معصوم حنا امرتسر جیل سے رہائی کی منتظر
سادہ دل 65 سالہ رشیدن نے وہ بیگ نسرین سے لے لیا جس سے دوران چیکنگ منشیات برآمد ہوگئی
اسپین میں جمہوریت کا دفاع کرتے ہوئے جرمن فوجوں سے لڑنے اور جرمن فوجیوں کے قیدخانے میں موت کی سزا پانے والے انقلابی ادیب جیولیس فیوچک نے کہیں لکھا ہے کہ صحافت تھکا دیتی ہے۔ بلاشبہ جیولیس فیوچک نے صداقت سے کام لیتے ہوئے یہ جملہ تحریرکیا ہے۔ البتہ ہم اس جملے میں اتنا اضافہ ضرور کردیتے ہیں کہ صحافت اکثر رُلابھی دیتی ہے۔ فقط شرط یہ ہے کہ صحافی حساس دل رکھتا ہو۔ چنانچہ ذیل میں جو داستان میں بیان کرنے جا رہا ہوں ممکن ہے اس داستان کو پڑھنے کے بعداکثریت افسردہ ہوجائے مگر یہ سب لکھنے کا میرا مقصد یہ ہے کاش کسی انڈین یا پاکستانی حکمران کے دل میں انسانیت کا جذبہ بیدار ہو جائے اور اس بیدار جذبے کے تحت معصوم حنا کو امرتسر جیل سے رہائی نصیب ہوسکے۔
سوال یہ ابھرتا ہے کہ 10 برس 8 ماہ عمر والی معصوم حنا کب سے اسیر ہے تو عرض یہ ہے کہ ننھی حنا اپنی پیدائش سے بھی کوئی دو چار ماہ قبل ہی سے اسیر ہے۔ حنا کن حالات میں اسیر ہوئی تھوڑی تفصیل یہ ہے کہ حنا کی پیدائش سے کوئی دو چار ماہ قبل حنا کی والدہ فاطمہ و حنا کی خالہ ممتاز کے ساتھ جولائی 2006ء کو اپنی ماں یعنی حنا کی نانی رشیدن کے آبائی وطن انڈیا و آبائی شہر سہارنپور جا رہی تھیں کہ اٹاری میں سامان کی چیکنگ کے دوران حنا کی نانی رشیدن کے پاس جو بیگ تھا اس میں منشیات برآمد ہوئیں۔ حنا کی نانی رشیدن کا موقف تھا کہ یہ بیگ اس کی ہم سفر نسرین نے دیا ہے جس سے اس کی دوران سفر جان پہچان ہوئی ہے یہ کہہ کر اماں جی میرے پاس سامان ذرا زائد ہے اس لیے میرا یہ بیگ تھام لیں، مہربانی ہوگی۔
سادہ دل 65 سالہ رشیدن نے وہ بیگ نسرین سے لے لیا جس سے دوران چیکنگ منشیات برآمد ہوگئی۔ چنانچہ رشیدن نے مقدور بھر اپنے موقف کا دفاع کیا مگر تمام حالات و واقعات رشیدن کے خلاف تھے۔ یوں رشیدن کو اور ان کی دونوں بیٹیوں فاطمہ و ممتاز کو شریک مجرم قرار دے کر حراست میں لے لیا گیا۔ مقدمہ چلا مگر فیصلہ آنے سے قبل ہی حنا کی نانی کا انتقال ہوگیا۔ البتہ حنا کی والدہ و خالہ ممتازکو دس دس برس کی قید کی سزا سنا دی گئی اور امرتسر جیل میں اسیر کردیا گیا جہاں حنا کی پیدائش ہوئی نومبر 2016ء کو حنا کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کی سزائیں پوری ہوگئیں مگر حنا کی والدہ و خالہ ممتاز کو رہائی نصیب نہ ہوسکی کیونکہ اسیری کے ساتھ ساتھ ان دونوں خواتین کو دو دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ جرمانے کی اس رقم کی عدم ادائیگی ان خواتین کی رہائی میں رکاوٹ بن گئی البتہ سال 2017ء کے آغاز میں مشرقی پنجاب کے شہر پٹیالہ کی ایک سماجی رہنما و نیک دل خاتون ناد جوت کور نے حنا کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کے جرمانے کی رقم کل ملا کر چار لاکھ روپے ادا کردی مگر معصوم حنا سمیت ان خواتین کو رہائی نصیب نہ ہوسکی۔
