھڑک تھیں۔ شعری نشست جس کی صدارت کشور ناہید کررہی تھیں اس میں اردو، سندھی اور پنجابی کی متعدد شاعرات نے حصہ لیا۔ یاسمین حمید، فاطمہ حسن، امر سندھو، عطیہ داؤد، نسرین انجم بھٹی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، عذرا عباس، رخشندہ نوید اور کئی دوسری شاعرات نے تازہ بہ تازہ ،نو بہ نو مضامین کے انبار لگائے۔
سب سے حوصلہ افزا بات اس سیمینار میںان خواتین کی شمولیت تھی جو وزیرستان، سوات اور دوسرے شورش زدہ علاقوں سے آئی تھیں اور جنھوں نے اپنی برادری اور اپنے آپ پر ہونے والے ستم کی داستان سنائی۔30 برس پہلے لاہور کی جس مال روڈ پر عورتوں کا خون گرا تھا، اسی سڑک پر 12 فروری 2013ء کو100 کے لگ بھگ عورتیں ڈھول کی تھاپ پر ناچتی گاتی چل رہی تھیں۔ یہ ایک منظر ایسا تھا جس کا حصہ بنتے ہوئے ہماری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ ہمارے ساتھ پروفیسر اوما چکرورتی اور امرتسر سے آئی ہوئی بعض دوسری عورتیں بھی تھیں۔ زرد اوڑھنیاں جن پر 'خواتین محاذ عمل' کا میثاق چھپا ہوا تھا، اسے اوڑھے ہوئے یہ عورتیں جدوجہد کی بسنت منا رہی تھیں۔ پاکستانی عورت یہ بسنت ہرسال منائے گی۔
ظلم کا یہی موسم تھا جب 30 برس پہلے لاہور کی کچھ باشعور عورتوں نے یہ طے کیا کہ جس طرح لوگوں کے اور مذہب کے نام پر عورتوں کے سیاسی اورجمہوری حقوق چھینے جارہے ہیں، اس کے خلاف انھیں آواز اٹھانی چاہیے۔ 12فروری 1983ء کا دن تھا۔ جب لگ بھگ چالیس پچاس عورتیں اور لڑکیاں اپنا حق مانگتی ہوئی مال روڈ پر نکلیں، ان میں عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، خاور ممتاز، لالہ رخ، فریدہ شہید، بشریٰ اعتزاز احسن، طاہرہ مظہر علی خان اور نگہت سعیدخان کے علاوہ بھی دوسری بہت سی Activist خواتین تھیں۔
لاہور کی مال روڈ پر وہ مشکل سے پچاس ساٹھ گز آگے گئی ہوں گی کہ پولیس کا ایک جتھا ان پر ٹوٹ پڑا، سروں پر لاٹھیاں پڑیں اور خون کی دھاریں پھوٹ بہیں۔ وہ جب زمین پر گر گئیں تو انھیں بے دردی سے مارا گیا۔ یہ خبر لاہور ہائی کورٹ میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے مشہور باغی اور انقلابی شاعر حبیب جالب اور وکیلوں تک پہنچی تو وہ ان عورتوں کا ساتھ دینے کے لیے دوڑ پڑے۔ جالب صاحب نے اپنی درد بھری آواز میں اپنے شعر پڑھنے شروع کردئیے... ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا کہنا...ان اشعار کو سن کر عورتیں جوش سے بھر گئیں اور انھوں نے پٹتے ہوئے بھی نعرے لگانے شروع کردیے۔
پولیس والوں کو غصہ آگیا کہ یہ کون شخص ہے جو ان عورتوں کی ہمت بڑھا رہا ہے۔ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ایک لاٹھی گھما کر جالب صاحب کے سرپر جمادی، ان کا سر کھل گیا اور چہرہ خون سے بھرگیا۔ وہ جن عورتوں کو بچانے گئے تھے، اب وہی ان کو پولیس کی لاٹھیوں سے بچانے لگیں۔ عورتیں حوالات گئیں، جالب صاحب اسپتال گئے۔ دوسرے دن چند انگریزی اخباروں میں لہولہان عورتوں اور شاعر انقلاب جالب کی تصویریں چھپیں۔ کہنے کو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا لیکن یہ واقعہ ایک بڑی جہدوجہد کا آغاز بن گیا۔ یہ عورتوں کی وہ تحریک تھی جس نے WAF (خواتین محاذ عمل) اور ASR جیسی کئی تنظیموں کو جنم دیا اور اب ہرسال 12 فروری ، پاکستانی خواتین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
