امریکا کی نئی افغان پالیسی
ہماری حکمران اشرافیہ کی توقعات ہر بار مجروح ضرور ہوئی ہیں۔
مجھے آج کل منیرؔ نیازی کا یہ شعر شدت کے ساتھ یاد آرہا ہے:
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں، میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ نئی افغان پالیسی پر جس انداز میں لے دے جاری ہے، وہ اس شعر کی عملی تفسیر ہے۔ امریکا کا طرز عمل نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی اس میں اچنبھے کی کوئی بات ہے۔ البتہ ہماری حکمران اشرافیہ کی توقعات ہر بار مجروح ضرور ہوئی ہیں۔ اس دوران بعض ذمے دار شخصیات کی جانب سے پاکستان کو ویتنام اور کمبوڈیا سے بھی مماثلت دی گئی ہے۔ لیکن شاید نہ تو ہم 67 برسوں پر محیط پاک امریکا تعلقات میں آنے والے مدوجذر کو سمجھتے ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ اسی لیے ایک طرف نوحہ خوانی ہے، تو دوسری طرف اسے سبق سکھانے کے دعوے ہیں۔
مگر ہم یہ سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ جس طرح کسی امیر کبیر شخص کی غریب شہری سے دوستی نہیں ہوتی، اسی طرح ایک سپر پاور اور ترقی پذیر ملک کے درمیان برابری کی بنیاد پر دوستی کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی عالمی سطح پر سفارتی تعلقات اخلاص کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دو طرفہ مفادات پر ہوتے ہیں۔ اس موقف کا اظہار مختلف مواقع پر امریکی عہدیدار اور سفارتکار کئی بار کرچکے ہیں۔ ہنری کسنجر نے ویسے تو اپنی کئی کتابوں میں پاک امریکا تعلقات پر رائے زنی کی ہے، لیکن White House Years میں اس موضوع پر خاصی تفصیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا ہے۔ کاش اسے پڑھ لیا جاتا۔
اسی طرح پاکستان میں سابق امریکی سفرا، جن میں بالخصوص جیمز لینگ لے (James Langley)، رابرٹ اوکلے (Robert Oakley)، نیکولس پلیٹ (Nacholas Platt)، نینسی جو پاول (Nancy Jo Powell) اور کیمرون منٹر (Cameron Munter) کئی مواقع پر حکومت پاکستان کو امریکی نکتہ نظر سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
رابرٹ اوکلے نے آج سے پانچ برس قبل واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ممالک کے درمیان تعلقات جذباتی لگاؤ پر نہیں مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ہم نے مقاصد کے لیے پاکستان کو استعمال کیا، اس کی پوری ادائیگی کی۔ لیکن پاکستان نے ہم سے کیے گئے وعدے مکمل طور پر پورے نہیں کیے''۔ اس بیان کو پانچ برس بیت گئے۔ اس وقت کے اخبارات اور رسائل میں یہ پوری تقریر موجود ہے۔ لیکن اس کا جواب دینے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری حکومت نے اس تقریر کے مندرجات کو تسلیم کرلیا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 11 مارچ 1957ء کو کراچی میں ہونے والی ایک تقریب میں اس وقت کے امریکی سفیر Horace A. Hildreth نے میاں افتخار الدین مرحوم کا نام لے کر ان پر تنقید کی۔ یہ سفارتی آداب کے خلاف تقریر تھی۔ لیکن نہ تو اس وقت کی حکومت نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور نہ ہی اخبارات نے اس رویے کے خلاف اداریے اور اظہاریے شایع کرنے کی جسارت کی۔ حالانکہ میاں صاحب مرحوم SEATO اور CENTO کے بارے میں ان تحفظات کا اظہار کررہے تھے، جو بعد میں حقیقت ثابت ہوئے۔
دراصل ہماری حکمران اشرافیہ کا یہ وتیرہ چلا آرہا ہے کہ وہ ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہے۔ اپنے فیصلوں اور اقدامات پر کی جانے والی ہر تنقید، تحفظات اور اختلاف رائے، کو ملک دشمنی قرار دینا عام سی بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر بار فیصلہ سازی میں غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور پھر ان کے بھونڈے جواز دیے جاتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مئی 1950ء میں شروع ہونے والا تعلقات کا سلسلہ اب تک کئی بار گرمجوشی اور سردمہری کے ادوار سے گزرا ہے۔ جس میں ہماری اپنی کوتاہیاں زیادہ شامل حال رہی ہیں۔ ہم نے اس دوران اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنی راہیں خود متعین کرنے کے بجائے کبھی ایک طاقتور کبھی دوسرے طاقتور حلیف کا سہارا تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ گویا بیساکھیاں چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔ آج کل وہی غلطی چین کے ساتھ دوستی کے حوالے سے سرزد ہورہی ہے۔ مگر جو لوگ ان تعلقات کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں، ان کے تحفظات کو سمجھنے اور ان کا مناسب جواب دینے کے بجائے ماضی کی طرح ان پر بھی ملک دشمنی کا الزام عائد کرکے ان کی آواز بند کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