البتہ آٹھ اپریل 2017ء کو یہ خبر تمام پاکستانی و الیکٹرانک میڈیا پر نشر و شایع ہوئی کہ فاطمہ و ممتاز کو ایک دو روز میں امرتسر جیل سے رہائی ملنے والی ہے۔ دو روز اس خبر کا خوب چرچا رہا مگر ان خواتین کو رہائی نصیب نہ ہوسکی۔ البتہ گوجرانوالہ میں مقیم فاطمہ کے شوہر سیف الرحمن و ان کے بچوں کی گفتگو مختلف نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہوتی رہی کہ جس میں سیف الرحمن و ان کے بچے فاطمہ و ممتاز کی رہائی کی خبر پر خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ کوئی چار ماہ پندرہ یوم کے بعد امرتسر جیل سے فاطمہ نے اپنے شوہر و بچوں سے گفتگو بذریعہ ٹیلی فون کرتے ہوئے یہ خوش خبری سنائی کہ اسے اس کی بہن ممتاز و معصوم حنا کو عنقریب امرتسر جیل سے فقط چند یوم میں رہائی مل جائے گی پھر امکان ہے کہ وہ عیدالاضحی اپنے شوہر و بچوں کے ساتھ منائے گی۔
اس موقعے پر ننھی حنا نے اپنے والد سیف الرحمن و اپنے بہن بھائیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں بس چند یوم بعد ہم سب ایک ساتھ ہوں گے ننھی حنا نے اس موقعے پر اپنی بہنوں ارم، صبا، نرگس و عائشہ کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائیوں غلام فرید و غلام صابر سے بھی خوب باتیں کیں۔ ننھی حنا اکثر پنجابی زبان میں ہی گفتگو کرتی ہے اور اسے تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے چنانچہ اس وقت بھی وہ امرتسر کی جیل میں بھی زیر تعلیم ہے جہاں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ اسے پنجابی میں بھی تعلیم دی جا رہی ہے۔
دوران گفتگو اسیر حنا نے اپنے والد سیف الرحمن سے فرمائش کی کہ ابو میرے لیے ہاتھ کی ایک گھڑی و بہت ساری ٹافیاں لے کر رکھنا میں فقط چند روز میں آپ کے پاس آجاؤں گی۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جو حقیقت میرے علم میں ہے وہ پوری سچائی کے ساتھ بیان کروں۔ سو وہ میں نے بیان کردی البتہ اس سچائی کے بیانیے کے دوران میں کتنا رویا یہ بات دیگر ہے۔ میرے پاس حنا کے والدین و بہن بھائیوں کی تصاویر بھی ہیں مگر حنا کے والد کا موقف ہے یہ تصاویر پریس میڈیا و الیکٹرانک میڈیا پر نہیں دینا۔ سو میں نے وعدہ کرلیا اور میں اپنا وعدہ ایفا کرنے پر مجبور ہوں۔
اب تمام تر بلکہ تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون کے آغاز میں پٹیالہ کی جس نیک دل خاتون نادجوت کور کا ذکر کیا ہے اس نیک دل خاتون نے 23 اگست 2017 کو ریڈیو وائس آف آمریکا کو گفتگو کرتے ہوئے یہ نوید سنائی ہے کہ معصوم حنا اس کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کو کسی بھی وقت رہائی نصیب ہوجائے گی کیونکہ بقول نادجوت کور کے پاکستانی قونصلر فوزیہ منظور نے معصوم حنا کی پاکستانی شہریت تسلیم کرلی ہے۔ انڈیا کی مرکزی حکومت نے ان خواتین کی رہائی کا اجازت نامہ (NOC) بھی جاری کردیا ہے البتہ نادجوت کور کے بیان کے مطابق اب فقط چندی گڑھ سے ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے NOC کا انتظار ہے جوکہ کسی بھی وقت مل جائے گا جس کے بعد حنا اس کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کو رہائی نصیب ہوجائے گی۔
