دفتر ہو تو گھر جیسا
خواتین دوران ملازمت اپنی عزت نفس کے حوالے سے بھی حساس ہوتی ہیں اوراچھے ماحول کیلیے کم تن خواہ کی بھی پروا نہیں کرتیں۔
ملازمت کرنے والی خواتین کو اپنے دفتر کے ماحول کے حوالے سے خاصی فکرمندی کا سامنا ہوتا ہے، کیوں کہ گھر سے باہر نکلنے کے بعد خواتین کو یک سر ایک نئی دنیا کا سامنا ہوتا ہے، جتنے قسم کے لوگ، اتنی طرح کی سوچیں اور پھر ان کے مسائل۔
اس لیے اگر دفتری ماحول اچھا نہ ہو تو گھر سے دور روزانہ سات، آٹھ گھنٹے مسلسل ایک جگہ گزارنا ان کے لیے خاصا پریشان کن اور بعض حالات میں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ بہت سی خواتین محض ان ہی مسائل کی وجہ سے ملازمت تبدیل کرتی رہتی ہیں، کیوں کہ ان کے نزدیک وہ اپنے کام کے ضرور پیسے لے رہی ہیں لیکن اس کے لیے ناپسندیدہ چیزیں برداشت نہیں کرسکتیں۔
پیشہ ور خواتین کے ان ہی مسائل کے حوالے سے کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر دفتر کا ماحول بہت دل چسپ اور خوش گوار ہو تو خواتین کم تن خواہ کو بھی بہت زیادہ خاطر میں نہیں لاتیں، تاہم 35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کی نظر میں پرکشش تن خواہ اولیت رکھتی ہے۔ آسٹریلیا کی ایک کمپنی کی جانب سے کرائے جانے والے سروے میں ملازمت کے خواہش مند افراد سے پوچھا گیا کہ ''ملازمت کے لیے موافق ماحول اور بہترین ملازمت کو چند لفظوں میں بیان کریں۔'' 1200 سے زاید افراد نے اس سروے میں حصہ لیا، جس میں شامل زیادہ تر لڑکیوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ تن خواہ کو اہمیت نہیں دی اور لکھا کہ ''پیسے کے مقابلے میں دل چسپ ماحول زیادہ ضروری ہے۔''
لڑکیاں جب نوکری کے لیے گھر سے نکلتی ہیں تو ان کی نظر میں صرف پیسہ کمانا ہی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا بلکہ وہ جس جگہ ملازمت کے لیے جا رہی ہوتی ہیں، وہاں کا صاف ستھرا اور کام کرنے کے لیے ساز گار ماحول ان کو زیادہ لبھاتا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق وہ کم تن خواہ کے باوجود ایسے دفاتر یا اداروں میں کام کرنے کے لیے رضا مند ہیں، جہاں کے امور دل چسپی سے بھرپور ہوں یا اس جگہ کا ماحول تعمیری یا تخلیقی لحاظ سے ساز گار ہو۔ کچھ خواتین نے آجران کی جانب سے اپنے لیے لچک دار حکمت عملی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
خواتین دوران ملازمت اپنی عزت نفس کے حوالے سے بھی خاصی حساس ہوتی ہیں۔ مالکان اوراعلا انتظام کار کا اخلاق اور ہم دردی وہاں کے کام کرنے والوں کی فرض شناسی اور ایمان داری کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ دفاتر کا بہتر ماحول وہاں کام کرنے والوں کی صلاحیتوں کو عروج تک پہنچا دیتا ہے، جو ظاہر ہے کسی بھی کمپنی کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ 35 سال کے بعد خواتین اور شادی شدہ عورتوں کی ترجیحات میں تبدیلی آ جاتی ہے اور ان کی نظر میں پیسے اور دل چسپ ماحول کے مقابلے میں اپنے گھر کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔ بڑی عمر کی خواتین نے سوال نامے کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایسے دفاتر میں نوکری کرنے کو ترجیح دیں گی، جہاں سے ان کے گھر کا فاصلہ کم ہو یا جہاں ان کے کام کے اوقات کا دورانیہ مخصوص ہو۔
یہ وجہ بھی ایک سطح پر ماحول سے ہی جڑی ہے کیوں کہ طویل فاصلہ طے کرتے سمے انہیں زیادہ وقت سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے گزارنا پڑتا ہے، نیز وہ گھر جیسے ماحول کو پسند کرنے کے باوجود گھر کا متبادل نہیں سمجھتیں اور زیادہ سے زیادہ وقت گھر میں گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں مردوں کی طرح پورے آٹھ گھنٹوں کے بہ جائے آدھا یا اس سے کچھ کم وقت جائے ملازمت پر گزارنا پڑے۔ شاید یہی وجہ ہے ہمارے یہاں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بہ خوشی تدریس سے وابستہ ہوجاتی ہے کیوں کہ اسکولوں کا دورانیہ چار سے پانچ گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔
