وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں
علامہ اقبال ؒ بیک وقت وکالت اور معلم کے پیشے سے وابستہ ہوئے تو تخلیقی کام بہت متاثر ہوا
KABUL:
دوسروں میں عقابی روح پیدا کرنے والے اقبال بذات خود اپنی خودی کے نگہبان تھے ۔اقبال کے قول و فعل میں ہرگز کوئی تضاد نہ تھا اُن کا دل اُن کی زبان کا رفیق تھا۔ وہ بلا شبہ عزم و ہمت اور یقین محکم کی علامت تھے ۔ انہی اوصاف کو اقبال جہاد زندگانی میں مردوں کی شمشیریں قرار دیتے ہیں جس کا انہوں نے عملی ثبوت پیش کیا۔
ابتدائی زمانہ طالب علمی سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اقبال ؒ نے حصول علم کو مقدس فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ علامہ اقبال ؒ بیک وقت وکالت اور معلم کے پیشے سے وابستہ ہوئے تو تخلیقی کام بہت متاثر ہوا یعنی آپ شعرو شاعری کو وقت نہ دے پائے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے اپنے احباب سے مشورہ کیا اور بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ گورنمنٹ کالج کی ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی جائے ۔
لہذا اقبالؒ 31 دسمبر 1910 کو ملازمت سے سبکدوش ہو گئے البتہ مختلف تعلیمی اداروں سے تاحیات منسلک رہے اور لیکچرز دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے اقبال ؒ کا تعلق 1923 تک رہا ۔اس کے بعد دیگر مصروفیات اور علالت کے باعث یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔ پنجاب یونیورسٹی اور علی گڑھ کالج انٹرمیڈیٹ یونین کی جانب سے علامہ اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری جاری کی گئی ۔ گورنمنٹ کالج کی ملازمت کو ترک کرنے کے بعد علامہ اقبال ؒ کی تمام تر توجہ پریکٹس پر مرکوز رہی البتہ علامہ اقبال ؒ عالم اسلام اور مسلم اُمہ کی حالت زارکو درپیش مسائل کو کھلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے۔
ایران کو برطانیہ اور روس نے اپنے اپنے حلقہ اثرکے اعتبار سے آپس میں بانٹ رکھا تھا روس اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت جرمنی نے ایران پر روس کا حق تسلیم کر لیا اور 1912 میں روس نے مشہدپر بمباری کی اور بعد میں روس اور برطانیہ کی فوجوں نے ایران پر قبضہ کرکے ناصرف وہاں آئینی تحریک کو کچل دیا بلکہ ایرانیوں کی آزای بھی سلب کر لی۔
اسی طرح اٹلی نے دیگر یورپی طاقتوں سے عدم مداخلت کی یقین دہانی حاصل کرکے طرابلس پر قبضہ کر لیا۔ ابھی طرابلس کی جنگ جاری تھی کہ بلقانی ریاستوں نے ترکی پر حملہ کر دیا اور یوں جنگِ بلقان کا آغاز ہوا۔ اس کے سبب ترکی مشرقی یورپ کے تمام علاقوں سے محروم ہو گیا ۔ اس عرصہ میں فرانس نے مراکو پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔
علامہ اقبالؒ مسلمانوں کے خلاف مغرب کی اِن سازشوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے گردو نواح سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی ذاتی محرومیوں اور مسلمانان ہند کی مایوسیوں اور دنیااسلام پر پے در پے نازل ہوتی مصیبتوں کے ردِ عمل کے طور پر '' شکوہ '' جیسی معرکتہ الارا نظم پیش کی ۔ علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کو اس لئے شکست کا ہرمقام پر سامنا کرنا پڑ رہا تھا کہ اسلام کے تصور ملی پر ان کا اعتقاد نہ رہا تھا اور وہ اپنی اپنی قومیتوں کے تحفظ کی خاطر علاقائی وطنیت کے مغربی تسلط میں نجات کی راہ تلاش کر رہے تھے۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب کی وجہ تلاش کی اور اس کا تدارک پیش کرتے ہوئے اِن کی کھوئی ہوئی میراث کی تجدید نو پر زور دیا اور برصغیر کے مسلمانوں کیلئے قومیت متحدہ کا خواب پیش کیا اور بالآخر 1930 میں خطبہ الہ آباد پیش کیا جس میں الگ مسلم ریاست کا تصور ایک نصب العین کے طور پر اُجاگر کیا۔ علامہ اقبال ؒ ایک زندہ آزاد اور درویش انسان تھے ۔ حق گوئی اور بے باکی اُن کی سرشت میں شامل تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ آزاد زندگی کو ترجیح دی ۔ لندن سے واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور سے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ سے استعفیٰ دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔زندہ رودعلامہ اقبال کی زندگی پر لکھی ایک جامع کتاب ہے ۔
اس میں ایک واقعہ درج ہے کہ علی بخش (علامہ اقبال کا خادم ) کے بیان کے مطابق جس روز وہ استعفی دے کر گھر واپس آئے تو اس نے پوچھا کہ نوکری کیوں چھوڑ دی تو علامہ اقبال ؒ نے جواب دیا علی بخش انگریز کی ملازمت میں بڑی مشکل یہ ہے کہ میرے دل میں جو باتیں ہیں جنہیں میں لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوں مگر انگریز کا نوکر رہ کر انہیں کھلم کھلا نہیں کہہ سکتا۔ میں اب بالکل آزاد ہوں جو چاہو ںکہوں محدود وسائل اور فکر معاش کے باوجود علامہ اقبال اپنے مقصد سے کبھی غافل نہیں ہوئے اور اُن کے پیش نظر مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کا قیام تھا جس کا خواب انہو ں نے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا۔ گول میز کانفرنس کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ سے کئی ملاقاتیں کیں۔
اور اُن پر واضح کیا کہ سیاسی تنظیم اور آئیندہ کے سیاسی پروگرام ترتیب دینے کیلئے ان کا ہندوستان واپس آنا بہت ضروری ہے ۔ علامہ اقبال کے بے حد اسرار پر بالآخر قائداعظم ہندوستان واپس تشریف لائے اور 4 مارچ 1934 کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور یوں محمد علی جناح ؒ کے ہاتھوں لیگ کا احیاء عمل میں آیا۔
محمد ارشاد
دوسروں میں عقابی روح پیدا کرنے والے اقبال بذات خود اپنی خودی کے نگہبان تھے ۔اقبال کے قول و فعل میں ہرگز کوئی تضاد نہ تھا اُن کا دل اُن کی زبان کا رفیق تھا۔ وہ بلا شبہ عزم و ہمت اور یقین محکم کی علامت تھے ۔ انہی اوصاف کو اقبال جہاد زندگانی میں مردوں کی شمشیریں قرار دیتے ہیں جس کا انہوں نے عملی ثبوت پیش کیا۔
ابتدائی زمانہ طالب علمی سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اقبال ؒ نے حصول علم کو مقدس فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ علامہ اقبال ؒ بیک وقت وکالت اور معلم کے پیشے سے وابستہ ہوئے تو تخلیقی کام بہت متاثر ہوا یعنی آپ شعرو شاعری کو وقت نہ دے پائے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے اپنے احباب سے مشورہ کیا اور بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ گورنمنٹ کالج کی ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی جائے ۔
لہذا اقبالؒ 31 دسمبر 1910 کو ملازمت سے سبکدوش ہو گئے البتہ مختلف تعلیمی اداروں سے تاحیات منسلک رہے اور لیکچرز دینے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے اقبال ؒ کا تعلق 1923 تک رہا ۔اس کے بعد دیگر مصروفیات اور علالت کے باعث یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔ پنجاب یونیورسٹی اور علی گڑھ کالج انٹرمیڈیٹ یونین کی جانب سے علامہ اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری جاری کی گئی ۔ گورنمنٹ کالج کی ملازمت کو ترک کرنے کے بعد علامہ اقبال ؒ کی تمام تر توجہ پریکٹس پر مرکوز رہی البتہ علامہ اقبال ؒ عالم اسلام اور مسلم اُمہ کی حالت زارکو درپیش مسائل کو کھلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے۔
