اسلامی دہشت گردی سے نمٹنا اولین ترجیح ہے فرانسیسی صدر
فرانس میں مذہب کے ٹھیکے داروں اور ان کے خوف کی کوئی جگہ نہیں، ایمینوئیل ماکروں
فرانسیسی صدر ایمینوئل ماکروں کا کہنا ہے کہ ''اسلامی دہشت گردی'' سے نمٹنا ان کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پیرس میں 200 سے زائد سفراء کے اجلاس سے خطاب میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ غیر مستحکم اور تیزی سے منقسم ہوتی دنیا میں فرانس کو ابھرتی ہوئی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اسلامی دہشت گردی'' کے خلاف جنگ ان کی اولین ترجیح ہے جب کہ فرانس میں مذہب کے ٹھیکے داروں اور ان کے خوف کی کوئی جگہ نہیں۔ فرانسیسی صدر نے اپنے خطاب میں صرف دہشت گردی کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے بار بار اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا۔
ایمینوئیل ماکروں کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کے ممالک نے اپنے اپنے علیحدہ کیمپ قائم کرلیے جو کہ ایک غلط حکمت عملی ہے، فرانس کی سفارت کاری کی طاقت یہی ہے کہ وہ تمام فریقین سے بات کرنا چاہتا ہے چاہے وہ سعودی عرب ہو یا ایران۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروپس کی مالی معاونت کو ختم کرنے کی حکمت عملی پر غور کے لیے 2018 کے اوائل میں فرانس ایک کانفرنس کی میزبانی بھی کرے گا۔
خیال رہے کہ فرانس میں 2015 کے بعد سے متعدد دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں جن میں اب تک 230 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں اور وہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا یورپی ملک ہے۔
رواں برس مئی میں فرانس کے صدر منتخب ہونے والے ایمینوئیل ماکروں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرانس کے کردار میں اضافہ کریں گے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں تمام فریقین سے دہشت گردی سے نمٹنے میں معاونت کے لیے بات چیت کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پیرس میں 200 سے زائد سفراء کے اجلاس سے خطاب میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ غیر مستحکم اور تیزی سے منقسم ہوتی دنیا میں فرانس کو ابھرتی ہوئی طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اسلامی دہشت گردی'' کے خلاف جنگ ان کی اولین ترجیح ہے جب کہ فرانس میں مذہب کے ٹھیکے داروں اور ان کے خوف کی کوئی جگہ نہیں۔ فرانسیسی صدر نے اپنے خطاب میں صرف دہشت گردی کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے بار بار اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا۔
ایمینوئیل ماکروں کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کے ممالک نے اپنے اپنے علیحدہ کیمپ قائم کرلیے جو کہ ایک غلط حکمت عملی ہے، فرانس کی سفارت کاری کی طاقت یہی ہے کہ وہ تمام فریقین سے بات کرنا چاہتا ہے چاہے وہ سعودی عرب ہو یا ایران۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد گروپس کی مالی معاونت کو ختم کرنے کی حکمت عملی پر غور کے لیے 2018 کے اوائل میں فرانس ایک کانفرنس کی میزبانی بھی کرے گا۔
خیال رہے کہ فرانس میں 2015 کے بعد سے متعدد دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں جن میں اب تک 230 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں اور وہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا یورپی ملک ہے۔
رواں برس مئی میں فرانس کے صدر منتخب ہونے والے ایمینوئیل ماکروں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرانس کے کردار میں اضافہ کریں گے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں تمام فریقین سے دہشت گردی سے نمٹنے میں معاونت کے لیے بات چیت کریں گے۔