دل کا علاج مفت

اگر جنگی اخراجات اورغیر پیداواری اخراجات کم کردیں تو پورے ملک کے عوام کا مفت علاج کیا جاسکتا ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

انسان کو جینے کے لیے سب سے پہلے غذا اور علاج چاہیے، اگر کسی کے پاس کھانے کچھ نہیں تو وہ چل پھر نہیں سکے گا اور اگر بیمار ہوجائے تو جبتک اس کا علاج نہ ہوجائے اسے کوئی چیزاچھی نہیں لگے گی، یہاں تک کے کھانا بھی۔کوئی بھی بیماری ہو تو انسان کھانا پینا بند نہ بھی کرے توکھانے کی مقدارکم ہوجاتی ہے۔ دورجدید میں جدید طریقہ علاج اور معالجے ہوتے ہیں جب کہ دور قدیم میں جڑی بوٹیوں سے علاج ہوتا تھا۔

آج بھی جنگلوں میں جانور اپنا علاج خودکرتے ہیں، اگر ہاضمہ خراب ہو تو وہ مخصوص درخت کے پتے یا چھال کھاتے ہیں۔ ایک کتے کو جب ایک خاتون سائنسدان نے درخت کی چھال کھاتے ہوئے دیکھا تو اس چھال کو لیبارٹری میں لے جاکر ٹیسٹ کیا تو پتہ چلا کہ اس میں کیلشم تھا اور وہ کتا اس لیے اسے کھا رہا تھا کہ آنے والی سردی کے موسم میں اسے ہڈیوں میں درد نہ ہو۔

اسی طرح ایک اور سائنس دان نے ایک ہتھنی کو زچگی سے قبل ایک مخصوص درخت کے پتے کھاتے ہوئے دیکھا جسے معمول کے طور پر ہاتھی نہیں کھاتے اور اسی افریقی ملک میں ایک خاتون بھی ا سی درخت کا پتہ زچگی سے قبل کھا رہی تھی، اس لیے کہ وہ بھی زچگی کی درد سے محفوظ رہے، مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں صحت سے زیادہ جنگی بجٹ ہوتے ہیں ۔ دنیا میں سب سے بڑی پیداوار اور اخراجات اسلحے پر ہوتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں تو سب سے کم بجٹ صحت کا اور سب سے زیادہ بجٹ دفاعی ہے۔ ان ملکوں میں زچگی کے دوران ایک لاکھ میں سے چار سو خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزکراچی یعنی دل کے اسپتال میں روزانہ دو ہزار سے زیادہ دل کے مریض صرف او پی ڈی میں آتے ہیں۔ یہ تو میں نے بہت محتاط اندازے سے کم کرکے بتا یا۔ یہاں پہلے ایمرجنسی میں چیک اپ کروانے کے لیے دس روپے اور پھر چند ماہ قبل سوروپے، اینجیوگرا فی کے لیے دس ہزار رو پے، ایکوکے لیے چارسو اور تھیلم کے لیے سات سو روپے، لیپیڈ پرو فائل کے لیے چھ سوروپے، دوا لینے کے لیے سو روپے کا ٹوکن لینا پڑتا تھا اور اینجوپلاسٹی کے لیے ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ روپے دینا پڑتا تھا۔

لیکن این آئی سی وی ڈی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم قمرکی خصوصی توجہ کی وجہ سے ٹوکن سے لے کر اینجیو پلاسٹی تک مفت کر دی جاتی ہے۔ میں نے خود ایکوکروایا توکوئی فیس نہیں لی گئی،دوا کے لیے کوئی ٹوکن لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ میرے ایک دوست ایاز خان کی اینجیو پلاسٹی ہوئی، اگر رقم سے اسٹنٹ ڈلوانے ہوتے تو ڈاکٹرکا کہنا ہے کہ ساڑھے تین لاکھ روپے لگتے مگر ان کی اینجیو پلاسٹی مفت میں ہوئی۔ میرے خیال میں یہ بہت بڑا اچھا قدم ہے۔ روزانہ اس اسپتال میں اوسطاً 60 افراد کی اینجیو پلاسٹی اور15 مریضوں کا بائی پاس مفت میں ہوتا ہے۔


