پاکستان کے وہ وزرائے اعظم جومدت پوری نہ کرسکے
نواز شریف پاکستان کے واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے تین مرتبہ ذمہ داریاں سنبھالیں اور تینوں مرتبہ اپنی میعاد مکمل نہ کرسکے
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو
پاکستان کے پہلے سِول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چوتھے صدر اور 9ویں وزیراعظم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے دفاعی بیان میں لکھا تھا کہ اگر زورِ بیان کی بات ہوتی تو لوگ مجھے نہیں عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری کو منتخب کرتے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں پہلے اُنہیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اہم کردار قرار دے کر مقدمے بازی میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن جب کچھ ثابت نہ ہوا تو احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں 4 اپریل 1979ء کی رات 2 بجے پھانسی دے دی گئی۔
سوال یہ تھا کہ ایسا ہوا کیوں؟ جبکہ وہ ایک خود مختار وزیراعظم تھے اور پاکستان کو 1973ء کا آئین اور ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی دے چکے تھے، ساتھ میں سب سے اہم یہ کہ اسلامی ممالک کیلئے اسلامک بینک کے قیام کا تصور بھی پیش کرچکے تھے اور مارچ 1977ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے دوسری دفعہ وزیراعظم بھی منتخب ہوگئے تھے لیکن حزبِ اختلاف کا انتخابات میں دھاندلی کا شور اور پھر اُن کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں تحریکِ نظام مصطفیٰ کے نام سے مظاہرے شروع ہوگئے۔ اِس دوران اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں اُنہوں نے اتوار کے بجائے جمعہ کی چھٹی کے اعلان کے بعد 17 اپریل 1977ء کو شراب نوشی، نائٹ کلبوں اور قمار بازی پر بھی پابندی عائد کردی۔
بیرونی سازشی طاقتوں نے بھی اِن حالات میں بھٹو حکومت کے خلاف سر اُٹھایا ہوا تھا، لہذا جنرل ضیاء الحق نے 4 اور 5 جولائی 1977ء کی درمیانی شب کو آپریشن ''فیئر پلے'' کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کرکے نظر بند کرکے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کردیا اور خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔
پاکستان کے وزرائےاعظم مدت جو مکمل نہ کرسکے ( پہلی قسط)
وزیراعظم محمد خاں جونیجو
اپنے پانچ نکاتی پروگرام کے ساتھ عوام میں ایک اچھی ساکھ بنانے والے محمد خان جونیجو کی جمہوری حکومت کا انداز بھی بہت بہتر تھا۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے نزدیک وزیراعظم جونیجو کی مقبولیت اُن کے آئندہ کے مستقبل کیلئے اچھی نہ تھی۔ اِس کے علاوہ افغان مسئلے میں صدر جنرل ضیاءالحق کے گزشتہ آٹھ سالوں کے کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے جونیجو حکومت نے جو جینوا معاہدہ کیا تھا، اُسے بھی صدر جنرل ضیاءالحق نے پسند نہ کیا اور اِس مسئلے پر ملکی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کروادیا۔ پھر کراچی کے بوہری بازار اور راولپنڈی کے کشمیری بازار کے بعد 10ِ اپریل 1988ء کو اسلام آباد کے نزدیک اوجڑی کیمپ میں شدید نوعیت کے دھماکے ہوئے، جہاں عوام پر قیامت گزر گئی تو وہ دھماکے سیاسی چنگاری کو بھڑکانے کا بھی باعث بن گئے۔
اِن واقعات پر وزیراعظم جونیجو کو جو تفتیشی رپورٹ دی گئی وہ اُنہوں نے صدر جنرل ضیاء الحق کے حوالے کردی تاکہ اِن رپورٹس کی روشنی میں اوجڑی کیمپ واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے۔ وزیراعظم محمد خاں جونیجو رپورٹسں صدر جنرل ضیاء الحق کے حوالے کرکے بیرونی ممالک کے دورے پر رخصت ہوگئے۔ 29ِ مئی 1988ء کو صدر جنرل ضیاءالحق نے 1973ء کے آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت محمد خاں جونیجو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کردیا۔ اِس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے والے آپریشن فیئر پلے کے بعد یہ بھی اُن کا آپریشن کلین اَپ نامی ایک خُفیہ منصوبہ کہلایا۔
وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو
پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو دسمبر 1988ء میں پہلی مرتبہ اور پھر اکتوبر 1993ء میں دوسری دفعہ وزیراعظم پاکستان بنیں، لیکن دونوں بار سیاسی طور پر حزبِ اختلاف کی محاز آرائی کا کچھ ایسا شکار رہیں کہ اُن کے اچھے کام بھی تنقید کی نذر ہوگئے بلکہ کرپشن کے الزامات کے باعث قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اُن کی حکومت کو کچھ خاص حلقوں نے پسند نہیں کیا اِس لیے اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 6 اگست 1990ء کو آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل کردہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی توڑ کر بے نظیر بھٹو کو برطرف کردیا اور اُن کے خاوند آصف علی زرداری کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف
پاکستان کے کاروباری طبقے سے منسلک پہلے وزیراعظم نواز شریف نے پہلی بار اپنے عہدے کا حلف نومبر 1990ء میں اُٹھایا اور پھر ''پیلی ٹیکسی'' اور اسلام آباد سے لاہور تک موٹر وے کے دو اہم منصوبے شروع کرکے پاکستانی عوام میں مقبولیت حاصل کرلی۔
