دہشتگردی کے خلاف الرٹ رہنے کی ضرورت
دہشگردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی
KALAT:
کراچی کے علاقے گلزار ہجری اور سہراب گوٹھ میں مقابلے کے دوران ملا فضل اللہ کے کزن سمیت کالعدم تنظیم کے 4 دہشت گردوں کی ہلاکت ، پولیس اہلکار کی شہادت اور معصوم بچہ کے زخمی ہونے کے واقعے کو پنجگور میں سیکیورٹی فورسز کے قافلہ پر دہشتگردوں کے حملے کے سیاق وسباق میں دیکھا جائے اور اس میں افسر سمیت 3اہلکاروں کی شہادت اور 3 کے زخمی ہونے کی ہولناکی کا معروضی جائزہ لیا جائے تو خطے میں پیدا کی جانے والی تہلکہ خیز صورتحال بلاشبہ دہشگردی کے وسیع تر تناظر میں ایک گرینڈ پلان کا حصہ معلوم ہوتی ہے جسے بادی النظر میں بعض ملک دشمنوں اور غیر ملکی قوتوں کی آشیر باد حاصل ہے، جب کہ سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر دہشتگردوں کے قاتلانہ حملہ کی پلاننگ بھی اسی سازش کی کڑی سے الگ نہیں ہوسکتی، اظہار الحسن نے اس بات کا اظہار اپنے بیان میں کیا ہے کہ یہ واقعہ اسٹریٹ کرائم نہیں، دہشت گردی کا نیا طریقہ ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس پر حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں کو سنجیدگی سے قوم کو بتانا چاہیے کہ دہشگردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی ہے، پولیس کے مطابق کراچی کی واردات میں ملوث دہشتگردوں نے ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کے ساتھ ساتھ دیگر بہیمانہ وارداتوں کا اعتراف کیا ہے، جسکی روشنی میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی تفتیش کا محوراب ایک اور درد انگیز حقیقت کی جانب موڑا جانا چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ اور جامعات سے فارغ التحصیل یا تحصیل علم کرنے والے طالب علموں کی طالبان، القاعدہ، داعش میں شمولیت اور مذہبی جنون اور برین واشنگ کے باعث دیگر سنگدلانہ واردات کی جانب رجوع ہونے کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، دہشتگردی کے اسی کشش ثقل سے پاکستان کو بھی ہدف بنایا جارہا ہے، اس کی دہشتگردی کی خلاف قربانیوں کا صلہ تو درکنار الٹا اسے ڈو مور کے حکم کا سامنا ہے۔
دنیا پر قبضہ کرنے اور حکومتوں کو داخلی عدم استحکام سے دوچار کرنے کا یہ رجحان مشرق وسطی کی سیاست کے بطن سے ابھرا اور فاٹا تک پھیل گیا، نائن الیون کے بعد سے جہادی کلچر نے جمہوری ملکوں کو اپنے ہدف پر لے لیا ہے، آج صورتحال سنگین تر ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں دہشتگردانہ وارداتوں کی نئی لہر پر واضح بیانیہ قوم کے سامنے آنا چاہیے، دشمن ثابت کرنا چاہتا ہے کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ابھی موجود ہیں ، اسی لیے سی پیک کو دشمن کے ایجنٹوں کے ذریعے ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار ، ملکی دانشوروں ، سیکیورٹی فورسز اور تجزیہ کاروں کی مشترکہ سوچ بنیادی پرستی اور رجعت پسندانہ ذہنیت تک جاکر رکنی نہیں چاہیے کیونکہ دنیا نئے تعلم یافتہ ، بظاہر شائستہ نظر آنے والے دہشتگرد کو ٹیکنالوجی،سائنسی و فنی تعلیم کے ہتھیاروں سے لیس دیکھ رہی ہے، بات اس فرسودہ، خود ساختہ ذہنیت سے آگے جاچکی ہے، دہشتگرد عبدالکریم سروش صدیقی کے والد سجاد صدیقی اس کے بھائی سمیت11 مشتبہ افراد کو حراست میں ہیں۔
ایس ایچ او کہنا ہے کہ زخمی حالت میں فرار ہونے والاعبدالکریم سروش صدیقی کالعدم انصار الشریعہ کا اہم کارندہ تھا اور رکن اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر حملے میں مارے جانے والے حسان کا قریبی ساتھی تھا ، عبدالکریم سروش صدیقی کراچی یونیورسٹی سے 2011میں اپلائیڈ فزکس کا طالبعلم رہا اور وہ ابھی پی ایچ ڈی کررہا تھا ۔ٕپولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار الحسن پر حملے میں استعمال کیے جانے والے ہتھیار اس سے قبل عزیز آباد میں ڈی ایس پی ٹریفک اور ان کے ڈرائیور کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ سائٹ کے علاقے میں 4 پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں استعمال کیے گئے تھے۔
میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا کہ پولیس وردی میں خواجہ اظہار پر حملہ کر کے کراچی کو آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی، دشمن سیاسی انتشار اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنا چاہتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن پر حملے کی منصوبہ بندی کراچی سے باہر ہوئی، انصار الشریعہ سمیت 94 مدارس کو واچ لسٹ پر ڈالنے کے لیے وفاق کو لکھ چکے ہیں، وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جامعات کو بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ دہشت گردوں کی افزائش گاہ تو نہیں بن گئیں۔ بغیر منصوبہ بندی کے شہرقائد بڑھ رہا ہے اور کاسموپولیٹن شہر کی حیثیت سے ہر زبان کا شخص اور باہر کے لوگ یہاں رہتے ہیں مگر کراچی جیسے شہر میں اور اردگرد کون رہ رہا ہے پتا نہیں چلتا۔
وزیر اعلیٰ کی باتیں قابل غور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے سیکیورٹی پر مامور حکام کو بین الصوبائی انٹیلی جنس شیئرنگ کے میکنزم کو مزید مضبوط بنانے کے لیے متحرک ہونا پڑیگا، جیلوں کی حالت سدھاری جائے، کراچی عرصہ دراز سے لاقانونیت کا جنگل رہا ہے ، ٹارگیٹڈ آپریشن سے بہر حال جہاں جرائم پیشہ عناصر پر گرفت نتیجہ خیز رہی وہاں بھتہ خوری کا ناسور، گینگ وار ختم ہوئی مگر کئی دہشتگردکمانڈر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے بلوچستان اور افغانستان کی طرف نکل گئے اور وہیں سے دہشتگردی کی کارروائیوں کی مانیٹرنگ کررہے ہیں،اس لیے ہمہ وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
کراچی کے علاقے گلزار ہجری اور سہراب گوٹھ میں مقابلے کے دوران ملا فضل اللہ کے کزن سمیت کالعدم تنظیم کے 4 دہشت گردوں کی ہلاکت ، پولیس اہلکار کی شہادت اور معصوم بچہ کے زخمی ہونے کے واقعے کو پنجگور میں سیکیورٹی فورسز کے قافلہ پر دہشتگردوں کے حملے کے سیاق وسباق میں دیکھا جائے اور اس میں افسر سمیت 3اہلکاروں کی شہادت اور 3 کے زخمی ہونے کی ہولناکی کا معروضی جائزہ لیا جائے تو خطے میں پیدا کی جانے والی تہلکہ خیز صورتحال بلاشبہ دہشگردی کے وسیع تر تناظر میں ایک گرینڈ پلان کا حصہ معلوم ہوتی ہے جسے بادی النظر میں بعض ملک دشمنوں اور غیر ملکی قوتوں کی آشیر باد حاصل ہے، جب کہ سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر دہشتگردوں کے قاتلانہ حملہ کی پلاننگ بھی اسی سازش کی کڑی سے الگ نہیں ہوسکتی، اظہار الحسن نے اس بات کا اظہار اپنے بیان میں کیا ہے کہ یہ واقعہ اسٹریٹ کرائم نہیں، دہشت گردی کا نیا طریقہ ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس پر حکومت اور ملکی سلامتی کے اداروں کو سنجیدگی سے قوم کو بتانا چاہیے کہ دہشگردی کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی ہے، پولیس کے مطابق کراچی کی واردات میں ملوث دہشتگردوں نے ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کے ساتھ ساتھ دیگر بہیمانہ وارداتوں کا اعتراف کیا ہے، جسکی روشنی میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی تفتیش کا محوراب ایک اور درد انگیز حقیقت کی جانب موڑا جانا چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ اور جامعات سے فارغ التحصیل یا تحصیل علم کرنے والے طالب علموں کی طالبان، القاعدہ، داعش میں شمولیت اور مذہبی جنون اور برین واشنگ کے باعث دیگر سنگدلانہ واردات کی جانب رجوع ہونے کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، دہشتگردی کے اسی کشش ثقل سے پاکستان کو بھی ہدف بنایا جارہا ہے، اس کی دہشتگردی کی خلاف قربانیوں کا صلہ تو درکنار الٹا اسے ڈو مور کے حکم کا سامنا ہے۔
