غریب کے لیے مسائل میں اضافہ

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کسی نے بھی عوام کی حالت نہ سدھاری، غریب کی طرف نگاہ ہی نہیں گئی۔

بعض لوگ گزرے وقت کو اچھا اور موجودہ وقت کو برا کہتے ہیں۔ دراصل ہم لوگوں میں خود اعتمادی کا فقدان ہے اپنے اوپر تو اعتماد ہی نہیں ہوتا دوسروں پر اعتماد زیادہ رہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم ابھی تک جھوٹ اور سچ میں فرق پیدا نہ کرپائی۔ یہی وجہ ہے اگر جو شخص جھوٹ کہہ رہا ہے اس کو سچ مان کر عمل شروع کردیتے ہیں۔ جھوٹ اس قدر بولا گیا ایسا لگتا ہے تقریباً سارے عوام نے اس کو سچ مان لیا اب ان کو جھوٹ سچ لگتا ہے۔ ہر غریب انسان اپنی مجبوریوں میں الجھ گیا ہے پہلی مجبوری تو اس کی غربت ہے۔

غربت کے ساتھ بے شمار مجبوریاں جنم لیتی ہیں۔ تعلیم، علاج معالجہ، اچھی خوراک، رہائش، اچھی زندگی اور نہ جانے کیا کیا۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کسی نے بھی عوام کی حالت نہ سدھاری، غریب کی طرف نگاہ ہی نہیں گئی۔ زندگی میں کبھی انھوں نے ان کی اولادوں نے غربت نہ دیکھی، لیکن اپنا مطلب حاصل کرنے کے لیے غریب عوام کا سہارا لیتے ہیں۔ پھر ان کو غریب بے کس، بے بس، مجبور نظر آنے لگتا ہے، جب مطلب پورا ہوجاتا ہے تو کیا غریب کون غریب کہاں کا غریب سب بھول جاتے ہیں۔ یاد جب آتا ہے تب ان کا مطلب، مقصد غرض ہوتی ہے اس کے بعد وہ اور ان کا خاندان دوست احباب یا چمچے کرچھے اس کے علاوہ اور دوسرے سے تو دور کا واسطہ نہیں رہتا۔

ایک اہم بات یہ بھی چند سیاسی جماعتوں میں ذاتی اغراض و مقاصد ایک ہیں اس میں وہ ایک دوسرے کے ہم نوالہ ہم پیالہ ہیں۔ عوام کو دکھانے کے لیے ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تاکہ عوام کی ہمدردی حاصل رہے، اصل حقائق کسی کو نہ معلوم ہوں کہ ہم اندرون خانہ ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں۔ شاید یہ اس لیے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں جب ایک شخص پر کرپشن ثابت ہوگی اس کو سزا ملے گی تو دوسرا بھی نہیں بچے گا۔ کیونکہ کرپشن تو ان دونوں تینوں نے کی ہے۔ اکثریت کا قلع قمع ہوگا بچنے کا واحد راستہ ہے ایک دوسرے کی برائی کریں اور جمہوریت کا نام لے کر مدد کریں۔ عوام کو خوب بے وقوف بنایا گیا اور ابھی بھی بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔

ملک و ملت کی فلاح و تعمیر سے شاید دور کا بھی واسطہ نہیں پورے ملک کو خرابی کی طرف لے جا رہے ہیں صرف اپنے اغراض و مقاصد کی خاطر۔ نظر یہ آرہا ہے تمام جرائم پیشہ افراد اپنی بچت چاہ رہے ہیں، اگر کڑا احتساب ہوگیا تو ان لوگوں کا جینا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔ پس پردہ بیرون ملک فرار ہونے کی تیاری میں کوشاں ہیں۔

ایک بات اور سننے میں آئی چند لوگوں نے کہا حکومت ان لوگوں کو باہر جانے دے یہ باہر نکل گئے تو ہم ان کی پارٹی توڑ لیں گے۔ جب کہ یہ خام خیالی ہے پھر بے وقوف بنانا اور سبز باغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ان تمام کو نوشتہ دیوار صاف نظر آرہا ہے انھیں معلوم ہوگیا ہے کڑا احتساب ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ یہ آخری حد تک جانے کو تیار ہیں حد تمام ہے یہ پاگل پن تک جاسکتے ہیں اس سے اور کیا ہوگا ملک و ملت کے استحکام کو بھول کر اپنے استحکام پر کارفرما ہیں۔

میرے خیال میں بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں ملک میں انارکی پیدا کرکے کیا حاصل ہوگا؟ کیسی سیاست ہے جو ہنگامے کروائے انارکی پھیلائے یہ بات صاف ظاہر ہے پس پردہ کوئی اور ہے وہ جو ہدایات صادر فرماتا ہے ویسا ہی کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کو ایک برا خاکہ اپنے لیے نظر آرہا ہے کیا کریں مشیر بھی ایسے جیسے یہ خود جیسا ان کا ذہن یا جو یہ چاہتے ہیں وہ مشیر وہی کچھ بتاتے مشورہ دیتے ہیں۔ کہیں ایسا پریشان ہوجاتے ہیں جو وقت میں کرنا ہوتا ہے پریشانی گھبراہٹ میں بھول جاتے ہیں۔

وقت گزرنے کے بعد ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں جو بے مقصد ہیں۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا راجپوت کی تلوار میان سے باہر نہ آسکی میان میں رہی۔ لیکن تاریخ میں ایسے کوئی راجپوت نہیں جن کی تلوار برے حالات میں میان میں رہی ہو۔ پہلے راجپوتوں نے تلواریں نکالی ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔


اگر کسی کی اعلیٰ کارکردگی بھی ہوتی ہے اور کرپشن اس کا منظر عام پر آجائے تو وہ کارکردگی بھی دب جاتی ہے۔ یہاں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔

دل میں دیا جلتا نہیں ہم کیا کریں
اب تنہا سفر کٹتا نہیں ہم کیا کریں

بات بالکل ایسی ہے جب کوئی شخص تنہا ہوکر رہ جاتا ہے تو اس کو اپنا سابقہ وقت بہت تنگ کرتا ہے وہ عزت و عظمت، جاہ و جلال لیکن وہ خود بھی شاید سمجھ چکے ہیں کہ عوام کے دکھی دل میں اب ان کا کوئی جھوٹ، فریب، مکاری، عیاری کو چراغ روشن نہیں ہوگا۔ ہر شخص کو آزادی ہے لیکن ایسی آزادی نہیں جس سے ملک کے استحکام پر قدغن لگے۔

ہمارے ملک میں پہلے سے ہی مسائل کی بھرمار ہے یہ سارے مسائل ان غریبوں کے لیے ہیں جو غربت کے باعث مسائل حل نہیں کرسکتے بلکہ اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بیماری کا مسئلہ جو پورے گھرکو متاثرکر دیتا ہے سرکاری اسپتال جاتے ہیں لمبی قطار ہوتی ہے، کافی دیر بعد ڈاکٹر کے پاس نمبر آتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایک ڈاکٹر سیکڑوں مریضوں کو کتنا وقت دے گا وہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ جس قدر مریض قطاروں میں ہیں ان سب کو اپنے مقررہ وقت کے درمیان چیک کرلیا جائے۔ وہ ہر مریض کو شاید ایک یا دو منٹ دے سکتا ہے اس میں مریض جو بتاتا ہے وہ سن کر فوری دوا لکھ دیتا ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کم وقت میں مریض اپنا پورا حال نہیں بتا سکتا مزید اس کی جو چیکنگ ہوتی ہے وہ بھی نہیں ہو پاتی۔ یہ اس کا نصیب ہے اس کا اگر معمولی مرض ہے تو دور ہوجاتا ہے لیکن اگر کوئی بڑا مرض جس کا باقاعدگی سے دوا کا استعمال، غذا کا استعمال، پھر رہائش بھی ایسی ہے جہاں صفائی نہ ہو یہ تو ایک اہم مسئلہ ہے پورا شہر صفائی کا شکار ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے مرض بڑھتا ہے دوا شاید پابندی سے نہیں کھا سکتا کھانے میں پرہیز نہیں کرتا وہ تو صحیح نہیں ہوتا بلکہ گھر کے دوسرے کئی اس کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ چند بیماریاں ایسی میں جن کو چھوت کی بیماری کہا جاتا ہے یعنی ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھانسنے، تھوکنے گنجان رہائش گاہ میں رہنے سے ایسی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے ایسی مہلک یا عام بیماریاں زیادہ تر غریب لوگوں، غریب آبادی میں ملتی ہیں۔ میں نے خود دیکھا ایک ہفتہ دوا کھائی آرام محسوس ہوا تو دوا ترک کردی بلکہ ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں گئے۔ تھوڑے دن بعد پھر بخار، کھانسی یا جو اندر مہلک بیماری پرورش پا رہی ہے اس کا ابھار ہوتا ہے۔ بڑی مشکل وہی ہے جو میں نے عرض کیا۔

پہلی بات تو یہی ہے علاج معالجہ پر خاص توجہ نہیں، کئی روز بخار کے بعد مریض جاکر عام ڈاکٹر سے دوا لیتا ہے دو دن بعد بخار نہیں رہتا۔ تین دن دوا کھانے کے بعد دوا چھوڑ دیتا ہے۔ مریض کو نہیں معلوم کہ اس کو ایک مہلک بیماری مثلاً تپ دق، دیگر اندرونی بیماریاں ہوتی ہیں۔ مشکل یہی ہے کہ وہ باضابطہ ڈاکٹر کے پاس جائے، ایکسرے ہو، ای سی جی، اگر ہائی بلڈ پریشر ہوگیا ہے تو وہ صحیح چیک ہو اگر چیک بھی ہوگیا تو روز دوا استعمال نہیں کرپاتے۔
Load Next Story