عرض کرتا چلوں کہ اس وقت امرتسر جیل میں 53 پاکستانی اسیر ہیں جن پر معمولی نوعیت کے الزامات ہیں یعنی سفری کاغذات نامکمل انڈیا میں زائد المیعاد قیام و اسی نوع کے دیگر الزامات۔ البتہ ان اسیران میں ایسے پاکستانی بھی ہیں جوکہ اپنی سزائیں پوری ہونے کے باوجود قید ہیں۔ ہم پاکستانی وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کے بیرون ممالک سفر و قیام کے دوران ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا خیال رکھیں کیونکہ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کے باعث وہ بڑے بڑے مصائب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر میں امید ہے کہ معصوم حنا بہت جلد اپنے وطن میں ہوگی آپ بھی دعا کریں۔
سوال یہ ابھرتا ہے کہ 10 برس 8 ماہ عمر والی معصوم حنا کب سے اسیر ہے تو عرض یہ ہے کہ ننھی حنا اپنی پیدائش سے بھی کوئی دو چار ماہ قبل ہی سے اسیر ہے۔ حنا کن حالات میں اسیر ہوئی تھوڑی تفصیل یہ ہے کہ حنا کی پیدائش سے کوئی دو چار ماہ قبل حنا کی والدہ فاطمہ و حنا کی خالہ ممتاز کے ساتھ جولائی 2006ء کو اپنی ماں یعنی حنا کی نانی رشیدن کے آبائی وطن انڈیا و آبائی شہر سہارنپور جا رہی تھیں کہ اٹاری میں سامان کی چیکنگ کے دوران حنا کی نانی رشیدن کے پاس جو بیگ تھا اس میں منشیات برآمد ہوئیں۔ حنا کی نانی رشیدن کا موقف تھا کہ یہ بیگ اس کی ہم سفر نسرین نے دیا ہے جس سے اس کی دوران سفر جان پہچان ہوئی ہے یہ کہہ کر اماں جی میرے پاس سامان ذرا زائد ہے اس لیے میرا یہ بیگ تھام لیں، مہربانی ہوگی۔
سادہ دل 65 سالہ رشیدن نے وہ بیگ نسرین سے لے لیا جس سے دوران چیکنگ منشیات برآمد ہوگئی۔ چنانچہ رشیدن نے مقدور بھر اپنے موقف کا دفاع کیا مگر تمام حالات و واقعات رشیدن کے خلاف تھے۔ یوں رشیدن کو اور ان کی دونوں بیٹیوں فاطمہ و ممتاز کو شریک مجرم قرار دے کر حراست میں لے لیا گیا۔ مقدمہ چلا مگر فیصلہ آنے سے قبل ہی حنا کی نانی کا انتقال ہوگیا۔ البتہ حنا کی والدہ و خالہ ممتازکو دس دس برس کی قید کی سزا سنا دی گئی اور امرتسر جیل میں اسیر کردیا گیا جہاں حنا کی پیدائش ہوئی نومبر 2016ء کو حنا کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کی سزائیں پوری ہوگئیں مگر حنا کی والدہ و خالہ ممتاز کو رہائی نصیب نہ ہوسکی کیونکہ اسیری کے ساتھ ساتھ ان دونوں خواتین کو دو دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ جرمانے کی اس رقم کی عدم ادائیگی ان خواتین کی رہائی میں رکاوٹ بن گئی البتہ سال 2017ء کے آغاز میں مشرقی پنجاب کے شہر پٹیالہ کی ایک سماجی رہنما و نیک دل خاتون ناد جوت کور نے حنا کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کے جرمانے کی رقم کل ملا کر چار لاکھ روپے ادا کردی مگر معصوم حنا سمیت ان خواتین کو رہائی نصیب نہ ہوسکی۔
البتہ آٹھ اپریل 2017ء کو یہ خبر تمام پاکستانی و الیکٹرانک میڈیا پر نشر و شایع ہوئی کہ فاطمہ و ممتاز کو ایک دو روز میں امرتسر جیل سے رہائی ملنے والی ہے۔ دو روز اس خبر کا خوب چرچا رہا مگر ان خواتین کو رہائی نصیب نہ ہوسکی۔ البتہ گوجرانوالہ میں مقیم فاطمہ کے شوہر سیف الرحمن و ان کے بچوں کی گفتگو مختلف نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہوتی رہی کہ جس میں سیف الرحمن و ان کے بچے فاطمہ و ممتاز کی رہائی کی خبر پر خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ کوئی چار ماہ پندرہ یوم کے بعد امرتسر جیل سے فاطمہ نے اپنے شوہر و بچوں سے گفتگو بذریعہ ٹیلی فون کرتے ہوئے یہ خوش خبری سنائی کہ اسے اس کی بہن ممتاز و معصوم حنا کو عنقریب امرتسر جیل سے فقط چند یوم میں رہائی مل جائے گی پھر امکان ہے کہ وہ عیدالاضحی اپنے شوہر و بچوں کے ساتھ منائے گی۔
