محکمہ تعلیم کی غفلت
وہ لوگ بھی اپنے بچوں کو قرآن پڑھانا باعث ثواب اور اپنا فرض سمجھتے ہیں جو ’’الف، ب‘‘ نہیں جانتے اور...
آج ہمارے ملک کی جو حالت زار ہے، اس سے پوری دنیا واقف ہے، جہالت کا اندھیرا ہر سو پھیل چکا ہے اور اس اندھیرے نے اچھے برے کی تمیز مٹادی ہے، گمراہی کی وجہ تعلیم کی کمی ہے، تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے شعور و آگہی سے دور دور تک کا واسطہ نہیں رہا ہے، اسکولوں کی حالت بھی قابل افسوس ہے، ایک وقت وہ بھی تھا جب تعلیم بالغاں کے لیے تدریسی ادارے وجود میں آئے تھے اور اساتذہ بڑی محبت اور توجہ سے فرائض منصبی کو انجام دیتے تھے اور ایک وقت یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم سے محروم کردیا گیا ہے۔
تعلیمی زبوں حالی آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے اسی ڈگر پر چل رہی ہے اور نوجوان نسل کو والدین اور اساتذہ نے اپنے غیرذمے دارانہ رویے سے منزل سے دور کردیا ہے اور رہی سہی کسر حکومت نے پوری کردی ہے۔ اندرون سندھ اور پنجاب کے گاؤں، دیہاتوں میں بے شمار اسکول ایسے ہیں جو بند پڑے ہیں یا انھیں اصطبل کا درجہ دے دیا گیا ہے، اساتذہ منتظمین کی ملی بھگت سے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، ایسی ہی صورت حال کا نوٹس چیف جسٹس نے لے لیا ہے، انھوں نے تعلیمی اداروں کی غفلت کے بارے میں کہا کہ ''شرم کی بات ہے، سندھ کے اسکولوں میں جانور باندھ دیے گئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں سرکاری اسکولوں کی حالت زار کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اسکولوں کی حالت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غلط رپورٹ پیش کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم دے دیا ہے اور چیف سیکریٹریز کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالتی حکم پر عمل کریں، ایڈیشنل سیشن جج سروے کرائیں اور رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں کہ کتنے اسکولز کام کر رہے ہیں اور کتنے بھوت اسکول ہیں، اور کتنے فنڈز خرچ کیے جارہے ہیں، اسکولوں کو بیٹھک، گھر یا باڑے کیوں بنایا گیا ہے؟
ایڈیشنل سیکریٹری سندھ عارف علی شاہ کو عدالت نے تعلیمی بحران کے حوالے سے ان کی ذمے داریوں کا احساس دلایا، دیکھتے ہیں کتنا عمل ہوتا ہے؟ کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟ پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچنے کی وجہ ہی تعلیمی بددیانتی، فرائض سے غفلت اور ناجائز دولت کا حصول ہے، حرام اور حلال رزق کی تفریق کو یکسر ختم کردیا گیا ہے، اور شاید یہ لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ حرام لقمہ کھانے والوں میں عادت رزیلا پیدا ہوجاتی ہیں، اخلاقی پستی میں یہ لوگ دھنس جاتے ہیں، بہت کم طلبا اور ہمارے ملک کے نوجوان ایسے ہیں جنھیں اپنے وطن سے محبت ہے۔ وہ اسلامی افکار سے واقف ہیں، ورنہ آج کے نوجوان کے ہاتھ میں اسلحہ ہے اور اسلحے کے زور پر بھرپور طریقے سے جرائم کیے جارہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا، ڈکیتی اور بم بلاسٹ، خودکش حملے کرنے اور اپنی جانوں سے کھیلنے والے پاکستانی بچے ہی ہیں جنھیں غلط راہوں پر دھکیل دیا گیا ہے۔
اگر تعلیم ہوتی، تعلیمی ماحول ہوتا، سرکاری اسکول و کالج باقاعدگی سے کھلتے، ماضی کی طرح اساتذہ تدریسی ذمے داریاں نبھاتے تو آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔ نئی نسل کو تباہ و برباد کرنے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بظاہر نیک و شریف معلوم ہوتے ہیں اور یہ نیک و شریف لوگ وہ ہیں جنھوں نے حصول زر کے لیے گھوسٹ اساتذہ کا رول ادا کیا، سال بھر کی حاضری لگا کر تنخواہیں وصول کیں اور دوسری جگہوں پر ملازمت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو کلرک ہیں، محکمہ تعلیم کے افسران ہیں، ان سب نے مل کر پاکستانی قوم کو اس موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں ان کی شناخت کھوچکی ہے، اب وہ بددیانت، راشی، مفاد پرست اور دولت کے لالچی کہلاتے ہیں، پوری دنیا بذریعہ چینلز ان کے کارناموں سے واقف ہوچکی ہے، اسی وجہ سے کوئی ان کی عزت نہیں کرتا، یہ لوگ مقدس مقامات پر بھی ہیراپھیری سے باز نہیں آتے ہیں، اسی لیے ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، غیر مسلموں کی عزت ان سے زیادہ کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کے مستحق ہیں لیکن ہمارے لوگ اپنی ناپسندیدہ عادات اور حرکات و سکنات سے اپنے مقام سے گرچکے ہیں۔
