میدانِ کار زار میں جواں مردی پر دنیا گواہ ہے

جنگ ستمبر پر دنیا بھر کے اخبارات و جرائد کیا لکھ رہے تھے، نشریاتی ادارے کیا کہہ رہے تھے

بتدریج اس جنگ کے بارے میں ایک نیا بیانیہ کھڑا کیا گیا ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا فاتح بھارت تھا۔ فوٹو: فائل

ستمبر 1965ء کی جنگ پر سینکڑوں کتابی لکھی جا چکی ہیں جن کے مصنفین میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دفاعی ماہرین بھی شامل ہیں۔

جنگ کے اختتام سے لے کر آج تک اس پر بحث مباحثہ بھی جاری ہے جس میں دو نقاط سب سے زیادہ زیر بحث آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس جنگ میں حملہ آور کون تھا؟ اور دوسرا یہ کہ جنگ میں فاتح کون تھا؟ بھارت نواز حلقے کشمیر میں پاکستان کے خفیہ آپریشن کی بنیاد پر پاکستان کو جارح قرار دیتے ہیں، حالانکہ بھارت نے کشمیر کے بارے میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے روگردانی کرکے پاکستان کو انتہائی اقدام پر مجبور کر دیا تھا۔ ایک طرف بھارت اقوام متحدہ میں استصواب رائے کے اصول کو مان چکا تھا اور دوسری جانب اس نے کشمیر کو بھارت کے آئینی دائرہ کار میں لانے کا یکطرفہ اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ غیر سفارتی اقدامات کا سہارا لیتا۔

جنگ میں شکست اور فتح کا معاملہ بھی زیر بحث رہا لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس بارے میں بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے بھارت نواز حلقوں کی حکمت عملی میں واضح تبدیلی سامنے آئی ہے۔ بتدریج اس جنگ کے بارے میں ایک نیا بیانیہ کھڑا کیا گیا ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا فاتح بھارت تھا۔ اس نقطہ نظر کے مقلد پاکستان میں بھی موجود ہیں اور اس طرح کی منظم کوششوں کا مقصد دراصل قوموں کو اس اعتماد سے محروم کرنا ہوتا ہے جو کامیابیوں کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوتا ہے۔

اسی طرح کا ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے حالانکہ تاریخ عالم میں کشمیر سے زیادہ مشکل پہاڑی علاقوں میں فیصلہ کن معرکے لڑے جا چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ کے نتیجے میں کشمیر کی آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہو سکا اور اس سے جنگ کے ممکنا پھیلاؤ کے بارے میں پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے اندازے درست ثابت نہ ہوئے لیکن میدانِ جنگ میں دونوں فوجوں کی کارکردگی سے بھی فتح و شکست کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہاں ہم جنگ ستمبر کے دوران دنیا بھر کے اخبار و جرائد میں شائع ہونے والی خبروں اور تجزیوں کا جائزہ پیش کر رہے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے صحافتی حلقے اور دفاعی تجزیہ نگار اس جنگ کو کس انداز میں دیکھ رہے تھے۔

٭صحافت کے شعبہ سے میری وابستگی 20 برس پر محیط ہے اور میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اس طویل عرصہ کے دوران میں نے ایسے پُر اعتماد اور فتح کے جذبے سے سرشار سپاہی آج تک نہیں دیکھے جو اس وقت پاکستان کی طرف سے میدان کارزار میں بھارت سے نبرد آزما ہیں۔بھارت اس جنگ میں مکمل فتح کے دعوے کر رہا ہے لیکن مجھے اس فتح کا کوئی معمولی سا شائبہ بھی آج تک نظر نہیں آیا۔ پاکستانی سپاہیوں کے دستوں ' ٹینکوں ' گاڑیوں اور دوسرے فوجی سازو سامان کی مسلسل محاذ جنگ کی جانب بلا روک ٹوک ترسیل ایک بڑا ثبوت ہے کہ اگر بھارتی فضائیہ نے واقعی فضا میں سبقت حاصل کر لی ہے تو پھر وہ پاکستانی فوج کی ایسی آزادانہ نقل و حرکت کو روک کیوں نہیں پائی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت پاک فضائیہ نے بھارتی ایئرفورس کو اپنی فضاؤں سے بے دخل کر رکھا ہے۔ پاکستانی مسلمان فطری طور پر مجاہدانہ فطرت رکھتے ہیں۔ میدان کارزار میں یہ لوگ کوئی رعایت مانگتے ہیں نہ ہی دشمن کو دیتے ہیں۔جنگوں کے دوران 'جیسی کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے مابین جاری ہے' فریقین کی جانب سے کامیابیوں کے بلند و بانگ دعوی متوقی ہوتے ہیں لیکن اگر آج مجھے شرط لگانی ہو تو میں اپنی رقم پاکستان کے حق میں لگاؤں گا۔

