قوانین سے جہالت کا مقابلہ
سندھ میں تعلیم کے وسائل اور سہولیات انتہائی ناقص اور ناکافی ہیں، جب کہ حکومت لازمی تعلیم کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔
سندھ اسمبلی نے اپنی میعاد ختم ہونے سے فقط مہینے بھر پہلے صوبے بھر میں پانچ سال سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے مفت، لازمی تعلیم کا قانون منظور کر لیا ہے۔
جس کے تحت ثانوی درجوں تک طلبہ کو مفت تعلیم فراہم کی جائے گی، جو ہر بچے کے لیے لازمی ہوگی۔ اس کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی اور ساتھ ہی کتابیں، کاپیاں اور بستے وغیرہ سمیت تمام ضروری اشیا بھی فراہم کی جائیں گی۔ یہی نہیں نجی اسکولوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے یہاں زیر تعلیم طلبہ کا دس فی صد کوٹہ مفت تعلیم کے لیے مختص کریں گے، جس کے تحت طلبہ بلامعاوضہ تعلیم اور تمام سہولیات حاصل کر سکیں گے۔ اگر کوئی نجی اسکول اس کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر جرمانہ عاید کیا جائے گا۔
ایک طرف اپنی مدت تمام کرتی حکومت کا یہ قانون ہے تو دوسری طرف حال ہی میں سامنے آنے والے ایک سروے رپورٹ، جس کے مطابق صوبہ سندھ میں بچوں کے سیکھنے کی صلاحیتوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور تیسری جماعت کے 84 فی صد بچے اپنی مادری زبان میں کہانیاں نہیں پڑھ سکتے، جب کہ 66 فی صد وہ پچھلی جماعت کے معیار کے جملے پڑھنے سے بھی قاصر ہیں، جب کہ پانچویں جماعت کے طلبا کا یہ حال ہے کہ وہ کلاس دوم کے نصاب سے انگریزی کے جملے بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اسکول جانے والے بچوں میں تعلیم کی یہ پست صورت حال نہایت تشویش ناک ہے اور بہت اچھی طرح ہمارے تعلیمی معیار کی حقیقت واضح کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ اندرون سندھ ناکافی تعلیمی سہولیات اور مختلف اسکولوں کی بندش اور اساتذہ کی غیر حاضری جیسے بڑے مسائل بھی عروج پر ہیں۔ ایسے میں تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح قرار دینے والی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی بہ ظاہر کوئی وجہ موجود نہیں، میٹرک تک مفت لازمی تعلیم کا یہ قانون بلاشبہہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دعوئوں، قراردادوں اور قوانین کے ذریعے خراب تعلیمی صورت حال کا مقابلہ قطعی ممکن نہیں، جب تک کہ صحیح معنوں میں عملی اقدام نہ کیے جائیں۔
اگر ہم پہلے ہی مفت تعلیم اور کتب فراہم کرنے والے سرکاری اسکولوں کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ انہیں مفت کتب کی فراہمی میں ہی مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کا معیار بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں، جب پہلے حکومت اپنی سطح پر کیے گئے اس اقدام کے حوالے سے کارکردگی بہتر نہیں کر سکی تو پھر اس حوالے سے نئے قوانین بنانا چہ معنی، جس میں والدین کو بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی صورت میں سزا اور نجی اسکولوں کو مفت تعلیم کے خواہش مند دس فی صد طلبہ کو موقع نہ دینے کی صورت میں جرمانے کا سامنا ہوگا۔
آل پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن (سندھ) کے چئیرمین خالد شاہ نے اس قانون پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مفت تعلیم کا بل پیش کرنے سے قبل حکومت اس سوال کا جواب دے کہ اگر اسکول نہ جانے والوں بچوں کی بڑی تعداد اسکولوں کا رخ کرے تو کیا سرکاری سطح پر اس کے لیے تمام وسائل تیار کر لیے گئے ہیں؟ جب کہ نجی اسکولوں کو مفت تعلیم کے لیے مجبور کرنے والے یہ کیوں بھول گئے کہ ان اسکولوں سے تمام ٹیکس لیے جاتے ہیں اور تمام وسائل کے تجارتی نرخ وصول کیے جاتے ہیں، جب کہ اگر نجی اسکول فیس بڑھانا چاہیں تو انہیں 5 فی صد سے زیادہ اضافے کی اجازت نہیں۔
