توہین عدالت قانون کالعدم قرار دینا درست فیصلہ ہے وکلا

تصادم کاامکان نہیں،رشیدرضوی،صدر کے استثنیٰ کیس کی حد تک سوالیہ نشان بن گیا،جسٹس طارق

تصادم کاامکان نہیں،رشیدرضوی،صدر کے استثنیٰ کیس کی حد تک سوالیہ نشان بن گیا،جسٹس طارق، فائل فوٹو

توہین عدالت قانون2012ء کوکالعدم قراردینے پرآئینی و قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ فیصلے پرمطمئن ہیں، توہین عدالت قانون ایک شخص کو تحفظ دینے کے لیے لایا گیا ،2003ء کا پرانا توہین عدالت ہی قابل عمل ہوگا، توہین عدالت میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں،حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل نہیںکرسکتی۔


جسٹس (ر)وجیہہ الدین نے کہا کہ قانون سے واقفیت رکھنے والوںکو یہی توقع تھی کہ ایسے تمام قوانین جن کو سب کانسٹی ٹیوشن قوانین کہا جاتا ہے ان کو آئین سے مطابقت رکھنی چاہیے اگر پارلیمان کوئی ایسا قانون بناتی ہے جو آئین سے متصادم ہو تو اس طرح کا قانون عدالتی اختیارات کوکم نہیں کرسکتا ۔انھوں نے کہاکہ عدالت کے احکامات حکومت پر ہی لاگو ہوتے ہیں حکومت اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کر سکتی اگر وہ چاہے تو نظر ثانی کی درخواست کر سکتے ہیں ۔جسٹس(ر) طارق محمودنے کہا کہ توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر جانبدارانہ ہے، توہین عدالت کیس میںکسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا ،صدرکا استثنیٰ کیس کی کسی حد تک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

قاضی انور نے کہا کہ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ دینا تھا جو اس نے سنا دیا ۔جسٹس( ر) سعید الزمان صدیقی کا کہنا تھا جن لوگوں نے یہ قانون بنایاان کوبھی پتہ تھا کہ یہ کالعدم ہوجائے گا توہین عدالت قانون میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔بیرسٹرفروغ نسیم نے کہاکہ ہمیں پہلے سے لگ رہا تھا کہ یہ قانون زیادہ نہیں چل سکتا ۔ بابر ستارنے کہاکہ پہلے سے ہی نظرآرہا تھاکہ سیکشن 3 آرٹیکل ٹو 4 کے خلاف ہے ۔ ہائیکورٹ بارراولپنڈی کے صدر شیخ احسن الدین نے توہین عدالت کے نئے قانون کوکالعدم قرار دینے کے فیصلے کو تاریخی قراردیتے ہوئے کہا ہے اس فیصلے سے اداروںکے ٹکراؤکا الزام غلط ثابت ہوگیا ہے۔
Load Next Story