پھر میں یہی بات دہراؤں گی کہ اس کی خاص الخاص وجہ وہی ناخواندگی و مادہ پرستی ہے، فہم و ادراک سے یہ لوگ بے گانہ ہیں۔ خوف خدا اور سزا و جزا سے ناواقف، جانور سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، ابھی ایک دو روز کی ہی بات ہے کہ ایک 23 سالہ نوجوان نے اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو قتل کردیا وجہ صرف اتنی اور معمولی ترین تھی کہ گھر والے کبوتر پالنے سے منع کرتے تھے، اس لیے اس شخص نے پہلے کھانے میں بے ہوشی کی دوا دی اور پھر قتل کردیا۔ دیکھئے کتنی ننھی منی سی عقل، کوئی دور اندیشی نہیں، اپنے انجام سے ناواقف، اپنی جنت کو اپنے ہاتھوں گنوادیا اور خوشی خوشی دین و دنیا کے جہنم کا سودا کیا۔ ننھے منے معصوم پرندوں کی خاطر، کوئی تھوڑا بھی شعور رکھنے والا اتنے بڑے جرم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس طرح کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں جب گھر کے مرد اپنوں ہی کے خون سے ہاتھ رنگ لیتے ہیں اور یہ سب کچھ جہالت کی وجہ ہی سے ہوتا ہے۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ سندھ میں میٹرک تک ناظرہ قرآن لازمی قرار دیا جائے گا اس کے لیے کام ہو رہا ہے، ماہرین کی کمیٹی بنائی جا رہی ہے، فیصلہ آئندہ تعلیمی سال سے لاگو ہوگا، نجی اداروں کو بھی پابند کیا جائے گا، چوتھی جماعت سے دسویں جماعت تک کے طلبا استفادہ کرسکیں گے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔ پروفیسر صاحب سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا ناظرہ قرآن سے طلبا کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی رونما ہوسکے گی؟ چونکہ سالہا سال سے الحمدﷲ مسلمان گھرانوں میں، اسکول و مدارس میں قرآن پاک کو پڑھایا جارہا ہے۔
وہ لوگ بھی اپنے بچوں کو قرآن پڑھانا باعث ثواب اور اپنا فرض سمجھتے ہیں جو ''الف، ب'' نہیں جانتے اور تعلیم یافتہ گھرانوں کی تو بات ہی الگ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حفظ قرآن بھی کراتے ہیں، لیکن پورا معاشرہ اور اس کے لوگ بری عادتوں کے شکار ہیں۔ جس میں جھوٹ، غیبت، بدگمانی، والدین کی نافرمانی، ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی عروج پر ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب نے قرآن پاک کے مبارک و متبرک الفاظ کو رٹ لیا ہے اس کے معنی و مفاہیم سے ناآشنا ہیں، انھیں معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان سے کیا کلام کر رہا ہے؟ کون سے احکام ہیں جنھیں ادا کرنا ہے، گناہ کبیرہ و صغیرہ کون سے ہیں؟ جب دینی و اسلامی معلومات سے واقفیت ہی نہیں تو کردار کیسے بدل سکتا ہے، اخلاق کیسے سنور سکتا ہے؟ معاشرتی برائی اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نصاب میں عربی زبان کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ قرآن پاک سمجھ میں آسکے اور بچوں کو چوتھی کلاس سے نہیں بلکہ درجہ اول سے ہی قرآنی تعلیم مع ترجمہ و تفسیر کے پڑھائی جائے، تب بات بن سکتی ہے۔
سات، آٹھ سال میں ذہن پختہ ہوجاتا ہے جو بات خالی سلیٹ پر لکھی جاتی ہے وہ ہی سمجھ میں آتی ہے، پہلی تحریر پر دوسری تحریر ناقابل مطالعہ ہوتی ہے۔ وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم قوم اور قوم کے بچوں پر رحم کھائیں، بچوں سے تعلیمی غفلت برتنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کے سیاسی کارکنوں کو نہ بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ محفل میں کھانا کھانے کا، جب سیاسی پارٹیاں جلسے کرتی ہیں تب اس کے اختتام سے پہلے ہی کارکن بھوک سے بے چین ہوکر کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور کھانے کی ڈشیں الٹ دیتے ہیں، زمین پر کھانا بکھر جاتا ہے، کوئی نظم و نسق نہیں، کوئی طریقہ نہیں، کھانے کے آداب سے ناواقف۔ یہ سب کچھ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا دیکھتی ہے کہ یہ پاکستانی قوم ہے یا ایک بے ہنگم ہجوم ہے۔ قائد اعظم کے نظم و نسق، طرز زندگی اور طرز معاشرت اور ان کا قوم کو پڑھایا ہوا سبق بھی بھول گئے۔
