بٹگرام مانسہرہ اور سوات چائے کی کاشت کیلیے موزوں قرار
تینوں علاقوں کے64 ہزارہیکٹر رقبے پر کاشت سے چائے کی ملکی طلب پوری کی جاسکتی ہے
حکومت کی غفلت کے باعث پاکستان ہر سال 50ارب روپے سے زائد کی چائے درآمد کررہا ہے جبکہ پاکستان میں چائے پر ریسرچ کرنے والے ادارے نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بٹگرام، مانسہرہ اور سوات کے 64 ہزار ہیکٹر علا قے کو چائے کی کاشت کے لیے موضوع علاقے قرار دیا ہے۔
وزارت فوڈ سیکیورٹی کے ماتحت ادارے نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این ٹی ایچ آ ر آئی) مانسہرہ شنکیاری کے ماہرین کی ریسرچ کے مطابق پاکستان کے شمالی اور آزاد کشمیر کے تین علاقوں میں چائے کی پتی کی پیداوار کی جا سکتی ہے۔ ان علاقوں میں مانسہرہ، بٹگرام اور سوات شامل ہیں جہاں پر پاکستان سالانہ 64 ہزار ہیکٹرز پر چائے کی پیداوار کر سکتا ہے جبکہ حکومت کی غفلت کے باعث پاکستان سالانہ 50ارب روپے سے زائد کی چائے درآمد کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیو ٹ (این ٹی ایچ آ ر آئی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایف ایس حامد نے ایکسپریس سے گفتگو کر تے ہوئے کہاکہ نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(این ٹی ایچ آر آئی) چائے کی مختلف اقسام کی پیداوار پر ریسرچ کرتا ہے۔ ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں بھی سالانہ10ٹن تک چائے کی پیداوار کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ایف ایس حامد نے کہاکہ پاکستان کے علاقوں مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہاں چائے کی پیداوار کی جا سکے۔ پاکستان ان تینوں علاقوں میں تقریبا 64ہزار ہیکٹر پر چائے کی پیداوار کر سکتا ہے جس سے پاکستان کی چائے کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ چائے کی پیداوارکاشت کاروں کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے تاہم اس کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے 2 سے 3سال لگتے ہیں جس کی وجہ سے غریب کاشت کار چائے کی پیداوار نہیں کر رہے۔
ایف ایس حامد نے کہاکہ لوگوں کو چائے کی پیداوار میں آگے آنا چاہیے۔ اس سے پاکستان کی چائے کی ضروریات پوری ہونے کے علاوہ کاشت کاروں کو بھی فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ سوات میں چائے کی پیداوار پر کام شروع کیا تھا لیکن سوات آپریشن کے وقت حالات خراب ہو گئے اور وہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔
وزارت فوڈ سیکیورٹی کے ماتحت ادارے نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (این ٹی ایچ آ ر آئی) مانسہرہ شنکیاری کے ماہرین کی ریسرچ کے مطابق پاکستان کے شمالی اور آزاد کشمیر کے تین علاقوں میں چائے کی پتی کی پیداوار کی جا سکتی ہے۔ ان علاقوں میں مانسہرہ، بٹگرام اور سوات شامل ہیں جہاں پر پاکستان سالانہ 64 ہزار ہیکٹرز پر چائے کی پیداوار کر سکتا ہے جبکہ حکومت کی غفلت کے باعث پاکستان سالانہ 50ارب روپے سے زائد کی چائے درآمد کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیو ٹ (این ٹی ایچ آ ر آئی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایف ایس حامد نے ایکسپریس سے گفتگو کر تے ہوئے کہاکہ نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(این ٹی ایچ آر آئی) چائے کی مختلف اقسام کی پیداوار پر ریسرچ کرتا ہے۔ ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں بھی سالانہ10ٹن تک چائے کی پیداوار کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ایف ایس حامد نے کہاکہ پاکستان کے علاقوں مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہاں چائے کی پیداوار کی جا سکے۔ پاکستان ان تینوں علاقوں میں تقریبا 64ہزار ہیکٹر پر چائے کی پیداوار کر سکتا ہے جس سے پاکستان کی چائے کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ چائے کی پیداوارکاشت کاروں کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے تاہم اس کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے 2 سے 3سال لگتے ہیں جس کی وجہ سے غریب کاشت کار چائے کی پیداوار نہیں کر رہے۔
ایف ایس حامد نے کہاکہ لوگوں کو چائے کی پیداوار میں آگے آنا چاہیے۔ اس سے پاکستان کی چائے کی ضروریات پوری ہونے کے علاوہ کاشت کاروں کو بھی فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ سوات میں چائے کی پیداوار پر کام شروع کیا تھا لیکن سوات آپریشن کے وقت حالات خراب ہو گئے اور وہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