روئے میلونی، نمائندہ امریکن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن: 15ستمبر1965ء

٭یہ کسی المیے سے بھی بدتر صورتحال ہے... بھارتی فوج 1962میں چین سے اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارتی عوام میں اپنی کھوئی ہوئی عزت کی بحالی کی کوئی سبیل کریں۔ ان کے پیش نظر یہ مقصد بھی تھا کہ ملک میں ا پنی سیاسی ساکھ بحال کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ کو بہتر بنائیں۔ انہوںنے یہ بھی چاہا کہ کشمیر کا معاملہ فوجی قوت کے بل بوتے پر اپنے حق میں طے کر الیں' بھارتی فوج میں بڑی تعداد میں ایسے افسر موجود ہیں جو پنڈت نہرو کواس بات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے فائر بندی منظور کر کے بھارتی فوج کو بزور طاقت پورا کشمیر حاصل کرنے سے محروم رکھا۔ بھارتی فوج مغربی دنیا کو بھی یہ باور کرانا چاہتی تھی کہ پاکستان کوئی فوجی اہمیت نہیں رکھتا اور مغرب کے لئے کسی کام کا نہیں ۔ لہٰذا ساری امداد اور تعاون بھارتی فوج پر نچھارور کیا جانا چاہیے۔پاک فوج نے بھارت کے یہ سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے ہیں۔ لاہور سمیت پاکستان کا کوئی بھی حصہ بھارتی جارحیت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوا۔

الجمہوریا قاہرہ : 12ستمبر 1965ء

٭ہر کوئی جانتا ہے کہ جارحیت بھارت نے کی ہے۔ بھارت نے پاکستان پر فوج کشی کی ہے ا ور اس با ت پر بھارت کی مذمت لازم ہے جبکہ پاکستان کا دفاع کیا جانا چاہیے۔

روزنامہ بن ٹانگ تیمور' جکارتہ:13ستمبر1965

٭بھارت پاکستان پر اپنی دھونس جمانے کیلئے اپنے بکتر بند دستوں کا بڑا حصہ سرحدوں پر لے آیا تھا لیکن پاک فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ان کی راہ میں حائل ہو گئی اور دشمن کو بھاری نقصان سے دو چار کیا۔

دی انڈونیشین ہیرالڈ:15ستمبر1965

٭میں پاکستان کی جانب محاذ جنگ سے واپس لوٹ رہا ہوں۔ میرے پیچھے دھان اور باجرے کے کھیتوں میں ایک بھارتی بکتر بند ڈویژن کے تباہ شدہ سوختہ باقیات بکھرے پڑے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائی میں بھارتی ڈویژن کا بڑا حصہ مکمل تباہی سے دو چار ہو چکا ہے۔ پاکستانی فضاوں میں آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی تیز دھوپ میں موت کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں حملہ آور بھارتی فوجیں پاکستانی دفاع سے ٹکرا کر پاش پاش ہو ئیں۔گذشتہ رات انہیں جس قدر کمک میسر آئی انہوںنے میدان جنگ میں جھونک دی لیکن پاک فوج نے دشمن فوج کے لہر در لہر آتے حملوں کو ہر باراُلٹ کر رکھ دیا۔

ڈیلی مرر(Daily Mirror) 15ستمبر1965ء

٭دشمن(پاکستان) جنگ کے تمام محاذوں پر جس قدر غضب ناک انداز میں لڑ رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھارتی فوج کے لئے پاکستانی علاقوں میں پیش قدمی کرنا آسان نہیں۔

ٹائمز آف انڈیا بمبے (Times of India): 17ستمبر1965ء


٭فضائی جنگ میں بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں رہا، یعنی بھارتی عددی برتری بمقابلہ پاکستانی معیار کی برتری۔ زیادہ تر دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اب تک جنگ توقعات کے مطابق رہی ۔ ابھی تک پاکستان کی چھوٹی لیکن بہترین تربیت یافتہ فوج بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ثابت ہوئی ہے۔