تعلیمی زبوں حالی آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے اسی ڈگر پر چل رہی ہے اور نوجوان نسل کو والدین اور اساتذہ نے اپنے غیرذمے دارانہ رویے سے منزل سے دور کردیا ہے اور رہی سہی کسر حکومت نے پوری کردی ہے۔ اندرون سندھ اور پنجاب کے گاؤں، دیہاتوں میں بے شمار اسکول ایسے ہیں جو بند پڑے ہیں یا انھیں اصطبل کا درجہ دے دیا گیا ہے، اساتذہ منتظمین کی ملی بھگت سے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں، ایسی ہی صورت حال کا نوٹس چیف جسٹس نے لے لیا ہے، انھوں نے تعلیمی اداروں کی غفلت کے بارے میں کہا کہ ''شرم کی بات ہے، سندھ کے اسکولوں میں جانور باندھ دیے گئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں سرکاری اسکولوں کی حالت زار کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اسکولوں کی حالت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غلط رپورٹ پیش کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم دے دیا ہے اور چیف سیکریٹریز کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالتی حکم پر عمل کریں، ایڈیشنل سیشن جج سروے کرائیں اور رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں کہ کتنے اسکولز کام کر رہے ہیں اور کتنے بھوت اسکول ہیں، اور کتنے فنڈز خرچ کیے جارہے ہیں، اسکولوں کو بیٹھک، گھر یا باڑے کیوں بنایا گیا ہے؟
ایڈیشنل سیکریٹری سندھ عارف علی شاہ کو عدالت نے تعلیمی بحران کے حوالے سے ان کی ذمے داریوں کا احساس دلایا، دیکھتے ہیں کتنا عمل ہوتا ہے؟ کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟ پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچنے کی وجہ ہی تعلیمی بددیانتی، فرائض سے غفلت اور ناجائز دولت کا حصول ہے، حرام اور حلال رزق کی تفریق کو یکسر ختم کردیا گیا ہے، اور شاید یہ لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ حرام لقمہ کھانے والوں میں عادت رزیلا پیدا ہوجاتی ہیں، اخلاقی پستی میں یہ لوگ دھنس جاتے ہیں، بہت کم طلبا اور ہمارے ملک کے نوجوان ایسے ہیں جنھیں اپنے وطن سے محبت ہے۔ وہ اسلامی افکار سے واقف ہیں، ورنہ آج کے نوجوان کے ہاتھ میں اسلحہ ہے اور اسلحے کے زور پر بھرپور طریقے سے جرائم کیے جارہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا، ڈکیتی اور بم بلاسٹ، خودکش حملے کرنے اور اپنی جانوں سے کھیلنے والے پاکستانی بچے ہی ہیں جنھیں غلط راہوں پر دھکیل دیا گیا ہے۔
اگر تعلیم ہوتی، تعلیمی ماحول ہوتا، سرکاری اسکول و کالج باقاعدگی سے کھلتے، ماضی کی طرح اساتذہ تدریسی ذمے داریاں نبھاتے تو آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔ نئی نسل کو تباہ و برباد کرنے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بظاہر نیک و شریف معلوم ہوتے ہیں اور یہ نیک و شریف لوگ وہ ہیں جنھوں نے حصول زر کے لیے گھوسٹ اساتذہ کا رول ادا کیا، سال بھر کی حاضری لگا کر تنخواہیں وصول کیں اور دوسری جگہوں پر ملازمت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو کلرک ہیں، محکمہ تعلیم کے افسران ہیں، ان سب نے مل کر پاکستانی قوم کو اس موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں ان کی شناخت کھوچکی ہے، اب وہ بددیانت، راشی، مفاد پرست اور دولت کے لالچی کہلاتے ہیں، پوری دنیا بذریعہ چینلز ان کے کارناموں سے واقف ہوچکی ہے، اسی وجہ سے کوئی ان کی عزت نہیں کرتا، یہ لوگ مقدس مقامات پر بھی ہیراپھیری سے باز نہیں آتے ہیں، اسی لیے ان کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، غیر مسلموں کی عزت ان سے زیادہ کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کے مستحق ہیں لیکن ہمارے لوگ اپنی ناپسندیدہ عادات اور حرکات و سکنات سے اپنے مقام سے گرچکے ہیں۔
