دم توڑتی حسرتوں کا المیہ
ماہرین قانون کی نظروں میں پھر ایسے فیصلوں کی وقعت و اہمیت کہاں باقی رہ جاتی ہے۔
ISLAMABAD:
ہمارے یہاں عام آدمی کی یہ دلی اور دیرینہ خواہش ہے کہ اِس ملک کی عدلیہ اتنی معتبر اور مقدس ہوجائے کہ کوئی اُس کی غیر جانبداری اور راست بازی پر شک و شبہ نہ کر سکے،اُسکی فیصلے پر تنقید نہ کرپائے۔اپنی اِس خواہش کی حقیقی تصویردیکھنے کی آرزو میں اِس قوم کے ستر سال بیت چکے ہیں۔لیکن ہنوز دلی دور است کی مصداق اُس کی یہ حسرت ابھی تک تشنہ تعبیر ہی ہے۔
2007ء میں چلائی جانے والی تحریک بحالی عدلیہ کے بعد یہ اُمید ہوچلی تھی کہ ہم عدلیہ کو آزادانہ فیصلے کرتے دیکھ پائیں گے، لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اِس کام کے لیے گرچہ ایک لمبا عرصہ ملا مگر انھوں نے بھی اپنے چاہنے والوں کو مایوس کیا۔
بظاہر وہ ایک ڈکٹیٹر کے سامنے کلمہ حق کے بہت بڑے علمبردار بن کر ابھرے تھے لیکن قدرت نے اُن کی بحالی کے بعد صرف بے بس و لاچار نظر آئے بلکہ مصلحتوں اور مجبوریوں کے تحت اپنے ہی بنائے گئے اصولوں پر سمجھوتہ کرتے دکھائی دیے۔ خود اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے کیس میں وہ ایمانداری اور پاسداری نہ دکھاپائے۔ وہ بات بات پر سوموٹو تو لیتے رہے لیکن کسی بھی مقدمے کو اُس کے منتقی انجام تک نہیں پہنچا سکے۔
وطن عزیزکے معرض وجود میں آجانے سے لے کر اب تک ہماری عدلیہ نے کئی ایک بڑے اور یادگار فیصلے کیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ تمام فیصلے عدل و انصاف کے اُس اعلیٰ معیار کے حامل نہ تھے جنھیںہم روشن مثال بناکر فخرو ناز سے دنیا کو دکھاسکیں۔ وہ فیصلے اِس لحاظ سے تاریخی تو ضرور تھے کہ انھیں برسوں اور صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن اُن کی وجہ شہرت بتا تے ہوئے ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کافیصلہ بھی انھی چند فیصلوں میں سے ایک تھا جسے دنیا جوڈیشیل کلنگ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔یہ فیصلہ ہماری عدلیہ کے ماتھے پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جسے ہم لاکھ جتن کرلیں لیکن پھر بھی دھو نہیں سکتے۔
آئین و دستور ے متجاوز ہر مارشل لاء اور غیر جمہوری دور حکومت کو ہماری عدلیہ نے ہی ہمیشہ قانونی اورآئینی جواز بخشا۔اقتدار کے ایوانوں پر اُس کے جابرانہ تسلط کو جائز اوردرست قرار دیا۔''نظریہ ضرورت'' کے تحت اُس کے غیرمناسب اور غیرمنطقی ہر ا قدام کی توثیق کی۔''جس کی لاٹھی اسی کی بھینس'' کے محاورے کی عملی شکل کی صحیح طور پر عکاسی کی۔ ہم نے اپنی عدلیہ میں آج تک ایسا کوئی بھی مرد حق یا مرد آہنگ نہیں دیکھاجس نے کسی آمر اور ڈکٹیٹر کو گھر بھیجا ہو۔ جب بھی بھیجا ہمیشہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری وزیراعظم ہی کو بھیجا۔