ایران کو برطانیہ اور روس نے اپنے اپنے حلقہ اثرکے اعتبار سے آپس میں بانٹ رکھا تھا روس اور جرمنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت جرمنی نے ایران پر روس کا حق تسلیم کر لیا اور 1912 میں روس نے مشہدپر بمباری کی اور بعد میں روس اور برطانیہ کی فوجوں نے ایران پر قبضہ کرکے ناصرف وہاں آئینی تحریک کو کچل دیا بلکہ ایرانیوں کی آزای بھی سلب کر لی۔
اسی طرح اٹلی نے دیگر یورپی طاقتوں سے عدم مداخلت کی یقین دہانی حاصل کرکے طرابلس پر قبضہ کر لیا۔ ابھی طرابلس کی جنگ جاری تھی کہ بلقانی ریاستوں نے ترکی پر حملہ کر دیا اور یوں جنگِ بلقان کا آغاز ہوا۔ اس کے سبب ترکی مشرقی یورپ کے تمام علاقوں سے محروم ہو گیا ۔ اس عرصہ میں فرانس نے مراکو پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔
علامہ اقبالؒ مسلمانوں کے خلاف مغرب کی اِن سازشوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے گردو نواح سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی ذاتی محرومیوں اور مسلمانان ہند کی مایوسیوں اور دنیااسلام پر پے در پے نازل ہوتی مصیبتوں کے ردِ عمل کے طور پر '' شکوہ '' جیسی معرکتہ الارا نظم پیش کی ۔ علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کو اس لئے شکست کا ہرمقام پر سامنا کرنا پڑ رہا تھا کہ اسلام کے تصور ملی پر ان کا اعتقاد نہ رہا تھا اور وہ اپنی اپنی قومیتوں کے تحفظ کی خاطر علاقائی وطنیت کے مغربی تسلط میں نجات کی راہ تلاش کر رہے تھے۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب کی وجہ تلاش کی اور اس کا تدارک پیش کرتے ہوئے اِن کی کھوئی ہوئی میراث کی تجدید نو پر زور دیا اور برصغیر کے مسلمانوں کیلئے قومیت متحدہ کا خواب پیش کیا اور بالآخر 1930 میں خطبہ الہ آباد پیش کیا جس میں الگ مسلم ریاست کا تصور ایک نصب العین کے طور پر اُجاگر کیا۔ علامہ اقبال ؒ ایک زندہ آزاد اور درویش انسان تھے ۔ حق گوئی اور بے باکی اُن کی سرشت میں شامل تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ آزاد زندگی کو ترجیح دی ۔ لندن سے واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور سے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ سے استعفیٰ دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔زندہ رودعلامہ اقبال کی زندگی پر لکھی ایک جامع کتاب ہے ۔
اس میں ایک واقعہ درج ہے کہ علی بخش (علامہ اقبال کا خادم ) کے بیان کے مطابق جس روز وہ استعفی دے کر گھر واپس آئے تو اس نے پوچھا کہ نوکری کیوں چھوڑ دی تو علامہ اقبال ؒ نے جواب دیا علی بخش انگریز کی ملازمت میں بڑی مشکل یہ ہے کہ میرے دل میں جو باتیں ہیں جنہیں میں لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوں مگر انگریز کا نوکر رہ کر انہیں کھلم کھلا نہیں کہہ سکتا۔ میں اب بالکل آزاد ہوں جو چاہو ںکہوں محدود وسائل اور فکر معاش کے باوجود علامہ اقبال اپنے مقصد سے کبھی غافل نہیں ہوئے اور اُن کے پیش نظر مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کا قیام تھا جس کا خواب انہو ں نے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا۔ گول میز کانفرنس کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ سے کئی ملاقاتیں کیں۔
اور اُن پر واضح کیا کہ سیاسی تنظیم اور آئیندہ کے سیاسی پروگرام ترتیب دینے کیلئے ان کا ہندوستان واپس آنا بہت ضروری ہے ۔ علامہ اقبال کے بے حد اسرار پر بالآخر قائداعظم ہندوستان واپس تشریف لائے اور 4 مارچ 1934 کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور یوں محمد علی جناح ؒ کے ہاتھوں لیگ کا احیاء عمل میں آیا۔
محمد ارشاد