آدھا دماغ

جہاں تک صدر ٹرمپ کا معاملہ ہے وہ تو صدر بش سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

جس ملک کے قائدین آپس میں ہی برسر پیکار ہوں۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے ہوں۔ دشمنوں کی طرح باہم پیش آرہے ہوں۔ انھیں نہ ملک کی فکر ہو اور نہ قوم کا خیال ہو پھر اپنے دشمنوں سے بھی غافل ہوں تو ایسی قومیں ماضی میں بھی تباہ و برباد ہوچکی ہیں اور آیندہ بھی ان کا ویسا ہی حشر ہوتا رہے گا۔

ہر سیاسی پارٹی دوسری سیاسی پارٹی کو دشمن سمجھ کر اسے بے عزت کر رہی ہے، اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر بھونڈا طریقہ استعمال کر رہی ہے۔ گوکہ خوش قسمتی سے اس وقت ملک میں جمہوریت پٹری پر ہے مگر اس جمہوریت کی کون قدر کرتا ہے لوگ تو آمرانہ حکومتوں کے عادی ہوچکے ہیں لہٰذا انھیں جمہوری حکومتیں بھاتی ہی نہیں یہ اور بات ہے ہر آمرانہ دور میں انھیں جمہوریت کی یاد ستانے لگتی ہے اور پھر وہ جمہوریت کے نعرے لگانے شروع کردیتے ہیں مگر جمہوریت کے واپس آتے ہی اس کی ناقدری شروع ہو جاتی ہے پھر خود ہی حالات خراب کرکے آمریت کو گلے لگا لیتے ہیں۔

پہلے فوجی حکومتوں کو لوگ خود دعوت دیا کرتے تھے اب کہتے ہیں اس دفعہ جوڈیشل مارشل لا لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں جاری موجودہ انتشار نے ہی ہمارے دشمن بھارت کو پاکستان پر حاوی ہونے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہوگیا ہے، اب اگر ٹرمپ نے ہم پر دہشتگردی کا الزام لگایا ہے اور ہمیں کرائے کا قاتل کہا ہے تو یہ الزامات اس کی اپنی جانب سے نہیں ہیں بلکہ یہ سارا کارنامہ ہمارے دشمن کا ہے کہ اس نے ہماری باہمی چپقلش سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اور اپنی جادوگری سے ٹرمپ کو قابوکرکے ہم پر وہ الزامات لگوائے ہیں جو ہم پاکستانیوں کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہیں۔

افسوس کہ جس دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہم نے خود کو فنا کرلیا اپنے ہزاروں سپاہیوں اور ایک لاکھ کے قریب شہریوں کو شہید کروادیا۔ معیشت کا بھٹہ بٹھوا لیا جس کی خوشنودی کے لیے ہم نے روس جیسی سپر پاور سے ٹکرانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ آج وہ الٹا ہم کو ہی دہشتگرد قرار دے رہا ہے۔

جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے انھیں پوری دنیا ہی ذہنی مریض کہہ رہی ہے۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی تازہ کتاب "What Happend" میں ٹرمپ کی نفسیات کی وہ تصویر کشی کی ہے کہ عقل دنگ ہے ایسے شخص کا امریکا جیسے ملک کا صدر بننا قیامت ہے مگر کیا کریں لگتا ہے اب امریکیوں کی قسمت میں ایسے ہی صدر لکھے ہیں۔ یہ سلسلہ سینئر بش سے شروع ہوا تھا اور ہنوز جاری ہے۔ صدر بش کی بے وقوفیوں کی وجہ سے ہی نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا تھا۔ پوری امریکی قوم اس تباہی پر اپنے صدر کی دماغی کیفیت پر شک ظاہر کر رہی تھی۔ اسی دوران صدر بش کسی بیماری کے علاج کے سلسلے میں اسپتال میں داخل ہوئے۔ وہاں اتفاق سے ان کے دماغ کا بھی معائنہ ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ موصوف کا آدھا دماغ تو کام ہی نہیں کر رہا ہے۔ مزید بتایا کہ یہ بیماری انھیں ان کے والد سے ورثے میں ملی ہے۔ لگتا ہے اسی قسم کی بیماری کے حامل صدر ٹرمپ نے اب امریکا کی صدارت سنبھال لی ہے، اگر امریکا پوری دنیا کا تھانیدار نہ ہوتا تو امریکا میں کوئی بھی صدر آتا اور جاتا اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہوتا مگر چونکہ وہ پوری دنیا پر سایہ فگن ہے۔ وہ جب اور جہاں چاہے بمباری کرا سکتا ہے اور جب چاہے جس ملک پر قبضہ کرسکتا ہے۔ ایسے ماحول میں امریکی صدور کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہر ملک کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔

جہاں تک صدر ٹرمپ کا معاملہ ہے وہ تو صدر بش سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ صدر بش کا تو صرف آدھا دماغ غائب تھا یہاں تو لگتا ہے پورا کا پورا غائب ہے۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی کتاب میں ٹرمپ کو برملا ''چھچھورا'' لکھا ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ پوری انتخابی مہم کے دوران ایسی بھونڈی اور غیر شائستہ حرکات کرتے رہے جو کسی امریکی صدارتی امیدوار کو زیب نہیں دیتیں اس کے باوجود ان کا الیکشن میں جیتنا امریکی قوم کے لیے ماتم کرنے کا مقام ہے۔ ساتھ ہی عورت کی حکمرانی سے کھلا نفرت کا اظہار ہے جس نے امریکی قوم کی روشن خیالی کا پول کھول دیا ہے۔


دراصل ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کی وجہ ان کی قوم پرستانہ سیاست ہے۔ وہ مذہبی جنونی ہیں اور گوروں کو کالوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ اب الیکشن جیتنے کے بعد وہ اپنے قوم پرست اور مذہبی جنونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اسی ایجنڈے کے تحت انھوں نے صدارت کا عہدہ سنبھال کر سب سے پہلے مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ بنایا۔ مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندیاں لگائیں۔ مسلم دشمن گوروں کی ہمت افزائی شروع کی جس کے نتیجے میں مسلمانوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ مساجد پر بھی حملے کیے گئے۔

اس وقت امریکا میں گوروں اور کالوں کے درمیان پہلے سے زیادہ نفرت بڑھ چکی ہے جگہ جگہ فسادات جاری ہیں۔ انھوں نے اندرون ملک تو مسائل کھڑے کر ہی دیے ہیں امریکا کے پرانے دوست ممالک کو بھی ناراض کردیا ہے۔ نیٹو ممالک ان کے سخت خلاف ہیں کیونکہ موصوف نیٹو کے وجود کے ہی خلاف ہیں موصوف کا کہنا ہے کہ امریکا اب نیٹو ممالک کی مزید امداد کرنے سے قاصر ہے۔ وینزویلا پر حملے کی کھلم کھلا دھمکی دے چکے ہیں اور لگتا ہے شمالی کوریا کو جلد ہی جنگ کی دعوت دینے والے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ابتدا میں ان کا رویہ پاکستان کے بارے میں دوستانہ تھا۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر دوستانہ گفتگو کی تھی۔ اس سے پوری دنیا میں پاک امریکا تعلقات کے نئے ہمت افزا دور کے شروع ہونے کا تاثر گیا تھا بس اس کے بعد ہی ٹرمپ کو بھارتی گماشتوں نے گھیر لیا کہ کہیں وہ پاکستان کے حق میں افغان پالیسی نہ ترتیب دے دیں۔ بھارتی گماشتوں میں صرف بھارتی لابیسٹ ہی نہیں ان میں اعلیٰ امریکی اہلکار اور سینیٹ کے ممبران تک شامل ہیں یہ سب ٹرمپ کے پیچھے لگ گئے اور پاکستان کے خلاف پٹی پڑھانا شروع کردی۔ اس مہم میں بھارت نواز سابق اور موجودہ افغان صدور اور وہاں متعین امریکی فوجی کمانڈر بھی شریک تھے۔

بالآخر وہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان تمام لوگوں نے مل کر ٹرمپ کو گمراہ کرکے پاکستان کو دھمکیاں تو دلوادی ہیں مگر اس سے کیا امریکا افغان جنگ جیت جائے گا؟ کیا طالبان ہتھیار ڈال دیں گے؟ کیا پاکستان کی مدد کے بغیر افغان مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟ امریکی نادانوں کو کون سمجھائے کہ جب تک بھارت افغانستان میں موجود رہے گا وہ اس مسئلے کو پاکستان دشمنی میں حل نہیں ہونے دے گا۔ نئی افغان پالیسی میں پھر پاکستان کو طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

یہ ہمارے خلاف ایک بڑی سازش ہے جسے ہم شاید آج تک سمجھ ہی نہیں سکے۔ اس کے لیے ہمیں لامحالہ طالبان سے تعلقات رکھنے ہوں گے جب ہی تو ہم انھیں مذاکرات کی میز تک لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں مگر ہمارے دشمن بڑی مکاری سے اسے ہمارا دوغلہ پن قرار دیتے ہیں۔ پھر ہم نے اس سلسلے میں طالبان کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے وہ طالبان جو مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں انھیں ہم اچھے طالبان کہتے ہیں جن میں حقانی گروپ بھی شامل ہے۔

وہ طالبان کو مذاکراتی میز تک لانے میں پاکستان کی مدد کرتے رہے ہیں دشمنوں نے ہمارے اس عمل کو دوسرے رنگ میں پیش کیا۔ وہ حقانی گروپ کو ہمارا دوست قرار دے کر اس کی دہشتگردی کو ہمارے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ دراصل ہم اپنی سادہ لوحی اور امریکی حکم کی بجا آوری میں بری طرح مشکل میں پھنس چکے ہیں۔

اب ہونا یہ چاہیے کہ طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی ذمے داری ہرگز قبول نہ کی جائے اور امریکا کو کہا جائے کہ اب وہ یہ ذمے داری اپنے اسٹریٹیجک پارٹنر بھارت کے حوالے کرے چونکہ بھارت طالبان سے بہت اچھے تعلقات قائم کرچکا ہے جب وہ طالبان کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کرا سکتا ہے تو انھیں مذاکرات کی میز پر بھی لاسکتا ہے۔ بھارت کے طالبان سے گہرے گٹھ جوڑ کی تصدیق طالبان حکومت کے سابق ترجمان ملّا احسان اللہ احسان بھی کرچکے ہیں۔

امریکا سے ہمارے تعلقات کو خراب کرنے میں بھارت تو پیش پیش ہے ہی مگر اسامہ کی پاکستان میں موجودگی نے بھی تعلقات پر منفی اثرات مرتب کیے تھے کاش کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں برآمد نہ ہوا ہوتا اور ہم نے اسے تلاش کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکیوں کی خواہش کے مطابق ان کے حوالے کرنے میں دیر نہ کی ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے تاہم اب بھی وقت ہے ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ غدار وطن شکیل آفریدی کو ان کے حوالے کرکے اس کے بدلے چودہ برس سے امریکی کال کوٹھری میں صعوبتیں جھیل رہی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس لانے میں اب دیر نہ کرے۔
Load Next Story