آج تک کسی منصف کو یہ ہمت نہ ہوسکی کہ وہ کسی آمر اور جابر شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑاکرے۔توہین عدالت کے جتنے بھی مقدمات بنائے گئے صرف اورصرف کمزور سول ملازمین یاعام افراد کے خلاف ہی بنائے گئے۔ایک ڈکٹیٹر عدالت میں پیشی کی بجائے ہربار بیمار بنکر اسپتالوں میں داخل ہوتا رہا لیکن کیا مجال کہ عدالت کے ماتھے پر کبھی کوئی شکن بھی پڑی ہو۔ پھر ایسی عدالت کا لوگوں سے مطالبہ ہو کہ اُس کی عزت و تعظیم کی جائے۔ اُس کے فیصلوں پر تبصرے اور تجزیے نہ کیے جائیں شاید کچھ زیب نہیں دیتا۔
عدالت کا جب جی چاہے کسی ایک مقدمے کو لے کر چند مہینوں میں نمٹادے اورہزاروں مقدمے اپنی سماعت کے انتظار میں کئی سالوں تک فائلوں میں دبے رہیں۔ مہران بینک اسکینڈل آج بھی اپنے حتمی فیصلے کا منتظر ہے لیکن اُس کافیصلہ کرتے ہوئے کچھ لوگوں کے پر جلنے لگتے ہیںشاید اِسی لیے وہ وقت اور زمانے کی گردشوں کے حوالے کردیا گیا۔ ایان علی رنگے ہاتھوں پانچ لاکھ ڈالرز لے جاتے ہوئے پکڑی جائے۔ ڈاکٹر عاصم پر چار سو ارب روپے کی کرپشن کے الزامات لگیں۔
آصف علی زرداری پر ایک نہیں کئی ریفرنسز برسوں سے دائرکیے ہوئے پڑے ہوںاور پھر وہ اچانک سب کے سب منٹوں میں خارج کردیے جائیں۔ یہ سارے کرشمے اور کرامات عام آدمی کے سمجھ سے بالاتر ہیں۔ایان علی ملک سے باہر جاچکی ہے، ڈاکٹر عاصم بھی پرواز کرنیوالے ہیں اور رہ گئے آصف علی زرداری تو وہ تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک زرداری سب پر بھاری۔جس نے کل ہمارے سب سے مقدس ادارے کے اہلکاروں کوللکارتے ہوئے کہا تھا کہ تمہیں توبس تین سال رہنا ہے ہمیشہ کے لیے ہمیں رہنا ہے۔ہمیں زیادہ تنگ نہ کرو ورنہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادینگے۔
ایگزیٹ کمپنی پر جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل بنااورساری دنیا میںشور اُٹھا۔ امریکا میں اُس کے کرتا دھرتاؤں کے خلاف فیصلہ بھی ہوجاتا ہے اور ہمارے یہاں وہ ابھی تک مہربانوں اور فرشتوں کی کرم نوازیوں کے طفیل التوا کا شکار ہے۔ سندھ کے آئی جی اے ڈی خواجہ کے مقدمے کافیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں گزشتہ تین ماہ سے قانون کی حفاظت میں دے دیاگیا ہے۔ عدالتی زبان میں اُسے محفوظ کردینا کہاجاتا ہے۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ تو دس روز سے زیادہ بھی محفوظ نہ رہ سکا اور جناب اے ڈی خواجہ کا فیصلہ لگتا ہے اُن کی مکمل سبکدوشی کے بعد ہی منظرعام پر آئے گا۔
بے لاگ احتساب کاموجودہ نیا سلسلہ ہمیں سیاست کی حیلہ گری کاکوئی نیاانداز معلوم ہوتا ہے جس میں اپنی پسند کے منظروںکا نقشہ جمانااورنامطلوب لوگوں کاراستہ روکنا ہے۔ اب عدالت ہی ہمیں بتائے کہ اِس ساری صورتحال میں ہمارے لوگوں کا اپنی عدلیہ پر اعتبار اور اعتماد بھلاکیسے پیدا ہو۔کوئی کیونکر اُس کے فیصلوں پر تبصرے اور تنقید نہ کرے۔ ادارے اپنا اعتبار اور وقار خود اپنے کاموں سے بناتے ہیں۔ وہ اگر درست اور صحیح فیصلے کیا کریں تو انھیں کسی سے اپنی تعظیم کروانے کی حاجت ہی باقی نہ رہے۔
