پیکرِ تسلیم و رضا کی قربانی
ہر آنے والی صبحِ بہاراں اپنے حریم ِ گُلستاں کو اسمٰعیلؑ کی معصوم ادائے نیازمندی کی خوش بُو سے سجاتی رہے گی
QUETTA:
تقابل ادیان کے تجزیہ نگار اور محقق اس حقیقت کا واضح ادراک رکھتے ہیں کہ دین خدائے لم یزل ہر اعتبار سے دیگر ادیان پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے۔ اس بات کی اہمیت سے انکار کرنا گویا طلوعِ آفتاب سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔
اسلام کی حقانیت اور صداقت کو دل و جان سے قبول کرنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں پر اس کارگہہ حیات میں فانی زندگی کے ایام گزارنے کے لیے مذہبی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے شب و روز کے معمولات میں آسانیاں پیدا فرماتا ہے وہاں بعض غیرمعمولی حالات میں اپنے فداکاروں سے ایسی صبرآزما قربانیاں طلب کرتا ہے جن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں۔ ایسی جاں گداز آزمائشوں سے آتشِ نمرود کے بپھرے ہوئے شعلوں میں بے خطر کود جانے والے امام انسانیت کے ارفع منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ ایسے خوش بخت لوگوں کا فردوسِ بریں کی جاں بخش بہاریں استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔
معرکہ ہائے تسلیم و رضا میں صدقِ خلیلؑ اور تسلیم و رضائے اسماعیلؑ ہر سال ایک نیا روپ لے کر دین خدا و مصطفی ﷺ کے علم برداروں کو زندگی بخش حقیقت کی نوید دینے کے لیے جلوہ گر ہوتا ہے۔ تذکرہِ قربانی اسماعیل ؑ سے پہلے اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ اگرچہ اسلام مالی قربانیاں پیش کرنے والوں کو بھی نہ صرف نجاتِ اُخروی کی نویدِ جاں فزا سے مالامال کرتا ہے بل کہ جنت کی کیف آفرین فضاؤں میں اُن کے مقامات کا تعین بھی کرتا ہے۔
اگرچہ راہِ حق میں خود کو اور اپنے جگر پاروں کو قربان کرنا بہت بڑی شان و عظمت کا حامل ہے اور یہ سعادت اُنہی عظیم بندگانِ حق کے حصے میں آتی ہے جنہیں دیکھ کر موت بھی لڑکھڑا جاتی ہے۔ یہ حکم و اطاعت خداوندی کی انتہا ہوتی ہے۔ مگر اپنے لختِ جگر کے گلے پر خود اپنے ہاتھوں سے چُھری چلا دینا اور پھر یہ بھی خیال رکھنا کہ کہیں اس لامثال اور عظیم الشان اور ارفع و اعلیٰ کام کو انجام دیتے وقت شفقتِ پِدری کروٹیں نہ لینے لگے اور اس نرالے اور جداگانہ حکمِ الٰہی کی انجام دہی میں یک سرِمو انحراف نہ ہوجائے۔ یہ نُدرت آفریں کارنامہ انجام دینا حضرت ابراہیم خلیل اﷲ اور حضرت اسماعیل ذبیح اﷲ کا ہی کام ہے۔ صدقِ خلیل اﷲ وہ جاودانہ ترکیب و اضافت ہے جو اہل ایمان کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور تازگی عطا کرتی ہے۔
شہیدانِ وفا کے حوصلے تھے داد کے قابل
وہاں پر شُکر کرتے تھے جہاں پر صبر مُشکل تھا
ہم سنتِ ابراہیمی کو یوں تو ہر برس اپنے روایتی انداز میں تازہ رکھنے کے لیے قربانی کرتے ہیں لیکن اس کا ایمان افروز پس منظر یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ نام لینا بہت آسان ہوتا ہے مگر شیطانی قوتوں کی بھرپُور اور گُم راہ کُن ترغیبات کو پائے استحقار سے ٹھکراتے ہوئے اپنے جگر گوشے کو بے نیازانہ مقتل کی طرف لے چلنا اور بے مثال استقامت و عزیمت اور بے نظیر استقلال کے ساتھ اس انداز سے زمین پر لٹا دینا کہ چھُری کا چلنا یقینی امر بن جائے۔