تعلیمی ادارے قومیائے جانے سے قبل حکومت کی جانب سے نجی اسکولوں کو مراعات دی جاتی تھیں جب کہ اب اس کے برعکس ٹیکس لیے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ ہم حکومتی ایما پر اتنی بڑی تعداد میں مفت تعلیم فراہم کریں۔'' نجی اسکولوں کی ایک اور تنظیم پرائیوٹ اسکول مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے چئیرمین علی حیدرکا کہنا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ 77 فی صد تعلیم کا بوجھ اٹھانے والے نجی اسکولوں کو محدود وسائل میں مفت تعلیم اور بلا معاوضہ اسٹیشنری پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیا حکومت اپنی سطح پر یہ سہولیات بہ حسن و خوبی پوری کر رہی ہے، جس کا تقاضا ہم سے کیا جا رہا ہے۔ اگر نہیں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قانون کا از سر نو جائزہ لے، جس میں ابھی بہت سی چیزیں تشنہ اور وضاحت طلب ہیں۔''
صوبے بھر میں تعلیم کے موجودہ وسائل اور سہولیات انتہائی ناقص اور ناکافی ہیں، جب کہ حکومت لازمی تعلیم کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔ قوانین اور ضابطوں کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ان پر عمل درآمد نہ ہو۔ موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت کے آخری دنوں میں داخل ہو چکی ہے، لہٰذا اب اس قانون پر عمل درآمد کس طرح ہوگا، اس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر حکومت اپنے ابتدائی دنوں میں تعلیم کی طرف توجہ دیتی اور کوئی قانون سازی کرتی، پھر باقی پانچ برسوں میں اس پر عمل کراتی تو یقیناً یہ امر نہایت خوش آیند ہوتا، مگر اب مدت پوری کرتی حکومت کی اس قانون سازی پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک!
جس کے تحت ثانوی درجوں تک طلبہ کو مفت تعلیم فراہم کی جائے گی، جو ہر بچے کے لیے لازمی ہوگی۔ اس کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی اور ساتھ ہی کتابیں، کاپیاں اور بستے وغیرہ سمیت تمام ضروری اشیا بھی فراہم کی جائیں گی۔ یہی نہیں نجی اسکولوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے یہاں زیر تعلیم طلبہ کا دس فی صد کوٹہ مفت تعلیم کے لیے مختص کریں گے، جس کے تحت طلبہ بلامعاوضہ تعلیم اور تمام سہولیات حاصل کر سکیں گے۔ اگر کوئی نجی اسکول اس کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر جرمانہ عاید کیا جائے گا۔
ایک طرف اپنی مدت تمام کرتی حکومت کا یہ قانون ہے تو دوسری طرف حال ہی میں سامنے آنے والے ایک سروے رپورٹ، جس کے مطابق صوبہ سندھ میں بچوں کے سیکھنے کی صلاحیتوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور تیسری جماعت کے 84 فی صد بچے اپنی مادری زبان میں کہانیاں نہیں پڑھ سکتے، جب کہ 66 فی صد وہ پچھلی جماعت کے معیار کے جملے پڑھنے سے بھی قاصر ہیں، جب کہ پانچویں جماعت کے طلبا کا یہ حال ہے کہ وہ کلاس دوم کے نصاب سے انگریزی کے جملے بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اسکول جانے والے بچوں میں تعلیم کی یہ پست صورت حال نہایت تشویش ناک ہے اور بہت اچھی طرح ہمارے تعلیمی معیار کی حقیقت واضح کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ اندرون سندھ ناکافی تعلیمی سہولیات اور مختلف اسکولوں کی بندش اور اساتذہ کی غیر حاضری جیسے بڑے مسائل بھی عروج پر ہیں۔ ایسے میں تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح قرار دینے والی حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی بہ ظاہر کوئی وجہ موجود نہیں، میٹرک تک مفت لازمی تعلیم کا یہ قانون بلاشبہہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دعوئوں، قراردادوں اور قوانین کے ذریعے خراب تعلیمی صورت حال کا مقابلہ قطعی ممکن نہیں، جب تک کہ صحیح معنوں میں عملی اقدام نہ کیے جائیں۔