لوگ خود ہی اپنی عدلیہ کی عزت و تکریم کرنے لگیں گے۔پھر نہ کوئی عدلیہ کی تضحیک و توہین کرے گا اور نہ کوئی ایسی بات کرے گا جسے ہم توہین عدالت کے زمرے میں گردان سکیں گے۔میاں نواز شریف کے خلاف نااہلی کا فیصلہ اگر دبئی کے اقامے کی بجائے مقدمے کی اصل روح کے مطابق یعنی لندن میں بنائے گئے فلیٹوں پر یا پاناما لیکس میں ظاہر کی گئی کسی آف شور کمپنی کے حوالے سے کیا جاتا تو زیادہ معتبر اور قابل قبول ہوتا۔ جو عدلیہ تصویر لیک کرنے والے کانام بھی ظاہر کرتے ہوئے ہچکچاہٹ اورتذبذب کاشکار ہو اُس کی آزادی اور خودمختاری توویسے ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔
ماہرین قانون کی نظروں میں پھر ایسے فیصلوں کی وقعت و اہمیت کہاں باقی رہ جاتی ہے۔ یہ فیصلے باامر مجبوری یابا توفیق صبر قبول توکیے جاسکتے ہیں لیکن انھیںعدل وانصاف کے مقررکردہ تقاضوں، روایتوں اور معیارت پر تولا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ جسٹس منیر سے لے کر اب تک جتنے بھی بڑے بڑے تاریخی فیصلے کیے گئے اُن میں ہمیں انصاف کم مگرمصلحت کوشی اورمجبوری زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ہماری عدلیہ کی پوری تاریخ ایسے ہی فیصلوں کی بدولت دم توڑتی حسرتوں کا المیہ اور تشنہ تعبیر رہ جانے والے خوابوں کا نوحہ بن کررہ گئی ہے۔
ہمارے یہاں عام آدمی کی یہ دلی اور دیرینہ خواہش ہے کہ اِس ملک کی عدلیہ اتنی معتبر اور مقدس ہوجائے کہ کوئی اُس کی غیر جانبداری اور راست بازی پر شک و شبہ نہ کر سکے،اُسکی فیصلے پر تنقید نہ کرپائے۔اپنی اِس خواہش کی حقیقی تصویردیکھنے کی آرزو میں اِس قوم کے ستر سال بیت چکے ہیں۔لیکن ہنوز دلی دور است کی مصداق اُس کی یہ حسرت ابھی تک تشنہ تعبیر ہی ہے۔
2007ء میں چلائی جانے والی تحریک بحالی عدلیہ کے بعد یہ اُمید ہوچلی تھی کہ ہم عدلیہ کو آزادانہ فیصلے کرتے دیکھ پائیں گے، لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اِس کام کے لیے گرچہ ایک لمبا عرصہ ملا مگر انھوں نے بھی اپنے چاہنے والوں کو مایوس کیا۔
بظاہر وہ ایک ڈکٹیٹر کے سامنے کلمہ حق کے بہت بڑے علمبردار بن کر ابھرے تھے لیکن قدرت نے اُن کی بحالی کے بعد صرف بے بس و لاچار نظر آئے بلکہ مصلحتوں اور مجبوریوں کے تحت اپنے ہی بنائے گئے اصولوں پر سمجھوتہ کرتے دکھائی دیے۔ خود اپنے بیٹے ارسلان افتخار کے کیس میں وہ ایمانداری اور پاسداری نہ دکھاپائے۔ وہ بات بات پر سوموٹو تو لیتے رہے لیکن کسی بھی مقدمے کو اُس کے منتقی انجام تک نہیں پہنچا سکے۔