خواتین ایسی جگہوں پر ملازمت کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، جہاں انہیں اپنے کام میں نئے چیلنجز کا سامنا ہو، ان کی خدمات کو سراہا جائے، ان کے ساتھ دُہرا معیار نہ اپنایا جائے۔ وہ ایسے دفاتر میں کام کرنا پسند نہیں کرتیں، جہاں مردوں اور عورتوں کو روزگار کے یک ساں مواقع میسرنہ ہوں اور صنف نازک کو دوسرے درجے کا ملازم سمجھا جاتا ہو۔ انہیں دفتر کے ماحول میں مکمل تحفظ کا احساس ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ بلا خوف و خطر اور بلا امتیاز اپنے پیشہ ورانہ امور انجام دے سکیں۔
پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والی لڑکیوں کے ذہن میں کام ،کام اور کام میں ترقی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، جب کہ اپنے گھر اور خاندان کی فکر زیادہ تر 25 سال کی عورتوں میں پائی جاتی ہے، جو 35 سال تک شدت اختیار کر جاتا ہے۔
مخصوص ذہنیت کے لوگ اپنے دفاتر میں بھی صنف نازک کو خود سے کم تر مخلوق کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے بہترین کاموں کی حوصلہ افزائی کرنا تو کجا انہیں ان کے جائز حق سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ دفاتر میں جاری یہ ساری چیزیں خواتین کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہیں۔ پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے انہیں آج بھی سب سے زیادہ مسائل دفتری ماحول کے حوالے سے ہی لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کی تخلیقی یا تعمیری صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ جلد ہی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اس لیے اگر دفتری ماحول اچھا نہ ہو تو گھر سے دور روزانہ سات، آٹھ گھنٹے مسلسل ایک جگہ گزارنا ان کے لیے خاصا پریشان کن اور بعض حالات میں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ بہت سی خواتین محض ان ہی مسائل کی وجہ سے ملازمت تبدیل کرتی رہتی ہیں، کیوں کہ ان کے نزدیک وہ اپنے کام کے ضرور پیسے لے رہی ہیں لیکن اس کے لیے ناپسندیدہ چیزیں برداشت نہیں کرسکتیں۔
پیشہ ور خواتین کے ان ہی مسائل کے حوالے سے کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر دفتر کا ماحول بہت دل چسپ اور خوش گوار ہو تو خواتین کم تن خواہ کو بھی بہت زیادہ خاطر میں نہیں لاتیں، تاہم 35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کی نظر میں پرکشش تن خواہ اولیت رکھتی ہے۔ آسٹریلیا کی ایک کمپنی کی جانب سے کرائے جانے والے سروے میں ملازمت کے خواہش مند افراد سے پوچھا گیا کہ ''ملازمت کے لیے موافق ماحول اور بہترین ملازمت کو چند لفظوں میں بیان کریں۔'' 1200 سے زاید افراد نے اس سروے میں حصہ لیا، جس میں شامل زیادہ تر لڑکیوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ تن خواہ کو اہمیت نہیں دی اور لکھا کہ ''پیسے کے مقابلے میں دل چسپ ماحول زیادہ ضروری ہے۔''
لڑکیاں جب نوکری کے لیے گھر سے نکلتی ہیں تو ان کی نظر میں صرف پیسہ کمانا ہی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا بلکہ وہ جس جگہ ملازمت کے لیے جا رہی ہوتی ہیں، وہاں کا صاف ستھرا اور کام کرنے کے لیے ساز گار ماحول ان کو زیادہ لبھاتا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق وہ کم تن خواہ کے باوجود ایسے دفاتر یا اداروں میں کام کرنے کے لیے رضا مند ہیں، جہاں کے امور دل چسپی سے بھرپور ہوں یا اس جگہ کا ماحول تعمیری یا تخلیقی لحاظ سے ساز گار ہو۔ کچھ خواتین نے آجران کی جانب سے اپنے لیے لچک دار حکمت عملی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