پھر میں یہی بات دہراؤں گی کہ اس کی خاص الخاص وجہ وہی ناخواندگی و مادہ پرستی ہے، فہم و ادراک سے یہ لوگ بے گانہ ہیں۔ خوف خدا اور سزا و جزا سے ناواقف، جانور سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، ابھی ایک دو روز کی ہی بات ہے کہ ایک 23 سالہ نوجوان نے اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو قتل کردیا وجہ صرف اتنی اور معمولی ترین تھی کہ گھر والے کبوتر پالنے سے منع کرتے تھے، اس لیے اس شخص نے پہلے کھانے میں بے ہوشی کی دوا دی اور پھر قتل کردیا۔ دیکھئے کتنی ننھی منی سی عقل، کوئی دور اندیشی نہیں، اپنے انجام سے ناواقف، اپنی جنت کو اپنے ہاتھوں گنوادیا اور خوشی خوشی دین و دنیا کے جہنم کا سودا کیا۔ ننھے منے معصوم پرندوں کی خاطر، کوئی تھوڑا بھی شعور رکھنے والا اتنے بڑے جرم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس طرح کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں جب گھر کے مرد اپنوں ہی کے خون سے ہاتھ رنگ لیتے ہیں اور یہ سب کچھ جہالت کی وجہ ہی سے ہوتا ہے۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ سندھ میں میٹرک تک ناظرہ قرآن لازمی قرار دیا جائے گا اس کے لیے کام ہو رہا ہے، ماہرین کی کمیٹی بنائی جا رہی ہے، فیصلہ آئندہ تعلیمی سال سے لاگو ہوگا، نجی اداروں کو بھی پابند کیا جائے گا، چوتھی جماعت سے دسویں جماعت تک کے طلبا استفادہ کرسکیں گے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔ پروفیسر صاحب سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا ناظرہ قرآن سے طلبا کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی رونما ہوسکے گی؟ چونکہ سالہا سال سے الحمدﷲ مسلمان گھرانوں میں، اسکول و مدارس میں قرآن پاک کو پڑھایا جارہا ہے۔
وہ لوگ بھی اپنے بچوں کو قرآن پڑھانا باعث ثواب اور اپنا فرض سمجھتے ہیں جو ''الف، ب'' نہیں جانتے اور تعلیم یافتہ گھرانوں کی تو بات ہی الگ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حفظ قرآن بھی کراتے ہیں، لیکن پورا معاشرہ اور اس کے لوگ بری عادتوں کے شکار ہیں۔ جس میں جھوٹ، غیبت، بدگمانی، والدین کی نافرمانی، ناپ تول میں کمی، ذخیرہ اندوزی عروج پر ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب نے قرآن پاک کے مبارک و متبرک الفاظ کو رٹ لیا ہے اس کے معنی و مفاہیم سے ناآشنا ہیں، انھیں معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان سے کیا کلام کر رہا ہے؟ کون سے احکام ہیں جنھیں ادا کرنا ہے، گناہ کبیرہ و صغیرہ کون سے ہیں؟ جب دینی و اسلامی معلومات سے واقفیت ہی نہیں تو کردار کیسے بدل سکتا ہے، اخلاق کیسے سنور سکتا ہے؟ معاشرتی برائی اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نصاب میں عربی زبان کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ قرآن پاک سمجھ میں آسکے اور بچوں کو چوتھی کلاس سے نہیں بلکہ درجہ اول سے ہی قرآنی تعلیم مع ترجمہ و تفسیر کے پڑھائی جائے، تب بات بن سکتی ہے۔
سات، آٹھ سال میں ذہن پختہ ہوجاتا ہے جو بات خالی سلیٹ پر لکھی جاتی ہے وہ ہی سمجھ میں آتی ہے، پہلی تحریر پر دوسری تحریر ناقابل مطالعہ ہوتی ہے۔ وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم قوم اور قوم کے بچوں پر رحم کھائیں، بچوں سے تعلیمی غفلت برتنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کے سیاسی کارکنوں کو نہ بات کرنے کا سلیقہ ہے نہ محفل میں کھانا کھانے کا، جب سیاسی پارٹیاں جلسے کرتی ہیں تب اس کے اختتام سے پہلے ہی کارکن بھوک سے بے چین ہوکر کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور کھانے کی ڈشیں الٹ دیتے ہیں، زمین پر کھانا بکھر جاتا ہے، کوئی نظم و نسق نہیں، کوئی طریقہ نہیں، کھانے کے آداب سے ناواقف۔ یہ سب کچھ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا دیکھتی ہے کہ یہ پاکستانی قوم ہے یا ایک بے ہنگم ہجوم ہے۔ قائد اعظم کے نظم و نسق، طرز زندگی اور طرز معاشرت اور ان کا قوم کو پڑھایا ہوا سبق بھی بھول گئے۔