ہفتہ وار دی ٹائمز (The Times): 17ستمبر1965ء

٭پاک فضائیہ نے حقیقی معنوں میں بھارت فضائیہ کے طیاروں کو اپنی فضاؤں سے مار بھگایا ہے ورنہ تو وہ مقابلے سے پہلے ہی بھاگ نکلتے ہیں۔بھارتی پائیلٹ پاکستانی ہوا بازوں کے مقابلے میں کمتر معیار کے حامل ہیں جبکہ بھاری افسر اور فوجی قیادت کی حالت عمومی طور پر قابل رحم ہے۔ بھارت ایک ایسی قوم کے ہاتھوں بری طرح سے پٹ رہا ہے جس پر آبادی کے لحاظ سے بھارت کو ایک کے مقابلے میں ساڑھے چار جبکہ مسلح افواج میں ایک کے مقابلے میں تین کی عددی برتری حاصل ہے۔

سنڈے ٹائمز (Sunday Times)لندن: 19ستمبر1965ء

٭حالانکہ پاکستان کی محض 10 کروڑ آبادی کے مقابلے میں بھارت کی آبادی 40 کروڑ ہے اس کے باوجود پاکستان نے بھارتی جارحیت کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور شاندار کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔

اوتوسان میلایو(Utusan Melayu) کوالالمپور: 22ستمبر1965ء

٭ایسی قوم کو کون شکست دے سکتا ہے جو موت سے آنکھ مچولی کھیلنا جانتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جنگ مجھے یاد رہے' یا پھر بھول جا ئے مگر میں پاک فوج کے اس نوجوان افسر کے چہرے پر کھیلنے والی پُر عزم مسکراہٹ کو نہیں بھول سکتا جس سے میرا آمنا سامنا محاذ جنگ پر ہوا تھا۔ اس مسکراہٹ نے مجھے بتایا تھا پاکستان کے نوجوان کس قدر دلیر اور نڈر ہیں ۔ پاک فوج کے جوان سے لے کر جرنیل تک آگ سے یوں کھیلتے ہیں جیسے بچے گلیوں میں کنچے کھیلتے ہیں۔میںنے پاک فوج کے ایک ڈویژن کے کمانڈر سے پوچھا ''تعداد میں کم ہونے کے باوجود یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ بھارت کو بے بس کیے دے رہے ہیں؟ وہ میری جانب دیکھ کر مسکرائے اور کہا جرأت' بہادری اور حب الوطنی اگر بازار سے خریدی جانے والی اشیاء ہوتیں تو بھارتی انہیں بھی امریکی امداد کے ساتھ خرید لیتے۔

ٹائمز میگزین کے نامہ نگار لوئی کرار کی رپورٹ: 22ستمبر1965ء

٭بھارتی جرنیلوں کی تواقعات کے بالکل برعکس پاکستان کے ساتھ جنگ محض پکنک ثابت نہیں ہوئی۔ پاک فوج بھارتی حملہ آوروں کے راستے میں عظیم الحبثہ چٹانوں کی طرح کھڑے ہو گئے۔ پاکستانیوں کے سورماؤں جیسے اس کردار کی بہت سے وجوہات ہیں۔ ا ن میں سے سب سے اہم باہمی اخوت اور سیاسی اتحاد ہے جو اسلام نے ان کی روحوں پر نقش کر دیا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اپنی افواج کو جدید انتظامی ڈھانچے میں منظم کیا اور فوجی سازو سامان میں جدت کا اہتمام کیا جبکہ پاکستانی سپاہی کی بہادری نظریہ جہاد کی مرہون منت ہے جو ایک مشترکہ ورثہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