اور پھر ذرا اُس رفعت ِ تخیّل کو ذہن میں لائیے جب سعادت مند بیٹا اپنے عظیم باپ سے خود عرض کر رہا ہے کہ ابا جان آنکھوں پر پٹی ضرور باندھ لیں کہ کہیں وہ فطری محبت کی غایت میرے گلے اور آپ کے ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور حکم ِ خداوندی میں کوئی ناقابلِ معافی تساہل نہ واقع ہو جائے۔ چشم ِ فلک نے بہ ظاہر دل ربا مگر دل کو درد سے سرشار کر دینے والا ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ دستِ خلیل اﷲ نہ کپکپاتا ہے، نہ لرزتا ہے، نہ ڈگمگاتا ہے اور بیٹا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چھری کو دیکھ کر مُسکراتا ہے۔ اس ظرفِ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کو دیکھ کر آسمان سے نِدا آتی ہے اے خلیل تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اب ہم اسے ذبحِ عظیم کے نام سے قیامت تک کے لیے باقی رکھیں گے۔
اے ابراہیم خلیل اﷲ آپ کی شانِ فیاضی پر لاکھوں دُرہائے تاب دار نثار ہوتے رہیں گے کہ آپؑ نے اپنی متاعِ گراں بہا کو راہِ خداوندی میں نثار کرنے میں ذرا تامل سے کام نہیں لیا۔ اے سیدنا ابراہیمؑ زمین کے اُتنے حصے پر جبین تقدیسِ محبت خم ہوتی رہے گی جہاں اسماعیلؑ کو لٹا کر آپؑ نے تسلیم و رضا کا اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ اے اسماعیل ذبیح اﷲ تیرے آدابِ فرزندی کو نسیم ِ بہار، رحمتِ پروردگار کی صورت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کرتی رہے گی۔ ستاروں کی رعنائی خورشیدِ جہاں تاب کی زرفشانی آپؑ کے جذبہ ِ اطاعت پر تاقیامت نثار ہوتی رہے گی۔
اہل ِ فراست کے فکر و نظر کی چاندنی تا ابد آپؑ پر نچھاور ہوتی رہے گی۔ ہر آنے والی صبحِ بہاراں اپنے حریم ِ گُلستاں کو اسماعیلؑ کی معصوم ادائے نیازمندی کی خوش بُو سے سجاتی رہے گی۔ سلام ہو ابراہیمؑ کے جذبۂ ایثار کو جو ہر سال فدایانِ اسلام کے دلوں میں نقشِ جمالِ عید کو مرتسم کرتا چلا جاتا ہے۔ سلام ہو اُس ذبح ِ عظیم کی اوج و رفعت کو جو اہل دل کی نگاہوں میں دلیل ِ عشقِ حقیقی بن کر راسخ تر ہوتی چلی جارہی ہے۔
عندلیبانِ گلستانِ جہاں اسماعیلؑ کی اُس معصومانہ مُسکراہٹ پر ہزار زمزمے نثار کرتے رہیں گے جو قربان گاہ کی جانب جاتے وقت ذوقِ شہادت سے معمور اُن لب ہائے نزاکت پر طاری تھے۔ اے فرزندِ ابراہیمؑ آپ نے اہل دنیا کو بتا دیا کہ وہ زندگی ستاروں سے بھی زیادہ جھلملاتی اور پھولوں سے بھی زیادہ مُسکراتی ہے جو رضائے خالقِ کائنات پر نثار ہوتی ہے ۔ قربانیِ اسماعیلؑ نے دنیا والوں کو یہ بھی بتا دیا کہ اُس ارتقا کو کبھی زوال کا شائبہ تک بھی نہیں ہوسکتا جس میں خلوص کی بُوئے حلاوت آتی ہو۔ اور یہ وہ اوج و کمال ہوتا ہے جو تا ابد عروسِ صبح کے رُخ سے نقاب اُلٹ کر دینِ ابراہیمی کے پیروکاروں کو اپنے دور کے ابراہیم کی تلاش کا درس دیتا ہے اور دنیا کے صنم کدوں میں لات و عزیٰ کو فنا کر دینے کی ترغیب دیتا رہے گا۔
مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں
وہ نقش چھوڑے ہیں تم نے وفا کے رستے میں
تقابل ادیان کے تجزیہ نگار اور محقق اس حقیقت کا واضح ادراک رکھتے ہیں کہ دین خدائے لم یزل ہر اعتبار سے دیگر ادیان پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے۔ اس بات کی اہمیت سے انکار کرنا گویا طلوعِ آفتاب سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔
اسلام کی حقانیت اور صداقت کو دل و جان سے قبول کرنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسلام جہاں اپنے ماننے والوں پر اس کارگہہ حیات میں فانی زندگی کے ایام گزارنے کے لیے مذہبی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے شب و روز کے معمولات میں آسانیاں پیدا فرماتا ہے وہاں بعض غیرمعمولی حالات میں اپنے فداکاروں سے ایسی صبرآزما قربانیاں طلب کرتا ہے جن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں۔ ایسی جاں گداز آزمائشوں سے آتشِ نمرود کے بپھرے ہوئے شعلوں میں بے خطر کود جانے والے امام انسانیت کے ارفع منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ ایسے خوش بخت لوگوں کا فردوسِ بریں کی جاں بخش بہاریں استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔
معرکہ ہائے تسلیم و رضا میں صدقِ خلیلؑ اور تسلیم و رضائے اسماعیلؑ ہر سال ایک نیا روپ لے کر دین خدا و مصطفی ﷺ کے علم برداروں کو زندگی بخش حقیقت کی نوید دینے کے لیے جلوہ گر ہوتا ہے۔ تذکرہِ قربانی اسماعیل ؑ سے پہلے اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ اگرچہ اسلام مالی قربانیاں پیش کرنے والوں کو بھی نہ صرف نجاتِ اُخروی کی نویدِ جاں فزا سے مالامال کرتا ہے بل کہ جنت کی کیف آفرین فضاؤں میں اُن کے مقامات کا تعین بھی کرتا ہے۔
اگرچہ راہِ حق میں خود کو اور اپنے جگر پاروں کو قربان کرنا بہت بڑی شان و عظمت کا حامل ہے اور یہ سعادت اُنہی عظیم بندگانِ حق کے حصے میں آتی ہے جنہیں دیکھ کر موت بھی لڑکھڑا جاتی ہے۔ یہ حکم و اطاعت خداوندی کی انتہا ہوتی ہے۔ مگر اپنے لختِ جگر کے گلے پر خود اپنے ہاتھوں سے چُھری چلا دینا اور پھر یہ بھی خیال رکھنا کہ کہیں اس لامثال اور عظیم الشان اور ارفع و اعلیٰ کام کو انجام دیتے وقت شفقتِ پِدری کروٹیں نہ لینے لگے اور اس نرالے اور جداگانہ حکمِ الٰہی کی انجام دہی میں یک سرِمو انحراف نہ ہوجائے۔ یہ نُدرت آفریں کارنامہ انجام دینا حضرت ابراہیم خلیل اﷲ اور حضرت اسماعیل ذبیح اﷲ کا ہی کام ہے۔ صدقِ خلیل اﷲ وہ جاودانہ ترکیب و اضافت ہے جو اہل ایمان کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور تازگی عطا کرتی ہے۔
شہیدانِ وفا کے حوصلے تھے داد کے قابل
وہاں پر شُکر کرتے تھے جہاں پر صبر مُشکل تھا
ہم سنتِ ابراہیمی کو یوں تو ہر برس اپنے روایتی انداز میں تازہ رکھنے کے لیے قربانی کرتے ہیں لیکن اس کا ایمان افروز پس منظر یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ نام لینا بہت آسان ہوتا ہے مگر شیطانی قوتوں کی بھرپُور اور گُم راہ کُن ترغیبات کو پائے استحقار سے ٹھکراتے ہوئے اپنے جگر گوشے کو بے نیازانہ مقتل کی طرف لے چلنا اور بے مثال استقامت و عزیمت اور بے نظیر استقلال کے ساتھ اس انداز سے زمین پر لٹا دینا کہ چھُری کا چلنا یقینی امر بن جائے۔
اور پھر ذرا اُس رفعت ِ تخیّل کو ذہن میں لائیے جب سعادت مند بیٹا اپنے عظیم باپ سے خود عرض کر رہا ہے کہ ابا جان آنکھوں پر پٹی ضرور باندھ لیں کہ کہیں وہ فطری محبت کی غایت میرے گلے اور آپ کے ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور حکم ِ خداوندی میں کوئی ناقابلِ معافی تساہل نہ واقع ہو جائے۔ چشم ِ فلک نے بہ ظاہر دل ربا مگر دل کو درد سے سرشار کر دینے والا ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ دستِ خلیل اﷲ نہ کپکپاتا ہے، نہ لرزتا ہے، نہ ڈگمگاتا ہے اور بیٹا موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چھری کو دیکھ کر مُسکراتا ہے۔ اس ظرفِ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کو دیکھ کر آسمان سے نِدا آتی ہے اے خلیل تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اب ہم اسے ذبحِ عظیم کے نام سے قیامت تک کے لیے باقی رکھیں گے۔
اے ابراہیم خلیل اﷲ آپ کی شانِ فیاضی پر لاکھوں دُرہائے تاب دار نثار ہوتے رہیں گے کہ آپؑ نے اپنی متاعِ گراں بہا کو راہِ خداوندی میں نثار کرنے میں ذرا تامل سے کام نہیں لیا۔ اے سیدنا ابراہیمؑ زمین کے اُتنے حصے پر جبین تقدیسِ محبت خم ہوتی رہے گی جہاں اسماعیلؑ کو لٹا کر آپؑ نے تسلیم و رضا کا اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ اے اسماعیل ذبیح اﷲ تیرے آدابِ فرزندی کو نسیم ِ بہار، رحمتِ پروردگار کی صورت میں عقیدت کا نذرانہ پیش کرتی رہے گی۔ ستاروں کی رعنائی خورشیدِ جہاں تاب کی زرفشانی آپؑ کے جذبہ ِ اطاعت پر تاقیامت نثار ہوتی رہے گی۔
اہل ِ فراست کے فکر و نظر کی چاندنی تا ابد آپؑ پر نچھاور ہوتی رہے گی۔ ہر آنے والی صبحِ بہاراں اپنے حریم ِ گُلستاں کو اسماعیلؑ کی معصوم ادائے نیازمندی کی خوش بُو سے سجاتی رہے گی۔ سلام ہو ابراہیمؑ کے جذبۂ ایثار کو جو ہر سال فدایانِ اسلام کے دلوں میں نقشِ جمالِ عید کو مرتسم کرتا چلا جاتا ہے۔ سلام ہو اُس ذبح ِ عظیم کی اوج و رفعت کو جو اہل دل کی نگاہوں میں دلیل ِ عشقِ حقیقی بن کر راسخ تر ہوتی چلی جارہی ہے۔
عندلیبانِ گلستانِ جہاں اسماعیلؑ کی اُس معصومانہ مُسکراہٹ پر ہزار زمزمے نثار کرتے رہیں گے جو قربان گاہ کی جانب جاتے وقت ذوقِ شہادت سے معمور اُن لب ہائے نزاکت پر طاری تھے۔ اے فرزندِ ابراہیمؑ آپ نے اہل دنیا کو بتا دیا کہ وہ زندگی ستاروں سے بھی زیادہ جھلملاتی اور پھولوں سے بھی زیادہ مُسکراتی ہے جو رضائے خالقِ کائنات پر نثار ہوتی ہے ۔ قربانیِ اسماعیلؑ نے دنیا والوں کو یہ بھی بتا دیا کہ اُس ارتقا کو کبھی زوال کا شائبہ تک بھی نہیں ہوسکتا جس میں خلوص کی بُوئے حلاوت آتی ہو۔ اور یہ وہ اوج و کمال ہوتا ہے جو تا ابد عروسِ صبح کے رُخ سے نقاب اُلٹ کر دینِ ابراہیمی کے پیروکاروں کو اپنے دور کے ابراہیم کی تلاش کا درس دیتا ہے اور دنیا کے صنم کدوں میں لات و عزیٰ کو فنا کر دینے کی ترغیب دیتا رہے گا۔
مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں
وہ نقش چھوڑے ہیں تم نے وفا کے رستے میں