توہین عدالت قانون کالعدم قرار دینا درست فیصلہ ہے وکلا

تصادم کاامکان نہیں،رشیدرضوی،صدر کے استثنیٰ کیس کی حد تک سوالیہ نشان بن گیا،جسٹس طارق

تصادم کاامکان نہیں،رشیدرضوی،صدر کے استثنیٰ کیس کی حد تک سوالیہ نشان بن گیا،جسٹس طارق, ڈیزائن عیسی ملک

KARACHI:
سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر محمدیاسین آزادنے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت قانون کوکالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد اب پارلیمنٹ کو قانون سازی سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑے گا، فیصلے کے بعدایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فیصلے سے اداروںکے درمیان تناؤ بڑھے گا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے2003کے توہین عدالت کے قانون کو بحال کرنا سمجھ سے بالاتر ہے،اس کی کیا گنجائش تھی،سپریم کورٹ کی جانب سے پورے قانون کوکالعدم قرار دینے سے پارلیمنٹ کی آزادی خود مختاری کا سوال اپنی جگہ باقی ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں ۔انھوں نے کہا پاکستان بارکونسل نے بھی سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کیا ہوا تھا، ہمارا موقف تھا کہ قانون جلد بازی میں بنایا گیا اور مخصوص افرادکو استثنیٰ کے لیے بنایا گیااسے خلاف قانون قرار دیا جائے۔


سینئر وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ اس کی گنجائش نہیں تھی کہ اس قانون کے آدھے حصے کوکالعدم قرار دینے کے بعد باقی کو قانون کے طور پر تسلیم کرلیا جاتا، قانون کو الگ الگ کرنے کے بعد اس کے کسی حصے کو باقی رکھنا ممکن نہیں تھا، انھوں نے کہا کہ فیصلے سے اداروںکے درمیان تصادم کا کوئی امکان نہیں ہے۔پاکستا ن بارکونسل کے سابق وائس چیئرمین لطیف آفریدی نے کہا کہ توہین عدالت سے متعلق بنائے گئے قانون کی دفعات آئین سے متصادم تھیں اس قانون کو برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا، سپریم کورٹ کا فیصلہ اداروں کے درمیان تصادم کا باعث نہیں بنناچاہیے اورحکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان سرد جنگ ختم ہونی چاہیے ۔

سپریم کورٹ بارکے سیکریٹری محمد اسلم زار نے کہاکہ توہین عدالت کا نیا قانون آئین کے آرٹیکل204 سے واضح طور پر متصادم تھا ۔یہ قانون امتیازی قانون کے طور نافذکیا گیا یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بارکونسل سمیت ملک کی کسی بھی بار نے اس کی حمایت نہیں کی ۔تحریک تحفظ عدلیہ کے چیئرمین حشمت حبیب نے کہا کہ فیصلہ آئین کے عین مطابق ہے ،اس سے قانون کی حکمرانی کا راستہ ہموار ہوگا کیونکہ نیا قانون بدنیتی پر مبنی تھا جو ایک وزیر اعظم کو متوقع سزا سے بچانے کے لیے لایا گیا تھا، اب اس کوکالعدم قرار دینے سے یہ طے ہوگیا ہے کہ صدر سے لیکر عام آدمی تک سب قانون کی نظر میں برابر ہیں۔
Load Next Story