عرض ہے کہ حقیقتیں بہت تلخ ہوا کرتی ہیں۔ انھیں حلق سے اتارنا مشکل ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم اپنا ریاستی بیانیہ وقت وحالات کے مطابق متعین کرنے میں ناکام ہیں۔ بلکہ ستر برس سے مسلسل تہذیبی نرگسیت میں مبتلا چلے آرہے ہیں۔ جب کہ عالمی سطح پر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ سرد جنگ ختم ہوگئی۔ دنیا کے رجحانات تبدیل ہوگئے، مگر ہم ''زمیں جنبد، نہ جنبد گُل محمد'' کے مصداق آج بھی اپنی سابقہ روش پر اڑے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ ریاستی منتظمہ اور مختلف اداروں کے درمیان ابتدا ہی سے ورکنگ ریلیشن شپ کا فقدان اور عدم اعتماد چلا آرہا ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی پالیسی ٹھوس بنیادوں پر تشکیل نہیں پاسکی اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔
1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں امریکا نے جو رویہ اختیار کیا اگر اسے مدنظر رکھا جاتا، تو 1980ء میں افغان جنگ میں خود کو جھونکنے سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر یہ ہر آمر کی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ ایسے فیصلے اور اقدامات کرے، جو اس کے اقتدار کو طول دینے کا باعث بن سکیں۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے غیر مقبول آمر ضیاالحق جو 90 روز میں نئے انتخابات کے وعدے پر اقتدار میں آیا تھا، اس نے پہلے ایک جھوٹے مقدمے میں ملک کے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار تک پہنچایا، پھر اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر مذہب کو اپنا آلہ کار بنایا، جس کے لیے افغان جنگ میں حصہ لینا ضروری ہوگیا تھا۔
وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ''نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم''، یعنی ایک ایسے جہنم میں پھنس گئے جس سے نکلنا مشکل ہوچکا ہے۔ مشکل اس لیے کہ آج بھی سرد جنگ میں ترتیب دیے گئے اپنے ریاستی بیانیے سے ہٹنے یا اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس وقت ولی خان مرحوم، غوث بخش بزنجو مرحوم، اجمل خٹک مرحوم سمیت ترقی دوست سیاستدان اور دانشور سمجھاتے رہے کہ جو آگ پڑوس میں لگائی جارہی ہے، اس کی لپٹیں اپنے گھر کو جلادیں گی۔ مگر انھیں ملک دشمن کہا گیا اور وہی کیا جس کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔ پھر ایک دوسرے آمر نے بغیر سوچے سمجھے U-turn لے کر جہنم کی اس آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ یہاں یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ''تیری ماں نے خصم کیا برا کیا، کرکے چھوڑا اور برا کیا''۔
دراصل ہماری حکمران اشرافیہ دنیا کے بدلتے رجحانات کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ کچھ متوشش شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ سابقہ بیانیے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تمامتر عالمی اور اندرون ملک دباؤ کے باوجود ہمارے حکمران ایسے Blunt فیصلے کرنے سے گریزاں ہیں جو ملک کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکال سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ افغان جنگ میں ملوث ہوکر ہم نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ مگر اس میں بھی ہماری منصوبہ سازی کی غلطیوں کا نمایاں کردار ہے۔
یہاں چند سوالات ایسے ہیں جن پر غور کیے بغیر ہم درست سمت کا تعین نہیں کرسکتے۔ اول، کیا ہم نے اپنے طور پر ان غلطیوں کا ادراک کرنے اور ان کی درستی کے لیے کوئی اقدامات کیے، جو ہمارے مسائل اور مشکلات میں اضافے کا باعث بنی ہوئی ہیں؟ دوئم، کیا ہم نے ان عناصر کو کھلی چھٹی نہیں دے رکھی جن کے بارے میں غلط فہمی پر مبنی ہی سہی عالمی رائے عامہ منفی خیالات رکھتی ہے؟ سوئم، کیا ہمارے بعض وزرا نے دہشتگرد رہنماؤں کی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں پر نوحہ خوانی نہیں کی؟ کیا ہماری حکومتیں مذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت پر مجرمانہ خاموشی اختیار نہیں کیے ہوئے ہیں؟ امریکا یا کسی دوسرے ملک کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے ہمیں ان سوالات کے ٹھوس جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں، میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اس کی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ نئی افغان پالیسی پر جس انداز میں لے دے جاری ہے، وہ اس شعر کی عملی تفسیر ہے۔ امریکا کا طرز عمل نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی اس میں اچنبھے کی کوئی بات ہے۔ البتہ ہماری حکمران اشرافیہ کی توقعات ہر بار مجروح ضرور ہوئی ہیں۔ اس دوران بعض ذمے دار شخصیات کی جانب سے پاکستان کو ویتنام اور کمبوڈیا سے بھی مماثلت دی گئی ہے۔ لیکن شاید نہ تو ہم 67 برسوں پر محیط پاک امریکا تعلقات میں آنے والے مدوجذر کو سمجھتے ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ اسی لیے ایک طرف نوحہ خوانی ہے، تو دوسری طرف اسے سبق سکھانے کے دعوے ہیں۔
مگر ہم یہ سمجھنے پر آمادہ نہیں کہ جس طرح کسی امیر کبیر شخص کی غریب شہری سے دوستی نہیں ہوتی، اسی طرح ایک سپر پاور اور ترقی پذیر ملک کے درمیان برابری کی بنیاد پر دوستی کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی عالمی سطح پر سفارتی تعلقات اخلاص کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دو طرفہ مفادات پر ہوتے ہیں۔ اس موقف کا اظہار مختلف مواقع پر امریکی عہدیدار اور سفارتکار کئی بار کرچکے ہیں۔ ہنری کسنجر نے ویسے تو اپنی کئی کتابوں میں پاک امریکا تعلقات پر رائے زنی کی ہے، لیکن White House Years میں اس موضوع پر خاصی تفصیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا ہے۔ کاش اسے پڑھ لیا جاتا۔
اسی طرح پاکستان میں سابق امریکی سفرا، جن میں بالخصوص جیمز لینگ لے (James Langley)، رابرٹ اوکلے (Robert Oakley)، نیکولس پلیٹ (Nacholas Platt)، نینسی جو پاول (Nancy Jo Powell) اور کیمرون منٹر (Cameron Munter) کئی مواقع پر حکومت پاکستان کو امریکی نکتہ نظر سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
رابرٹ اوکلے نے آج سے پانچ برس قبل واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ممالک کے درمیان تعلقات جذباتی لگاؤ پر نہیں مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ ہم نے مقاصد کے لیے پاکستان کو استعمال کیا، اس کی پوری ادائیگی کی۔ لیکن پاکستان نے ہم سے کیے گئے وعدے مکمل طور پر پورے نہیں کیے''۔ اس بیان کو پانچ برس بیت گئے۔ اس وقت کے اخبارات اور رسائل میں یہ پوری تقریر موجود ہے۔ لیکن اس کا جواب دینے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری حکومت نے اس تقریر کے مندرجات کو تسلیم کرلیا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 11 مارچ 1957ء کو کراچی میں ہونے والی ایک تقریب میں اس وقت کے امریکی سفیر Horace A. Hildreth نے میاں افتخار الدین مرحوم کا نام لے کر ان پر تنقید کی۔ یہ سفارتی آداب کے خلاف تقریر تھی۔ لیکن نہ تو اس وقت کی حکومت نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور نہ ہی اخبارات نے اس رویے کے خلاف اداریے اور اظہاریے شایع کرنے کی جسارت کی۔ حالانکہ میاں صاحب مرحوم SEATO اور CENTO کے بارے میں ان تحفظات کا اظہار کررہے تھے، جو بعد میں حقیقت ثابت ہوئے۔
دراصل ہماری حکمران اشرافیہ کا یہ وتیرہ چلا آرہا ہے کہ وہ ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہے۔ اپنے فیصلوں اور اقدامات پر کی جانے والی ہر تنقید، تحفظات اور اختلاف رائے، کو ملک دشمنی قرار دینا عام سی بات ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر بار فیصلہ سازی میں غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور پھر ان کے بھونڈے جواز دیے جاتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مئی 1950ء میں شروع ہونے والا تعلقات کا سلسلہ اب تک کئی بار گرمجوشی اور سردمہری کے ادوار سے گزرا ہے۔ جس میں ہماری اپنی کوتاہیاں زیادہ شامل حال رہی ہیں۔ ہم نے اس دوران اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور اپنی راہیں خود متعین کرنے کے بجائے کبھی ایک طاقتور کبھی دوسرے طاقتور حلیف کا سہارا تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ گویا بیساکھیاں چھوڑنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔ آج کل وہی غلطی چین کے ساتھ دوستی کے حوالے سے سرزد ہورہی ہے۔ مگر جو لوگ ان تعلقات کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں، ان کے تحفظات کو سمجھنے اور ان کا مناسب جواب دینے کے بجائے ماضی کی طرح ان پر بھی ملک دشمنی کا الزام عائد کرکے ان کی آواز بند کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
