طوفانی بارش اور موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز
کراچی میں بارش نے زبردست تباہی مچادی ، شاہراہیں زیر آب آگئیں ، انڈر پاسز تالاب بن گئے
جمعرات کو کراچی میں بارش نے زبردست تباہی مچادی ، شاہراہیں زیر آب آگئیں ، انڈر پاسز تالاب بن گئے ، معمولات زندگی شدید متاثر ہوئے، بجلی کا کرنٹ لگنے سمیت حادثات میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے ، محکمہ موسمیات کے مطابق ممبئی میں تباہی پھیلانے والا بارشوں کا سلسلہ سندھ کو ہدف بنا چکا ہے ۔ کراچی سمیت بالائی ملک اور اندرون سندھ کے کئی شہروں میں وقفے وقفے سے موسلادھار اور ہلکی بارش کا سلسلہ بدھ سے جاری تھا تاہم جمعرات کو طوفانی بارش ہولناک ثابت ہوئی۔
واضح رہے محکمہ موسمیات کی جانب سے دو روز قبل جاری کیے گئے الرٹ میں کہا گیا تھا کہ بارشوں کے باعث کراچی میں سیلابی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جب کہ ماہی گیروں کو کھلے سمندر میں نہ جانے کے لیے بھی کہا گیا ہے، محکمہ موسمیات کے الرٹ کے بعد سندھ حکومت نے رین ایمرجنسی نافذ کردی ہے،کراچی اور اندرون سندھ بارش کے بعد موسم کی خرابی کے باعث کئی پروازیں منسوخ کردی گئیں جب کہ کراچی میں بجلی کا نظام بھی شدید متاثرہوا اور کئی علاقے فیڈر ٹرپ کرنے سے تاریکی میں ڈوب گئے ۔
بتایا جاتا ہے کہ ہوا کے کم دبائو کے باعث بارشوں کا بننے والا یہ سسٹم سندھ کے ساتھ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، جمعرات سے ہفتہ کے دوران بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان، ساہیوال، ہزارہ، راولپنڈی،گوجرانوالہ،فیصل آباد، سرگودھا،لاہورڈویژن،اسلام آباد،گلگت بلتستان اور کشمیر میں بارشیں ہونگی۔ بدھ کو سب سے زیادہ بارش جھنگ 79،ڈی جی خان 32،ملتان27، لاہور (ائیرپورٹ20، سٹی03)،اسلام آباد (گولڑہ18، سیدپور02)،ٹوبہ ٹیک سنگھ 18،قصور 13، بہاولنگر،سرگودھا 12،کاکول 51، مٹھی 34،چھاچھرو 32،نگر پارکر 30،حیدرآباد 12، کراچی 09، مظفرآباد 12ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشیدنے بتایا کہ کراچی میں بدھ کو سمندری ہوائیں منقطع ہوگئیں اور شمال مشرق سے گرد آلود تیز ہوائیں چلنے سے موسم گرم رہا، انھوں نے کہا کہ مون سون کا نیا سسٹم گجرات سے سندھ کی جانب داخل ہو رہا ہے جس کے تحت کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں جمعرات تا جمعہ تیز ہوائیں اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارشوں کا امکان ہے ، سندھ کے ساحلی علاقوں اور دیگر شہروں میں بارش ہوگی ، تاہم سمندری طوفان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
بلاشبہ یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا کوئی ٹھوس انتظامی ڈھانچہ ملک کی موسمیاتی تقدیر نہیں بدل سکا اور قوم برسوں سے موسم اور آفات کے رحم وکرم پر ہے، چاہے مون سون بارشیں ہوں یا دیگر آفات و غیر معمولی صورتحال ملک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے، شہر ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں، بظاہر ترقی یافتہ شہروں اور پسماندہ دیہی علاقوں میں بارش اور سیلا ب سے متاثرہ لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ انفرااسٹرکچر کی کمی ، نکاسی آب کے میکنزم کے فقدان، حکومتی ریلیف اور ، ریسکیو آپریشنز میں مستعدی اور مربوط سائنسی پلاننگ کا دور دور تک پتا نہیں ہوتا، مقامی حکومتوں کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے، کراچی کی مقامی حکومت کو نامساعد حالات کا سامنا ہے، داخلی کشمکش جاری ہے، شہر برباد ہورہا ہے، عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ ایمرجنسی اقدامات اور فوری ریلیف ، طبی امداد نقل مکانی، اور بحالی کے کاموں کی نگرانی کے امور میں ایدھی ، فوجی جوان اور بحریہ کے اہلکار پیش پیش ہوتے ہیں، ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کا نظام بدترین سقوط کا منظر پیش کرتاہے۔
