حلقہ این اے120 کا معرکہ
نواز شریف اس وقت جن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اس میں این اے 120 کی جیت ان مشکلات میں کوئی کمی نہیں کر سکتی
مسلم لیگ (ن) کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کا انتخاب ہار جانا ان کے لیے زہر قاتل ہو گا۔ لیکن اس میں جیت ان کے لیے کوئی بڑی سیاسی کامیابی نہیں ہو گی۔ مطلب ہارنا موت لیکن جیتنے سے زندگی نہیں ملے گی۔ نواز شریف اس وقت جن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اس میں این اے 120 کی جیت ان مشکلات میں کوئی کمی نہیں کر سکتی لیکن ہار مشکلات میں اضافے کا باعث ضرور بن سکتی ہے۔ جیت ملکی سطح پر ووٹ بینک میں اضافے کا باعث نہیں ہو گی لیکن ہار ملکی سطح پر ووٹ بینک گرا ضرور دے گی۔ جیت ن لیگ کی موجودہ حکومتوں کے لیے کوئی خاص مدد گار نہیں ہو گی لیکن ہار قبل از وقت انتخابات کا سوال ضرور پیدا کر دے گی۔
مریم نواز نے اس انتخابی معرکہ کی کمان سنبھال کر کے خود کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ پتہ نہیں وہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور ووٹر کا اعتماد جیت سکیں یا نہ۔لیکن یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ آہستہ آہستہ ان کے اور مسلم لیگ ن میں موجود انکلز کے درمیان فاصلے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے بعض لوگ پانامہ کیس میں ہار کی ذمے داری ان پر بھی عائد کرتے ہیں۔یہ حضرات آج بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری بات مان لی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اگر ہماری تجویز پر نواز شریف کسی بھی مرحلہ پر استعفیٰ دینے کا آپشن استعمال کر لیتے تو نااہلی سے بچ جاتے اور آج جن آفتوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے، ان سے بھی بچ جاتے۔
آج بھی تو شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا ہے اگر نا اہلی کے بجائے ا ستعفیٰ کے نتیجے میں بنا دیا جاتا تو بہت سے مسائل سے بھی بچ جاتے ا ور واپسی کا راستہ بھی کھلا رہتا۔لیکن کہا جاتا ہے کہ مریم نواز بھی استعفیٰ کے آپشن کے سخت خلاف تھیں۔ آج استعفیٰ نہ دینے کے جو بھی مضمرات سامنے آرہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی سیاسی ذمے داری ان کواٹھانی چاہیے جواستعفے کے آپشن کے حق میں نہیں تھے۔
مریم نواز کی جانب سے یہ گلہ بھی سامنے آیا ہے کہ ابو نے جس سے بھی محبت کی اس نے دھوکا دیا ہے۔ یہ فقرہ پوری کہانی بیان کر رہا ہے۔ ان کا یہ فقرہ ان کی سیاسی سمت کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ ایسے اظہار خیال سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ حالات پہلے ہی بہت کشیدہ ہیں۔ 120 کی جیت ن لیگ کو کوئی بڑا سیاسی بریک تھرو نہیں دے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے تو اپنی محبت سے ہی پورے ملک میں ایک بڑی ٹیم بنائی ہے۔ اس ٹیم نے بہت سے میچ جیتے ہیں۔ اس ٹیم میں کئی اہم کھلاڑی بھی ہیں اور کئی غیر اہم بھی۔ میاں صاحب کی سیاست یہ سبق دیتی ہے کہ کس طرح ایک ٹیم کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ اور اس ٹیم سے میچ جیتا جاتا ہے۔ سیاسی فیصلوں میں شخصی محبت کی کیا اہمیت ہے اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کیا اہمیت ہے۔ یہ درست ہے کہ شاید 120 کے انتخابی معرکہ میں ناراض حضرات کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو۔ حمزہ شہباز کے لندن جانے کو بھی برادشت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آج بنائے جانے والے فاصلے کل ختم کرنے مشکل ہوں گے۔
نواز شریف کے وکلا کنونشن نے بے شک انھیں سیاسی برتری دی ہے۔ وہ بار بار ثابت کر رہے ہیں کہ وہ مرد میدان کی طرح کھڑے ہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کس قیمت پر۔ سیاست میں ہر چال کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ہر چال کو فائدہ اور نقصان کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ اس دلیل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر جے آئی ٹی کے بننے کے بعد استعفیٰ دیکر جے آئی ٹی سے نبٹا جاتا تو نا اہلی سے بچا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اگر میاں نواز شریف اس وقت ایک محفوظ راستہ کی آپشن استعمال نہیں کرتے تو اس کو بھی فائدہ اور نقصان کے ترازو میں تولنے کی ضرورت ہے۔ اگر فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے تو پھر کیوں۔ اور اگر فائدہ زیادہ ہے تو پھر کیوں نہیں۔