وطن عزیزکے معرض وجود میں آجانے سے لے کر اب تک ہماری عدلیہ نے کئی ایک بڑے اور یادگار فیصلے کیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ تمام فیصلے عدل و انصاف کے اُس اعلیٰ معیار کے حامل نہ تھے جنھیںہم روشن مثال بناکر فخرو ناز سے دنیا کو دکھاسکیں۔ وہ فیصلے اِس لحاظ سے تاریخی تو ضرور تھے کہ انھیں برسوں اور صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن اُن کی وجہ شہرت بتا تے ہوئے ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کافیصلہ بھی انھی چند فیصلوں میں سے ایک تھا جسے دنیا جوڈیشیل کلنگ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔یہ فیصلہ ہماری عدلیہ کے ماتھے پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جسے ہم لاکھ جتن کرلیں لیکن پھر بھی دھو نہیں سکتے۔
آئین و دستور ے متجاوز ہر مارشل لاء اور غیر جمہوری دور حکومت کو ہماری عدلیہ نے ہی ہمیشہ قانونی اورآئینی جواز بخشا۔اقتدار کے ایوانوں پر اُس کے جابرانہ تسلط کو جائز اوردرست قرار دیا۔''نظریہ ضرورت'' کے تحت اُس کے غیرمناسب اور غیرمنطقی ہر ا قدام کی توثیق کی۔''جس کی لاٹھی اسی کی بھینس'' کے محاورے کی عملی شکل کی صحیح طور پر عکاسی کی۔ ہم نے اپنی عدلیہ میں آج تک ایسا کوئی بھی مرد حق یا مرد آہنگ نہیں دیکھاجس نے کسی آمر اور ڈکٹیٹر کو گھر بھیجا ہو۔ جب بھی بھیجا ہمیشہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری وزیراعظم ہی کو بھیجا۔
آج تک کسی منصف کو یہ ہمت نہ ہوسکی کہ وہ کسی آمر اور جابر شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑاکرے۔توہین عدالت کے جتنے بھی مقدمات بنائے گئے صرف اورصرف کمزور سول ملازمین یاعام افراد کے خلاف ہی بنائے گئے۔ایک ڈکٹیٹر عدالت میں پیشی کی بجائے ہربار بیمار بنکر اسپتالوں میں داخل ہوتا رہا لیکن کیا مجال کہ عدالت کے ماتھے پر کبھی کوئی شکن بھی پڑی ہو۔ پھر ایسی عدالت کا لوگوں سے مطالبہ ہو کہ اُس کی عزت و تعظیم کی جائے۔ اُس کے فیصلوں پر تبصرے اور تجزیے نہ کیے جائیں شاید کچھ زیب نہیں دیتا۔
عدالت کا جب جی چاہے کسی ایک مقدمے کو لے کر چند مہینوں میں نمٹادے اورہزاروں مقدمے اپنی سماعت کے انتظار میں کئی سالوں تک فائلوں میں دبے رہیں۔ مہران بینک اسکینڈل آج بھی اپنے حتمی فیصلے کا منتظر ہے لیکن اُس کافیصلہ کرتے ہوئے کچھ لوگوں کے پر جلنے لگتے ہیںشاید اِسی لیے وہ وقت اور زمانے کی گردشوں کے حوالے کردیا گیا۔ ایان علی رنگے ہاتھوں پانچ لاکھ ڈالرز لے جاتے ہوئے پکڑی جائے۔ ڈاکٹر عاصم پر چار سو ارب روپے کی کرپشن کے الزامات لگیں۔
آصف علی زرداری پر ایک نہیں کئی ریفرنسز برسوں سے دائرکیے ہوئے پڑے ہوںاور پھر وہ اچانک سب کے سب منٹوں میں خارج کردیے جائیں۔ یہ سارے کرشمے اور کرامات عام آدمی کے سمجھ سے بالاتر ہیں۔ایان علی ملک سے باہر جاچکی ہے، ڈاکٹر عاصم بھی پرواز کرنیوالے ہیں اور رہ گئے آصف علی زرداری تو وہ تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک زرداری سب پر بھاری۔جس نے کل ہمارے سب سے مقدس ادارے کے اہلکاروں کوللکارتے ہوئے کہا تھا کہ تمہیں توبس تین سال رہنا ہے ہمیشہ کے لیے ہمیں رہنا ہے۔ہمیں زیادہ تنگ نہ کرو ورنہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادینگے۔
