فیشن انڈسٹری میں دھڑے بندیاں سالانہ8فیشن و یکس کا سلسلہ شروع ہو گیا
پاکستان میں فیش ویک منائے جانے کے باوجود فیشن انڈسٹری کے ملبوسات، جوتے اور جیولری کے ڈیزائن عام لوگوںتک نہیں پہنچ پاتے
پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل سے باغی دھڑوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے سالانہ آٹھ فیشن ویک کے انعقاد کا سلسلہ شروع کردیا۔
کراچی، اسلام آباد اورلاہور میں کام کرنیو الے معروف ڈریس اور جیولری ڈیزائنر، میک اپ آرٹسٹ، فوٹوگرافر، ہیئر اسٹائلسٹ اورایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں ماڈلز کواپنے گروپس میں شامل کرکے فیشن ویک کروارہی ہیں۔ کسی بھی گروپ میں شامل ماڈل کو دوسرے گروپ کے فیشن شومیںشامل نہیں کیا جاتابلکہ نئی ماڈلز کوتو ان بڑے ایونٹس میں پرفارم کرنے کے لیے کڑے ''امتحان'' سے گزرنا پڑتاہے۔'' واضح رہے کہ دنیا بھرمیں نت نئے ڈیزائن متعارف کروانیوالے ممالک فرانس اوراٹلی میں سال میں صرف دو، دوفیشن ویک کاانعقاد کیاجاتا ہے''۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں '' پاکستان فیشن ویک''، '' اسلام آباد فیشن ویک''، '' کراچی فیشن ویک ''، ''برائیڈل فیشن ویک''، ''شوکیس فیشن ویک'' اور پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل کے زیراہتمام ہونیوالے فیشن ویکس شامل ہیں جن کو معروف ڈیزائنر دیپک پروانی، نومی انصاری، طارق امین، فریحہ الطاف، رضوان بیگ ، ایچ ایس وائی اوردیگرلوگ اپنے اپنے گروپس کے ساتھ مل کر مناتے ہیں۔ ان فیشن ویکس کا انعقاد سال میں دوبار کیاجاتا ہے اوران میں مختلف ڈیزائنر اوربرانڈ اپنی پراڈکٹس متعارف کرواتے ہیں۔
جب کہ فرانس اوراٹلی میں ہونے والے فیشن ویک میں دنیا کے بہترین ڈیزائنراپنے ملبوسات، جیولری، جوتے، ہیئراسٹائل اوردیگراشیاء متعارف کرواتے ہیں اورپھروہ فیشن فرانس اوراٹلی سے ہوتا ہوا دنیابھرتک پہنچتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میںفیش ویک منائے جانے کے باوجود فیشن انڈسٹری کے متعارف کردہ ملبوسات، جوتے، جیولری کے ڈیزائن اورہیئراسٹائل مخصوص کمیونٹی کے علاوہ عام لوگوںتک نہیں پہنچ پاتے ۔ جس کی وجہ سے فیشن انڈسٹری مخصوص طبقہ تک محدود رہ جاتی ہے۔ ذرایع نے مزید بتایاکہ فیشن ویک کے لیے جہاں اپنے گروپ میں شامل ڈیزائنر کو موقع دیا جاتاہے وہیں ریمپ کے لیے ماڈلز بھی وہی منتخب کی جاتی ہیں جواس گروپ کا حصہ ہوں۔
چند ایک ٹاپ ماڈلز کے علاوہ کراچی، لاہوراوراسلام آباد میں ہونیوالے فیشن ویکس میں صرف وہ ماڈلز دکھائی دیتی ہیں جوگروپ کا حصہ ہوں۔ اس موقع پرکوشش کی جاتی ہے کہ کسی نئی ماڈل کو بھی ریمپ پرمتعارف نہ کروایا جائے۔ پاکستان فیشن انڈسٹری میں بڑھتی گروپ بندیوں کی وجہ سے تخلیقی کام خاصا متاثر ہورہاہے جب کہ فیشن انڈسٹری کی جانب آنیوالے بہت سے نوجوان موقع نہ ملنے کی وجہ سے دوسرے پروفیشنز کی جانب قسمت آزمائی کوترجیح دینے لگے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب نوجوانوں کی بڑی تعداد فیشن انڈسٹری کی بجائے ٹی وی انڈسٹری میں کام کررہی ہے ۔اس حوالے سے فیشن انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ لاہور، کراچی اوراسلام آباد فیشن انڈسٹری کے اہم مقامات ہیں لیکن یہاں کام کرنے والے معروف ڈیزائنر، ہیئراسٹائلسٹ، فوٹوگرافر، میک اپ آرٹسٹ اورایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں فیشن انڈسٹری کواپنے آپسی اختلافات کی وجہ سے نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایک طرف توسال بھر میں فیشن ویکس کاانعقاد بڑھنے لگا ہے جس کی وجہ سے اس میگاایونٹ کا انتظارکرنیوالے لوگ اب مایوس ہونے لگے ہیں جب کہ دوسری جانب ماڈلز کے درمیان بھی سردجنگیں جاری ہیں۔ ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے لیے گروپس اوچھے ہتھکنڈوں پربھی اترآتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور اس پرقابوپانا ممکن نہیں رہے گا اوراس کا نقصان پاکستان فیشن انڈسٹری کو پہنچے گا۔
