نواز شریف سے آصف زرداری کی ناراضگی
یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف تقریباً ساڑھے تین سال تک پی پی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنے۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہاہے کہ ان کا نواز شریف سے کوئی رابطہ ہے اور نہ میں رابطہ رکھنا چاہتاہوں کیونکہ نواز شریف نے ہمیں ہمیشہ دھوکا دیا۔ نواز شریف اقتدار میں ہوں تو ان کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں اور اقتدار سے باہر کچھ اور، اسی لیے وہ اعتبار کے لائق نہیں ہیں اور ہم ان کے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا بھی حصہ نہیں بنیں گے۔
آصف علی زرداری چند ہفتوں قبل عید الفطر کے بعد دبئی سے چلے گئے تھے اور نواز شریف کی نا اہلی کے 19 روز بعد دبئی سے کراچی کے بجائے لاہور آئے اور انھوں نے سابق وزیراعظم پر اپنی شدید برہمی کا بھی اظہار کیا اور شکایات کے بھی انبار لگادیے۔
سابق صدر نے اپنے صاحبزادے کے ہمراہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے متعلق کہاکہ دھرنوں کے وقت ہم نے نواز شریف کا نہیں جمہوریت کا ساتھ دیا تھا اور جمہوریت کو بچایا تھا کیونکہ جمہوریت کے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے جب کہ نواز شریف کا چار سالہ دور اور طرز حکمرانی سیاسی نہیں تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ وہ آیندہ شریف خاندان کو سیاست میں نہیں دیکھ رہے اور نواز شریف اپنی حکومت میں پولیٹکل فورسز کو بھی اپنے ساتھ لے کر نہیں چلے ان سے ڈائیلاگ کا دور گزر چکا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری اپنی مدت مکمل کرکے صدارت سے سبکدوش ہوئے تھے اس سے تین ماہ قبل نواز شریف وزیراعظم بن گئے تھے اور انھوں نے سابق صدر سے متعلق بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا تھا جو ایک اچھا اقدام تھا کیونکہ اس سے قبل کسی وزیراعظم نے سبکدوش ہونے والے صدر کی اتنی عزت افزائی نہیں کی تھی اور فوجی صدر جنرل پرویز مشرف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے خوف زدہ ہوکر جب 2008 میں مستعفی ہوئے تھے تو انھیں پی پی کے وزیراعظم گیلانی نے بھی پروٹوکول نہیں دیا تھا اور پہلا موقع تھا کہ 2013 میں وزیراعظم نے صدر زرداری کو سرکاری اعزاز سے رخصت کیا تھا۔
سابق صدر زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کی چار سالہ حکومت میں اپنا زیادہ وقت ملک سے باہر ہی گزارا ہے اور وہ جب بھی سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی برسی پر گڑھی خدا بخش آتے تھے تو کسی کا نام لیے بغیر اپنی تقریر میں برسا ضرور کرتے تھے اور واپس لوٹ جاتے تھے۔
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں وہ طویل عرصہ تک ملک سے باہر رہے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد واپس آکر ملکی سیاست میں فعال ہوئے اور اب زیادہ ہی فعال ہوگئے ہیں۔ ملک سے غیر حاضری کے دوران وفاقی اداروں نے سندھ میں کرپشن کے الزامات میں جو کارروائی کی وہی آصف زرداری کی نواز شریف سے ناراضگی کا سبب بنی کیونکہ سندھ میں گزشتہ نو سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور اس عرصے میں کرپشن کی سندھ میں سب سے زیادہ شکایات منظر عام پر آئیں اور موجودہ اور سابق وزیروں ہی نہیں بلکہ سندھ کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس بھی گرفت میں آئے اور سابق مشیر پٹرولیم اور سابق صدر کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین جب کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار ہوئے اور دبئی جاتے ہوئے خوبرو ماڈل ایان علی بڑی رقم لے جاتے ہوئے پکڑی گئی تو آصف زرداری کا صبر جواب دے گیا اور وفاقی اداروں کی کارروائیوں کا ذمے دار وفاقی حکومت اور وزیراعظم نواز شریف کو سمجھتے تھے اور خود انھوں نے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق اینٹ سے اینٹ بجادینے کے بیانات دیے تھے وہ بھی بھول گئے۔ شروع سے کہا جاتا رہا کہ پیپلزپارٹی حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن کا ویسا ہی کردار ادا کررہی ہے جیسا مسلم لیگ ن نے بھی پی پی حکومت میں تقریباً چار سال تک کیا تھا اور دونوں پارٹیوں میں باریوں کا معاہدہ تھا۔
اپوزیشن لیڈر تو پیپلزپارٹی کے تھے مگر عمران خان خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر نہیں سمجھتے تھے اور صرف پی ٹی آئی کو حقیقی اپوزیشن قرار دیا کرتے تھے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی اپوزیشن متحدہ، فنکشنل لیگ اور پی ٹی آئی کو بھی شکایت رہی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن باہمی معاہدے کے تحت سندھ اور پنجاب میں ان کی حکومتوں میں مداخلت نہیں کررہیں اور سندھ میں پی پی حکومت کی بے انتہا کرپشن، من مانیوں اور غیر قانونی اقدامات پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور پی پی کو سندھ میں کوئی روکنے والا نہیں ہے.
یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف تقریباً ساڑھے تین سال تک پی پی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنے۔ انھوں نے پی پی حکومت کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے سندھ سے مسلم لیگ ن کا صفایا کرالیا۔ پیپلزپارٹی نے سندھ سے مسلم لیگ کے متعدد رہنماؤں کو توڑلیا۔ مسلم لیگی وزیر مملکت وفاقی مشیر اور معاون خصوصی تک کو نواز شریف نے پی پی کی خوشنودی کے لیے اہمیت نہیں دی اور وہ نواز شریف سے مایوس ہوکر انھیں چھوڑ گئے مگر ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی، غوث بخش شاہ اور ارباب غلام رحیم جیسے رہنماؤں کو بھی اہمیت نہیں ملی۔
ڈاکٹر عاصم، ایان علی کی گرفتاری اور سندھ کے محکموں میں چھاپوں کے روکنے میں جب وفاقی حکومت سے پی پی کو مدد نہ ملی تو سندھ اور پنجاب میں پی پی رہنماؤں نے وزیراعظم پر تنقید شروع کی اور یہاں بھی وزیراعظم پر تنقید میں بلاول زرداری کو آگے رکھا گیا اور آصف زرداری پیچھے رہے۔ بلاول زرداری نے عمران خان کے گو نواز گو کے نعروں کو جلا بخشی اور اندرون ملک اپنے جلسوں میں وفاقی حکومت کی بجائے نواز شریف کے خلاف پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ایک آواز بھی ہوئیں اور پی پی کے دوہرے رویے پر مشتعل ہوکر عمران خان نے آصف زرداری پر تنقید بھی کی اور نواز شریف اور آصف زرداری کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا جس کی وجہ سے اور سیاسی مفاد کے خاطر پی پی کی پی ٹی آئی سے بنی اور نہ وزیراعظم سے۔ پاناما کے مسئلے پر پی پی نے عمران خان پر بھی تنقید کی مگر نواز شریف کی نا اہلی پر پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلزپارٹی نے بھی کریڈٹ لینا شروع کردیا جب کہ اس کریڈٹ کی حقیقی حق دار پی ٹی آئی بھی نہیں بلکہ جماعت اسلامی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کے پی کے کے مقابلے میں سندھ میں پیپلزپارٹی کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا اور آخری دنوں میں سندھ میں صرف تین جلسے کیے مگر ان میں بھی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت پر کھل کر تنقید نہیں کی جیسی وہ کے پی کے میں جلسوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی پر کیا کرتے تھے کیونکہ نواز شریف عمران خان کی وجہ سے مجبور تھے اور پیپلزپارٹی کو ساتھ رکھنا چاہتے تھے مگر بعد میں نواز شریف کی کھلی مخالفت پیپلزپارٹی کی بھی مجبوری بن گئی کیونکہ پنچاب ہاتھ سے جارہا تھا۔
اگر ڈاکٹر عاصم اور ایان علی نہ پکڑے جاتے اور اداروں کو سندھ میں مداخلت سے روکا جاتا تو عمران خان کی مخالفت میں ممکن تھا کہ آصف زرداری ناراض نہ ہوتے اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں ن لیگ اور پی پی کہیں کہیں باہمی اتحاد پر مجبور ہوجاتیںمگر بلاول زرداری نے تو خود کو آیندہ کا وزیراعظم اور آصف زرداری کو دوبارہ صدر بنوانے کے لیے نواز شریف پر کڑی تنقید شروع کردی تھی اور کچھ خفیہ ہاتھ بھی دونوں پارٹیوں کا اتحاد نہیں چاہتے تھے اس لیے آصف زرداری کی میاں صاحب سے ناراضگی بڑھتی گئی اور آصف زرداری کی بھی صدر مملکت کے بعد وزیراعظم بننے کی خواہش منظر عام پر آنا شروع ہوگئی تھی۔
آصف علی زرداری چند ہفتوں قبل عید الفطر کے بعد دبئی سے چلے گئے تھے اور نواز شریف کی نا اہلی کے 19 روز بعد دبئی سے کراچی کے بجائے لاہور آئے اور انھوں نے سابق وزیراعظم پر اپنی شدید برہمی کا بھی اظہار کیا اور شکایات کے بھی انبار لگادیے۔