خواتین دوران ملازمت اپنی عزت نفس کے حوالے سے بھی خاصی حساس ہوتی ہیں۔ مالکان اوراعلا انتظام کار کا اخلاق اور ہم دردی وہاں کے کام کرنے والوں کی فرض شناسی اور ایمان داری کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ دفاتر کا بہتر ماحول وہاں کام کرنے والوں کی صلاحیتوں کو عروج تک پہنچا دیتا ہے، جو ظاہر ہے کسی بھی کمپنی کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ 35 سال کے بعد خواتین اور شادی شدہ عورتوں کی ترجیحات میں تبدیلی آ جاتی ہے اور ان کی نظر میں پیسے اور دل چسپ ماحول کے مقابلے میں اپنے گھر کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔ بڑی عمر کی خواتین نے سوال نامے کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایسے دفاتر میں نوکری کرنے کو ترجیح دیں گی، جہاں سے ان کے گھر کا فاصلہ کم ہو یا جہاں ان کے کام کے اوقات کا دورانیہ مخصوص ہو۔
یہ وجہ بھی ایک سطح پر ماحول سے ہی جڑی ہے کیوں کہ طویل فاصلہ طے کرتے سمے انہیں زیادہ وقت سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے گزارنا پڑتا ہے، نیز وہ گھر جیسے ماحول کو پسند کرنے کے باوجود گھر کا متبادل نہیں سمجھتیں اور زیادہ سے زیادہ وقت گھر میں گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں مردوں کی طرح پورے آٹھ گھنٹوں کے بہ جائے آدھا یا اس سے کچھ کم وقت جائے ملازمت پر گزارنا پڑے۔ شاید یہی وجہ ہے ہمارے یہاں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بہ خوشی تدریس سے وابستہ ہوجاتی ہے کیوں کہ اسکولوں کا دورانیہ چار سے پانچ گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔
خواتین ایسی جگہوں پر ملازمت کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، جہاں انہیں اپنے کام میں نئے چیلنجز کا سامنا ہو، ان کی خدمات کو سراہا جائے، ان کے ساتھ دُہرا معیار نہ اپنایا جائے۔ وہ ایسے دفاتر میں کام کرنا پسند نہیں کرتیں، جہاں مردوں اور عورتوں کو روزگار کے یک ساں مواقع میسرنہ ہوں اور صنف نازک کو دوسرے درجے کا ملازم سمجھا جاتا ہو۔ انہیں دفتر کے ماحول میں مکمل تحفظ کا احساس ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ وہ بلا خوف و خطر اور بلا امتیاز اپنے پیشہ ورانہ امور انجام دے سکیں۔
پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والی لڑکیوں کے ذہن میں کام ،کام اور کام میں ترقی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، جب کہ اپنے گھر اور خاندان کی فکر زیادہ تر 25 سال کی عورتوں میں پائی جاتی ہے، جو 35 سال تک شدت اختیار کر جاتا ہے۔
مخصوص ذہنیت کے لوگ اپنے دفاتر میں بھی صنف نازک کو خود سے کم تر مخلوق کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے بہترین کاموں کی حوصلہ افزائی کرنا تو کجا انہیں ان کے جائز حق سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ دفاتر میں جاری یہ ساری چیزیں خواتین کی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہیں۔ پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے انہیں آج بھی سب سے زیادہ مسائل دفتری ماحول کے حوالے سے ہی لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کی تخلیقی یا تعمیری صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا اور وہ جلد ہی اکتاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