بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی کا قانون پارلیمنٹ سے منظور

انھیں آزادبنگلہ دیش میں سیاست کاحق نہیں،پابندی کی حمایت کرونگی،حسینہ واجد،ہزاروں مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑگئی۔

انھیں آزادبنگلہ دیش میں سیاست کاحق نہیں،پابندی کی حمایت کرونگی،حسینہ واجد،ہزاروں مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑگئی فوٹو: رائٹرز

لاہور:
بنگلہ دیشی پارلیمنٹ نے ایک قانون میں ترمیم کی منظوری دی ہے جس کے تحت ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جا سکے گا۔

یہ ترمیم جماعت اسلامی پر پابندی کی راہ ہموار کرے گی۔ وزیرقانون شفیق احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس قانون کے مطابق بوقت ضرورت کسی بھی تنظیم یا جماعت کے خلاف جنگی جرائم کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایاجا سکتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اسکی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ نائب وزیرقانون قمرالاسلام نے بتایا کہ اس سے قبل جنگی جرائم کے مقدمے صرف افراد پر چلتے تھے۔

یہ جماعت پر پابندی کی جانب ایک قدم ہے۔ دریں اثنا ان خبروں نے وسطی ڈھاکا میں جمع ہزاروں مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑادی۔ یہ قرارداد شیخ حسینہ واجد کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اسلام مخالف بلاگر کے مبینہ قاتلوں کی جماعت پر پابندی کی حمایت کریں گی، انھیں آزاد بنگلادیش میں سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں۔




واضح رہے کہ بنگلا دیش میں ایک ویب سائٹ بلاگر احمدرجب حیدر کو جمعے کی شب انکے گھر کے قریب قتل کردیا گیاتھا۔ 35 سالہ رجب جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرنیوالے احتجاجی مظاہروں کے انتظامی شریک تھے۔ بلاگر کے قتل سے تعلق کے الزام میں ایک اسلامی ویب سائٹ کو بند کردیا گیا ہے۔ پولیس قتل کی وجوہ کا تعین کررہی ہے تاہم رجب کے بھائی کا کہنا ہے کہ انکے بھائی کو جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ نے ان کے بلاگس اور دیگر آن لائن سرگرمیوں کے سبب قتل کیا۔ اتوار کو جماعت اسلامی نے ایک بیان میں رجب کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اور اس کا اسٹوڈنٹ ونگ جرائم پیشہ سرگرمیوں پر یقین نہیں رکھتے۔

دریں اثنا مظاہروں کا انتظام کرنے والے ایک اور بلاگر کا قانون سازی کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ محض جزوی جیت ہے، ہم جماعت اسلامی اور اسکے اسٹوڈنٹ ونگ پر مکمل پابندی تکاحتجاج جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب جماعت کے حامی مظاہرین کا کہنا ہے کہ انکے رہنماؤں کے خلاف مقدمات ختم کیے جائیں۔ مخالف مظاہرین میں جھڑپوں سے اب تک 13 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
Load Next Story