عرض ہے کہ حقیقتیں بہت تلخ ہوا کرتی ہیں۔ انھیں حلق سے اتارنا مشکل ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم اپنا ریاستی بیانیہ وقت وحالات کے مطابق متعین کرنے میں ناکام ہیں۔ بلکہ ستر برس سے مسلسل تہذیبی نرگسیت میں مبتلا چلے آرہے ہیں۔ جب کہ عالمی سطح پر پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ سرد جنگ ختم ہوگئی۔ دنیا کے رجحانات تبدیل ہوگئے، مگر ہم ''زمیں جنبد، نہ جنبد گُل محمد'' کے مصداق آج بھی اپنی سابقہ روش پر اڑے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ ریاستی منتظمہ اور مختلف اداروں کے درمیان ابتدا ہی سے ورکنگ ریلیشن شپ کا فقدان اور عدم اعتماد چلا آرہا ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی پالیسی ٹھوس بنیادوں پر تشکیل نہیں پاسکی اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔
1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں امریکا نے جو رویہ اختیار کیا اگر اسے مدنظر رکھا جاتا، تو 1980ء میں افغان جنگ میں خود کو جھونکنے سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر یہ ہر آمر کی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ ایسے فیصلے اور اقدامات کرے، جو اس کے اقتدار کو طول دینے کا باعث بن سکیں۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے غیر مقبول آمر ضیاالحق جو 90 روز میں نئے انتخابات کے وعدے پر اقتدار میں آیا تھا، اس نے پہلے ایک جھوٹے مقدمے میں ملک کے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار تک پہنچایا، پھر اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر مذہب کو اپنا آلہ کار بنایا، جس کے لیے افغان جنگ میں حصہ لینا ضروری ہوگیا تھا۔
وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ''نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم''، یعنی ایک ایسے جہنم میں پھنس گئے جس سے نکلنا مشکل ہوچکا ہے۔ مشکل اس لیے کہ آج بھی سرد جنگ میں ترتیب دیے گئے اپنے ریاستی بیانیے سے ہٹنے یا اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس وقت ولی خان مرحوم، غوث بخش بزنجو مرحوم، اجمل خٹک مرحوم سمیت ترقی دوست سیاستدان اور دانشور سمجھاتے رہے کہ جو آگ پڑوس میں لگائی جارہی ہے، اس کی لپٹیں اپنے گھر کو جلادیں گی۔ مگر انھیں ملک دشمن کہا گیا اور وہی کیا جس کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔ پھر ایک دوسرے آمر نے بغیر سوچے سمجھے U-turn لے کر جہنم کی اس آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ یہاں یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ''تیری ماں نے خصم کیا برا کیا، کرکے چھوڑا اور برا کیا''۔
دراصل ہماری حکمران اشرافیہ دنیا کے بدلتے رجحانات کو سمجھنے سے قاصر ہے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ کچھ متوشش شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ سابقہ بیانیے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تمامتر عالمی اور اندرون ملک دباؤ کے باوجود ہمارے حکمران ایسے Blunt فیصلے کرنے سے گریزاں ہیں جو ملک کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکال سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ افغان جنگ میں ملوث ہوکر ہم نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ مگر اس میں بھی ہماری منصوبہ سازی کی غلطیوں کا نمایاں کردار ہے۔
یہاں چند سوالات ایسے ہیں جن پر غور کیے بغیر ہم درست سمت کا تعین نہیں کرسکتے۔ اول، کیا ہم نے اپنے طور پر ان غلطیوں کا ادراک کرنے اور ان کی درستی کے لیے کوئی اقدامات کیے، جو ہمارے مسائل اور مشکلات میں اضافے کا باعث بنی ہوئی ہیں؟ دوئم، کیا ہم نے ان عناصر کو کھلی چھٹی نہیں دے رکھی جن کے بارے میں غلط فہمی پر مبنی ہی سہی عالمی رائے عامہ منفی خیالات رکھتی ہے؟ سوئم، کیا ہمارے بعض وزرا نے دہشتگرد رہنماؤں کی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں پر نوحہ خوانی نہیں کی؟ کیا ہماری حکومتیں مذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت پر مجرمانہ خاموشی اختیار نہیں کیے ہوئے ہیں؟ امریکا یا کسی دوسرے ملک کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے ہمیں ان سوالات کے ٹھوس جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