اِس کے علاوہ وہ ملکی سطح پرعوامی کام کر رہے تھے کہ کچھ ایسے سیاسی حالات پیدا ہونے شروع ہوگئے جو اُس وقت کے صدر غلام اسحاق کو پسند نہیں آرہے تھے۔ محلاتی سازشیں بڑھنی شروع ہوئیں تو نواز شریف نے اپریل 1993ء میں قوم سے براہِ راست خطاب میں اعلان کردیا کہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کی خاطر نہ استعفیٰ دوں گا، نہ اسمبلیاں توڑوں گا اور نہ ہی ڈکٹیشن لوں گا، اِس کے باوجود 18 اپریل 1993ء کی رات 8 بجے صدر غلام اسحاق خان نے 1973ء کے آئین کی آٹھویں ترمیم کے آرٹیکل (بی)2-58 کے تحت وزیراعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کردی اور قومی اسمبلی کو توڑ دیا۔
سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993ء کو اپنے فیصلے میں صدارتی حکم کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف حکومت اور قومی اسمبلی بحال کردی، لیکن سیاسی سازشیں اتنی عروج پر تھیں کہ اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ ہی دے دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت
دوسرے دورِ وزارت میں بے نظیر بھٹو کی اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رُکن اور اُس وقت کے صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے 5 نومبر 1996ء کو 8ویں ترمیم کے تحت رات گئے برطرف کردیا اور قومی اسمبلی بھی توڑ دی، اور اُن کے شوہر آصف علی زرداری کو ایک دفعہ پھر گرفتار کرلیا گیا۔
نواز شریف کا دوسرا دورِ حکومت
نواز شریف نے فروری 1997ء کے انتخابات میں جب ایک دفعہ پھر کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو سب سے پہلے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی اکثریت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 13ویں ترمیم کے ذریعے 8ویں ترمیم کی تلوار سر سے ہٹائی اور بااختیار وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کا یہی دور تھا جس میں مئی 1998ء کو پاکستان ایٹم بم کا تجرباتی دھماکہ کرکے ایٹمی قوت بن گیا۔ تاہم اگلے برس بھارت کے ساتھ کارگل کا تنازعہ ملکی سطح پر کچھ ایسا رنگ اختیار کرگیا کہ افواجِ پاکستان کے اعلیٰ عہدے داروں سے اُن کی چپقلش بڑھ گئی۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے رفقاء کے تعاون سے نیا آرمی چیف آف اسٹاف لانے کی کوشش کی۔ پھر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف جو اُس روز بیرونِ ملک دورے کے بعد پاکستان آرہے تھے تو اُن کے ہوائی جہاز کو پاکستان میں لینڈنگ سے روکنے کی کوشش کی جس کے بعد افواج پاکستان نے اُن کی حکومت برطرف کردی اور 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کو گرفتار کرکے وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کردیا اور ساتھ ہی آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ سنبھال لیا۔
وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی
صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی عدالت کے حکم پر اکتوبر 2002ء میں انتخابات کروا کے اپنی آشیرباد والی جماعت مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوادی۔ بلوچستان کی اہم سیاسی شخصیت میر ظفراللہ خان جمالی وزیراعظم پاکستان بن گئے لیکن اگلے دو سال کے اندر ہی صدر پرویز مشرف اُن سے نالاں ہوگئے۔ اُنہوں نے وزیراعظم کو برطرف تو نہیں کیا لیکن اُن کے ساتھ کچھ اِس انداز کا رویہ اپنایا کہ 26 جون 2004ء کو پاکستان کا ایک اور وزیراعظم محلاتی و جماعتی سازشوں کی نذر ہوگیا۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی
فروری 2008ء کے عام انتخابات کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پاکستان پیپلز پارٹی اور اُن کی اتحادی جماعتوں کے بالترتیب وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی فیصلے کے مطابق جون 2012ء میں سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کے کیس میں عہدے سے الگ ہونا ہی پڑا۔
نواز شریف کا تیسرا دورِ حکومت
5 جون 2013ء کو نواز شریف پاکستان کے پہلے وزیراعظم بن گئے جنہوں نے تیسری دفعہ اِس عہدے پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں لیکن ایک سال بعد ہی سیاسی سطح پر اُنہیں ایک دفعہ پھر مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑگیا۔ گوکہ اِس دوران اُن کی سیاسی بصیرت اُن کے کام آئی اور وہ تنقید کے باوجود اپنی حکومت چلاتے رہے لیکن پھر اپریل 2016ء میں جب بین الاقوامی سطح پر دُنیا بھر میں ''پانامہ اسکینڈل'' سامنے آیا تو اُس میں اُن کے خاندان کا نام بھی آگیا۔ جس کے بعد معاملہ عدلیہ کے سامنے پیش ہوا تو عدلیہ کی جانب سے ایک جے آئی ٹی بناکر مزید تفتیش کیلئے نواز شریف اور اُن کے خاندان سے سوالات کئے گئے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق سوالات سے متعلقہ جوابات میں ابہام تھا اور پھر جے آئی ٹی پانامہ کیس میں نواز شریف اور اُن کے خاندان سے تفتیش کررہی تھی تو اُس دوران میاں نواز شریف کا دبئی کا اقامہ بھی منظرِ عام پر آگیا جو کئی سال پہلے جاری ہونے کے باوجود عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا تھا، بلکہ انکم ٹیکس ریٹرن میں بھی چُھپایا گیا تھا اور ایف بی آر کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
لہذا 28 جولائی 2017ء کو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن سمیت پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔
(اِس تحریر کیلئے تحقیقی مواد اخبارات، کُتب و رسائل سے حاصل کیا گیا ہے، اور ساتھ میں اپنے دوست ناصر علی کے علمی تعاون بھی شُکر گزار ہوں)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی