’’یہ بدشگونی ہے۔۔۔‘‘

حد سے زیادہ شک و شبہ میں مبتلا رہنا اور وہم کا شکار ہوجانا یہ کم زور نفسیات کی جانب نشان دہی کرتا ہے۔

رات کے آخری پہر ڈراؤنا خواب نظر آجائے تو اسے ممکنہ حادثے کا اشارہ تصور کیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

یوں تو خواتین کے مزاج میں وہم اور وسوسوں کا ڈیرا ہمیشہ سے رہا ہے۔لیکن ہمارے یہاں بہت سے فرسودہ رسم و رواج بہت سختی سے اس طرح رائج ہیں گویا ان کی خلاف ورزی بہت سنگین ہو جائے گی،خوشی کا موقع ہو یا پھر غمی کا، ہماری خواتین نیک شگونی اور بدشگونی کے چکر میں پڑکر نہ صرف خود پریشان ہوتی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی مشکل اور پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

خوشی کا موقع ہو تو ہر پل اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جو بد شگونی کے زمرے میں آئے، بہت سے گھرانوں میں یہ رسم ہوتی ہے کہ لڑکی جب مایوں بیٹھ جائے گی تو وہ گھر کی دہلیز نہیں پھلانگے گی، خواہ کوئی کوئی ایمرجینسی ہی کیوں نہ ہو، خدانخواستہ دلہن کی طبیعت خراب ہو جائے تو ڈاکٹر کے پاس جانے سے بھی کترایا جاتا ہے۔ اگر کسی کے گھر میں فوتگی ہو جائے تو اس گھر کا کوئی شخص کسی شادی والے گھر میں نہ جائے، جب دلہن کو ابٹن لگانے کا موقع آتا ہے تو اس سے طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین کو دور رکھا جاتا ہے، صرف سہاگنیں یا کنواری لڑکیاں یہ کام انجام دیتی ہیں۔

اکثر گھرانوں میں یہ بھی رسم رائج ہے کہ اگر دلہن تیار ہونے کے لیے پارلر روانہ ہوگئی ہے تو کسی بھی مجبوری کی بنا پر اگر گھر واپس آنا پڑے تو یہ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اگر شادی والے گھر میں کسی بچے یا ملازم کے ہاتھ سے دودھ گر جائے تو یہ بھی کسی انجانے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے، جب کہ کسی شیشے کی چیز کے ٹوٹنے کو اچھا شگون سمجھا جاتا ہے۔ شادی کی فضول اور بے کار رسموں کو بھی بڑی پابندی کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے، تاکہ کوئی بدشگونی نہ ہو۔ دلہن رخصت ہو کر آجائے اور اگر باہر کوئی کتا بھونک رہا ہو یا پھر بلی رو رہی ہو تو پھر اسے نحوست قرار دیا جاتا ہے۔ بعض گھرانوں میں شادی کے بعد اگر لڑکی اپنے میکے کے سات پھیرے نہ لگائے تو اسے بھی بہت برا شگون سمجھا جاتا ہے۔ ایک سال تک نئی دلہن کو ہرا رنگ نہیں پہنایا جاتا تاکہ وہ سبز قدم ثابت نہ ہو۔

بچے کی ولادت کی خوشی میں بھی اس قسم کے مناظر نظر آتے ہیں۔ بعض گھرانوں میں نومولود کے بال ایک سال تک نہیں کاٹے جاتے۔ خواتین غمی کے موقع پر بھی شگون اور بدشگونی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ موت کے گھر میں تین دن تک صفائی نہیں کی جاتی، سوئم کی رسم کو اکثر گھرانے جمعرات یا ہفتے کو ادا کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول یہ دن موت والے گھر میں بھاری سمجھے جاتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سے دنوں کے حوالے سے اچھا یا برا سمجھنے کے خود ساختہ ایسے خیالات اور واہمے رائج ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر، بس ''بدشگونی'' کی صورت میں کسی عمل سے اس طرح گریز کیا اور یوں سدباب کا اہتمام کیا جاتا ہے، گویا ذرا سی چُوک ہوئی تو کوئی مصیبت آن پڑے گی۔