سیاست میں وقت بدلتا رہتا ہے۔ آج وہ وقت بھی آگیا ہے جب آصف زرداری نیب کے ریفرنسز سے بری ہو رہے ہیں۔ ان کے خلاف ناجائز اثاثوں کا کیس احتساب عدالت نے خارج کر دیا ہے۔ وہ باعزت بری ہو گئے ہیں۔ اور قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ دوسری طرف نواز شریف اب ان ریفرنسز میں پھنستے جا رہے ہیں۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ زرداری نے احتساب کا جو چکر کاٹا ہے وہ اب نواز شریف کے کاٹنے کی باری ہے۔
لیکن ایسی صورتحال میں مریم نواز کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ سیاست میں غلط سمت میں زور نہ لگایا جائے یعنی محنت بھی خوب لگ جائے اور نتائج بھی سامنے نہ آئیں۔ پانامہ کی لڑائی لڑنے کے لیے جو میڈیا سیل بنایا گیا تھا اس کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ اس میڈیا سیل نے گو کہ مخالفین کی راتوں کی نیند خراب کر دی۔ مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا۔
اس کی کارکردگی کے اس کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ لیکن پھر بھی اتنے کام کے بعد بھی وہ متنازعہ ہو گیا۔ شاہد خاقان اس کو آگے چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ن لیگ کے انکلز اس کے سب سے بڑے تنقید نگار ہیں۔ اس سیل نے اپنی لڑائی لڑنے کے لیے جس ٹیم کو آگے کیا وہ بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر کوئی خاص پذیرائی نہیں حاصل کر سکی ہے۔ دشمن کی مخالفت تو سمجھ آتی ہے لیکن اپنوں کی مخالفت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مریم نواز کے سامنے ایک لمبی سیاسی اننگ ہے۔ وہ بینظیر کی طرح انکلز کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلز پارٹی کے ڈی این اے میں بہت فرق ہے۔ وہاں کارکن طاقت تھا۔ یہاں انکلز اور انتخابی میدان کے جیتنے والے گھوڑے طاقت ہیں۔ وہ مزاحمتی پارٹی ہے یہ مفاہمتی پارٹی ہے۔
آصف زرداری سے پیپلزپارٹی کے ووٹر کی ناراضگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا ووٹر کسی بھی قسم کی مفاہمت کے حق میں نہیں تھا۔ جب کہ ن لیگ کا ووٹر لڑائی کے خلاف ہے۔ مریم نواز کو اپنے ووٹر کا مزاج سامنے رکھتے ہوئے اپنی سیاسی سمت متعین کرنی چاہیے۔ اگلے انتخابات میں مریم نواز کو جیتنے کے لیے انکلز کی بھی ضرورت ہے اور ان کارکنوں کی بھی۔ یہی سیاست ہے۔
مریم نواز نے اس انتخابی معرکہ کی کمان سنبھال کر کے خود کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ پتہ نہیں وہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور ووٹر کا اعتماد جیت سکیں یا نہ۔لیکن یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ آہستہ آہستہ ان کے اور مسلم لیگ ن میں موجود انکلز کے درمیان فاصلے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے بعض لوگ پانامہ کیس میں ہار کی ذمے داری ان پر بھی عائد کرتے ہیں۔یہ حضرات آج بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری بات مان لی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اگر ہماری تجویز پر نواز شریف کسی بھی مرحلہ پر استعفیٰ دینے کا آپشن استعمال کر لیتے تو نااہلی سے بچ جاتے اور آج جن آفتوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے، ان سے بھی بچ جاتے۔
آج بھی تو شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا ہے اگر نا اہلی کے بجائے ا ستعفیٰ کے نتیجے میں بنا دیا جاتا تو بہت سے مسائل سے بھی بچ جاتے ا ور واپسی کا راستہ بھی کھلا رہتا۔لیکن کہا جاتا ہے کہ مریم نواز بھی استعفیٰ کے آپشن کے سخت خلاف تھیں۔ آج استعفیٰ نہ دینے کے جو بھی مضمرات سامنے آرہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی سیاسی ذمے داری ان کواٹھانی چاہیے جواستعفے کے آپشن کے حق میں نہیں تھے۔