اس کے علاوہ اس دل کے اسپتال نے اپنی سر پرستی میں کراچی شہرکے چار علاقوں میں جن میں ملیر، بلدیہ ٹاؤن،گلشن اقبال اور شاہ فیصل کالونی میں سینے میں کسی قسم کی درد کا فوری مفت چیک اپ کروانے کا اختیار دیا ہے، اس سے قبل بائی پاس پچاس ہزار روپے میں اور اینجیو پلاسٹی کم ازکم ایک لاکھ روپے میں ہوتی تھی۔ اگر اتنا اچھا کام حکومت کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں اور وہ بھی ملک کے ایک شہر میں کرسکتی ہے تو ملک بھرمیں بھی کرسکتی ہے۔ بشرطیکہ ہم ترجیح دینے لگیں۔

اگر جنگی اخراجات اورغیر پیداواری اخراجات کم کردیں تو پورے ملک کے عوام کا مفت علاج کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور اچھا کام پیشینٹ ایڈ فاؤنڈیشن کے تعاون سے جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) میں بریسٹ کینسر کے علاج کے لیے ریڈیولوجی بلڈنگ قائم ہوئی ہے۔ جس کی سر پرستی ڈاکٹر سلیم سومرو (سرجن) کررہے ہیں ۔2014ء میں اس کی عمارت کی تعمیرکر لی گئی تھی۔ دوسری منزل میں میموگرافی مشین، اگفاسی آر سسٹم ہے اور بریسٹ ڈوپلرالٹراساؤنڈ بھی موجود ہے۔ ستمبر 2015ء سے ماہانہ 350 مریضوں کی مفت تشخیص اور علاج کیا جارہا ہے۔ دنیا کے صرف 48 ملکوں میں اس کا علاج ہے جب کہ صرف چند ملکوں میں مفت علاج ہوتا ہے جن میں سے ایک پاکستان ہے۔

پاکستان جیسے ملک جہاں ایشیا میں سب سے زیادہ اس امراض میں خواتین مبتلا ہیں ہر سال 90000 ہزارخواتین میں سے 40000 خواتین جان سے جاتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق نو میں سے ایک خاتون اس مرض میں مبتلا ہیں جن کی عمریں چالیس سال سے اوپر ہوتی ہیں۔ ابتدائی تشخیص کے لیے ابھی مزید 1.5تیسلا ایم آر آئی یو نٹ اور پی ای ٹی، سٹی اسکین کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو رعشہ ہے، جس کا 'گامانائف مشین' کے ذریعے صرف ایک نشست کے دو تین گھنٹوں میں اس کا علاج ہو رہا ہے، اگرکچھ ڈاکٹرز اور ادارے اپنی ذاتی یا اجتماعی کوششوں سے محدود ہی سہی اچھے کام انجام دے سکتے ہیں تو پھر ملک بھر میں کیوں نہیں؟

عوام کی آزادانہ کاوشوں سے دنیا بھر میں بہترکام انجام دیے جا رہے ہیں مگر ریاستیں اسلحہ سازی اور اس کی تجارت میں لگی ہوئی ہیں۔اس دنیا میں روزانہ تقریبا ایک لاکھ افراد بیماریوں اور غذائی قلت سے مررہے ہیں جب کہ تھوڑے سے لوگ دوسروںکے خون پسینے پر پل رہے ہیں۔سرمایہ دارا نہ نظام کی یہ برائی نہیں بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ جہاں سرمایہ داری نہیں ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔

ہم عالمی سرمایہ داروں سے یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیوبا میں ہیپٹائٹس، ایڈز اورکینسر کی بیماری کیوں نہیں ہے؟ پاکستان میں جب 2005ء میں کشمیر اور کے پی میں زلزلہ آ یا تھا توکیوبا کے ڈاکٹر سب سے زیادہ یعنی 2600 کی تعداد میں آئے تھے، انھوں نے گیارہ لا کھ مریضوں کا علاج کیا، جاتے جاتے ابتدائی علاج کے لیے 34 اسپتال قائم کرگئے اور 500طلبہ کو میڈیسن پڑھانے ساتھ لے گئے۔ وہ یہ پیش کش کرگئے کہ ہر سال ہم پا کستان کے 500 طلبہ کو مفت طب کی تعلیم دیں گے۔

اب یہ الگ بات ہے کہ ہمارے حکمران نے کیوں اس کا تسلسل بر قرار نہ رکھ پائے۔کیوبا ایک ایسا ملک ہے جہاں کی کل آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے، سو فیصد لوگ خواندہ ہیں، تعلیم کا بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 11 فیصد ہے۔ ہاں مگر سرمایہ داری اور جاگیرداری نہیں ہے،کوئی ایٹم بم ہے اور نہ کوئی بلیسٹک میزائل۔یہ سب سوشلزم کے نظام کی وجہ سے ہیں۔
Load Next Story