اس موقعے پر ننھی حنا نے اپنے والد سیف الرحمن و اپنے بہن بھائیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں بس چند یوم بعد ہم سب ایک ساتھ ہوں گے ننھی حنا نے اس موقعے پر اپنی بہنوں ارم، صبا، نرگس و عائشہ کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائیوں غلام فرید و غلام صابر سے بھی خوب باتیں کیں۔ ننھی حنا اکثر پنجابی زبان میں ہی گفتگو کرتی ہے اور اسے تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے چنانچہ اس وقت بھی وہ امرتسر کی جیل میں بھی زیر تعلیم ہے جہاں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ اسے پنجابی میں بھی تعلیم دی جا رہی ہے۔
دوران گفتگو اسیر حنا نے اپنے والد سیف الرحمن سے فرمائش کی کہ ابو میرے لیے ہاتھ کی ایک گھڑی و بہت ساری ٹافیاں لے کر رکھنا میں فقط چند روز میں آپ کے پاس آجاؤں گی۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جو حقیقت میرے علم میں ہے وہ پوری سچائی کے ساتھ بیان کروں۔ سو وہ میں نے بیان کردی البتہ اس سچائی کے بیانیے کے دوران میں کتنا رویا یہ بات دیگر ہے۔ میرے پاس حنا کے والدین و بہن بھائیوں کی تصاویر بھی ہیں مگر حنا کے والد کا موقف ہے یہ تصاویر پریس میڈیا و الیکٹرانک میڈیا پر نہیں دینا۔ سو میں نے وعدہ کرلیا اور میں اپنا وعدہ ایفا کرنے پر مجبور ہوں۔
اب تمام تر بلکہ تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون کے آغاز میں پٹیالہ کی جس نیک دل خاتون نادجوت کور کا ذکر کیا ہے اس نیک دل خاتون نے 23 اگست 2017 کو ریڈیو وائس آف آمریکا کو گفتگو کرتے ہوئے یہ نوید سنائی ہے کہ معصوم حنا اس کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کو کسی بھی وقت رہائی نصیب ہوجائے گی کیونکہ بقول نادجوت کور کے پاکستانی قونصلر فوزیہ منظور نے معصوم حنا کی پاکستانی شہریت تسلیم کرلی ہے۔ انڈیا کی مرکزی حکومت نے ان خواتین کی رہائی کا اجازت نامہ (NOC) بھی جاری کردیا ہے البتہ نادجوت کور کے بیان کے مطابق اب فقط چندی گڑھ سے ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے NOC کا انتظار ہے جوکہ کسی بھی وقت مل جائے گا جس کے بعد حنا اس کی والدہ فاطمہ و خالہ ممتاز کو رہائی نصیب ہوجائے گی۔
عرض کرتا چلوں کہ اس وقت امرتسر جیل میں 53 پاکستانی اسیر ہیں جن پر معمولی نوعیت کے الزامات ہیں یعنی سفری کاغذات نامکمل انڈیا میں زائد المیعاد قیام و اسی نوع کے دیگر الزامات۔ البتہ ان اسیران میں ایسے پاکستانی بھی ہیں جوکہ اپنی سزائیں پوری ہونے کے باوجود قید ہیں۔ ہم پاکستانی وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کے بیرون ممالک سفر و قیام کے دوران ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا خیال رکھیں کیونکہ ان چھوٹے چھوٹے مسائل کے باعث وہ بڑے بڑے مصائب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر میں امید ہے کہ معصوم حنا بہت جلد اپنے وطن میں ہوگی آپ بھی دعا کریں۔