کراچی، اسلام آباد اورلاہور میں کام کرنیو الے معروف ڈریس اور جیولری ڈیزائنر، میک اپ آرٹسٹ، فوٹوگرافر، ہیئر اسٹائلسٹ اورایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں ماڈلز کواپنے گروپس میں شامل کرکے فیشن ویک کروارہی ہیں۔ کسی بھی گروپ میں شامل ماڈل کو دوسرے گروپ کے فیشن شومیںشامل نہیں کیا جاتابلکہ نئی ماڈلز کوتو ان بڑے ایونٹس میں پرفارم کرنے کے لیے کڑے ''امتحان'' سے گزرنا پڑتاہے۔'' واضح رہے کہ دنیا بھرمیں نت نئے ڈیزائن متعارف کروانیوالے ممالک فرانس اوراٹلی میں سال میں صرف دو، دوفیشن ویک کاانعقاد کیاجاتا ہے''۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں '' پاکستان فیشن ویک''، '' اسلام آباد فیشن ویک''، '' کراچی فیشن ویک ''، ''برائیڈل فیشن ویک''، ''شوکیس فیشن ویک'' اور پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل کے زیراہتمام ہونیوالے فیشن ویکس شامل ہیں جن کو معروف ڈیزائنر دیپک پروانی، نومی انصاری، طارق امین، فریحہ الطاف، رضوان بیگ ، ایچ ایس وائی اوردیگرلوگ اپنے اپنے گروپس کے ساتھ مل کر مناتے ہیں۔ ان فیشن ویکس کا انعقاد سال میں دوبار کیاجاتا ہے اوران میں مختلف ڈیزائنر اوربرانڈ اپنی پراڈکٹس متعارف کرواتے ہیں۔
جب کہ فرانس اوراٹلی میں ہونے والے فیشن ویک میں دنیا کے بہترین ڈیزائنراپنے ملبوسات، جیولری، جوتے، ہیئراسٹائل اوردیگراشیاء متعارف کرواتے ہیں اورپھروہ فیشن فرانس اوراٹلی سے ہوتا ہوا دنیابھرتک پہنچتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میںفیش ویک منائے جانے کے باوجود فیشن انڈسٹری کے متعارف کردہ ملبوسات، جوتے، جیولری کے ڈیزائن اورہیئراسٹائل مخصوص کمیونٹی کے علاوہ عام لوگوںتک نہیں پہنچ پاتے ۔ جس کی وجہ سے فیشن انڈسٹری مخصوص طبقہ تک محدود رہ جاتی ہے۔ ذرایع نے مزید بتایاکہ فیشن ویک کے لیے جہاں اپنے گروپ میں شامل ڈیزائنر کو موقع دیا جاتاہے وہیں ریمپ کے لیے ماڈلز بھی وہی منتخب کی جاتی ہیں جواس گروپ کا حصہ ہوں۔
چند ایک ٹاپ ماڈلز کے علاوہ کراچی، لاہوراوراسلام آباد میں ہونیوالے فیشن ویکس میں صرف وہ ماڈلز دکھائی دیتی ہیں جوگروپ کا حصہ ہوں۔ اس موقع پرکوشش کی جاتی ہے کہ کسی نئی ماڈل کو بھی ریمپ پرمتعارف نہ کروایا جائے۔ پاکستان فیشن انڈسٹری میں بڑھتی گروپ بندیوں کی وجہ سے تخلیقی کام خاصا متاثر ہورہاہے جب کہ فیشن انڈسٹری کی جانب آنیوالے بہت سے نوجوان موقع نہ ملنے کی وجہ سے دوسرے پروفیشنز کی جانب قسمت آزمائی کوترجیح دینے لگے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب نوجوانوں کی بڑی تعداد فیشن انڈسٹری کی بجائے ٹی وی انڈسٹری میں کام کررہی ہے ۔اس حوالے سے فیشن انڈسٹری کے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ لاہور، کراچی اوراسلام آباد فیشن انڈسٹری کے اہم مقامات ہیں لیکن یہاں کام کرنے والے معروف ڈیزائنر، ہیئراسٹائلسٹ، فوٹوگرافر، میک اپ آرٹسٹ اورایونٹ مینجمنٹ کمپنیاں فیشن انڈسٹری کواپنے آپسی اختلافات کی وجہ سے نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایک طرف توسال بھر میں فیشن ویکس کاانعقاد بڑھنے لگا ہے جس کی وجہ سے اس میگاایونٹ کا انتظارکرنیوالے لوگ اب مایوس ہونے لگے ہیں جب کہ دوسری جانب ماڈلز کے درمیان بھی سردجنگیں جاری ہیں۔ ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے لیے گروپس اوچھے ہتھکنڈوں پربھی اترآتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور اس پرقابوپانا ممکن نہیں رہے گا اوراس کا نقصان پاکستان فیشن انڈسٹری کو پہنچے گا۔