بعض بلدیاتی، فلاحی ادارے اور این جی اوز متحرک تو ہوجاتی ہیں لیکن جو نشیبی علاقے بارش کے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں وہاں نکاسی آب کا کوئی نظام موجود نہیں ، میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ نیا سسٹم درکار ہے، جب کہ نکاسی آب کافوری طور پر ممکن نہیں، 70برس بیت گئے ملک کے سب سے بڑے شہر اور '' منی پاکستان'' میں فراہمی و نکاسی آب کو کوئی پائیدار ، مثالی ، شفاف اور فالٹ فری روڈ میپ تیار نہیں کیا جا سکا۔ بارشوں سے بین الصوبائی سفر کی دشواریوں میں بھی حادثات اور ہلاکتوں کی اطلاعات میڈیا کی زینت بنتی ہیں، ادھر لاہور اسلام آباد اس ضمن میں نسبتاً بہتر سسٹم رکھتے ہیں مگر ملک گیر سطح پر بارشوں سے نمٹنے کی حکومتی تدابیر اور ٹھوس اقدامات یا طویل المیعاد منصوبہ بندی صوبائی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی ۔اس لیے ضرورت ملک گیر سطح پر بارش سے بچائو پلان پر سختی سے عملدرآمد کی ہے ۔
ارباب اختیار ایڈہاک ازم کے بجائے ملک کے کروڑوں عوام کو باران رحمت سے لطف اندوز ہونے کے فطری مواقع مہیا کریں، بارشوں کو زحمت نہ بننے دیں،ملک کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں کو بارش اور سیلاب سے بچائو کے ایک مضبوط نیٹ ورکس سے منسلک کرنے کا ماسٹر پلان تیار کریں۔ دنیا کے ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں سے خبردار کررہے ہیں، وہ گلیشیئرز کے پگھلنے، آبی وسائل کی تنگی، سمندری طوفان اور قحط سالی کی پیشگوئی کرچکے ہیں۔ ارباب بست وکشاد خدارا فطرت کے چیلنجز کا ادراک کریں۔
واضح رہے محکمہ موسمیات کی جانب سے دو روز قبل جاری کیے گئے الرٹ میں کہا گیا تھا کہ بارشوں کے باعث کراچی میں سیلابی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جب کہ ماہی گیروں کو کھلے سمندر میں نہ جانے کے لیے بھی کہا گیا ہے، محکمہ موسمیات کے الرٹ کے بعد سندھ حکومت نے رین ایمرجنسی نافذ کردی ہے،کراچی اور اندرون سندھ بارش کے بعد موسم کی خرابی کے باعث کئی پروازیں منسوخ کردی گئیں جب کہ کراچی میں بجلی کا نظام بھی شدید متاثرہوا اور کئی علاقے فیڈر ٹرپ کرنے سے تاریکی میں ڈوب گئے ۔
بتایا جاتا ہے کہ ہوا کے کم دبائو کے باعث بارشوں کا بننے والا یہ سسٹم سندھ کے ساتھ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، جمعرات سے ہفتہ کے دوران بہاولپور، ملتان، ڈی جی خان، ساہیوال، ہزارہ، راولپنڈی،گوجرانوالہ،فیصل آباد، سرگودھا،لاہورڈویژن،اسلام آباد،گلگت بلتستان اور کشمیر میں بارشیں ہونگی۔ بدھ کو سب سے زیادہ بارش جھنگ 79،ڈی جی خان 32،ملتان27، لاہور (ائیرپورٹ20، سٹی03)،اسلام آباد (گولڑہ18، سیدپور02)،ٹوبہ ٹیک سنگھ 18،قصور 13، بہاولنگر،سرگودھا 12،کاکول 51، مٹھی 34،چھاچھرو 32،نگر پارکر 30،حیدرآباد 12، کراچی 09، مظفرآباد 12ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشیدنے بتایا کہ کراچی میں بدھ کو سمندری ہوائیں منقطع ہوگئیں اور شمال مشرق سے گرد آلود تیز ہوائیں چلنے سے موسم گرم رہا، انھوں نے کہا کہ مون سون کا نیا سسٹم گجرات سے سندھ کی جانب داخل ہو رہا ہے جس کے تحت کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں جمعرات تا جمعہ تیز ہوائیں اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارشوں کا امکان ہے ، سندھ کے ساحلی علاقوں اور دیگر شہروں میں بارش ہوگی ، تاہم سمندری طوفان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
بلاشبہ یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا کوئی ٹھوس انتظامی ڈھانچہ ملک کی موسمیاتی تقدیر نہیں بدل سکا اور قوم برسوں سے موسم اور آفات کے رحم وکرم پر ہے، چاہے مون سون بارشیں ہوں یا دیگر آفات و غیر معمولی صورتحال ملک ہیجانی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے، شہر ایک دوسرے سے کٹ جاتے ہیں، بظاہر ترقی یافتہ شہروں اور پسماندہ دیہی علاقوں میں بارش اور سیلا ب سے متاثرہ لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ انفرااسٹرکچر کی کمی ، نکاسی آب کے میکنزم کے فقدان، حکومتی ریلیف اور ، ریسکیو آپریشنز میں مستعدی اور مربوط سائنسی پلاننگ کا دور دور تک پتا نہیں ہوتا، مقامی حکومتوں کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے، کراچی کی مقامی حکومت کو نامساعد حالات کا سامنا ہے، داخلی کشمکش جاری ہے، شہر برباد ہورہا ہے، عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ ایمرجنسی اقدامات اور فوری ریلیف ، طبی امداد نقل مکانی، اور بحالی کے کاموں کی نگرانی کے امور میں ایدھی ، فوجی جوان اور بحریہ کے اہلکار پیش پیش ہوتے ہیں، ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کا نظام بدترین سقوط کا منظر پیش کرتاہے۔
بعض بلدیاتی، فلاحی ادارے اور این جی اوز متحرک تو ہوجاتی ہیں لیکن جو نشیبی علاقے بارش کے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں وہاں نکاسی آب کا کوئی نظام موجود نہیں ، میئر کراچی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ نیا سسٹم درکار ہے، جب کہ نکاسی آب کافوری طور پر ممکن نہیں، 70برس بیت گئے ملک کے سب سے بڑے شہر اور '' منی پاکستان'' میں فراہمی و نکاسی آب کو کوئی پائیدار ، مثالی ، شفاف اور فالٹ فری روڈ میپ تیار نہیں کیا جا سکا۔ بارشوں سے بین الصوبائی سفر کی دشواریوں میں بھی حادثات اور ہلاکتوں کی اطلاعات میڈیا کی زینت بنتی ہیں، ادھر لاہور اسلام آباد اس ضمن میں نسبتاً بہتر سسٹم رکھتے ہیں مگر ملک گیر سطح پر بارشوں سے نمٹنے کی حکومتی تدابیر اور ٹھوس اقدامات یا طویل المیعاد منصوبہ بندی صوبائی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی ۔اس لیے ضرورت ملک گیر سطح پر بارش سے بچائو پلان پر سختی سے عملدرآمد کی ہے ۔
ارباب اختیار ایڈہاک ازم کے بجائے ملک کے کروڑوں عوام کو باران رحمت سے لطف اندوز ہونے کے فطری مواقع مہیا کریں، بارشوں کو زحمت نہ بننے دیں،ملک کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں کو بارش اور سیلاب سے بچائو کے ایک مضبوط نیٹ ورکس سے منسلک کرنے کا ماسٹر پلان تیار کریں۔ دنیا کے ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں سے خبردار کررہے ہیں، وہ گلیشیئرز کے پگھلنے، آبی وسائل کی تنگی، سمندری طوفان اور قحط سالی کی پیشگوئی کرچکے ہیں۔ ارباب بست وکشاد خدارا فطرت کے چیلنجز کا ادراک کریں۔