نئی دلہنوں کو موت کے گھر میں شرکت سے منع کیا جاتا ہے۔ عموماً مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے گھر سے باہر نہیں لے جایا جاتا کیوں کہ اسے موت کا کھانا تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے گھر میں لے جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدانخواستہ موت کے بادل اس کے گھر پر بھی منڈلانے لگے ہیں۔

روز مرہ زندگی میں بھی بیش تر خواتین اسی وہم میں مبتلا رہتی ہیں کہ کہیں ایسا کوئی کام یا بات نہ ہو جائے جس سے کسی بدشگونی کا احتمال ہو۔ مثلاً اگر کوئی گھر سے باہر جا رہا ہو تو پیچھے سے اسے آواز نہ دی جائے، راستے سے اگر کالی بلی گزر جائے تو اسے بھی بدشگون سمجھا جاتا ہے۔ بعض خواتین منگل اور بدھ کو اپنے ناخن نہیں کاٹتیں کیوں کہ ان کی سوچ کے مطابق اگر منگل یا بدھ کو ہاتھوں کے ناخن کاٹے جائیں تو خدانخواستہ وہ حادثاتی موت کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اگر کسی وجوہ کی بنا پر ہماری دائیں یا بائیں آنکھ پھڑکنے لگے تو اسے بھی خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگر رات کے آخری پہر کوئی ڈراؤنا خواب نظر آجائے تو اسے ممکنہ حادثے کا اشارہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو خاص طور پر خواتین کی نگاہ میں بدشگونی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

حد سے زیادہ شک و شبہ میں مبتلا رہنا اور وہم کا شکار ہوجانا یہ کم زور نفسیات کی جانب نشان دہی کرتا ہے، اور یہی وہم اور کچھ برا ہوجانے کا خوف ہمیں بدشگون اور اچھے شگون کی سوچ میں مبتلا کر دیتا ہے، جو ہمارے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی زندگیوں کو مشکل اور کٹھن بنا دیتا ہے۔

بدقسمتی سے آج کے دور میں بھی نیک بختی اور بدبختی کے یہ فرسودہ اور جاہلانہ تصورات دین کی طرح ہماری زندگیوں میں رائج ہیں اور بہ جائے ان کے خاتمے کے ان میں نت نئی چیزوں کا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، عجیب وغریب اور ناقابل فہم قسم کے ٹوٹکے سامنے آرہے ہیں جو خواتین کے اس وہمی مزاج سے بھر پور فایدہ اٹھاکر فقط اپنے نوٹ کھرے کر رہے ہیں۔

بہ حیثیت مسلمان ہمیں اپنی تقدیر پر ایمان رکھتے ہوئے اس ہی راہ کو اپنانا چاہیے جو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دکھائی ہے، ناکہ ان خرافات کو اپنی زندگیوں میں عقیدے اور ایمان کی حدتک شامل کرکے اپنی زندگیوں کو ایک غیر ضروری زحمت میں مبتلا کریں۔ جو ہوتا ہے من جانب اللہ ہوتا ہے ہماری زندگیوں میں پیش آنے والے واقعات ہماری تقدیر کا لکھا ہوتے ہیں جن سے انکار قطعاً ممکن نہیں البتہ کچھ حالات و واقعات ہماری کم عقلی اور حماقت کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں جن کی بدولت ہم نقصان اٹھاتے ہیں اور سارا قصور ہم کالی بلی، دودھ کے گر جانے یا پھر کسی اور بدشگونی پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ خواتین اپنے اس ہی مزاج کے باعث نہ صرف خواہ مخواہ کی کوفت اور اذیت میں مبتلا ہوتی ہیں بلکہ ان سے بچنے کے لیے الٹی سیدھی چیزوں میں اپنے پیسے برباد کر آتی ہیں۔
Load Next Story