سابق صدر نے اپنے صاحبزادے کے ہمراہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے متعلق کہاکہ دھرنوں کے وقت ہم نے نواز شریف کا نہیں جمہوریت کا ساتھ دیا تھا اور جمہوریت کو بچایا تھا کیونکہ جمہوریت کے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے جب کہ نواز شریف کا چار سالہ دور اور طرز حکمرانی سیاسی نہیں تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ وہ آیندہ شریف خاندان کو سیاست میں نہیں دیکھ رہے اور نواز شریف اپنی حکومت میں پولیٹکل فورسز کو بھی اپنے ساتھ لے کر نہیں چلے ان سے ڈائیلاگ کا دور گزر چکا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری اپنی مدت مکمل کرکے صدارت سے سبکدوش ہوئے تھے اس سے تین ماہ قبل نواز شریف وزیراعظم بن گئے تھے اور انھوں نے سابق صدر سے متعلق بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا تھا جو ایک اچھا اقدام تھا کیونکہ اس سے قبل کسی وزیراعظم نے سبکدوش ہونے والے صدر کی اتنی عزت افزائی نہیں کی تھی اور فوجی صدر جنرل پرویز مشرف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے خوف زدہ ہوکر جب 2008 میں مستعفی ہوئے تھے تو انھیں پی پی کے وزیراعظم گیلانی نے بھی پروٹوکول نہیں دیا تھا اور پہلا موقع تھا کہ 2013 میں وزیراعظم نے صدر زرداری کو سرکاری اعزاز سے رخصت کیا تھا۔
سابق صدر زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کی چار سالہ حکومت میں اپنا زیادہ وقت ملک سے باہر ہی گزارا ہے اور وہ جب بھی سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی برسی پر گڑھی خدا بخش آتے تھے تو کسی کا نام لیے بغیر اپنی تقریر میں برسا ضرور کرتے تھے اور واپس لوٹ جاتے تھے۔
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں وہ طویل عرصہ تک ملک سے باہر رہے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد واپس آکر ملکی سیاست میں فعال ہوئے اور اب زیادہ ہی فعال ہوگئے ہیں۔ ملک سے غیر حاضری کے دوران وفاقی اداروں نے سندھ میں کرپشن کے الزامات میں جو کارروائی کی وہی آصف زرداری کی نواز شریف سے ناراضگی کا سبب بنی کیونکہ سندھ میں گزشتہ نو سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور اس عرصے میں کرپشن کی سندھ میں سب سے زیادہ شکایات منظر عام پر آئیں اور موجودہ اور سابق وزیروں ہی نہیں بلکہ سندھ کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس بھی گرفت میں آئے اور سابق مشیر پٹرولیم اور سابق صدر کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین جب کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار ہوئے اور دبئی جاتے ہوئے خوبرو ماڈل ایان علی بڑی رقم لے جاتے ہوئے پکڑی گئی تو آصف زرداری کا صبر جواب دے گیا اور وفاقی اداروں کی کارروائیوں کا ذمے دار وفاقی حکومت اور وزیراعظم نواز شریف کو سمجھتے تھے اور خود انھوں نے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق اینٹ سے اینٹ بجادینے کے بیانات دیے تھے وہ بھی بھول گئے۔ شروع سے کہا جاتا رہا کہ پیپلزپارٹی حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن کا ویسا ہی کردار ادا کررہی ہے جیسا مسلم لیگ ن نے بھی پی پی حکومت میں تقریباً چار سال تک کیا تھا اور دونوں پارٹیوں میں باریوں کا معاہدہ تھا۔
اپوزیشن لیڈر تو پیپلزپارٹی کے تھے مگر عمران خان خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر نہیں سمجھتے تھے اور صرف پی ٹی آئی کو حقیقی اپوزیشن قرار دیا کرتے تھے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی اپوزیشن متحدہ، فنکشنل لیگ اور پی ٹی آئی کو بھی شکایت رہی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن باہمی معاہدے کے تحت سندھ اور پنجاب میں ان کی حکومتوں میں مداخلت نہیں کررہیں اور سندھ میں پی پی حکومت کی بے انتہا کرپشن، من مانیوں اور غیر قانونی اقدامات پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور پی پی کو سندھ میں کوئی روکنے والا نہیں ہے.
یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف تقریباً ساڑھے تین سال تک پی پی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنے۔ انھوں نے پی پی حکومت کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے سندھ سے مسلم لیگ ن کا صفایا کرالیا۔ پیپلزپارٹی نے سندھ سے مسلم لیگ کے متعدد رہنماؤں کو توڑلیا۔ مسلم لیگی وزیر مملکت وفاقی مشیر اور معاون خصوصی تک کو نواز شریف نے پی پی کی خوشنودی کے لیے اہمیت نہیں دی اور وہ نواز شریف سے مایوس ہوکر انھیں چھوڑ گئے مگر ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی، غوث بخش شاہ اور ارباب غلام رحیم جیسے رہنماؤں کو بھی اہمیت نہیں ملی۔
ڈاکٹر عاصم، ایان علی کی گرفتاری اور سندھ کے محکموں میں چھاپوں کے روکنے میں جب وفاقی حکومت سے پی پی کو مدد نہ ملی تو سندھ اور پنجاب میں پی پی رہنماؤں نے وزیراعظم پر تنقید شروع کی اور یہاں بھی وزیراعظم پر تنقید میں بلاول زرداری کو آگے رکھا گیا اور آصف زرداری پیچھے رہے۔ بلاول زرداری نے عمران خان کے گو نواز گو کے نعروں کو جلا بخشی اور اندرون ملک اپنے جلسوں میں وفاقی حکومت کی بجائے نواز شریف کے خلاف پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ایک آواز بھی ہوئیں اور پی پی کے دوہرے رویے پر مشتعل ہوکر عمران خان نے آصف زرداری پر تنقید بھی کی اور نواز شریف اور آصف زرداری کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا جس کی وجہ سے اور سیاسی مفاد کے خاطر پی پی کی پی ٹی آئی سے بنی اور نہ وزیراعظم سے۔ پاناما کے مسئلے پر پی پی نے عمران خان پر بھی تنقید کی مگر نواز شریف کی نا اہلی پر پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلزپارٹی نے بھی کریڈٹ لینا شروع کردیا جب کہ اس کریڈٹ کی حقیقی حق دار پی ٹی آئی بھی نہیں بلکہ جماعت اسلامی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے کے پی کے کے مقابلے میں سندھ میں پیپلزپارٹی کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا اور آخری دنوں میں سندھ میں صرف تین جلسے کیے مگر ان میں بھی پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت پر کھل کر تنقید نہیں کی جیسی وہ کے پی کے میں جلسوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی پر کیا کرتے تھے کیونکہ نواز شریف عمران خان کی وجہ سے مجبور تھے اور پیپلزپارٹی کو ساتھ رکھنا چاہتے تھے مگر بعد میں نواز شریف کی کھلی مخالفت پیپلزپارٹی کی بھی مجبوری بن گئی کیونکہ پنچاب ہاتھ سے جارہا تھا۔
اگر ڈاکٹر عاصم اور ایان علی نہ پکڑے جاتے اور اداروں کو سندھ میں مداخلت سے روکا جاتا تو عمران خان کی مخالفت میں ممکن تھا کہ آصف زرداری ناراض نہ ہوتے اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں ن لیگ اور پی پی کہیں کہیں باہمی اتحاد پر مجبور ہوجاتیںمگر بلاول زرداری نے تو خود کو آیندہ کا وزیراعظم اور آصف زرداری کو دوبارہ صدر بنوانے کے لیے نواز شریف پر کڑی تنقید شروع کردی تھی اور کچھ خفیہ ہاتھ بھی دونوں پارٹیوں کا اتحاد نہیں چاہتے تھے اس لیے آصف زرداری کی میاں صاحب سے ناراضگی بڑھتی گئی اور آصف زرداری کی بھی صدر مملکت کے بعد وزیراعظم بننے کی خواہش منظر عام پر آنا شروع ہوگئی تھی۔