اگر ہم پہلے ہی مفت تعلیم اور کتب فراہم کرنے والے سرکاری اسکولوں کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ انہیں مفت کتب کی فراہمی میں ہی مختلف مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کا معیار بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں، جب پہلے حکومت اپنی سطح پر کیے گئے اس اقدام کے حوالے سے کارکردگی بہتر نہیں کر سکی تو پھر اس حوالے سے نئے قوانین بنانا چہ معنی، جس میں والدین کو بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی صورت میں سزا اور نجی اسکولوں کو مفت تعلیم کے خواہش مند دس فی صد طلبہ کو موقع نہ دینے کی صورت میں جرمانے کا سامنا ہوگا۔
آل پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن (سندھ) کے چئیرمین خالد شاہ نے اس قانون پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مفت تعلیم کا بل پیش کرنے سے قبل حکومت اس سوال کا جواب دے کہ اگر اسکول نہ جانے والوں بچوں کی بڑی تعداد اسکولوں کا رخ کرے تو کیا سرکاری سطح پر اس کے لیے تمام وسائل تیار کر لیے گئے ہیں؟ جب کہ نجی اسکولوں کو مفت تعلیم کے لیے مجبور کرنے والے یہ کیوں بھول گئے کہ ان اسکولوں سے تمام ٹیکس لیے جاتے ہیں اور تمام وسائل کے تجارتی نرخ وصول کیے جاتے ہیں، جب کہ اگر نجی اسکول فیس بڑھانا چاہیں تو انہیں 5 فی صد سے زیادہ اضافے کی اجازت نہیں۔
تعلیمی ادارے قومیائے جانے سے قبل حکومت کی جانب سے نجی اسکولوں کو مراعات دی جاتی تھیں جب کہ اب اس کے برعکس ٹیکس لیے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ ہم حکومتی ایما پر اتنی بڑی تعداد میں مفت تعلیم فراہم کریں۔'' نجی اسکولوں کی ایک اور تنظیم پرائیوٹ اسکول مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے چئیرمین علی حیدرکا کہنا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ 77 فی صد تعلیم کا بوجھ اٹھانے والے نجی اسکولوں کو محدود وسائل میں مفت تعلیم اور بلا معاوضہ اسٹیشنری پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیا حکومت اپنی سطح پر یہ سہولیات بہ حسن و خوبی پوری کر رہی ہے، جس کا تقاضا ہم سے کیا جا رہا ہے۔ اگر نہیں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قانون کا از سر نو جائزہ لے، جس میں ابھی بہت سی چیزیں تشنہ اور وضاحت طلب ہیں۔''
صوبے بھر میں تعلیم کے موجودہ وسائل اور سہولیات انتہائی ناقص اور ناکافی ہیں، جب کہ حکومت لازمی تعلیم کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔ قوانین اور ضابطوں کی اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ان پر عمل درآمد نہ ہو۔ موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت کے آخری دنوں میں داخل ہو چکی ہے، لہٰذا اب اس قانون پر عمل درآمد کس طرح ہوگا، اس پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر حکومت اپنے ابتدائی دنوں میں تعلیم کی طرف توجہ دیتی اور کوئی قانون سازی کرتی، پھر باقی پانچ برسوں میں اس پر عمل کراتی تو یقیناً یہ امر نہایت خوش آیند ہوتا، مگر اب مدت پوری کرتی حکومت کی اس قانون سازی پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک!