کراچی لٹریچر فیسٹیول خوبصورت یادوں کیساتھ اختتام پذیر
آخری روزکا آغاز’’ تاریخ اور ہمارے مسائل‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیشن سے ہوا، ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر جعفر نے اظہار کیا.
کراچی لٹریچر فیسٹیول اپنی خوبصورت یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام کراچی کے مقامی ہوٹل میں چوتھے لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا جس کا آغاز جمعے کو ہوا اور یہ اتوار کی شام اپنے اختتام کو پہنچ گیا، فیسٹیول میں غالب،منٹو،فیض،کی شخصیات اور فن پر گفتگوکی گئی جبکہ امریکا اور پاکستان کے سیاسی حالات ،پاکستان اور روسی حکومت کے درمیان تعلقات،سمیت پاکستان میں موجودہ ڈرامہ ،تھیٹراورفلم کی صورت حال کے حوالے سے سیشن منعقد کیے گئے، فیسٹیول میں مختلف موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں کی تقاریب کا اہتمام بھی کیا گیا۔
اس کے علاوہ 50سے زائد کتابوں کے اسٹال لگائے گئے،بچوں کے لیے خصوصی پتلی تماشہ اور چلڈرن فیسٹیول بھی ہواجس میں نئے لکھنے والوں نے اپنے سینئرزکو اپنا کلام پیش کیا، فیسٹیول کے دوسرے روز محفل مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا، کراچی لٹریچر فیسٹیول کے تیسرے روز کا آغازتاریخ اور ہمارے مسائل کے عنوان سے منعقدہ سیشن سے ہوا، اس سیشن میں ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر جعفرنے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ہمیشہ سے عجیب و غریب مسائل کا شکار رہا ہے، جب مشرقی پاکستان کے ساتھ زیادتیاں جاری تھیں تو فوج بھی اس کا حصہ تھی، آج بلوچستان بھی انھیں مسائل کا شکار ہے۔
دوسرا سیشن کلاسیکل ادب پرہوا جس میں زہرہ نگاہ نے ،میر تقی میر،سودا،درد اور دیگر استاد شعرا کے اشعار سنائے، اس موقع پر انتظار حسین نے کہا کہ میں زہرہ نگاہ کو 45سال سے جانتا ہوں مگر آج ان کا نیا رنگ دیکھ کر خوشی ہوئی، فیسٹیول کے تیسرے سیشن میں فلسطینی رائٹر ابولیش کے ساتھ ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کی آزادی سے محروم رکھا گیا ہے،مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے،فیسٹیول کے چوتھے سیشن میں منٹو کے حوالے سے گفتگوکی گئی اور بھارتی اسکالر شمیم حنفی کی کتاب پورا منٹو کی تقریب بھی منعقد ہوئی، اس موقع پر شمیم حنفی نے کہا کہ منٹو کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا، پبلیشر نے ان کی ان تحریروں کو عوام تک پہنچایا جس میں جنسیات اور ہجرت کا تذکرہ تھا جبکہ منٹو کے ہاں اس زیادہ معیاری کام موجود ہے۔
فیسٹیول کے تیسرے روز معروف شاعر امجد اسلام امجد،معروف ڈرامہ ڈائریکٹرضیا محی الدین، افسانہ نگارعبداللہ حسین کے ساتھ شامیں منائی گئیں جبکہ بچوں کیلیے خصوصی پروگرامز کا بھی اہتمام کیا گیا، کراچی لٹریچر فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے اکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی مینجنگ ڈائریکٹر امینہ سید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید نہیں تھی کہ بارش اور کراچی کے خراب حالات کے باوجود یہ فیسٹیول اتنا کامیاب ہوجائے گا،برطانوی سیاست دان، صحافی اور براڈ کاسٹر جارج گیلووے نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا،کراچی لٹریچر فیسٹیول کے تیسرے روز متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار،رضاہارون،شیخ افضل، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماتاج حیدر،چیف الیکشن کمیشن فخرالدین جی ابراہیم،قیصر بنگالی،محتسب اعلی سندھ اسداشرف ملک،شرف الدین میمن سمیت شہر کی اہم سیاسی ،ادبی ،سماجی اورثقافتی شخصیات نے شرکت کی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام کراچی کے مقامی ہوٹل میں چوتھے لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا جس کا آغاز جمعے کو ہوا اور یہ اتوار کی شام اپنے اختتام کو پہنچ گیا، فیسٹیول میں غالب،منٹو،فیض،کی شخصیات اور فن پر گفتگوکی گئی جبکہ امریکا اور پاکستان کے سیاسی حالات ،پاکستان اور روسی حکومت کے درمیان تعلقات،سمیت پاکستان میں موجودہ ڈرامہ ،تھیٹراورفلم کی صورت حال کے حوالے سے سیشن منعقد کیے گئے، فیسٹیول میں مختلف موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں کی تقاریب کا اہتمام بھی کیا گیا۔
اس کے علاوہ 50سے زائد کتابوں کے اسٹال لگائے گئے،بچوں کے لیے خصوصی پتلی تماشہ اور چلڈرن فیسٹیول بھی ہواجس میں نئے لکھنے والوں نے اپنے سینئرزکو اپنا کلام پیش کیا، فیسٹیول کے دوسرے روز محفل مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا، کراچی لٹریچر فیسٹیول کے تیسرے روز کا آغازتاریخ اور ہمارے مسائل کے عنوان سے منعقدہ سیشن سے ہوا، اس سیشن میں ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر جعفرنے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ پاکستان ہمیشہ سے عجیب و غریب مسائل کا شکار رہا ہے، جب مشرقی پاکستان کے ساتھ زیادتیاں جاری تھیں تو فوج بھی اس کا حصہ تھی، آج بلوچستان بھی انھیں مسائل کا شکار ہے۔
دوسرا سیشن کلاسیکل ادب پرہوا جس میں زہرہ نگاہ نے ،میر تقی میر،سودا،درد اور دیگر استاد شعرا کے اشعار سنائے، اس موقع پر انتظار حسین نے کہا کہ میں زہرہ نگاہ کو 45سال سے جانتا ہوں مگر آج ان کا نیا رنگ دیکھ کر خوشی ہوئی، فیسٹیول کے تیسرے سیشن میں فلسطینی رائٹر ابولیش کے ساتھ ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کی آزادی سے محروم رکھا گیا ہے،مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے،فیسٹیول کے چوتھے سیشن میں منٹو کے حوالے سے گفتگوکی گئی اور بھارتی اسکالر شمیم حنفی کی کتاب پورا منٹو کی تقریب بھی منعقد ہوئی، اس موقع پر شمیم حنفی نے کہا کہ منٹو کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا، پبلیشر نے ان کی ان تحریروں کو عوام تک پہنچایا جس میں جنسیات اور ہجرت کا تذکرہ تھا جبکہ منٹو کے ہاں اس زیادہ معیاری کام موجود ہے۔
فیسٹیول کے تیسرے روز معروف شاعر امجد اسلام امجد،معروف ڈرامہ ڈائریکٹرضیا محی الدین، افسانہ نگارعبداللہ حسین کے ساتھ شامیں منائی گئیں جبکہ بچوں کیلیے خصوصی پروگرامز کا بھی اہتمام کیا گیا، کراچی لٹریچر فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے اکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی مینجنگ ڈائریکٹر امینہ سید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید نہیں تھی کہ بارش اور کراچی کے خراب حالات کے باوجود یہ فیسٹیول اتنا کامیاب ہوجائے گا،برطانوی سیاست دان، صحافی اور براڈ کاسٹر جارج گیلووے نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا،کراچی لٹریچر فیسٹیول کے تیسرے روز متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار،رضاہارون،شیخ افضل، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماتاج حیدر،چیف الیکشن کمیشن فخرالدین جی ابراہیم،قیصر بنگالی،محتسب اعلی سندھ اسداشرف ملک،شرف الدین میمن سمیت شہر کی اہم سیاسی ،ادبی ،سماجی اورثقافتی شخصیات نے شرکت کی۔