کوئی واقعہ جب رونما ہوتا ہے تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آگے چل کر اس کے کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ لاہور کے وہ پولیس والے جنھوں نے 12 فروری 1983ء کو مارشل لا کے خلاف اور جمہوری حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی مٹھی بھر عورتوں کے جلوس کا راستہ روکا تھا۔ ان پر لاٹھیاں برسائی تھیں، تشدد کیا تھا۔اسے ایک عام سا واقعہ سمجھا گیا۔ اتنا معمولی کہ یہ واقعہ بیشتر اردو اخباروں میں ''خبر'' کے طور پر بھی شایع نہیں ہوا۔ انگریزی اخباروں کو دعا دیجیے جنھوں نے اس بارے میں لکھا تو سہی۔ لیکن جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا سب ہی سہمے ہوئے تھے۔ جنرل موصوف اپنے خیال میں پاکستانی سماج کی گندگیاں صاف کرنے کے لیے خدا کی طرف سے مامور کیے گئے تھے۔ چنانچہ ہر ظلم روا تھا اور ان کا دیا ہوا ہر حکم اس لیے تھا کہ اس پر من و عن عمل کیا جائے۔
وہ اور ان کا ساتھ دینے والوں کے تصور میں نہیں تھا کہ وہ دین کی من پسند تشریح و تعبیر سے ایک وسیع المشرب سماج کو کیسا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ افغانستان میں 'جہاد' کے نام پر امریکی مفادات کو کس طرح فروغ دے رہے ہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں وہ بارود بچھ رہی ہے جو ہمارے سماج کو پارہ پارہ کردے گی۔ اس واقعے کو 30 برس گزر چکے ہیں لیکن روزانہ ہمارے شہروں اور قریوں میں بے گناہ بچے، عورتیں اور نوجوان لقمۂ اجل ہورہے ہیں۔ اپنے پیروں سے چل کر کسی نئی امید کی تلاش میں نکلنے والے لوتھڑوں کی گٹھریاں بن جاتے ہیں۔ ایسی گٹھریاں جن میں سے ان کی مائیں بھی انھیں ڈھونڈ نہیں پاتیں اور عمر اس موہوم امید میں گزار دیتی ہیں کہ شاید ان کے بیٹے دھماکے سے دور کسی جگہ ہوں، شاید ان کی یادداشت چلی گئی ہو اور کسی دن وہ لوٹ کر گھر آجائیں۔ لیکن باردو کے پروں پر سفر کرنے والے بھلا کب واپس آتے ہیں۔
یہ سطریں میں لاہور سے لکھ رہی ہوں۔ جہاں اس جدوجہد کا جشن منایا جارہا ہے جو کہنے کو عورتوں کی تھی لیکن سیاسی، جمہوری اور سماج کے مرکزی دھارے سے جڑی ہوئی تحریک تھی۔ اس نے خاموش بیٹھی اور سہمی ہوئی سیاسی جماعتوں کو بھی جھنجھوڑا۔ کراچی، لاہور اور سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں عورتوں کی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے بہت سی سرگرمیاں ہوئیں۔ یہ وہی دن تھے جب ایم آر ڈی کی تحریک نے زور پکڑا اور بہ طور خاص سندھ نے اس جمہوری جدوجہد کا حصہ بننے کی بھاری قیمت ادا کی۔ASR اردو میںجس کا مطلب 'اثر' اور 'ٹکراؤ' ہے، اسے دلی میں پیدا ہونے اور رام پور کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھنے والی نگہت سعید خان نے بنایا اور پھر اس میں انسٹیٹیوٹ آف ویمن اسٹڈیز لاہور اور انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔
یہ فروری 2013ء ہے ۔ 12 فروری 1983ء سے پاکستانی عورتوں کی جو جمہوری اور سیاسی جدوجہد شروع ہوئی تھی، اس کو 30 برس مکمل ہوگئے ہیں۔ یہ جدوجہد بہت لمبی اور کٹھن رہی ہے۔ ہمارے یہاں جس تیزی سے انتہا پسندی کو فروغ ملا ہے اور افغانستان میں امریکا کی جنگ نے پاکستانی سماج پر جتنے تباہ کن اثرات ڈالے ہیں اس سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ آج کے حالات میں عورتوں کی جدوجہد ضیاء الحق کے دور سے بھی زیادہ مشکل ہوگئی ہے۔