روزنامہ الدفاع یوروشلم:23ستمبر1965ء

٭فائر بندی لائن کے اِس طرف حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ بھارت کے تین انفنٹری اور ایک بکتر بند ڈویژن پاکستان کے صرف ایک انفنٹری اور ایک بکتر بند ڈویژن کے ساتھ رات دن مسلسل برسر پیکار رہے۔ بھارتی فوج کی کوشش تھی کہ سیالکوٹ کے گرد چکر کاٹتے ہوئے لاہور پر قبضہ کرتے اور یوں مغربی پاکستان کو دوحصوں میں تقیسم کر دیتے۔ انہیں یقین تھا کہ اس تیز رفتار فیصلہ کُن فوجی پیش قدمی کے نتیجے میں پاکستان کو گھٹنوں کے بدل گرانا ممکن ہو جا ئے گا۔دونوں جانب سے 420 ٹینک 30 ہزار بھارتی اور 9 ہزار پاکستانی فوجی ایک دوسرے کے ساتھ آمنے سامنے سے بھڑ گئے۔ 8 انچ دھانے کی 200پاونڈ کا گولہ پھینکنے والی گنوں سے لے کر 25پاونڈر فیلڈ گنوں تک ہر قسم کی 400توپیں ہزاروں گولے برساتی رہیں۔ صرف ایک گاؤں میں بھارت کے دو انفنٹری بریگیڈ ناقابل تلافی نقصان اور تباہی سے دوچار ہوئے۔ 120 بھارتی ٹینک برباد ہو گئے۔فائر بندی لائن کے قریبی علاقے ایسا منظر پیش کر رہے تھے جنہیں میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ ہمارے پاس صرف اتنا وقت تھا کہ ہم چونڈہ میں تین میل (تقریباً 5کلو میٹر) کے علاقے کا دورہ کر سکتے ۔ میںنے صرف ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں 25 جلے ہوئے بھارتی سنچورین اور شرمن ٹینک دیکھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس منظر کو پاکستانی بلاشبہ اپنی اخلاقی فتح قرار دے سکتے ہیں۔ پاک فوج نے تین گنا بڑی بھارتی فوج کی پیش قدمی کو نہ صرف مکمل طور پر روک دیا بلکہ جب انہیں سفارتی سطح پر فائر بندی کو قبول کرنا پڑا تو اس سے محض چھ گھنٹے بعد وہ بھارت پر بڑا جوابی حملہ کرنے والے تھے۔

ڈیلی ایکسپریس لندن(Daily express London) میں 24ستمبر1965ء

٭ایک بات جس کا میں پوری طرح سے قائل ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے خلاف فضائی جنگ میں نہ صرف اخلاقی بلکہ جنگی فتح بھی حاصل کی ہے۔ حالانکہ پاک فضائیہ خوش دلی کے ساتھ فوجی کامیابی کا زیادہ کریڈٹ بری فوج کو دیتی ہے۔ جو کہ حد سے زیادہ فیاضی والا رویہ ہے۔ بھارتی فضائیہ کو 'جو تقریباً پاکستان فضائیہ سے حجم میں 5 گناہ بڑی ہے' توقع تھی کہ وہ باآسانی فضائی برتری حاصل کر لے گی لیکن پاکستان کے ہاتھوں اس کی مکمل ناکامی شاید اس جنگ کا سب سے اہم پہلو ہے۔پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل نور خان اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اسلحہ کے معیار کے مقابلے میں طیارہ اڑانے کی صلاحیت اور عزم و ہمت کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بھارتی کسی مقصد کے احساس کے بغیر جنگ لڑ رہے تھے جبکہ پاکستانیوں کے پیش نظر اپنے وطن کے دفاع کا مقصد تھا اس لئے وہ خود زیادہ خطرات مول لیتے رہے۔ اوسطً ہر بمبار طیارے کے عملے نے 15 سے 20 مشن کئے۔ میرا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ میں اپنے ہوا بازوں کو حملے پر جانے کیلئے آمادہ کیسے کروں بلکہ میرا مسئلہ تو یہ تھا کہ میں انہیں بار بار جانے پر اصرار کرنے سے کیسے روکوں۔یہ قومی فخر سے کہیں بڑھ کر ہے' آپ خود پاکستانی ہوا بازوں سے بات کریں آپ کو جذبے کی یہی شدت دیکھنے کو ملے گی۔

دی گارجین لندن کے نامہ نگار پیٹرپریسٹن کی رپورٹ:24ستمبر1965ء

٭ فضائی معرکوں میں پاکستان کے دعوؤں پر ہمیشہ شک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ دعوے بہت بلند و بانگ محسوس ہوتے ہیں لیکن ایئر مارشل نور خان اور ان کے اسٹاف کے ساتھ ملاقات کے بعد مجھے ان کے الفاظ پر مکمل یقین کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت کے 40طیارے فضائی معرکوں میں تباہ ہوئے ۔

ٹائمز، لندن کے خصوصی نامہ نگار کی رپورٹ: 24ستمبر1965ء
Load Next Story