غیر ضروری بحث…
ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ ہم موجودہ نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے دیں، بروقت اور شفاف انتخابات ہونے دیں۔
ہم پاکستانیوں کا اور بہت سے المیوں کے علاوہ ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم غیر مناسب وقت پر، غیر ضروری بحثیں چھیڑنے میں ماہر ہیں۔ ہم بعید از فہم اور سراسر غیر ضروری باتوں میں اپنا اور قوم کا قیمتی وقت ضایع کرنے میں نجانے کیا خوشی محسوس کرتے ہیں کہ طرح طرح کے عنوانات کے تحت یہ سلسلہ ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔
الیکشن سر پر کھڑے ہیں لیکن ہمارے اخبارات طرح طرح کی غیرضروری اور لایعنی بحثوں سے اٹے پڑے ہیں، مختلف نظام ہائے حکومت پر بحث جاری ہے، ایک طرف اگر ملک میں جمہوریت کے دلدادہ موجود ہیں تو دوسری طرف آمریت کی شمع کے پروانے بھی کچھ کم نہیں، حالانکہ دیکھا جائے تو نظام حکومت ہمارا درد سر ہے ہی نہیں، ہمارا اصل مسئلہ تو "Governance" اور "Human Material" ہے۔ نظام چاہے کوئی بھی ہو، چاہے خلافت ہو، آمریت ہو، سوشلزم ہو یا پھر سرمایہ دارانہ جمہوریت، اگر ہمارے "Human Material" کی ہی حالت ناگفتہ بہ ہو تو ہم کوئی بھی نظام درست طریقے سے نہیں چلاسکتے، ہر نظام میں چور دروازہ یا دروازے پیدا کیے جاسکتے ہیں، آخر ہم ماضی میں یہی سب تو کرتے رہے ہیں یا اور کچھ کرتے رہے ہیں ورنہ کیا ہم دنیا کی کوئی انوکھی قوم ہیں جو ہمارے ملک میں کوئی نظام چل ہی نہیں پاتا، دراصل جب تک ہم اپنے "Human Material" کی بہتری پر توجہ نہیں دیں گے اس وقت تک ہمارے مسائل اسی طرح منہ پھاڑے کھڑے رہیں گے، کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کو بنے ہوئے 65 سال ہوچکے ہیں، لیکن ہم ابھی تک اپنے لیے کسی نظام حکومت پر کوئی مکمل اور صحیح معنی میں وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہی نہیں کرپائے یا شاید پیدا کرنے ہی نہیں دیتے۔
1947 میں ملک کے بننے کے بعد 1956 تک ہمارا ملک سرزمین بے آئین رہا۔ جب کہ بھارت ہم سے کہیں پہلے آئین کی تشکیل کرکے ایک ہموار راستے پر گامزن ہوگیا۔ پھر جب 1956 میں ایک آئین تخلیق کیا بھی گیا تو اس کو بہت ہی جلد اور انتخابات سے عین پہلے اکھاڑ پھینکا گیا اور ملک بھر میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ 1962 میں پھر ایک آئین بنایا گیا، مگر اس آئین کو اس کے اپنے ہی خالق ایوب خان جاتے جاتے توڑ گئے اور اقتدار پھر ایک فوجی جنرل آغا یحییٰ خان کے حوالے کرگئے، اپنی ان ہی حرکتوں کی بنا پر ہم 1971 میں اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے، پھر خدا خدا کرکے 1973 کا دستور متفقہ طور پر تشکیل دیا گیا جس سے امید پیدا ہوئی کہ اب ملک کی سمت متعین ہوگئی ہے اور اب ملک یکسوئی اور تسلسل کے ساتھ جمہوری راستے پر گامزن ہوگا، لیکن یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور ملک میں متفقہ آئین کی تشکیل کے کچھ ہی عرصے بعد پھر مارشل لاء لگادیا گیا۔
آج جب ہم ایک مرتبہ پھر الیکشن کی طرف جارہے ہیں تو اس وقت بھی لایعنی بحثوں کا بازار گرم ہے، جمہوری نظام پر بھی لعن طعن کی جارہی ہے، اس کی کمزوریاں اور خامیاں گنوائی جارہی ہیں، جب آمریت ہوتی ہے تو ہمیں جمہوریت یاد آنے لگتی ہے، ہم اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ڈنڈے کھاتے ہیں، جیل جاتے ہیں اور جب جمہوریت آجاتی ہے تو ہمیں وہ بھی کھٹکنے لگتی ہے۔ 65 سال سے ہم نے یہی رویہ اپنایا ہوا ہے، ہم کسی بھی نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے ہی نہیں دیتے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ان ہی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہماری انہی بے صبریوں اور بے تابیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔
ہمارے معاشرے کی کوئی شکل ہی نہیں بننے دی۔ بنیادی نوعیت کی پالیسیوں میں بغیر سوچے سمجھے یوٹرن لینا گویا ہمارا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے دانشوروں کو اس سے غرض نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، انھیں تو بس اس بات سے غرض ہے کہ کسی طرح دوسروں کے دل اور دماغ پر ان کی ''دانشوری'' اور معلومات کا سکہ بیٹھ جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات نظام پر تنقید تو کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس کی جگہ کون سا نظام لایا جائے اور یہ کہ اس میں ہمیں ایسی کون سی ضمانت حاصل ہوجائے گی کہ سب اچھا ہی اچھا ہوگا؟
دنیا کے تمام نظام انسان ہی چلاتے ہیں، یعنی یہ "Human Material" ہی ہوتا ہے جو کسی بھی نظام کو بہترین طریقے سے چلانے کی ضمانت ہوتا ہے، لیکن شومیٔ قسمت کہ ہم کسی بھی نظام کو چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری، تسلسل کے ساتھ چلنے ہی نہیں دیتے۔ ہمارا اچھا خاصا وقت یعنی پورے 65 سال اسی اکھاڑ پچھاڑ کی نذر ہوگئے ہیں اور ہمیں اپنے "Human Material" کی بہتری کے لیے وقت ہی نہیں مل سکا، کیونکہ یہاں تو ہر حکومت کو اپنی بقا ہی کے حوالے سے خطرات لاحق رہتے اور وہ سارا وقت اسی جوڑ توڑ میں لگی رہتی ہے۔ انھیں لوگوں کے لیے کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی، کسی بھی حکومت کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ کب تک قائم رہے گی، اپنی مدت پوری کرپائے گی یا نہیں۔ اسی لیے ہماری پالیسیوں میں بھی دور اندیشی اور طویل المدت منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔
آپ پاکستان میں دنیا کا کوئی بھی نظام، کوئی بھی آئین اور کوئی بھی قانون نافذ کرکے دیکھ لیجیے، اس میں چور دروازے اور درزیں باآسانی تلاش کرلیے جائیں گے۔ کرپشن اسی طرح ہوتی رہے گی، اقربا پروری اور اختیارات کا ناجائز استعمال چلتا رہے گا، لوٹ مار کا بازار اسی طرح گرم رہے گا، مہنگائی اسی طرح بڑھتی رہے گی، پولیس اسی طرح چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتی رہے گی، بے گناہ لوگوں کو گرفتار اور ان پر تھانوں میں تشدد کرتی رہے گی اور بڑے لوگ اسی طرح قانون کی گرفت سے آزاد رہیں گے اور آئینی اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے اپنے اعمال کی عجیب و غریب توجیہات اور تشریحات پیش کرتے رہیں گے کیونکہ ہم اپنے "Human Material" کو اس سطح پر لا ہی نہیں سکتے جو کسی بھی نظام کو اخلاص کے ساتھ چلانے کے لیے ضروری ہے۔ تمام شعبوں اور ہر سطح پر ایڈہاک ازم ہمارا شیوہ رہا ہے۔ مستقل مزاجی ہمارے قریب سے بھی نہیں گزری۔ ''کاتا اور لے دوڑی'' ہمارا ماٹو ہے۔ اس پر ہمارے طرم خان ہیں کہ غیر ضروری بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ خود تو کنفیوژن کا شکار ہیں ہی، اوروں کو بھی کنفیوژن کا شکار کررہے ہیں۔
ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ ہم موجودہ نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے دیں، بروقت اور شفاف انتخابات ہونے دیں، اس سے نظام کی خرابیاں بھی دور ہوتی رہیں گی اور لوگوں کو سیاسی جماعتوں کے احتساب کا بھی موقع ملے گا، جس سے ایک تو خود سیاسی جماعتوں کی کارکردگی بہتر ہوتی جائے گی اور دوسرے عوام کے شعور میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا، یہی ایک نیچرل طریقہ ہے۔ اسی ارتقائی عمل سے گزر کے دنیا کی ترقی یافتہ قومیں آج اس مقام پر پہنچی ہیں جہاں وہ کھڑی ہیں۔ ہمیں ٹھیک کرنے کے لیے کوئی خلائی مخلوق نہیں آئے گی، ہمیں بھی اسی عمل سے گزرنا ہوگا۔