مریم نواز کی جانب سے یہ گلہ بھی سامنے آیا ہے کہ ابو نے جس سے بھی محبت کی اس نے دھوکا دیا ہے۔ یہ فقرہ پوری کہانی بیان کر رہا ہے۔ ان کا یہ فقرہ ان کی سیاسی سمت کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ ایسے اظہار خیال سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ حالات پہلے ہی بہت کشیدہ ہیں۔ 120 کی جیت ن لیگ کو کوئی بڑا سیاسی بریک تھرو نہیں دے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے تو اپنی محبت سے ہی پورے ملک میں ایک بڑی ٹیم بنائی ہے۔ اس ٹیم نے بہت سے میچ جیتے ہیں۔ اس ٹیم میں کئی اہم کھلاڑی بھی ہیں اور کئی غیر اہم بھی۔ میاں صاحب کی سیاست یہ سبق دیتی ہے کہ کس طرح ایک ٹیم کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ اور اس ٹیم سے میچ جیتا جاتا ہے۔ سیاسی فیصلوں میں شخصی محبت کی کیا اہمیت ہے اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کیا اہمیت ہے۔ یہ درست ہے کہ شاید 120 کے انتخابی معرکہ میں ناراض حضرات کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو۔ حمزہ شہباز کے لندن جانے کو بھی برادشت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آج بنائے جانے والے فاصلے کل ختم کرنے مشکل ہوں گے۔
نواز شریف کے وکلا کنونشن نے بے شک انھیں سیاسی برتری دی ہے۔ وہ بار بار ثابت کر رہے ہیں کہ وہ مرد میدان کی طرح کھڑے ہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کس قیمت پر۔ سیاست میں ہر چال کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ہر چال کو فائدہ اور نقصان کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ اس دلیل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر جے آئی ٹی کے بننے کے بعد استعفیٰ دیکر جے آئی ٹی سے نبٹا جاتا تو نا اہلی سے بچا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اگر میاں نواز شریف اس وقت ایک محفوظ راستہ کی آپشن استعمال نہیں کرتے تو اس کو بھی فائدہ اور نقصان کے ترازو میں تولنے کی ضرورت ہے۔ اگر فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے تو پھر کیوں۔ اور اگر فائدہ زیادہ ہے تو پھر کیوں نہیں۔
سیاست میں وقت بدلتا رہتا ہے۔ آج وہ وقت بھی آگیا ہے جب آصف زرداری نیب کے ریفرنسز سے بری ہو رہے ہیں۔ ان کے خلاف ناجائز اثاثوں کا کیس احتساب عدالت نے خارج کر دیا ہے۔ وہ باعزت بری ہو گئے ہیں۔ اور قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ دوسری طرف نواز شریف اب ان ریفرنسز میں پھنستے جا رہے ہیں۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ زرداری نے احتساب کا جو چکر کاٹا ہے وہ اب نواز شریف کے کاٹنے کی باری ہے۔
لیکن ایسی صورتحال میں مریم نواز کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ سیاست میں غلط سمت میں زور نہ لگایا جائے یعنی محنت بھی خوب لگ جائے اور نتائج بھی سامنے نہ آئیں۔ پانامہ کی لڑائی لڑنے کے لیے جو میڈیا سیل بنایا گیا تھا اس کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ اس میڈیا سیل نے گو کہ مخالفین کی راتوں کی نیند خراب کر دی۔ مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا۔
اس کی کارکردگی کے اس کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ لیکن پھر بھی اتنے کام کے بعد بھی وہ متنازعہ ہو گیا۔ شاہد خاقان اس کو آگے چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ن لیگ کے انکلز اس کے سب سے بڑے تنقید نگار ہیں۔ اس سیل نے اپنی لڑائی لڑنے کے لیے جس ٹیم کو آگے کیا وہ بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر کوئی خاص پذیرائی نہیں حاصل کر سکی ہے۔ دشمن کی مخالفت تو سمجھ آتی ہے لیکن اپنوں کی مخالفت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مریم نواز کے سامنے ایک لمبی سیاسی اننگ ہے۔ وہ بینظیر کی طرح انکلز کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلز پارٹی کے ڈی این اے میں بہت فرق ہے۔ وہاں کارکن طاقت تھا۔ یہاں انکلز اور انتخابی میدان کے جیتنے والے گھوڑے طاقت ہیں۔ وہ مزاحمتی پارٹی ہے یہ مفاہمتی پارٹی ہے۔
آصف زرداری سے پیپلزپارٹی کے ووٹر کی ناراضگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا ووٹر کسی بھی قسم کی مفاہمت کے حق میں نہیں تھا۔ جب کہ ن لیگ کا ووٹر لڑائی کے خلاف ہے۔ مریم نواز کو اپنے ووٹر کا مزاج سامنے رکھتے ہوئے اپنی سیاسی سمت متعین کرنی چاہیے۔ اگلے انتخابات میں مریم نواز کو جیتنے کے لیے انکلز کی بھی ضرورت ہے اور ان کارکنوں کی بھی۔ یہی سیاست ہے۔