ایگزیٹ کمپنی پر جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل بنااورساری دنیا میںشور اُٹھا۔ امریکا میں اُس کے کرتا دھرتاؤں کے خلاف فیصلہ بھی ہوجاتا ہے اور ہمارے یہاں وہ ابھی تک مہربانوں اور فرشتوں کی کرم نوازیوں کے طفیل التوا کا شکار ہے۔ سندھ کے آئی جی اے ڈی خواجہ کے مقدمے کافیصلہ سندھ ہائی کورٹ میں گزشتہ تین ماہ سے قانون کی حفاظت میں دے دیاگیا ہے۔ عدالتی زبان میں اُسے محفوظ کردینا کہاجاتا ہے۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ تو دس روز سے زیادہ بھی محفوظ نہ رہ سکا اور جناب اے ڈی خواجہ کا فیصلہ لگتا ہے اُن کی مکمل سبکدوشی کے بعد ہی منظرعام پر آئے گا۔
بے لاگ احتساب کاموجودہ نیا سلسلہ ہمیں سیاست کی حیلہ گری کاکوئی نیاانداز معلوم ہوتا ہے جس میں اپنی پسند کے منظروںکا نقشہ جمانااورنامطلوب لوگوں کاراستہ روکنا ہے۔ اب عدالت ہی ہمیں بتائے کہ اِس ساری صورتحال میں ہمارے لوگوں کا اپنی عدلیہ پر اعتبار اور اعتماد بھلاکیسے پیدا ہو۔کوئی کیونکر اُس کے فیصلوں پر تبصرے اور تنقید نہ کرے۔ ادارے اپنا اعتبار اور وقار خود اپنے کاموں سے بناتے ہیں۔ وہ اگر درست اور صحیح فیصلے کیا کریں تو انھیں کسی سے اپنی تعظیم کروانے کی حاجت ہی باقی نہ رہے۔
لوگ خود ہی اپنی عدلیہ کی عزت و تکریم کرنے لگیں گے۔پھر نہ کوئی عدلیہ کی تضحیک و توہین کرے گا اور نہ کوئی ایسی بات کرے گا جسے ہم توہین عدالت کے زمرے میں گردان سکیں گے۔میاں نواز شریف کے خلاف نااہلی کا فیصلہ اگر دبئی کے اقامے کی بجائے مقدمے کی اصل روح کے مطابق یعنی لندن میں بنائے گئے فلیٹوں پر یا پاناما لیکس میں ظاہر کی گئی کسی آف شور کمپنی کے حوالے سے کیا جاتا تو زیادہ معتبر اور قابل قبول ہوتا۔ جو عدلیہ تصویر لیک کرنے والے کانام بھی ظاہر کرتے ہوئے ہچکچاہٹ اورتذبذب کاشکار ہو اُس کی آزادی اور خودمختاری توویسے ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔
ماہرین قانون کی نظروں میں پھر ایسے فیصلوں کی وقعت و اہمیت کہاں باقی رہ جاتی ہے۔ یہ فیصلے باامر مجبوری یابا توفیق صبر قبول توکیے جاسکتے ہیں لیکن انھیںعدل وانصاف کے مقررکردہ تقاضوں، روایتوں اور معیارت پر تولا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ جسٹس منیر سے لے کر اب تک جتنے بھی بڑے بڑے تاریخی فیصلے کیے گئے اُن میں ہمیں انصاف کم مگرمصلحت کوشی اورمجبوری زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ہماری عدلیہ کی پوری تاریخ ایسے ہی فیصلوں کی بدولت دم توڑتی حسرتوں کا المیہ اور تشنہ تعبیر رہ جانے والے خوابوں کا نوحہ بن کررہ گئی ہے۔