الیکشن سر پر کھڑے ہیں لیکن ہمارے اخبارات طرح طرح کی غیرضروری اور لایعنی بحثوں سے اٹے پڑے ہیں، مختلف نظام ہائے حکومت پر بحث جاری ہے، ایک طرف اگر ملک میں جمہوریت کے دلدادہ موجود ہیں تو دوسری طرف آمریت کی شمع کے پروانے بھی کچھ کم نہیں، حالانکہ دیکھا جائے تو نظام حکومت ہمارا درد سر ہے ہی نہیں، ہمارا اصل مسئلہ تو "Governance" اور "Human Material" ہے۔ نظام چاہے کوئی بھی ہو، چاہے خلافت ہو، آمریت ہو، سوشلزم ہو یا پھر سرمایہ دارانہ جمہوریت، اگر ہمارے "Human Material" کی ہی حالت ناگفتہ بہ ہو تو ہم کوئی بھی نظام درست طریقے سے نہیں چلاسکتے، ہر نظام میں چور دروازہ یا دروازے پیدا کیے جاسکتے ہیں، آخر ہم ماضی میں یہی سب تو کرتے رہے ہیں یا اور کچھ کرتے رہے ہیں ورنہ کیا ہم دنیا کی کوئی انوکھی قوم ہیں جو ہمارے ملک میں کوئی نظام چل ہی نہیں پاتا، دراصل جب تک ہم اپنے "Human Material" کی بہتری پر توجہ نہیں دیں گے اس وقت تک ہمارے مسائل اسی طرح منہ پھاڑے کھڑے رہیں گے، کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کو بنے ہوئے 65 سال ہوچکے ہیں، لیکن ہم ابھی تک اپنے لیے کسی نظام حکومت پر کوئی مکمل اور صحیح معنی میں وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہی نہیں کرپائے یا شاید پیدا کرنے ہی نہیں دیتے۔
1947 میں ملک کے بننے کے بعد 1956 تک ہمارا ملک سرزمین بے آئین رہا۔ جب کہ بھارت ہم سے کہیں پہلے آئین کی تشکیل کرکے ایک ہموار راستے پر گامزن ہوگیا۔ پھر جب 1956 میں ایک آئین تخلیق کیا بھی گیا تو اس کو بہت ہی جلد اور انتخابات سے عین پہلے اکھاڑ پھینکا گیا اور ملک بھر میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ 1962 میں پھر ایک آئین بنایا گیا، مگر اس آئین کو اس کے اپنے ہی خالق ایوب خان جاتے جاتے توڑ گئے اور اقتدار پھر ایک فوجی جنرل آغا یحییٰ خان کے حوالے کرگئے، اپنی ان ہی حرکتوں کی بنا پر ہم 1971 میں اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے، پھر خدا خدا کرکے 1973 کا دستور متفقہ طور پر تشکیل دیا گیا جس سے امید پیدا ہوئی کہ اب ملک کی سمت متعین ہوگئی ہے اور اب ملک یکسوئی اور تسلسل کے ساتھ جمہوری راستے پر گامزن ہوگا، لیکن یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور ملک میں متفقہ آئین کی تشکیل کے کچھ ہی عرصے بعد پھر مارشل لاء لگادیا گیا۔
آج جب ہم ایک مرتبہ پھر الیکشن کی طرف جارہے ہیں تو اس وقت بھی لایعنی بحثوں کا بازار گرم ہے، جمہوری نظام پر بھی لعن طعن کی جارہی ہے، اس کی کمزوریاں اور خامیاں گنوائی جارہی ہیں، جب آمریت ہوتی ہے تو ہمیں جمہوریت یاد آنے لگتی ہے، ہم اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ڈنڈے کھاتے ہیں، جیل جاتے ہیں اور جب جمہوریت آجاتی ہے تو ہمیں وہ بھی کھٹکنے لگتی ہے۔ 65 سال سے ہم نے یہی رویہ اپنایا ہوا ہے، ہم کسی بھی نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے ہی نہیں دیتے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ان ہی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہماری انہی بے صبریوں اور بے تابیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔
ہمارے معاشرے کی کوئی شکل ہی نہیں بننے دی۔ بنیادی نوعیت کی پالیسیوں میں بغیر سوچے سمجھے یوٹرن لینا گویا ہمارا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے دانشوروں کو اس سے غرض نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، انھیں تو بس اس بات سے غرض ہے کہ کسی طرح دوسروں کے دل اور دماغ پر ان کی ''دانشوری'' اور معلومات کا سکہ بیٹھ جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات نظام پر تنقید تو کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس کی جگہ کون سا نظام لایا جائے اور یہ کہ اس میں ہمیں ایسی کون سی ضمانت حاصل ہوجائے گی کہ سب اچھا ہی اچھا ہوگا؟
دنیا کے تمام نظام انسان ہی چلاتے ہیں، یعنی یہ "Human Material" ہی ہوتا ہے جو کسی بھی نظام کو بہترین طریقے سے چلانے کی ضمانت ہوتا ہے، لیکن شومیٔ قسمت کہ ہم کسی بھی نظام کو چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری، تسلسل کے ساتھ چلنے ہی نہیں دیتے۔ ہمارا اچھا خاصا وقت یعنی پورے 65 سال اسی اکھاڑ پچھاڑ کی نذر ہوگئے ہیں اور ہمیں اپنے "Human Material" کی بہتری کے لیے وقت ہی نہیں مل سکا، کیونکہ یہاں تو ہر حکومت کو اپنی بقا ہی کے حوالے سے خطرات لاحق رہتے اور وہ سارا وقت اسی جوڑ توڑ میں لگی رہتی ہے۔ انھیں لوگوں کے لیے کچھ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی، کسی بھی حکومت کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ کب تک قائم رہے گی، اپنی مدت پوری کرپائے گی یا نہیں۔ اسی لیے ہماری پالیسیوں میں بھی دور اندیشی اور طویل المدت منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔
آپ پاکستان میں دنیا کا کوئی بھی نظام، کوئی بھی آئین اور کوئی بھی قانون نافذ کرکے دیکھ لیجیے، اس میں چور دروازے اور درزیں باآسانی تلاش کرلیے جائیں گے۔ کرپشن اسی طرح ہوتی رہے گی، اقربا پروری اور اختیارات کا ناجائز استعمال چلتا رہے گا، لوٹ مار کا بازار اسی طرح گرم رہے گا، مہنگائی اسی طرح بڑھتی رہے گی، پولیس اسی طرح چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتی رہے گی، بے گناہ لوگوں کو گرفتار اور ان پر تھانوں میں تشدد کرتی رہے گی اور بڑے لوگ اسی طرح قانون کی گرفت سے آزاد رہیں گے اور آئینی اور قانونی موشگافیوں کے ذریعے اپنے اعمال کی عجیب و غریب توجیہات اور تشریحات پیش کرتے رہیں گے کیونکہ ہم اپنے "Human Material" کو اس سطح پر لا ہی نہیں سکتے جو کسی بھی نظام کو اخلاص کے ساتھ چلانے کے لیے ضروری ہے۔ تمام شعبوں اور ہر سطح پر ایڈہاک ازم ہمارا شیوہ رہا ہے۔ مستقل مزاجی ہمارے قریب سے بھی نہیں گزری۔ ''کاتا اور لے دوڑی'' ہمارا ماٹو ہے۔ اس پر ہمارے طرم خان ہیں کہ غیر ضروری بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ خود تو کنفیوژن کا شکار ہیں ہی، اوروں کو بھی کنفیوژن کا شکار کررہے ہیں۔
ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ ہم موجودہ نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے دیں، بروقت اور شفاف انتخابات ہونے دیں، اس سے نظام کی خرابیاں بھی دور ہوتی رہیں گی اور لوگوں کو سیاسی جماعتوں کے احتساب کا بھی موقع ملے گا، جس سے ایک تو خود سیاسی جماعتوں کی کارکردگی بہتر ہوتی جائے گی اور دوسرے عوام کے شعور میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا، یہی ایک نیچرل طریقہ ہے۔ اسی ارتقائی عمل سے گزر کے دنیا کی ترقی یافتہ قومیں آج اس مقام پر پہنچی ہیں جہاں وہ کھڑی ہیں۔ ہمیں ٹھیک کرنے کے لیے کوئی خلائی مخلوق نہیں آئے گی، ہمیں بھی اسی عمل سے گزرنا ہوگا۔