دنیا پر قبضہ کرنے اور حکومتوں کو داخلی عدم استحکام سے دوچار کرنے کا یہ رجحان مشرق وسطی کی سیاست کے بطن سے ابھرا اور فاٹا تک پھیل گیا، نائن الیون کے بعد سے جہادی کلچر نے جمہوری ملکوں کو اپنے ہدف پر لے لیا ہے، آج صورتحال سنگین تر ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں دہشتگردانہ وارداتوں کی نئی لہر پر واضح بیانیہ قوم کے سامنے آنا چاہیے، دشمن ثابت کرنا چاہتا ہے کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ابھی موجود ہیں ، اسی لیے سی پیک کو دشمن کے ایجنٹوں کے ذریعے ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار ، ملکی دانشوروں ، سیکیورٹی فورسز اور تجزیہ کاروں کی مشترکہ سوچ بنیادی پرستی اور رجعت پسندانہ ذہنیت تک جاکر رکنی نہیں چاہیے کیونکہ دنیا نئے تعلم یافتہ ، بظاہر شائستہ نظر آنے والے دہشتگرد کو ٹیکنالوجی،سائنسی و فنی تعلیم کے ہتھیاروں سے لیس دیکھ رہی ہے، بات اس فرسودہ، خود ساختہ ذہنیت سے آگے جاچکی ہے، دہشتگرد عبدالکریم سروش صدیقی کے والد سجاد صدیقی اس کے بھائی سمیت11 مشتبہ افراد کو حراست میں ہیں۔
ایس ایچ او کہنا ہے کہ زخمی حالت میں فرار ہونے والاعبدالکریم سروش صدیقی کالعدم انصار الشریعہ کا اہم کارندہ تھا اور رکن اسمبلی خواجہ اظہار الحسن پر حملے میں مارے جانے والے حسان کا قریبی ساتھی تھا ، عبدالکریم سروش صدیقی کراچی یونیورسٹی سے 2011میں اپلائیڈ فزکس کا طالبعلم رہا اور وہ ابھی پی ایچ ڈی کررہا تھا ۔ٕپولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ خواجہ اظہار الحسن پر حملے میں استعمال کیے جانے والے ہتھیار اس سے قبل عزیز آباد میں ڈی ایس پی ٹریفک اور ان کے ڈرائیور کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ سائٹ کے علاقے میں 4 پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں استعمال کیے گئے تھے۔
میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا کہ پولیس وردی میں خواجہ اظہار پر حملہ کر کے کراچی کو آگ میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی، دشمن سیاسی انتشار اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنا چاہتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہارالحسن پر حملے کی منصوبہ بندی کراچی سے باہر ہوئی، انصار الشریعہ سمیت 94 مدارس کو واچ لسٹ پر ڈالنے کے لیے وفاق کو لکھ چکے ہیں، وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ جامعات کو بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ دہشت گردوں کی افزائش گاہ تو نہیں بن گئیں۔ بغیر منصوبہ بندی کے شہرقائد بڑھ رہا ہے اور کاسموپولیٹن شہر کی حیثیت سے ہر زبان کا شخص اور باہر کے لوگ یہاں رہتے ہیں مگر کراچی جیسے شہر میں اور اردگرد کون رہ رہا ہے پتا نہیں چلتا۔
وزیر اعلیٰ کی باتیں قابل غور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے سیکیورٹی پر مامور حکام کو بین الصوبائی انٹیلی جنس شیئرنگ کے میکنزم کو مزید مضبوط بنانے کے لیے متحرک ہونا پڑیگا، جیلوں کی حالت سدھاری جائے، کراچی عرصہ دراز سے لاقانونیت کا جنگل رہا ہے ، ٹارگیٹڈ آپریشن سے بہر حال جہاں جرائم پیشہ عناصر پر گرفت نتیجہ خیز رہی وہاں بھتہ خوری کا ناسور، گینگ وار ختم ہوئی مگر کئی دہشتگردکمانڈر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے بلوچستان اور افغانستان کی طرف نکل گئے اور وہیں سے دہشتگردی کی کارروائیوں کی مانیٹرنگ کررہے ہیں،اس لیے ہمہ وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