اس سے پہلے بھی 'اثر' کے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شریک ہوچکی ہوں لیکن اس مرتبہ ہونے والے سیمینار میں شرکت کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ ایک جدوجہد جس نے سیاسی طور پر پڑھی لکھی پاکستانی عورت کو سوچنے اور محروم و لاچار طبقے کے حقوق کی خاطرلڑنے کا عزم دیا، ان ہی کوششوں کانتیجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں جمہوری حکومت کو خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد اور کئی دوسرے معاملات کے بارے میں قانون سازی کرنی پڑی۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ جمہوری حکومتوں سے بھی مزدوروں، کسانوں، عورتوں اور دوسرے محروم طبقات کو اپنے حقوق آسانی سے نہیں مل جاتے۔ بہت سے پریشر گروپ اور تنظیمیں ہوتی ہیں جو عام لوگوں کے مسائل کی طرف حکومتوں کو توجہ دلاتی ہیں اور ان پر دباؤ بناتی ہیں۔ تب ہی قانون سازی کے مراحل مکمل ہوتے ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیمینار کے آغاز میں روبینہ سہگل، گلناز، انیس ہارون، امرسندھو، عرفانہ ملاح کے علاوہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی شہناز وزیر علی نے یہ کہا کہ عورتوں کی جدوجہد کو سیاسی جماعتوں سے جوڑنا چاہیے تب ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
تین روز کے اس سیمینار میں اس بات کا احاطہ کیا گیا کہ شاعری، افسانے، ناول، تراجم اور صحافت کے میدان میں خواتین نے کیا کچھ کیا۔ ان معاملات پر کشور ناہید، نیلم حسین، فاطمہ حسن، شین فرخ اور مجھ سمیت کئی خواتین نے اظہار خیال کیا۔ اسی طرح ایک سیشن میں دہشت گردی پر بہت تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ یہی دہشت گردی ہے جس نے ہمارے سماج کی بنت ادھیڑ دی ہے اور جس کی سب سے زیادہ مار پاکستانی عورت نے کھائی ہے۔اس موضوع پر ناہید عزیز، شیما کرمانی، مدیحہ گوہر اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی امر سندھو نے تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ امر کا کہنا تھا کہ سندھ کے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی عورتوں میں ایک ایسی بے داری ہے جو بہت جلد سماج پر اپنے اثرات مرتب کرے گی۔ عطیہ داؤد، شبنم قادر، گل بدن اور دوسری بہت سی خواتین اپنے خیالات کے اظہار میں پُرجوش اور بے دھڑک تھیں۔ شعری نشست جس کی صدارت کشور ناہید کررہی تھیں اس میں اردو، سندھی اور پنجابی کی متعدد شاعرات نے حصہ لیا۔ یاسمین حمید، فاطمہ حسن، امر سندھو، عطیہ داؤد، نسرین انجم بھٹی، ڈاکٹر صغریٰ صدف، عذرا عباس، رخشندہ نوید اور کئی دوسری شاعرات نے تازہ بہ تازہ ،نو بہ نو مضامین کے انبار لگائے۔
سب سے حوصلہ افزا بات اس سیمینار میںان خواتین کی شمولیت تھی جو وزیرستان، سوات اور دوسرے شورش زدہ علاقوں سے آئی تھیں اور جنھوں نے اپنی برادری اور اپنے آپ پر ہونے والے ستم کی داستان سنائی۔30 برس پہلے لاہور کی جس مال روڈ پر عورتوں کا خون گرا تھا، اسی سڑک پر 12 فروری 2013ء کو100 کے لگ بھگ عورتیں ڈھول کی تھاپ پر ناچتی گاتی چل رہی تھیں۔ یہ ایک منظر ایسا تھا جس کا حصہ بنتے ہوئے ہماری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ ہمارے ساتھ پروفیسر اوما چکرورتی اور امرتسر سے آئی ہوئی بعض دوسری عورتیں بھی تھیں۔ زرد اوڑھنیاں جن پر 'خواتین محاذ عمل' کا میثاق چھپا ہوا تھا، اسے اوڑھے ہوئے یہ عورتیں جدوجہد کی بسنت منا رہی تھیں۔ پاکستانی عورت یہ بسنت ہرسال منائے گی۔